PDA

View Full Version : نمکین شاعری (نمک کا شاعری میں تذکرہ)



intelligent086
02-02-2016, 06:07 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/14749_90788893.jpg


غیر چھڑکے ہے زخمِ دل پہ نمک شورِ الفت میں بھی مزا نہ رہا ٭ جو نمک تجھ میں ہے کہاں سونے میں کیوں نہ پھیکا ہو رنگ سونے کا (اس شعر میں نمک سے مراد ملاحت اور سانولا پن ہیں) ٭ جس نے لذت اٹھائی زخمِ تیغِ عشق کی کب وہ مرہم داں کو ڈھونڈے ہے نمکداں چھوڑ کر ٭ بے سبب کیونکر لبِ زخم پہ فغاں ہو گا شورِ محشر سے بھرا اس کا نمکداں ہو گا ٭ دل پر مرے چھڑک کے نمک مرچ یار نے بھونا ہے کس مزے سے کلیجا کباب کا ٭ اے ظہیرؔ! اپنے سخن میں کیوں نہ ہو لطفِ زباں ہم نمک پروردۂ شاہِ جہاں آباد ہیں ٭ یاد ہیں غالبؔ تجھے وہ دن کہ وجدِ ذوق میں زخموں سے گرتا تو میں پلکوں سے چنتا تھا نمک ٭ نمک کلام میں ہو دل مزے اٹھاتا ہے یہ شاعری نہیں کچھ قدرداں پر موقوف (یہاں نمک سے مراد کلام کا لطف کے ہیں) ٭ زخم پر چھڑکیں کہاں طفلانِ بے پروا نمک کیا مزہ ہوتا اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک ٭ اے نمک پاش! خدا کے لیے چٹکی نہ رکے کوئی دم اور تڑپنے کا مزہ رہنے دے ٭ کباب لختِ دل میرے نمک سودِ محبت ہیں تمہارے واسطے لایا ہوں یہ تحفہ ذرا چکھو (نمک سودکا مطلب ہے جس چیز پر نمک چھڑکا گیا ہو) ٭ چکھا کے خوان کا اپنے نمک توکل نے زباں کو مزئہ لقمۂ حلال دیا ٭ بھرے نمک مرے زخموں میں کس لیے قاتل کہ ذبح کرکے نہ سمجھے نمک حلال مجھے ٭ بوسہ دے دیجئے نعلِ نمکیں کا مجھ کو جاں نثار ایسے نمک خوار ہوا کرتے ہیں ٭ زخموں پر مرے مصحفیؔ اب قصد کیا ہے اس لب کے تبسم نے نمکدان شکنی کی ٭ گرمی سے مہر حُسن کی دونا ہوا نمک صورت تری سلونی ہوئی سانولی ہوئی ٭ یہ نمک کا پاس ہے کہ کہتے ہیں میرے زخم بھر پایا ہم نے سب ہمیں آرام ہو گیا ٭ نہ بولو لبوں کا نظارہ بہت ہے ہمیں تو نمک کا سہارا بہت ہے (محمد نعیم مرتضیٰ کی کتاب ’’ کھیوڑہ: نمک کا شہر‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭