intelligent086
02-10-2016, 05:49 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14814_79687088.jpg.pagespeed.ic.GSU7128IxZ .jpg
گورا چٹارنگ، صحتمند بھرا بھرا جسم، چوڑی فراخ پیشانی، بڑے خوبصورت نیم گھنگھریالے بال، موٹے فریم کا چشمہ، جس کے شیشوں کے پیچھے بڑی بڑی چمکیلی ہر شے کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتی آنکھیں… میں منٹو صاحب کا زبردست مداح تھا اور ان کا ہر افسانہ پڑھتا تھا۔ میں نے انہیں پہچان لیا تھا۔ رسالوں میں ان کی تصویر چھپتی رہتی تھی اور ن م راشد صاحب نے بھی مجھے بتایا کہ ’’یہ منٹو صاحب ہیں۔ اُردو کے نامور افسانہ نویس منٹو صاحب خاموشی سے لکھنے میں مصروف تھے۔ اس زمانے میں سعادت حسن منٹو نے بڑے کمال کے ریڈیائی فیچر اور ڈرامے لکھے۔ ’’جنازے‘‘ اور ’’آئو‘‘ اس زمانے کے ان کے مشہور ڈراموں اور فیچرز کی یادگار کتابیں ہیں۔ کرشن چندر کو بھی میںنے پہلی بار ن م راشد کے پاس دیکھا۔ ن م راشد صاحب کے ہاں ہمارا قیام تین چار روز ہی رہا۔ اس کے بعد ہم دلی سے کلکتے روانہ ہو گئے۔ جہاں سے ہمیں بحری جہاز میں سفر کر کے رنگون جانا تھا۔ اس کے بعد میں نے منٹو صاحب کو دوسری بار لاہور میں ان کے مکان لکشمی مینشن میں دیکھا۔ جب وہ پاکستان بننے کے بعد بمبئی کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر پاکستان آ گئے تھے۔ ایک روز اپنے مکان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے منٹو صاحب بمبئی چھوڑنے کی وجہ بیان کر رہے تھے، جو احباب وہاں بیٹھے تھے ان میں ، میں بھی تھا۔ منٹو صاحب کہہ رہے تھے: ’’اب میرا بمبئی میں رہنا مشکل ہو گیا تھا کیونکہ میرے وہ دوست جو مذہب کے معاملے میں آزاد خیال تھے، یعنی اداکار شیام اور اشوک کمار، اب وہ بھی میرے منہ پر پاکستان کو برا بھلا کہنے لگے تھے۔ یہ مجھ سے برداشت نہ ہو سکا اور میں نے بمبئی کو ہمیشہ کیلئے چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘ مسعود پرویز نے منٹو صاحب سے مل کر ایک پنجابی فلم کی کاغذی تیاریاں شروع کر دیں۔ ریگل سینما کی دوسری یا شاید تیسری منزل پر فلم کا آفس تھا۔ منٹو صاحب فلم کا سکرین پلے لکھنے لگے۔ وہ مختلف خوشنما پینسلیں اور ربڑ لے کر میز کے سامنے بیٹھ جاتے اور لکیر دار بے داغ کاغذ پر فلم کا سکرین پلے اور پھر مکالمے لکھتے رہتے۔ کبھی کبھی وہ اپنا بڑا سا چہرہ اٹھا کر موٹی موٹی آنکھوں سے کمرے کا جائزہ لیتے اور دوبارہ لکھنے میں مصروف ہو جاتے۔ احمد راہی فلم کے پنجابی گیت لکھ رہا تھا۔میوزک ڈائریکٹر رشید عطرے تھے۔ میں دن میںایک بار فلم کے آفس میں ضرور آتا اور کچھ دیر بیٹھ کر واپس چلا جاتا۔ منٹو صاحب کو شاید بمبئی میں ایک علت لگ گئی تھی، جو پاکستان آ کر بھی ان کے ساتھ ہی لگی رہی۔ آہستہ آہستہ اس علت نے ان کی صحت پر برے اثرات مرتب کرنا شروع کر دئیے۔ پنجابی فلم تو نہ بن سکی اور منٹو صاحب نے اخباروں میں کالم نگاری بھی کی، مگر کچھ ہی دن کے بعد کالم نویسی چھوڑ کر افسانے لکھنے شروع کر دئیے۔ اپنی علت کے اخراجات پورے کرنے کے لئے بھی انہیں کچھ نہ کچھ لکھنا پڑتا تھا۔ میں ان دنوں ’’آفاق‘‘ اخبار سے وابستہ تھا۔ منٹو صاحب اخبار کے ادبی ایڈیشن کیلئے ایک دو افسانے لے کر آتے۔ اخبار کے منیجر اقبال صاحب کو دیتے۔ معاوضہ وصول کرتے اور وہیں سے واپس چلے جاتے۔ منٹو صاحب اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے لکھتے تھے بلکہ انہیں افسانے لکھنے پڑتے تھے۔ ظاہر ہے ایسی صورتحال میں افسانے کا معیار برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے، لیکن منٹو صاحب کا نام بڑا نام تھا۔ اخباروں اور رسالوں کے ایڈیٹر ان کے افسانے لے کر انہیں اسی وقت معاوضہ ادا کر دیتے تھے۔ یہ تین تین یا زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین فل سکیپ صفحوں پر لکھے ہوئے افسانے ہوتے تھے اور منٹو صاحب کو روزانہ دو تین افسانے لکھنے پڑتے تھے۔ انہیں ایک افسانے کا معاوضہ دس پندرہ روپے تک اور کبھی بیس روپے بھی مل جاتے تھے۔ ضرورت کے تحت اور رواں روی میں لکھے گئے افسانوں کا معیار کم تر ہوتا چلا گیا۔ پبلشر منٹو صاحب کو انکار تو نہیں کر سکتے تھے ،لیکن اب منٹو صاحب کو آتا دیکھ کر ادھر ادھر ہو جاتے۔ (گلستانِ ادب کی سنہری یادیں از: اے حمید) ٭…٭…٭
گورا چٹارنگ، صحتمند بھرا بھرا جسم، چوڑی فراخ پیشانی، بڑے خوبصورت نیم گھنگھریالے بال، موٹے فریم کا چشمہ، جس کے شیشوں کے پیچھے بڑی بڑی چمکیلی ہر شے کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتی آنکھیں… میں منٹو صاحب کا زبردست مداح تھا اور ان کا ہر افسانہ پڑھتا تھا۔ میں نے انہیں پہچان لیا تھا۔ رسالوں میں ان کی تصویر چھپتی رہتی تھی اور ن م راشد صاحب نے بھی مجھے بتایا کہ ’’یہ منٹو صاحب ہیں۔ اُردو کے نامور افسانہ نویس منٹو صاحب خاموشی سے لکھنے میں مصروف تھے۔ اس زمانے میں سعادت حسن منٹو نے بڑے کمال کے ریڈیائی فیچر اور ڈرامے لکھے۔ ’’جنازے‘‘ اور ’’آئو‘‘ اس زمانے کے ان کے مشہور ڈراموں اور فیچرز کی یادگار کتابیں ہیں۔ کرشن چندر کو بھی میںنے پہلی بار ن م راشد کے پاس دیکھا۔ ن م راشد صاحب کے ہاں ہمارا قیام تین چار روز ہی رہا۔ اس کے بعد ہم دلی سے کلکتے روانہ ہو گئے۔ جہاں سے ہمیں بحری جہاز میں سفر کر کے رنگون جانا تھا۔ اس کے بعد میں نے منٹو صاحب کو دوسری بار لاہور میں ان کے مکان لکشمی مینشن میں دیکھا۔ جب وہ پاکستان بننے کے بعد بمبئی کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر پاکستان آ گئے تھے۔ ایک روز اپنے مکان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے منٹو صاحب بمبئی چھوڑنے کی وجہ بیان کر رہے تھے، جو احباب وہاں بیٹھے تھے ان میں ، میں بھی تھا۔ منٹو صاحب کہہ رہے تھے: ’’اب میرا بمبئی میں رہنا مشکل ہو گیا تھا کیونکہ میرے وہ دوست جو مذہب کے معاملے میں آزاد خیال تھے، یعنی اداکار شیام اور اشوک کمار، اب وہ بھی میرے منہ پر پاکستان کو برا بھلا کہنے لگے تھے۔ یہ مجھ سے برداشت نہ ہو سکا اور میں نے بمبئی کو ہمیشہ کیلئے چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘ مسعود پرویز نے منٹو صاحب سے مل کر ایک پنجابی فلم کی کاغذی تیاریاں شروع کر دیں۔ ریگل سینما کی دوسری یا شاید تیسری منزل پر فلم کا آفس تھا۔ منٹو صاحب فلم کا سکرین پلے لکھنے لگے۔ وہ مختلف خوشنما پینسلیں اور ربڑ لے کر میز کے سامنے بیٹھ جاتے اور لکیر دار بے داغ کاغذ پر فلم کا سکرین پلے اور پھر مکالمے لکھتے رہتے۔ کبھی کبھی وہ اپنا بڑا سا چہرہ اٹھا کر موٹی موٹی آنکھوں سے کمرے کا جائزہ لیتے اور دوبارہ لکھنے میں مصروف ہو جاتے۔ احمد راہی فلم کے پنجابی گیت لکھ رہا تھا۔میوزک ڈائریکٹر رشید عطرے تھے۔ میں دن میںایک بار فلم کے آفس میں ضرور آتا اور کچھ دیر بیٹھ کر واپس چلا جاتا۔ منٹو صاحب کو شاید بمبئی میں ایک علت لگ گئی تھی، جو پاکستان آ کر بھی ان کے ساتھ ہی لگی رہی۔ آہستہ آہستہ اس علت نے ان کی صحت پر برے اثرات مرتب کرنا شروع کر دئیے۔ پنجابی فلم تو نہ بن سکی اور منٹو صاحب نے اخباروں میں کالم نگاری بھی کی، مگر کچھ ہی دن کے بعد کالم نویسی چھوڑ کر افسانے لکھنے شروع کر دئیے۔ اپنی علت کے اخراجات پورے کرنے کے لئے بھی انہیں کچھ نہ کچھ لکھنا پڑتا تھا۔ میں ان دنوں ’’آفاق‘‘ اخبار سے وابستہ تھا۔ منٹو صاحب اخبار کے ادبی ایڈیشن کیلئے ایک دو افسانے لے کر آتے۔ اخبار کے منیجر اقبال صاحب کو دیتے۔ معاوضہ وصول کرتے اور وہیں سے واپس چلے جاتے۔ منٹو صاحب اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے لکھتے تھے بلکہ انہیں افسانے لکھنے پڑتے تھے۔ ظاہر ہے ایسی صورتحال میں افسانے کا معیار برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے، لیکن منٹو صاحب کا نام بڑا نام تھا۔ اخباروں اور رسالوں کے ایڈیٹر ان کے افسانے لے کر انہیں اسی وقت معاوضہ ادا کر دیتے تھے۔ یہ تین تین یا زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین فل سکیپ صفحوں پر لکھے ہوئے افسانے ہوتے تھے اور منٹو صاحب کو روزانہ دو تین افسانے لکھنے پڑتے تھے۔ انہیں ایک افسانے کا معاوضہ دس پندرہ روپے تک اور کبھی بیس روپے بھی مل جاتے تھے۔ ضرورت کے تحت اور رواں روی میں لکھے گئے افسانوں کا معیار کم تر ہوتا چلا گیا۔ پبلشر منٹو صاحب کو انکار تو نہیں کر سکتے تھے ،لیکن اب منٹو صاحب کو آتا دیکھ کر ادھر ادھر ہو جاتے۔ (گلستانِ ادب کی سنہری یادیں از: اے حمید) ٭…٭…٭