intelligent086
02-04-2016, 05:35 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14767_33369504.jpg.pagespeed.ic.7lRfyBhRwx .jpg
احمد عقیل روبی
فرانسیسی ادب کے نامور لکھنے والوں میں یوں تو سب کا مزاج شروع ہی سے عاشقانہ تھا مگر بالزاک اور ستاں دال نے میدان عشق میں کچھ زیادہ ہی ناموری کمائی۔ بالزاک کو اخراجات پورے کرنے کے لیے ہر وقت پیسوں کی ضرورت رہتی تھی چنانچہ وہ کسی مال دار عورت سے عشق کرتا اور پھر اس سے قرض لیتا۔ اس نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ عشق کئے اور بیک وقت دو دو عورتوں سے عشق کئے تا کہ ایک سے قرض لے کر دوسری کا قرض چکا سکے۔ ستاں دال نے قرض لینے کی مصیبت تو نہ پالی مگر عشق کرنے میں وہ بالزاک سے کسی صورت میں پیچھے نہیں تھا۔ بے شمار عورتوں سے عشق کئے۔ بقول اس کے ایک دوست ’’میں نے اسے کبھی فارغ نہیں دیکھا ۔ جب ملا کسی عورت کے عشق میں مبتلا ہی ملا۔‘‘ ستاں دال دو مقاصد لے کر پیدا ہواتھا۔ اس کا پہلا مقصد ایک بڑا ڈراما نویس بننا تھا۔ اس کے لیے اس نے پیرس آکر بہت ڈرامے دیکھے۔ ہر تھیٹر میں گیا۔ بہت شوق سے ڈرامے دیکھے اور پڑھے مگر اسے کامیابی نہ ہوئی اوروہ بڑا ڈراما نگار نہ بن سکا۔ اس کا دوسرا مقصد محبت کرنا، عورتوں کو جذباتی جال میں پھنسانا تھا۔ اس کے لیے اس نے بڑی محنت کی، کبھی کامیاب ہوا، کبھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ محبت کے رموزو اسرار جاننے کے لیے اس نے بڑا (Home Work) کیا۔ دوستوں کو خط لکھ کر عورتوں کو رام کرنے کے طریقے دریافت کئے۔ ان سے مشورے لیے لیکن عمل اپنے ہی مشورے پر کیا اور وہ تھا ’’حملہ آور ہونا‘‘۔اس پر اس نے کئی بار عمل کیا، لیکن کبھی کبھی اسے منہ کی کھانا پڑی، اس کے سارے معاشقے شادی شدہ عورتوں سے تھے اور عورتیں بھی وہ جن کا پیرس کی سوسائٹی میں ایک مقام تھا اور جن کی سوشل حیثیت تھی اور مال و دولت رکھنے والی عورتیں تھیں، اس کے بائیوگرافرمیتھیو جوزف سن (Mattew Josphson) نے اپنی کتاب Stendhal, or the Pursuit of Happiness میں ان دلچسپ معاشقوں کا ذکر بہت خوبصورتی سے کیا ہے۔ ستاں دال 1783ء میں (Grendble) کے ایک خوشحال وکیل کے گھر پیدا ہوا۔ گھر والوں نے نام ہنری بائیل (Henri Beyle) رکھا مگر وہ ستاں دال کے قلمی نام سے لکھنے لگا۔ سات سال کی عمر میں اس کی ماں مر گئی اور اس کی دیکھ بھال کی ذمے داری اس کے باپ اور پھوپھی نے سنبھال لی۔ ستاں دال دونوں سے ناخوش تھا اور ساری زندگی ان کے برے سلوک کے گلے شکوے کرتا رہا۔ اسے اپنے پادری ٹیچر سے نفرت تھی۔ باپ سے گلہ تھا کہ وہ اسے وہ کتابیں پڑھنے کی اجازت نہیں دیتا تھا جو اس کے باپ کی نظر میں بچوں کے پڑھنے کے لیے مفید نہ تھیں۔ دوسرے بچوں سے اسے کھیلنے کی اجازت نہ تھی۔ اس کی پھوپھی بہت سخت عورت تھی۔ بقول ستاں دال ’’غصہ ہر وقت اس کے ناک پر بیٹھا رہتا تھا۔‘‘ ستاں دال دراصل لکھنے کے لیے کوئی بڑا مقصد لے کر پیدا نہیں ہوا تھا۔ اسے تو دراصل محبت کے کھیل کھیلنے کا جنون تھا اور بڑا ڈراما نگار بننے کی دھن اس کے سر پر سوار تھی۔ ستاں دال نے بہت لکھا لیکن سب کچھ اپنے بارے میں لکھا۔ سفر نامے لکھے، خط لکھے، 500صفحات کی اپنی زندگی کی تفصیل لکھی اور اس میں سچ بولنے کی انتہا کر دی۔ جب ستاں دال مرا تو پیرس کے صرف دو اخباروں نے چھوٹی سی خبر دی۔ تین آدمی جنازے کے ساتھ گئے۔ ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے ستاں دال کو فراموش کرنے میں زیادہ دن نہیں لگیں گے۔ ستاں دال کے ابتدائی کام پر مشہور نقاد سینٹ بیو(Sainte Beuve) نے دو ایک مضمون لکھے۔ اس کے ناولوں کے بارے میں بات نہیں کی اگر کی تو یہی کہ ناول کے کردار کٹھ پتلیاں ہیں، ان کی تشکیل میں لاپرواہی سے کام لیا گیا ہے۔ اس کے ناول The Charter House of Parma پر بالزاک ، (Balzac) نے دو مضامین لکھے جن میں ستاں دال کی فنی صلاحیتوں کو بے حد سراہا گیا لیکن ان مضامین کی اہمیت کو بھی یہ کہہ کر کم کر نے کی کوشش کی گئی کہ بالزاک نے ستاں دال سے تین ہزار فرانک ادھار لئے تھے چنانچہ اس احسان کے بدلے میں یہ مضامین لکھے گئے ہیں۔ (ستاں دال کے مرنے کے بعد اس کے کاغذات سے ایک چٹ برآمد ہوئی تھی جس پر تحریر تھا کہ ستاں دال نے تین ہزار فرانک ادھار دئیے ہیں)۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ مگر ستاں دال کی اپنی پیش گوئی بالکل درست ثابت ہوئی۔ ستاں دال نے (Armance) کی پذیرائی نہ ہونے پر کہا تھا :’’میری تحریروں کو سمجھنے کے لیے قارئین کو 1880ء تک انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘ 1880-1900ء کے دوران ایک گمنام پروفیسر نے ستاں دال کے فن پر اپنے طالب علموں کو ایک بھر پور لیکچر دیا اور اس کے ناولوں کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ستاں دال فرانس کا عظیم ناول نگار ہے مگر افسوس اسے پڑھا نہیں گیا۔ اس کے طالب علموں میں ایک طالب علم ایسا بھی تھا جس نے بعد میں ایک نقاد کی حیثیت سے بڑا نام کمایا۔ اس کا نام ٹین تھا۔ ٹین نے ستاں دال کے ناولوں سے تفصیلی جائزہ لیا اور اسے انسانی نفسیات کا سب سے بڑا پارکھ قرار دیا۔ اسے ایک ایسا ناول نگار قرار دیا جس نے انسانوں کے اندر اتر کر انسانوں کی الجھی نفسیات کے دھاگے سلجھائے اور نفسیاتی کشمکش کو نیچرل انداز میں بیان کیا۔ ٹین کے بعد بے شمار نقادوں نے ستاں دال کی طرف توجہ دی اورستاں دال عالمی شہرت اختیار کر گیا۔ ٹین(Tain) نے ستاں دال کو فرانسیسی ادب کے تین بڑے ناول نگاروں میں سے ایک قرار دیا ہے اور یہ بات درست بھی ہے۔ ستاں دال کا پہلا ناول(Armance) تھا جس کی 11 سال کے عرصے میں صرف 17 کاپیاں فروخت ہوئیں۔ اس ناول کا پلاٹ اور مرکزی خیال ستاں دال نے اپنے زمانے کے ایک مصنف Henri de Latovche کے ناول سے لیا تھا۔ پہلے ہیرو کا نام بھی وہی رکھا، اپنی طرف سے ستاں دال نے نفسیاتی حقیقت کا عنصر شامل کر دیا۔ اس کی دیگر تصانیف میں۔ 1) Abbess of Castro 2) Memories of a Tourist 3) The Life of Henri Brulard اور افسانوں کی ایک کتاب شامل ہے۔ اس کے مقبول ترین ناول دو ہیں۔ 1) The Charter House of Parma 2) Scarlet and Black ستاں دال نے اٹلی کے قیام کے دوران مصوری پر کتاب لکھی اور موسیقی پر بھی ایک کتاب لکھی۔ اس کی اہم ترین کتاب (On love) محبت کے فلسفے پر لکھی ایک اہم دستاویز ہے جس میں محبت کی اقسام اور انسانی نفسیات کا بھر پور مشاہدہ اور تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ سائمن ڈی بوار(Saimon de Beauvoir) نے اپنی کتاب (The Second Sex) میں ستاں دال کی اس کتاب کی بہت تعریف کی ہے۔ ستاں دال کا ناولScarlet and Black دنیا کے بڑے ناولوں میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ بالزاک اور زولانے اسے اسلوب کی بنا پر نیچر لزم کا امام قرار دیا ہے اور نفسیاتی حقیقت نگاری کا سب سے بڑا ناول نگار کہا ہے۔
احمد عقیل روبی
فرانسیسی ادب کے نامور لکھنے والوں میں یوں تو سب کا مزاج شروع ہی سے عاشقانہ تھا مگر بالزاک اور ستاں دال نے میدان عشق میں کچھ زیادہ ہی ناموری کمائی۔ بالزاک کو اخراجات پورے کرنے کے لیے ہر وقت پیسوں کی ضرورت رہتی تھی چنانچہ وہ کسی مال دار عورت سے عشق کرتا اور پھر اس سے قرض لیتا۔ اس نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ عشق کئے اور بیک وقت دو دو عورتوں سے عشق کئے تا کہ ایک سے قرض لے کر دوسری کا قرض چکا سکے۔ ستاں دال نے قرض لینے کی مصیبت تو نہ پالی مگر عشق کرنے میں وہ بالزاک سے کسی صورت میں پیچھے نہیں تھا۔ بے شمار عورتوں سے عشق کئے۔ بقول اس کے ایک دوست ’’میں نے اسے کبھی فارغ نہیں دیکھا ۔ جب ملا کسی عورت کے عشق میں مبتلا ہی ملا۔‘‘ ستاں دال دو مقاصد لے کر پیدا ہواتھا۔ اس کا پہلا مقصد ایک بڑا ڈراما نویس بننا تھا۔ اس کے لیے اس نے پیرس آکر بہت ڈرامے دیکھے۔ ہر تھیٹر میں گیا۔ بہت شوق سے ڈرامے دیکھے اور پڑھے مگر اسے کامیابی نہ ہوئی اوروہ بڑا ڈراما نگار نہ بن سکا۔ اس کا دوسرا مقصد محبت کرنا، عورتوں کو جذباتی جال میں پھنسانا تھا۔ اس کے لیے اس نے بڑی محنت کی، کبھی کامیاب ہوا، کبھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ محبت کے رموزو اسرار جاننے کے لیے اس نے بڑا (Home Work) کیا۔ دوستوں کو خط لکھ کر عورتوں کو رام کرنے کے طریقے دریافت کئے۔ ان سے مشورے لیے لیکن عمل اپنے ہی مشورے پر کیا اور وہ تھا ’’حملہ آور ہونا‘‘۔اس پر اس نے کئی بار عمل کیا، لیکن کبھی کبھی اسے منہ کی کھانا پڑی، اس کے سارے معاشقے شادی شدہ عورتوں سے تھے اور عورتیں بھی وہ جن کا پیرس کی سوسائٹی میں ایک مقام تھا اور جن کی سوشل حیثیت تھی اور مال و دولت رکھنے والی عورتیں تھیں، اس کے بائیوگرافرمیتھیو جوزف سن (Mattew Josphson) نے اپنی کتاب Stendhal, or the Pursuit of Happiness میں ان دلچسپ معاشقوں کا ذکر بہت خوبصورتی سے کیا ہے۔ ستاں دال 1783ء میں (Grendble) کے ایک خوشحال وکیل کے گھر پیدا ہوا۔ گھر والوں نے نام ہنری بائیل (Henri Beyle) رکھا مگر وہ ستاں دال کے قلمی نام سے لکھنے لگا۔ سات سال کی عمر میں اس کی ماں مر گئی اور اس کی دیکھ بھال کی ذمے داری اس کے باپ اور پھوپھی نے سنبھال لی۔ ستاں دال دونوں سے ناخوش تھا اور ساری زندگی ان کے برے سلوک کے گلے شکوے کرتا رہا۔ اسے اپنے پادری ٹیچر سے نفرت تھی۔ باپ سے گلہ تھا کہ وہ اسے وہ کتابیں پڑھنے کی اجازت نہیں دیتا تھا جو اس کے باپ کی نظر میں بچوں کے پڑھنے کے لیے مفید نہ تھیں۔ دوسرے بچوں سے اسے کھیلنے کی اجازت نہ تھی۔ اس کی پھوپھی بہت سخت عورت تھی۔ بقول ستاں دال ’’غصہ ہر وقت اس کے ناک پر بیٹھا رہتا تھا۔‘‘ ستاں دال دراصل لکھنے کے لیے کوئی بڑا مقصد لے کر پیدا نہیں ہوا تھا۔ اسے تو دراصل محبت کے کھیل کھیلنے کا جنون تھا اور بڑا ڈراما نگار بننے کی دھن اس کے سر پر سوار تھی۔ ستاں دال نے بہت لکھا لیکن سب کچھ اپنے بارے میں لکھا۔ سفر نامے لکھے، خط لکھے، 500صفحات کی اپنی زندگی کی تفصیل لکھی اور اس میں سچ بولنے کی انتہا کر دی۔ جب ستاں دال مرا تو پیرس کے صرف دو اخباروں نے چھوٹی سی خبر دی۔ تین آدمی جنازے کے ساتھ گئے۔ ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے ستاں دال کو فراموش کرنے میں زیادہ دن نہیں لگیں گے۔ ستاں دال کے ابتدائی کام پر مشہور نقاد سینٹ بیو(Sainte Beuve) نے دو ایک مضمون لکھے۔ اس کے ناولوں کے بارے میں بات نہیں کی اگر کی تو یہی کہ ناول کے کردار کٹھ پتلیاں ہیں، ان کی تشکیل میں لاپرواہی سے کام لیا گیا ہے۔ اس کے ناول The Charter House of Parma پر بالزاک ، (Balzac) نے دو مضامین لکھے جن میں ستاں دال کی فنی صلاحیتوں کو بے حد سراہا گیا لیکن ان مضامین کی اہمیت کو بھی یہ کہہ کر کم کر نے کی کوشش کی گئی کہ بالزاک نے ستاں دال سے تین ہزار فرانک ادھار لئے تھے چنانچہ اس احسان کے بدلے میں یہ مضامین لکھے گئے ہیں۔ (ستاں دال کے مرنے کے بعد اس کے کاغذات سے ایک چٹ برآمد ہوئی تھی جس پر تحریر تھا کہ ستاں دال نے تین ہزار فرانک ادھار دئیے ہیں)۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ مگر ستاں دال کی اپنی پیش گوئی بالکل درست ثابت ہوئی۔ ستاں دال نے (Armance) کی پذیرائی نہ ہونے پر کہا تھا :’’میری تحریروں کو سمجھنے کے لیے قارئین کو 1880ء تک انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘ 1880-1900ء کے دوران ایک گمنام پروفیسر نے ستاں دال کے فن پر اپنے طالب علموں کو ایک بھر پور لیکچر دیا اور اس کے ناولوں کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ستاں دال فرانس کا عظیم ناول نگار ہے مگر افسوس اسے پڑھا نہیں گیا۔ اس کے طالب علموں میں ایک طالب علم ایسا بھی تھا جس نے بعد میں ایک نقاد کی حیثیت سے بڑا نام کمایا۔ اس کا نام ٹین تھا۔ ٹین نے ستاں دال کے ناولوں سے تفصیلی جائزہ لیا اور اسے انسانی نفسیات کا سب سے بڑا پارکھ قرار دیا۔ اسے ایک ایسا ناول نگار قرار دیا جس نے انسانوں کے اندر اتر کر انسانوں کی الجھی نفسیات کے دھاگے سلجھائے اور نفسیاتی کشمکش کو نیچرل انداز میں بیان کیا۔ ٹین کے بعد بے شمار نقادوں نے ستاں دال کی طرف توجہ دی اورستاں دال عالمی شہرت اختیار کر گیا۔ ٹین(Tain) نے ستاں دال کو فرانسیسی ادب کے تین بڑے ناول نگاروں میں سے ایک قرار دیا ہے اور یہ بات درست بھی ہے۔ ستاں دال کا پہلا ناول(Armance) تھا جس کی 11 سال کے عرصے میں صرف 17 کاپیاں فروخت ہوئیں۔ اس ناول کا پلاٹ اور مرکزی خیال ستاں دال نے اپنے زمانے کے ایک مصنف Henri de Latovche کے ناول سے لیا تھا۔ پہلے ہیرو کا نام بھی وہی رکھا، اپنی طرف سے ستاں دال نے نفسیاتی حقیقت کا عنصر شامل کر دیا۔ اس کی دیگر تصانیف میں۔ 1) Abbess of Castro 2) Memories of a Tourist 3) The Life of Henri Brulard اور افسانوں کی ایک کتاب شامل ہے۔ اس کے مقبول ترین ناول دو ہیں۔ 1) The Charter House of Parma 2) Scarlet and Black ستاں دال نے اٹلی کے قیام کے دوران مصوری پر کتاب لکھی اور موسیقی پر بھی ایک کتاب لکھی۔ اس کی اہم ترین کتاب (On love) محبت کے فلسفے پر لکھی ایک اہم دستاویز ہے جس میں محبت کی اقسام اور انسانی نفسیات کا بھر پور مشاہدہ اور تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ سائمن ڈی بوار(Saimon de Beauvoir) نے اپنی کتاب (The Second Sex) میں ستاں دال کی اس کتاب کی بہت تعریف کی ہے۔ ستاں دال کا ناولScarlet and Black دنیا کے بڑے ناولوں میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ بالزاک اور زولانے اسے اسلوب کی بنا پر نیچر لزم کا امام قرار دیا ہے اور نفسیاتی حقیقت نگاری کا سب سے بڑا ناول نگار کہا ہے۔