PDA

View Full Version : ’’میں‘‘ کے جال سے’’ہم‘‘ کے آسمان تک



intelligent086
02-03-2016, 05:48 AM
’’میں‘‘ کے جال سے’’ہم‘‘ کے آسمان تک
مہرین فاطمہ

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2016/02/443054-me-1454304959-952-640x480.jpg


گذشتہ کچھ دنوں سے کچھ گھنٹوں پہلے تک ایسا لگ رہا تھا کہ ہر شام کچھ مضطرب بلکہ نوحہ کُناں من کے آنگن میں وحشت کے ہیولے لہراتی آتی ہے۔ ہر روز دل بوجھل کر دیتی ہے۔ ذہن پر مایوسی کے گہرے کثیف سائے سانسیں گھونٹتے سے محسوس ہوتے ہیں۔
اس بے کلی کا کوئی خاص سبب نہیں تھا، مگر جب من میں کوئی آگ نہ ہو، سوچ کی کوئی راہ نہ ہو اور زندگی کے مقصد کے آگے دُھند گہری ہوجائے تو انسان کے پاس بہانوں کا انبار لگ جاتا ہے اور وہ حسبِ ضرورت و ذائقہ اس میں سے وجوہات تراشتا ہے، اور اپنی ذہنی تنزّلی اور ضمیر کے کچوکوں کو متوازن رکھنے کی فضول کوشش کرتا ہے۔ یہ ضرر رساں کاوش اسے بے مقصدیت، بے زاری اور گمراہیوں کی مزید اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیتی ہے۔
ایسا پہلی بار نہیں تھا کہ مجھ پر یہ عالم پہلی ہی بار گذرا تھا مگر اس بار ذہن کی تاریکی بہت گہری ہوگئی تھی۔ خود کو ایسی تنہائی کے سُپرد کردیا تھا، جس کے آگے ہمت جواب دے رہی تھی۔ دل کی دھڑکن پر موت کی چاپ کا گمان ہونے لگا۔ یکایک لگنے لگا کہ جب نہ رزق کی خواہش رہی، نہ روزی میں برکت رہی، نہ رشتوں سے اُلفت باقی ہے، نہ کسی کے ساتھ کی خواہش تڑپاتی ہے تو یقیناً یہ اس زندگی کا آخری پڑاؤ ہے۔ کبھی دل یہ دُعا کرتا کہ ملک الموت ہی کوئی بہانہ کردے، مگر انتظار کی تاب نہ آتی تو جی چاہتا خود ہی یہ ڈور توڑ دی جائے، بس نہیں چلتا تو من بھر آتا۔ سسکتے سسکتے رات کے کسی پہر آنکھ لگ گئی۔ صبح منہ اندھیرے آنکھ کھلی مگر سوچ کا اندھیرا اور بھی گہرا تھا۔
روشنی میں بھی کسی نئے راستے کی کوئی امید نہیں تھی۔ بستر میں ہی کئی گھنٹے گذر گئے۔ بہت سوچا کیا ہوگیا ہے، اور اب کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ؟ رو رو کر دل ہلکان ہوگیا اور دماغ بھاری۔ اچانک ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندا، میں نے کیا کیا ہے اپنے ساتھ؟ جانے انجانے خدشے، واہمے اور خواہشیں میں نے ہی اپنے اندر بوئی تھیں۔ انہی بے قراریوں نے میری سوچ کو بےلگام گھوڑے کی طرح میری ہی گرفت سے باہر کردیا۔ میرا عمل میرے مقصد کے تابع نہ رہ کر میری خواہش کا غلام ہوگیا۔ بے نام راحت اور وقتی لذّتوں کی خواہشات کی تکمیل نے مسلسل تکلیف کے ببول بو دیئے تھے۔ ان رکاوٹوں میں زحمت تو تھی ہی وقت اور توانائی کا زیاں بھی تھا۔
ہماری خواہشیں دراصل ہماری فکر کا ثمر ہوتی ہیں اور شاید فکر کا ہونا، نہ ہونا یا فکر کا مناسب ہونا یا نہ ہونا، خواہشوں کا جال بناتا چلا جاتا ہے۔ جیسی فکر ہوگی، ویسی خواہش ہوگی، جیسی خواہش ہوگی ویسا عمل ہوگا اور جیسا عمل ہوگا ویسا ہی تو نتیجہ برآمد ہوگا۔ ذہن کی کثیف سیاہی سے اُمید کی پو پھوٹی۔ بابِ علم سے فکر و دانش کا معطر جھونکا آیا۔ نظروں کے آگے بچپن میں بنائی ڈائری میں درج حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قول پر مشتمل وہ کچھ سطریں ابھر کر آگئیں، فرماتے ہیں کہ،

’’عقلیں افکار کی امام ہیں اور افکار قلوب کے، قلوب حواس کے امام اور حواس اعضاء کے امام ہیں‘‘۔
گویا انسانی اعضا وہی عمل بجا لانے کے پابند ہیں جن کی خواہش انہیں اس عمل کی قدرت بخشے۔ یہ خواہشیں انسان کی فکر و سوچ کا پیش خیمہ ہیں اور اس فکر و سوچ کا معیار عقل و حکمت سے رجوع کرنا ہے۔ یعنی کیا کہنے اس ربِ جلیل کے جو منقلب القلوب اور مسبب الاسباب ہے۔ جس وقت انسان اپنی عقل و حکمت سے رجوع کرنے کا خواہش مند ہو، اس کی عقل خدائے بزرگ و برتر پر ایمان کو مضبوط کرکے اس کے مقصدِ حیات کے راز منکشف کرنا شروع کردیتی ہے۔ عقلیں افکار کے درجات بلند کرکے خواہشات کے معیار عظیم تر کردیتی ہیں اور انسان میں ان اعمال کی انجام دہی کا حوصلہ اور جذبہ بیدار ہوتا ہے جو انسانیت کی فلاح اور خود اس کی مطمئن ذہنی جِلا کی راہ ہے۔ یہ راہ بے سمت نہیں بلکہ متعین منزل کی جانب گامزن ہے۔ جتنا بڑا حوصلہ، اتنی روشن راہ اور جس قدر واضح راستہ، اتنی ہی عمدہ منزل، اس کی فلاح اور کامیابی پر مہر ہے۔ یہ مہر ان کامیابیوں پر ثبت نہیں ہوتیں جو فقط ’’میں‘‘ کی تسکین کے لئے کی جائیں۔ وہی کوشش دونوں جہانوں میں ثمر آور ہوتی ہے جس کا محور ’’میں‘‘ سے ’’ہم‘‘ کی ذمہ داری اور اس کی انجام دہی کے لئے کی جانے والی لگن ہو۔ ’’میں‘‘ کی دوڑ میں انسان تھک بھی جاتا ہے اور گمراہ بھی ہوجاتا ہے۔ کیا خوب الہامی شعر کہا ہے مخدوم محی الدین مرحوم نے کہ،

حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کا ساتھ لے کے چلو
زمانے کا نصیب چلنا ہے، اس کی منزل متعین ہے، جو زمانے کو ساتھ لے کے چلنے کا جذبہ رکھے، اس کی قسمت کے طفیل ہی سہی نہ بھٹکے گا، نہ بہکے گا اور نہ ہارے گا۔ ’’میں‘‘ کا مقصد فوت ہوجاتا ہے، ’’ہم‘‘ حیاتِ جاودانی ہے۔