Log in

View Full Version : جھوٹے آدمی



intelligent086
02-10-2016, 05:56 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14812_23281136.jpg.pagespeed.ic.BTKa5k8h-U.jpg



مولوی ذکاء اللہ
ایک ضرب المثل مشہور ہے کہ ’’دروغ گو را حافظ نباشد‘‘ مگر عقل یہ کہتی ہے کہ جب آدمی کا حافظہ اچھا نہ ہو، وہ جھوٹ کا بنج بیپار نہیں کر سکتا اور دروغ کو فروغ نہیں دے سکتا۔ خواہ اوّل صورت ہو یا دوسری، دونوں میں جھوٹ اور حافظے میں ایک تعلق ہے۔ حافظہ ایسی قوت ہے، جس کو افلاطون نے تمام قوانے عقلیہ کا دیوتا کہا ہے، یعنی تمام ملکاتِ نفسانی کا رئیس ہے اور سب اس کے خادم ہیں۔ اہلِ فرانس کو جب کسی پرلے درجے کا کودن کہنا ہوتا ہے، تواس کو کہتے ہیں کہ وہ حافظہ نہیںرکھتا ہے۔ حافظے کے نہ ہونے سے آدمی کو اپنے وعدے یاد نہیں رہتے اور باتیں بھول جاتا ہے۔ ایک ہی کہانی کو بار بار اتنی دفعہ کہتا ہے کہ خواہ وہ کیسی دلچسپ ہو، اُس سے دل پھر جاتا ہے۔ ایک ہی کتاب خواہ کتنی دفعہ پڑھی ہو، وہ اس کو ہر دفعہ نئی کتاب معلوم ہوتی ہے۔ ایک جھوٹے تو وہ ہوتے ہیں کہ بات تو جھوٹ کہتے ہیں، مگر وہ اپنے صدقِ دل سے اس کو سچا جانتے ہیں۔ دوسرے وہ جھوٹے ہیں کہ جھوٹی بات کہتے ہیں اور اس کو خود دل میں جھوٹ جانتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اُور لوگ اس کو سچ جانیں۔ ہم آگے اسی قسم کے جھوٹوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ان جھوٹوں کی بھی دو قسمیں ہیں، ایک یہ کہ اپنے دماغ سے ایک جھوٹی بات کو سر سے پائوں تک تراش کر ایجاد اور اختراع کریں۔ دوسرے یہ کہ ایک سچی حکایت کا بھیس بدل کر اپنے خیال کے موافق بدل بدل کر اس طرح بیان کریں کہ وہ جھوٹ ہو جائے۔ اس صورت میں مشکل ہے کہ ان کا جھوٹ چھپا رہے اورکسی نہ کسی دن ان کا بھانڈا نہ پھوٹ جائے۔ اس لیے کہ جنھوں نے سچی حکایت کو جھوٹ بنایا ہے، اس کی بنا راستی پر ہے جس کا نقش اوّل ان کے حافظے پر جما ہے اور جس کی بنیاد دل میں زیادہ مستحکم اور استوار ان کے اختراعی جھوٹ سے پڑی ہے۔ قاعدہ ہے کہ سچ کی برابر جھوٹ کی بنیاد مستحکم نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ضرور ہے کہ ان کے دروغ میں راستی اپنا فروغ دکھائے اور جس سچ پر جھوٹا ملمع چڑھایا ہے۔ اس کی قلعی کھل جائے اور وہی راستی جو ان کے دل کے اندر دوڑ رہی ہے، اُن کے ذہن سے اس اختراعی جھوٹ کو بُھلا دے۔دوسری صورت جس میں ایک جھوٹی بات کو نئے سر سے گھڑ کر اختراع کرتے ہیں، اس کے متضاد کوئی سچی بات ایسی دل پر منقش نہیں ہوتی کہ وہ اس سے جنگ زرگری کرے۔ پہلی صورت میں تو سچ کو جھوٹا لباس پہنایا تھا، اُس کا لباس اُتار کر اصل حقیقت کا دیکھ لینا آسان تھا، مگر دوسری صورت میں جھوٹ کا پُتلا بنایا ہے، یہاں جھوٹ کے پکڑا جانے کا خوف کم ہے، مگر اس کے ساتھ یہ اندیشہ ضرور ہے کہ اگر حافظے میں اس پُتلے کے بنانے کی ترکیب خوب جانشیں نہیں ،تو وہ ذہن سے نکل جائے گی، پھر قلعی کھل جائے گی۔ تم نے بہت سے آدمی دیکھے ہوں گے کہ وہ جیسا وقت اور موقع دیکھتے ہیں، ویسی باتیں بنا دیتے ہیں، کچھ جھوٹ سچ کا خیال نہیں کرتے۔ ایک ہی معاملے میں ایک شخص سے کچھ کہہ دیتے ہیں، اُس کی جانب مخالف سے کچھ اور فرما دیتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ ان کے دل میں کوئی بات ایمان اور صداقت کے ساتھ متمکن نہیں ہوتی۔ فقط یہ خیال ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کی مرضی کے موافق باتیں بنا کے ان کا دل خوش کر دیں۔ ایسی باتوں کے کرنے سے وہ اپنا نام صلح کل رکھتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کی ساری باتوں کو، جو ایک معاملے میں کرتے ہیں، لکھ لے اور اس کو غور سے دیکھے تو معلوم ہوگا کہ ان کی باتیں کیسی فریب اور دغا سے بھری ہوئی ہیں، جس کا نام انہوں نے صلح کل رکھا ہے، وہ سراسر نفاق ہے۔ جب ایک آدمی کسی ایک ہی معاملے میں مختلف اوقات میں، مختلف پیرایوں میں اظہارِ رائے کرتا ہے اور اصل حقیقت اس کے دل میں کچھ نہیں ہوتی، تو ان سب کا یاد رکھنا حافظے کی قدرت سے باہر ہو جاتا ہے۔ اس لیے وہ اپنی کہی ہوئی بات کو بھول جاتا ہے اور اس کی حقیقت کھل جاتی ہے۔ اسی معنی کو کہا کرتے ہیں کہ ’’دروغ گو را حافظہ نباشد۔‘‘ سیدھی سادھی سچی باتوں میں جھوٹ بولنے کی برابر کوئی لعنت کی ماری ہوئی بُرائی نہیں۔ ہم انسانوں میں جو باہم رشتہ مندی ہے، وہ فقط نطق کے سبب سے ہے۔ جب اس نُطق میں کذب شامل ہو تو انسانوں کے باہمی تعلقات میں کوئی ایسی بات نہ ہوگی کہ جو فساد سے خالی ہو، جن قوموں میں جھوٹ کا رواج ہوگیا ہے، اُن میں کوئی بُرائی باقی نہیں جو نہ ہو۔ یہ جھوٹ، آگ اور تلوار سے زیادہ ان کا نقصان کر رہا ہے۔ اکثر ماں باپ اپنے بچوں کو ان کی معصوم خطائوں پر اور بے باک شوخیاں اور گستاخیوں پر خوب گوشمالی کرتے ہیں، مگر وہ یہ یاد رکھیں کہ بچوں کو صرف ان دو قصوروں پر سزا دینی چاہیے، ایک جھوٹ پر اور دوسری سرکشی پر۔ جب تک کہ ان دونوں بُرائیوں سے ان کو نہ چھٹائیں، سزا دینے سے ہاتھ کو نہ اُٹھائیں۔ اگر جھوٹ کا چسکا اس عمر میں زبان کو لگ گیا، تو وہ بڑے ہونے پر اور بڑے گا۔ایک حکیم کا قول ہے کہ جو شخص ہماری زبان نہ جانتا ہو، اس کی صحبت سے کتے کی صحبت اچھی ہے۔ غیر زبان کا آدمی صحبت میں آدمی کا قائم مقام نہیں ہو سکتا ہے۔ ایسے ہی جھوٹے کی صحبت سے خاموش آدمی کی صحبت اچھی ہے، بلکہ وہ جانوروں کی صحبت سے بدتر ہے۔

muzafar ali
02-10-2016, 08:31 PM
janab Habib sahib apka thread qabil e daad hai hum apko dil se shukrya karte hen

intelligent086
02-11-2016, 04:26 AM
janab Habib sahib apka thread qabil e daad hai hum apko dil se shukrya karte hen


http://www.mobopk.com/images/hanks4comments.gif