intelligent086
03-06-2017, 01:16 AM
ہائی وے پر سفر
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x17933_18540123.jpg.pagespeed.ic.woJn6g7USu .jpg
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ
شہر کی معروف سڑکوں شاہراہوں کو اپنے پیچھے چھوڑتے جب ہماری گاڑی نے ہائی وے 401 کو چھوا تو یوں لگا گاڑی میں ہوائی جہاز کا پٹرول بھرا گیا ہے۔ رفتار کی سوئی آخری حدوں کو چھونے لگی۔ لیاقت سید گاڑی چلا رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو ہائی وے پولیس کا خوف نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں پولیس پاکستان کی طرح اچانک چھپٹنے کو ہر موڑ پر کیمرہ جمائے اور شست باندھے تیار نہیں بیٹھی ہوتی۔ وہ اپنی موجودگی کا خوف بھی نہیں دلاتے۔ لوگ عموماً خود ہی ٹریفک قوانین اور حد رفتار کی پابندی کرتے ہیں پھر اگر محتاط انداز میں کوئی حد رفتار سے آگے بھی نکل جائے تو اسے عموماً نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ البتہ بعض موڑ اور بعض علاقے حادثات کے لحاظ سے وہ مقامات آہ و فغاں ہوتے ہیں وہاں کیمرے مستقلاً فٹ کر دیئے گئے ہیں اور بہت پہلے بورڈوں کے ذریعے خبردار کیا جاتا ہے۔ اس طرح اوسطاً ہر 2 کلومیٹر پر ٹریفک پولیس کے ایک فرد کی موجودگی کا دنیا میں کہیں تصور نہیں۔ ہمارے ہاں ٹریفک تعلیم دینے ،ٹریفک شعور پیدا کرنے اور ٹریفک سائنس کو ترویج دینے کی بجائے اندھا دھند چالان کرنے کو ہی اصل کامیابی سمجھا گیا ہے۔ چھپ کے وار کرنے کے لیے جھاڑیوں کے پیچھے کیمرے نصب کئے جاتے ہیں۔ ڈھلوان کہ جہاں گاڑی کی رفتار خود بخود بڑھ جاتی ہے اس کے اختتام پر چالان بدست عملہ بلکہ حملہ آور موجود ہوتا ہے۔ پورا سفر خیروعافیت سے آپ طے کر چکے ہیں کہ اسلام آباد ٹول پلازہ سے ذرا پہلے یا لاہور راوی ٹول پلازہ گزرنے کے بعد اور نیاز بیگ موڑ آنے سے ذرا پہلے ٹریفک پولیس کی گاڑیاں موجود ہوتی ہیں کہ آپ بچ کے کیوں اور کہاں جا رہے ہیں ؟جیسے ایک نیک آدمی نے سنتری بادشاہ کے اچانک سامنے آنے پر یک لخت بریک لگائی اور چالان پر آمادہ سنتری کیلئے اپنے سائیکل چالان کرنے کا کوئی موقع بھی باقی نہ چھوڑا، تو سنتری نے پوچھا بڑے میاں میں نے پوری کوشش کی کہ آپ کا سائیکل مجھ سے آ ٹکرائے اور میں آپ کا چالان کروں یہ آپ نے ڈھلوان پر آتے ہوئے بھی اتنی چابکدستی سے بریک کیسے لگا لی؟۔ اس لیے کہ سائیکل پر میں تنہا نہیں میرے ساتھ میرا اللہ تعالیٰ ہے۔ بڑے میاں نے جواب دیا۔ آہا ڈبل سواری کٹ چالان سنتری نے اچھلتے ہوئے کہا ،کینیڈا میں بھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں اور یقیناً چالان بھی ہوتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے سسٹم ہی اس طرح ترتیب دے لئے ہیں کہ اب جھپٹنے پلٹنے پلٹ کر چھپٹنے کی گنجائش زیادہ نہیں رہی۔ ہر ڈرائیور کے ٹریفک پوائنٹس ہوتے ہیں جو ہر خلاف ورزی پر کٹتے ہیں اور اس کے ڈرائیونگ لائسنس پر لکھ دیئے جاتے ہیں اس طرح زیادہ نمبر کٹ جانے پر وہ ڈرائیونگ لائسنس سے عارضی یا مستقلاً محروم ہو جاتا ہے۔ ایک مرتبہ اشارہ کاٹنے پر ایک دم پچاس فیصد نمبر کاٹ لئے جاتے ہیں۔ یوں کوئی بھی ڈرائیور اشارہ کاٹنے یا ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی جرات نہیں کرتا۔ ٹورنٹو سے اٹاوہ تک راستہ انتہائی خوبصورت ہے سڑک کے دونوں طرف پھیلے ہوئے جنگلات ہیں ان جنگلات کے درمیان میں ایک بوائلر نما سٹرکچر موجود ہے میں نے پوچھا بوائلرکیسے ہیں؟۔ جواب ملا : یہ گندم یا اجناس ذخیرہ کرنے کے گودام ہیں۔ گویا کہ یہ بھڑولے ہیں؟ جی ہاں یہ ماڈرن بھڑولے ہیں۔ لفٹ کے ذریعے بوریاں اوپر چڑھا کر سٹیل کے اس بھڑولے میں الٹا دی جاتی ہیں اور گندم نکالنی ہو تو نیچے سے نکال لی جاتی ہے۔ (’’ہوائوں کے سنگ‘‘ سے ماخوذ)
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x17933_18540123.jpg.pagespeed.ic.woJn6g7USu .jpg
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ
شہر کی معروف سڑکوں شاہراہوں کو اپنے پیچھے چھوڑتے جب ہماری گاڑی نے ہائی وے 401 کو چھوا تو یوں لگا گاڑی میں ہوائی جہاز کا پٹرول بھرا گیا ہے۔ رفتار کی سوئی آخری حدوں کو چھونے لگی۔ لیاقت سید گاڑی چلا رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو ہائی وے پولیس کا خوف نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں پولیس پاکستان کی طرح اچانک چھپٹنے کو ہر موڑ پر کیمرہ جمائے اور شست باندھے تیار نہیں بیٹھی ہوتی۔ وہ اپنی موجودگی کا خوف بھی نہیں دلاتے۔ لوگ عموماً خود ہی ٹریفک قوانین اور حد رفتار کی پابندی کرتے ہیں پھر اگر محتاط انداز میں کوئی حد رفتار سے آگے بھی نکل جائے تو اسے عموماً نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ البتہ بعض موڑ اور بعض علاقے حادثات کے لحاظ سے وہ مقامات آہ و فغاں ہوتے ہیں وہاں کیمرے مستقلاً فٹ کر دیئے گئے ہیں اور بہت پہلے بورڈوں کے ذریعے خبردار کیا جاتا ہے۔ اس طرح اوسطاً ہر 2 کلومیٹر پر ٹریفک پولیس کے ایک فرد کی موجودگی کا دنیا میں کہیں تصور نہیں۔ ہمارے ہاں ٹریفک تعلیم دینے ،ٹریفک شعور پیدا کرنے اور ٹریفک سائنس کو ترویج دینے کی بجائے اندھا دھند چالان کرنے کو ہی اصل کامیابی سمجھا گیا ہے۔ چھپ کے وار کرنے کے لیے جھاڑیوں کے پیچھے کیمرے نصب کئے جاتے ہیں۔ ڈھلوان کہ جہاں گاڑی کی رفتار خود بخود بڑھ جاتی ہے اس کے اختتام پر چالان بدست عملہ بلکہ حملہ آور موجود ہوتا ہے۔ پورا سفر خیروعافیت سے آپ طے کر چکے ہیں کہ اسلام آباد ٹول پلازہ سے ذرا پہلے یا لاہور راوی ٹول پلازہ گزرنے کے بعد اور نیاز بیگ موڑ آنے سے ذرا پہلے ٹریفک پولیس کی گاڑیاں موجود ہوتی ہیں کہ آپ بچ کے کیوں اور کہاں جا رہے ہیں ؟جیسے ایک نیک آدمی نے سنتری بادشاہ کے اچانک سامنے آنے پر یک لخت بریک لگائی اور چالان پر آمادہ سنتری کیلئے اپنے سائیکل چالان کرنے کا کوئی موقع بھی باقی نہ چھوڑا، تو سنتری نے پوچھا بڑے میاں میں نے پوری کوشش کی کہ آپ کا سائیکل مجھ سے آ ٹکرائے اور میں آپ کا چالان کروں یہ آپ نے ڈھلوان پر آتے ہوئے بھی اتنی چابکدستی سے بریک کیسے لگا لی؟۔ اس لیے کہ سائیکل پر میں تنہا نہیں میرے ساتھ میرا اللہ تعالیٰ ہے۔ بڑے میاں نے جواب دیا۔ آہا ڈبل سواری کٹ چالان سنتری نے اچھلتے ہوئے کہا ،کینیڈا میں بھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں اور یقیناً چالان بھی ہوتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے سسٹم ہی اس طرح ترتیب دے لئے ہیں کہ اب جھپٹنے پلٹنے پلٹ کر چھپٹنے کی گنجائش زیادہ نہیں رہی۔ ہر ڈرائیور کے ٹریفک پوائنٹس ہوتے ہیں جو ہر خلاف ورزی پر کٹتے ہیں اور اس کے ڈرائیونگ لائسنس پر لکھ دیئے جاتے ہیں اس طرح زیادہ نمبر کٹ جانے پر وہ ڈرائیونگ لائسنس سے عارضی یا مستقلاً محروم ہو جاتا ہے۔ ایک مرتبہ اشارہ کاٹنے پر ایک دم پچاس فیصد نمبر کاٹ لئے جاتے ہیں۔ یوں کوئی بھی ڈرائیور اشارہ کاٹنے یا ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی جرات نہیں کرتا۔ ٹورنٹو سے اٹاوہ تک راستہ انتہائی خوبصورت ہے سڑک کے دونوں طرف پھیلے ہوئے جنگلات ہیں ان جنگلات کے درمیان میں ایک بوائلر نما سٹرکچر موجود ہے میں نے پوچھا بوائلرکیسے ہیں؟۔ جواب ملا : یہ گندم یا اجناس ذخیرہ کرنے کے گودام ہیں۔ گویا کہ یہ بھڑولے ہیں؟ جی ہاں یہ ماڈرن بھڑولے ہیں۔ لفٹ کے ذریعے بوریاں اوپر چڑھا کر سٹیل کے اس بھڑولے میں الٹا دی جاتی ہیں اور گندم نکالنی ہو تو نیچے سے نکال لی جاتی ہے۔ (’’ہوائوں کے سنگ‘‘ سے ماخوذ)