Log in

View Full Version : ہندوستان کے مسلمانو ں کی عرب وحجاز کی طرف ہ



intelligent086
02-17-2016, 05:24 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14868_41919000.jpg.pagespeed.ic.DNmJZgD6hS .jpg

ہندوستان سے مسلمانوںکے عرب و حجاز اور دوسرے ممالک کو ہجرت کرنے کے واقعات تاریخ کے ہردور میںملتے ہیں ۔ہجرت کایہ سلسلہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے فتویٰ دارالحرب سے پہلے بھی جاری تھا اور بعد میں بھی جاری رہا ،لیکن یہ ہجرتیں افراد کی یا زیادہ سے زیادہ خاندانوںکی ہوتی تھیں۔ہندوستان سے اجتماعی ہجرت کاکوئی واقعہ 1920ء سے پہلے پیش نہیں آیاحالانکہ مسلمانوں پر ابتلا کے دور اس سے قبل بھی آتے تھے اور بعض اوقات کچھ علاقوں میںان پر عرصہ حیات تنگ کر دیاگیا تھا ،لیکن مسلمانوں میںاجتماعی ہجرت کاخیال پیدا نہیں ہوا ۔خیال آیا تو اصلاحِ احوال جہاد کا ۔البتہ اس صدی کی دوسری دہائی کے آخر میں جب مسلمان ہندوستان میں سات کروڑ سے زیادہ تھے، تو ایک اجتماعی ہجرت کی تحریک پیدا ہوئی۔یہاں اسی تحریک کے بارے میں چند خیالات پیش کیے جاتے ہیں : دارالحرب اور ہجرت:سب سے پہلے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کافتویٰ دیا تھا۔کسی ملک کے دارالحرب ہوجانے کے بعد وہاں سے ہجرت واجب ہوجاتی ہے، لیکن ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد اور مخصوص حالات کی بنا پر ہجرت کو انہوں نے ضروری نہیں سمجھا ۔یہی مسلک ان کے بعد تمام علماء کا رہا، جو ہندوستان کے دارالحرب ہوجانے کا یقین رکھتے تھے۔اسی لیے انہوں نے دارالحرب ہندکے حالات بدلنے اور انقلاب برپا کرنے کامنصوبہ بنایا تھا ۔اولاًطاقت اور قوت کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار اور برٹش حکومت کا تختہ اُلٹنے کا فیصلہ کیا اور فیصلے کوعملی صورت دینے کی کوشش ہوئی ۔ثانیاًجب حالات نے باربار طاقت اور قوت کے ذریعے انقلاب لانے کی کوشش کوناکام بنا دیا اور تجربات نے اس ذریعۂ انقلاب کو ناممکن ثابت کر دیا، تو ہندوستان میں بسنے والی دوسری اقوام کے اتحاد سے آزادی کی تحریک شروع کی گئی۔ یہ تحریک جاری رہی تاآنکہ اگست 1947ء میں یہ ملک آزاد ہوگیا۔ 1920ء کی ہجرتِ افغانستان:1920ء کی تحریکِ ہجرت کاتعلق ہندوستان کے دارالحرب ہونے یا نہ ہونے سے بالکل نہ تھا۔ خواہ کسی شص نے اپنے کسی بیان میں ہجرت کا سبب یہی بتایا ہو۔1920ء میں مسئلہ یہ نہی تھا کہ چونکہ ہندوستان دارالحرب ہے ،اس لیے یہاں سے ہجرت کر نی چاہیے ۔مسئلہ یہ تھا کہ اسلامی ممالک اور خلافت ترکیہ کے بارے میں برٹش حکومت کے رویے نے ہندوستان کے مسلمانوں کوحالات کے اس مقام پر لا کھڑا کیا کہ وہ اپنے غم و غصہ کے اظہاراور عالمی رائے عامہ کو برطانیہ کے مظالم،اس کی وعدہ خلافیوں اور عہد شکنیوں کے خلاف ہموار کرنے کے لیے کوئی اقدام کریں ۔اس سلسلے میں انہوں نے جو اقدام کیے ان میں وفدِ خلافت کاسفرِ یورپ عالمی رہنمائوں سے ملاقاتیں ،اخبارات میں مضامین کی اشاعت اور اندرون ملک جلسوں ،جلسوسوںکے ذریعے احتجاج ،رائے عامہ کی بیداری ،حکومت سے عدم تعاون،غیر ملکی اشیا کا ترکِ استعمال وغیرہ جیسے پروگرام شامل تھے ۔ چونکہ ترکی خلافت اور اس کے مقبوضات کاانقطاع و غصب صرف مسلمانوں کے لیے ایک ملی اور اسلامی مسئلہ ہی نہ تھا بلکہ وقت کا اہم اور خالص سیاسی مسئلہ بھی تھا ۔اس سے غیر مسلم مدبر بھی صرف نظر نہیں کرسکتے تھے بلکہ برٹش استعمار کے مخالفیں خواہ دنیا ک کسی ملک میں تھے ،ان کی تمام تر ہمدردیاں ترکی خلافت کے ساتھ تھیں، لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ تحریک خلا فت میں مسلمانوں کے خالص ملی نقطۂ نظر سے شریک نہیں ہوسکتے تھے ۔ تحریک ہجرت،خلافت کی تحریک کے دوران اسے مؤثر بنانے کا ایک مزید حربہ یہ تھا کہ یہ تحریک کسی سنجیدہ ،مدبر ،عالم دین نے پیش نہیں کی تھی ۔یہ محض ایک پرجوش نوجوان ،ناتجربہ کار ،علم دین و سیاست سے ناآشنا ،تدبر و بصیرت سے محض بیگانہ اور ایک عاقبت نا اندیش کے دماغ کی افتراع اور اس کی زندگی کے حادثہ ٔ گرفتاری وسزا کا ردفعل تھا،لیکن یہ امرتسر کا ایک نوجوان غلام محمد تھا، جو عزیزہندی کے عرف سے مشہور تھااور اسی ہنگامے پر اس کاخاتمہ ہو گیا ۔اس کے بعد تحریک آزادی ،سیاست ،تعلیم ،ادب وغیرہ علم و عمل اور علم وفن کے کسی میدان میں کسی درجے میں بھی اس کا نام نظر نہیں آتا ۔ہجرت کا فتویٰ ایسے حالات اور اسلوب میں پوچھا گیا تھا کہ کوئی عالم دین بھی دو ٹوک الفاظ میںاس کے خلاف رائے نہ دے سکتا تھا اور پھر پرجوش انداز میں اسے شروع کر دیا گیا کہ کوئی عالم دین اس کے خلاف سینہ سپر نہ ہو سکا۔اس کی رہنمائی کی باگ ڈور بھی کسی مدبر اور عالم دین کے ہاتھ میں نہ تھی۔ (کتاب ’’بیسویں صدی میںہندوستان کی ملی تحریکیں ‘‘سے مقتبس)