Log in

View Full Version : سوچنا منع ھے



smartguycool
01-02-2018, 07:00 PM
اللہ پاک نے دین اسلام میں حلت اور حرمت کو واضح طور پر بیان کر دیا ھے اور جس جگہ وضاحت کی ضرورت تھی وھاں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم نے وضاحت بھی کر دی ھے
دین میں کچھ چیزوں کو فرض کے درجے میں رکھا گیا ھے ،کچھ کو واجب کچھ کو سنت اور کچھ کو مستحبات کا مقام دیا گیا ھے ! اگر سوا ارب مسلمان مرد و زن سارے مکمل طور پر ایک مستحب کا اتباع و اھتمام کریں اور اس پر 24 گھنٹے اور 7 دن عمل کریں،، تب بھی قیامت تک اس کو مستحب کے درجے سے بلند نہیں کر سکتے،، وہ مستحب ھی رھے گا،، خدانخواستہ اگر مسلمان کسی فریضے کی ادائیگی میں کوتاھی برتیں تو قیامت تک اس کے درجے کو گھٹا نہیں سکتے ،، گویا دین کے فرائض و واجبات، سنن و مستحبات طے کر دیئے گئے،، کسی معاشرے کا اس پر کسی درجے کا عمل بھی ان کے اسٹیٹس میں کوئی کمی بیشی نہین کر سکتا،، غیر اھم پر عمل کر کے ھم اسے اھم نہیں بنا سکتے اور اھم ترین کو نظر انداز کر کے ھم اللہ کی طرف سے اس کے تقاضے کی شدت میں کمی نہیں کر سکتے

اسلام ایک گلوبل دین ھے، کسی قوم یا قبیلے کا کلچر اس کو اپنا یرغمال نہیں بنا سکتا،، اسلام کو جو باتیں اپنے ماننے والوں سے مطلوب ھیں وہ اتنی گنی چنی ھیں کہ دنیا کے ھر خطے کا ھر شخص اپنے کلچر میں رھتے ھوئے ان کو اپنا کر مسلمان بن سکتا ھے،،ھم جن چیزوں کو بچپن سے اپنے دادا کو کرتے دیکھتے ھیں اور پھر خود ان پر بچپن سے چلتے آرھے ھوتے ھیں،،ھم ان کو دین اسلام کا جزوِ لاینفک سمجھ لیتے ھیں،، اور یوں سمجھتے ھیں کہ ” ان کو ترک کر کے بھی کوئی مسلمان ھو سکتا ھے ؟ یا کم از کم اچھا مسلمان ھو سکتا ھے ؟ مگر یہ ھماری سوچ ھے،، اللہ اور اس کے رسولﷺ کا اس سوچ سے کوئی تعلق نہیں
جب یہ دین ساری دنیا کے لئے ھے اور سارے زمانوں کے لئے ھے اور اس گارنٹی کے ساتھ نبوت کا ادارہ اپنی تکمیل کو پہنچایا گیا ھے کہ اسلام جیسے لچکدار دین کے ھوتے ھوئے اب مزید کسی نبی کی ضرورت نہیں،،یہ دین قیامت تک آنے والے انسانوں کی علمی و عقلی راھنمائی کے قابل ھے اور قیامت تک آنے والے جدید ترین دماغوں کو مخاطب کرنے اور ان کی سطح پر جا کر ان سے مکالمہ کرنے اور انہیں قائل کرنے کی صلاحیت رکھتا ھے،، انسانی عقل نفخہ اولی کے پھونکے جانے تک جو کچھ سوچ سکتی ھے،،ان سب سوالوں کا جواب دینے کی صلاحیت یہ کتاب رکھتی ھے ،، نیز جو بھی مسائل آنے والی نسلوں کو درپیش ھونگے یہ ان کو ایڈجیسٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ھے،، اس کتاب کی موجودگی کا مطلب ھی یہ ھے کہ اللہ تم میں بذاتِ خود موجود ھے اور تم سے کلام کرتا ھے اور تمہیں ھدایات دیتا ھے
ان ساری صفات کے ھوتے ھوئے یہ زمانوں کو تب ھی اپنے خزانوں سے مستفید کر سکتا ھے،جب کہ اسے کسی خاص کلچر میں قید نہ کیا جائے،، دوسرا یہ کہ اسے امام بنایا جائے اور اس کے پیچھے چلا جائے،، اپنے تمام قومی و قبائلی تعصبات اور انائیں ایک طرف رکھتے ھوئے صرف اس کتاب کی مانی جائے اور اس کو اپنے پیچھے لگانے کی روش ترک کر دینے چاھئے

اس سوشیو کلچرل سوسائٹی میں جب آپ ایک مستحب کو اس لیئے واجب یا فرض قرار دے دیتے ھیں کہ اس سے آپ کی نیکی کا ریٹ بڑھ جائے گا چونکہ یہی نیکی تو آپ کی زندگی میں پائی جاتی ھے،، اور دوسرے کے فرض کو بھی کوئی اھمیت نہ دینا اس لئے کہ اس پر دوسرا عمل پیرا ھے ،، یہ روش ھماری انا کی تسکین کا باعث تو بن سکتی ھے مگر دین کے لئے نقصان دہ ھے
اگر کوئی شخص ،مرد یا عورت کسی دوسرے معاشرے میں بعض چیزوں کو وقتی طور پر ترک کرنے پر مجبور ھو جائیں تو انہیں صاف صاف معلوم ھونا چاھئے کہ انہوں نے مستحب کی قربانی دی ھے،، اور ان کے فرائض محفوظ ھیں،، جب ھم مستحب کو فرض کے درجے پر لے جاتے ھیں تو یہ ایسے ھی ھے جیسے ایک آدمی کو آپ ڈالر پکڑا کر یقین دلا دیں کہ اس کے پاس پاکستانی روپے ھیں،، نتیجہ یہی ھو گا کہ وہ دو روپے کی چیز کے بدلے دو ڈالر پکڑا دے گا
جب کوئی فرد مستحب ترک کرے تو اس کے ضمیر پر مستحب کے ترک کا ھی بوجھ پڑنا چاھئے ،، اگر اس نے یہ سمجھ لیا کہ اس نے فرض ترک کر دیا ھے تو یقین جانیئے پھر باقی فرائض بھی اس کے پاس زیادہ دیر نہین رہ پائیں گے ،،وہ سوچے گا فرض کے ترک کا مجرم تو میں بن گیا ھوں،، نام بدنام تو ویسے بھی ھے ایسے بھی سہی !! جس سے چوری چکاری ھو گئ ھے اسے یہ بتانا کہ تم سے 302 ھو گیا ھے،،یہ معاشرے کے ساتھ دشمنی ھے ،، اب وہ دو چار اور بھی پھڑکانے سے گریز نہیں کرے گا
عورت کو صاف صاف معلوم ھونا چاھئے کہ اس کے کس ھاتھ میں بچہ ھے اور کس ھاتھ میں سامان والا شاپر ،، ایسا نہ ھو کہ وہ ذرا سا ڈولے تو شاپر پکا پکڑ لے اور بچہ ھاتھ سے چھوڑ دے،، جیسا کہ ایک عورت جب شارجہ ائیرپورٹ پر چلنے والی سیڑھی پر ڈولی تو سامان پکڑے رھی اور دو ماہ کا نومولود چھوڑ دیا جو 27 فٹ نیچے گر کر کھوپڑی تڑوا کر فوت ھو گیا
یعنی اس وقت جن رسوم کو ھم اسلام کی جان سمجھے بیٹھے ھیں فی الحقیقت ان کا حال سوائے سامان والے شاپر کے اور کچھ نہیں ،، ایک عورت جو پاکستان میں پورا بدن ڈھک کر صرف چہرہ اور ہتھیلیاں ننگی رکھ کر چلنے والی عورت کو بھی علماء برا جانتے ھیں ،، مگر یہی عورت جب دوسرے کلچر میں ھوتی ھے تو یورپ اس کو ” نــن ” کا طعنہ دیتا ھے،،گویا وھاں وھی عورت ولی اللہ ھے،،ثابت یہ ھوا کہ ھم اپنے کلچر میں رہ کر دوسرے کلچر میں رھنے والوں کے فیصلے نہیں کر سکتے اور نہ ھی ان پر فتوی جڑھ سکتے ھیں،، مگر ھماری ذھنیت ایسی ڈیویلپ کر دی گئ ھے کہ ھم سماجی برائیوں میں ٹاپ تین ملکوں میں شامل ھونے کے باوجود خود کو اسلام کا قلعہ اور نمائندہ سمجھتے ھیں،، اور ھمارا ایک عالم جو داہیوں سے اپنے مدرسے کا خود اختیار کردہ قیدی ھے،، وہ اپنے شاگرد بھی اسی قسم کے خدائی فوجدار تیار کر رھا ھے جیسا کہ وہ خود ھے،، لندن والوں کے جنت کے سرٹیفیکیٹ بھی کراچی ،لاھور اور اکوڑہ خٹک سے جاری ھوتے ھیں
سوال یہ ھے کہ آئندہ پچاس سالوں میں سائینس نے 150 گنا ترقی کرنی ھے،، دین کو اس ترقی یافتہ ذھن کو ایڈریس کرنا ھے تو یہ ترقی یافتۃ اسلامی ذھن جو ترقی یافتۃ سائنسی ذھن کو ایڈریس کرے گا،، اس کے دانے پانی اور اخلاقی راھنمائی کا فریضہ سر انجام دے گا،،کہاں بنتا ھے ؟ کہاں بن رھا ھے؟؟ کہاں بنے گا ؟؟
میں نے کوئی دو سال پہلے لیپ ٹاپ لیا تھا جنریشن ون ،، ابراھیم کو لے کر دیا تو بات جنریشن ٹو تک اور اب قاسم کو لے کر دیا ھے تو جنریشن تھری تک پہچ چکی ھے،،یہ جنریشن ون ،،ٹو اور تھری انسانی ذھن کہاں دستیاب ھیں،،؟ تبدیلی تو ظاھر ھے دماغوں میں آئے گی،،سائنس بھی دل و دماغ کی دنیا کو الٹ پلٹ کر رھا ھے تو دینی اداروں نے بھی ذھن سازی ھی کرنی ھے،، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ھے کہ اپنے یہاں تو ایک اندھیر ھے،، نہ خود اس کے بارے میں سوچنا ھے اور نہ سوچنے والوں کو سوچنے دینا ھے،، جس نے سوچنا ھے ،اس ملک سے دفع ھو جائے،،یہاں سوچنا منع ھے
مجھے یقینِ کامل ھے کہ یہ کام پاکستان ،ھندوستان اور بنگلہ دیش سے باھر ھی ھو گا،،اس برصغیر میں یہ امکان نہیں ھے..ھمیں روحانی سوپر انفیکشن ھو گیا ھے ! لگتا ھے اس کا سہرا نو مسلم یورپ اپنے سر باندھے گا ! گویا اسلام کا سائیکل مکمل ھو جائے گا



بشکریہ….. قاری حنیف ڈار

Moona
01-03-2018, 12:43 AM
Allah dursat samjhne aur amal ki tofiq de
Jazak Allah
t4s

intelligent086
01-03-2018, 04:45 AM
عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ