PDA

View Full Version : ترگنیف کا عالمی شہرت یافتہ ناول ’’باپ اور بی



intelligent086
02-09-2016, 04:25 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14805_45620235.jpg.pagespeed.ic.aq3ofWH1IJ .jpg


احمد عقیل روبی
ماں کی ممتا پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ ماں بچے کو زندگی دیتی ہے، اسے بولنا، چلنا، زندگی کو ڈھنگ سے جینا سکھاتی ہے لیکن کبھی کبھی یہی ماں بچے کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی بن جاتی ہے۔ بچے کو اپنے ڈھنگ سے زندگی بسر نہیں کرنے دیتی۔ من مانی پر اتر آتی ہے اور یہ ہوتا ہے کہ ماں اور بچے کے درمیان فاصلے بڑھنے لگتے ہیں اور آخر کار بچہ بغاوت کر دیتا ہے، ایسا کئی بار ہوا ہے۔ اس کی ایک مثال انگریزی شاعر لارڈ بائرن کی ہے۔ ماں غصیلی تھی، چڑ چڑاپن اپنے عروج پر تھا۔ اس پر جب غصے کا بھوت سوار ہوتا تو وہ لارڈ بائرن کے بال نوچتی، اسے بری طرح مارتی، بائرن اس سے ہر پل خائف رہتا تھا۔ جب وہ سکول میں پڑھتا تھا تو اس کے ساتھی اس سے اکثر پوچھتے تھے: ’’کیا تمہاری ماں پاگل ہے؟‘‘ بائرن کو اس بات کا بڑا افسوس تھا۔ اسے بچپن میں ماں کا پیار نہ ملا۔ وہ ساری عمر اپنی محبوبائوں میں ماں کا پیار تلاش کرتا رہا۔ فرانسیسی ناول نگار گستائو فلابیئر کے ساتھ الٹا حساب ہوا۔ فلابیئر کی ماں نے اسے اتنا پیار دیا، اتنی توجہ دی کہ فلابیئر کی زندگی برباد کر دی اور ساری عمر ماں کی بغل میں سمٹ کر بیٹھا رہا۔ نہ کسی عورت سے شادی کر سکا، نہ کھل کے محبت کر سکا۔ اگر کبھی شادی کے لئے دل نے رضا مندی ظاہر بھی کی تو محبوبہ کو چھوڑ کر ماں کے پاس چلا آیا۔ ماں اس کی کمزوری بن گئی۔ کھانا، پینا، بیٹھنا، سونا، جاگنا، سب کچھ ماں کے اشارے پر کرتا تھا۔ گائوں سے کبھی پیرس گیا، اپنی محبوبہ سے ملا۔ ماں یاد آ گئی تو پیرس سے بھاگ کر گائوں چلا آیا۔ ایک بار اس کی شاعر محبوبہ نے اس سے کہا:’’تمہاری ماں تمہاری ایسے دیکھ بھال کرتی ہے جیسے تم کوئی کنواری لڑکی ہو۔‘‘ یہی حال ترگنیف کا تھا لیکن اس نے اپنی ماں سے کھل کر اختلاف کیا۔ اس کی ماں بہت بڑی جاگیر کی وارث تھی۔ اس کی جاگیر میں 5000غلام (Serfs)تھے۔ ان پر وہ دل کھول کر ظلم کرتی تھی۔ ہلکی سی غلطی پر انہیں کوڑوں سے مارتی۔ ترگنیف کو ماں کی اس عادت سے نفرت تھی۔ یہ نفرت ساری زندگی اس کے ساتھ رہی۔ وہ ماں سے اختلاف کرتا رہا۔ وہ اپنے غلاموں کو انسانی حقوق دینا چاہتا تھا۔ ماں اس پر رضا مند نہ تھی۔ وہ اذیت پسند تھی۔ترگنیف اس کی اس عادت سے بیزار رہتاتھا۔ 1834ء میں ترگنیف کا باپ مر گیا جو روسی فوج میں اعلیٰ افسر تھا۔ ترگنیف کی ماں کے لیے اب کھلا میدان تھا‘ اس نے جی بھر کے غلاموں پر تشدد کیا۔ ترگنیف نے کبھی دبے الفاظ میں ایسا نہ کرنے کے لیے کہا تو ماں نے اسے جائیداد سے عاق کرنے کی دھمکی دے دی۔ ترگنیف کا ایک چھوٹا بھائی بھی تھا‘ وہ خاموشی سے ماں کی بات مانتا رہا مگر ترگنیف نے ماں کے ظالمانہ سلوک کے خلاف احتجاج جاری رکھا۔ 18ء اکتوبر 1818ء کو (Oral) شہر میں ایک امیر خاندان کے گھر پیدا ہوا۔ اس کی ماںVarvara Petrشاعرانہ اور ادبی ذوق رکھنے والی ایک رئیس اور اذیت پسند خاتون تھی۔ ترگنیف یورپ اور فرانس کے ادیبوں میں بہت مقبول تھا۔ فلابیئر کے ساتھ اس کے بہت گہرے مراسم تھے۔ ترگنیف اپنا زیادہ وقت فرانس ہی میں گزارتا تھا۔ روس کے ادیب، جن میں ٹالسٹائی بھی شامل تھا، اس کی اس حرکت کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ روس کے ادیبوں اور نقادوں کا خیال تھا کہ ترگنیف کو روس سے کوئی دلچسپی نہیں، وہ ذہنی طور پر ’’یورپ زدہ‘‘ ہو کر رہ گیا ہے لیکن یہ بات درست نہ تھی۔ ترگنیف کی تحریروں سے واضح ہے کہ اسے روس سے بہت محبت تھی۔ روس کے کسانوں اور دیہاتوں میں بسنے والے لوگوں کی حالت زار پر اس کا دل لہو روتا۔ روس کے ادیب صرف حسد میں یہ باتیں کرتے تھے کیونکہ یورپ اور دیگر ممالک میں ترگنیف اپنے تمام ہمعصر لکھنے والوں سے زیادہ مقبول تھا۔ ’’باپ اور بیٹے‘‘ (Fathers and Sons) ترگنیف کا عالمی شہرت یافتہ شاہکار ہے۔ یہ ناول 1862ء میں چھپا۔ اس ناول کا ہیرو بازووف 1860ء کی نسل کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ نوجوانNihilist تحریک سے تعلق رکھتا ہے جو مذہب سمیت تمام پرانے عقائد اور اداروں کو رَد کرتی ہے۔ مغربی یورپ میںاسے پہلے روسی ناول نگار کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا۔ ’’باپ اور بیٹے‘‘ دو نسلوں کی کہانی ہے۔ یہ ناول اس تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے جو 1830ء اور 1840ء کے درمیان ہو رہی تھی ۔یہ ناول روسی ادب کا پہلا جدید ناول سمجھا جاتا ہے۔ ’’باپ اور بیٹوں‘‘ کاسارا پلاٹ1859ء کے دو مہینوں میں ختم ہو جاتا ہے۔ (Arkady)اپنے دوست بازووف(Bazarov) کے ساتھ اپنے باپ نکولائی کی جاگیر میں واپس آتا ہے۔ Arkady کا دوست میڈیکل کا طالب ہے۔ وہ Nihilist خیالات کا مالک ہے۔ ہر عقیدے اور ہر پرانی بات کو رد کرتا ہے۔ Arkady کا باپ پرانے خیالات کا زمیندار ہے جو اپنے غلاموں سے اچھا سلوک کرتا ہے لیکن غلام اسے دھوکہ دیتے ہیں۔ اس کے ایک غلام عورت کے ساتھ تعلقات ہیں اور اس سے اس کا ایک بچہ بھی ہے جس کا نام Mithya ہے۔ نکولائی کا ایک بھائی پافل پیٹرووچ ہے جس کی زندگی ناکام معاشقے نے تباہ کر دی ہے، وہ خفیہ طور پر ایک خاتون(Fenichka) سے عشق کرتا ہے۔ (Arkady) اپنے دوست بازووف کے زیر اثر اس کی ہر بات مانتا ہے۔ پافل اور Arkady کا باپ نکولائی بازووف کی باتیں سنتے ہیں، دونوں نسلوں کے درمیان بحث جاری رہتی ہے۔ Arkady اور بازووف شہر میں جاتے ہیں‘ ان کی ملاقات ایک بیوہ عورتAnna Odints Ovs سے ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ اس کی بہنKatyaبھی رہتی ہے۔ بازووف Annaپر عاشق ہو جاتا ہے۔ Arkady بھی Anna کو دل دے بیٹھتا ہے لیکن محبت وہ Katya سے بھی کرتا ہے۔ بازووف اور Anna ایک ملاقات میں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ محبت خیالی چیز ہے۔ بازووفAnnaسے ملاقات کر کے اپنے ماں باپ کے پاس آ جاتا ہے۔ اپنی جاگیر میں آکر بیمار ہو جاتا ہے۔ بیماری بڑھتی ہے تو وہ Anna کو بلاتا ہے، وہ آ جاتی ہے اس کی حالت دیکھ کر افسوس کرتی ہے کہ اس نے بازووف کی محبت کا جواب پہلے کیوں نہیں دیا۔ بازووف مر جاتا ہے۔ Arkady کی جاگیر میں دو شادیوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ بیٹے Arkady کی شادیKatya سے ہوتی ہے اور Fenichka کی شادی نکولائی سے۔ پافل جاگیر چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور ناول بازووف کی قبر پر ختم ہوتا ہے۔ جہاں اس کے ماں باپ بیٹھے افسوس کر رہے ہیں: ’’بازووف کے ماں باپ تھکے قدموں سے چل رہے تھے۔ جب وہ قبر کی ریلنگ کے پاس پہنچے تو اپنے گھٹنوں پر جھک کر بیٹھ گئے اور بڑی دیر تک بیٹھے رہے اور روتے رہے۔ بیٹے کی قبر سے چند باتیں کیں، قبر پر پڑی مٹی صاف کی اور ایک بار پھر دعا مانگی۔ وہ اس کی یادوں کو اکٹھا کر کے اسے اپنے قریب محسوس کر رہے تھے۔‘‘ اس ناول کو روسی ادب میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ترگنیف بحیثیت شاعر تو نا کام رہا لیکن بحیثیت ناول نگار اس کی اہمیت مسلم ہے۔ اسے ’’ناول نگاروں کا ناول نگار‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس ناول کا ہیروبازووف ایک ایسی نسل کی نمائندگی کرتا ہے جو مر کر بھی زندہ رہی جس نے اپنے آپ کو اپنے خیالات کی بھینٹ چڑھا دیا، جس نسل کے خیالات ان کی بزرگ نسل نہ سمجھ سکی۔ وہ جب مر رہا ہے تو لکھتا ہے: "I was needed in Russia" لیکن پھر کہتا ہے: "Not it is Clear I was not needed" قدیم اور جدید نسلوں کے اس تصادم میں اگرچہ بازووف کو شکست ہو گئی لیکن وہ پھر بھی زندہ رہا اگرچہ اس کا نظریہ وہی تھا جو Nihilists کاتھا۔ ترگنیف بلاشبہ ایک ایسا ناول نگار تھا جس نے ہمیں بتلایا کہ زندگی کیا ہے۔ انسان کی مختلف پرتیں کیا ہیں۔ وہ کیا ہے جو تاریخ کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ وہ بھید کیا ہے جو انسانوں کو الجھن میں ڈال دیتا ہے۔ قاری اگر ترگنیف کے ناولوں کا مطالعہ کریں تو ان کا ان تمام چیزوں سے تعارف ہوتا ہے۔ ٭…٭…٭