Mamin Mirza
02-21-2016, 12:02 PM
مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا سرِبزم رات یہ کیا ہوا
میری آنکھ کیسے چھلک گئی مجھے رنج ہے یہ برا ہوا
میری زندگی کے چراغ کا یہ مزاج کوئی نیا نہیں
ابھی روشنی ابھی تیرگی نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا
مجھے جو بھی دشمنِ جاں ملا وہی پختہ کارِ جفا ملا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی نہ کسی کا وار خطا ہوا
مجھے آپ کیوں نہ سمجھ سکے کبھی اپنے دل سے پوچھئے
میری داستانِ حیات کا تو ورق ورق ہے کھلا ہوا
جو نظر بچا کے گزر گئے میرے سامنے سے ابھی ابھی
یہ میرے ہی شہر کے لوگ تھےمیرے گھر سے گھر ہے ملا ہوا
ہمیں اس کا کوئی بھی حق نہیں کہ شریکِ بزمِ خلوص ہوں
نہ ہمارے پاس نقاب ہے نہ کچھ آستیں میں چھپا ہوا
میرے ایک گوشہ ءِ فکر میں میری زندگی سے عزیز تر
میرا ایک ایسا بھی دوست ہے جو کبھی ملا نہ جدا ہوا
مجھے ایک گلی میں پڑا ہوا کسی بدنصیب کا خط ملا
کہیں خونِ دل سے لکھا ہوا کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا
مجھے ہم سفر بھی ملا کوئی تو شکستہ حال میری طرح
کئی منزلوں کا تھکا ہوا کہیں راستے میں لٹا ہوا
ہمیں اپنے گھر سے چلے ہوئے سرِ راہ عمر گزر گئی
کوئی جستجو کا صلہ ملا نہ سفر کو حق ہی ادا ہوا
اقبال عظیم
میری آنکھ کیسے چھلک گئی مجھے رنج ہے یہ برا ہوا
میری زندگی کے چراغ کا یہ مزاج کوئی نیا نہیں
ابھی روشنی ابھی تیرگی نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا
مجھے جو بھی دشمنِ جاں ملا وہی پختہ کارِ جفا ملا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی نہ کسی کا وار خطا ہوا
مجھے آپ کیوں نہ سمجھ سکے کبھی اپنے دل سے پوچھئے
میری داستانِ حیات کا تو ورق ورق ہے کھلا ہوا
جو نظر بچا کے گزر گئے میرے سامنے سے ابھی ابھی
یہ میرے ہی شہر کے لوگ تھےمیرے گھر سے گھر ہے ملا ہوا
ہمیں اس کا کوئی بھی حق نہیں کہ شریکِ بزمِ خلوص ہوں
نہ ہمارے پاس نقاب ہے نہ کچھ آستیں میں چھپا ہوا
میرے ایک گوشہ ءِ فکر میں میری زندگی سے عزیز تر
میرا ایک ایسا بھی دوست ہے جو کبھی ملا نہ جدا ہوا
مجھے ایک گلی میں پڑا ہوا کسی بدنصیب کا خط ملا
کہیں خونِ دل سے لکھا ہوا کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا
مجھے ہم سفر بھی ملا کوئی تو شکستہ حال میری طرح
کئی منزلوں کا تھکا ہوا کہیں راستے میں لٹا ہوا
ہمیں اپنے گھر سے چلے ہوئے سرِ راہ عمر گزر گئی
کوئی جستجو کا صلہ ملا نہ سفر کو حق ہی ادا ہوا
اقبال عظیم