PDA

View Full Version : کانا باتی (داستان گوئی)



intelligent086
02-02-2016, 05:43 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14752_57192802.jpg.pagespeed.ic.v4nXrmBLdS .jpg


میر باقر علی
بدن کی پرورش غذا پر موقوف ہے اور غذا کا اچھا ہونا زبان اور منہ کے اچھے ہونے پر موقوف ہے۔ اسی طرح روح کی غذا کانوں کے اچھا ہونے کے متعلق ہے۔ اگر دانت صاف نہ ہوں یا دانتوں کی جڑوں میں پیپ ہو، جس کا سوائے دانت نکلوانے کے کوئی علاج ہی نہیں، یا زبان پر زخم یا منہ میں یا زبان میلی ہو کہ جو معدے کی خرابی کی دلیل ہے، ان صورتوں میں غذا جزوِ بدن نہ بنے گی۔ اسی طرح سے اگر کان خراب ہوں اور کانوں کی خرابی کانوں کا میلا ہونا، جس سے ہزاروں امراض پیدا ہونے کا اندیشہ ہے یا کانوں میں خشکی کا ہونا کہ جو زیادہ ہو کر سننے میں خرابی پیدا کرے یا کانوں کو بری باتوں کے سننے کا عادی بنانا، جن کانوں کو بری باتوں کے سننے کی عادت ہو جاتی ہے، تو ان کانوں کو اچھی باتیں بھی بری معلوم ہوتی ہیں اور بری باتیں سن سن کر کان ایسے خراب ہو جاتے ہیں کہ روح کو بجائے غذا کے زہر پہنچتا ہے۔ اب کانوں کو قوت دار بنانے کے واسطے علم سے بہتر نہ کوئی قوت ہے، نہ کوئی غذا اور نہ کوئی دوا۔ دنیا میں آکر جو لوگ کان نہیں بناتے ان کی روح کمزور ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے عمریں چھوٹی ہو جاتی ہیں۔ جب آدمی پیدا ہوتا ہے تو کان اور زبان دونوں کورے ہوتے ہیں۔ زبان کو جب تک سمجھا نہ دیا جائے زبان اپنا کام ہی نہیں کرتی، یعنی بولتی ہی نہیں اور کانوں کو نہ سمجھنے کی ضرورت ہے اور نہ سمجھانے کی۔ یہ تو دنیا میں مادرز اد اپنا کام ہی کرتے ہوئے پیدا ہوتے ہیں، بلا سیکھے سکھائے اور آنکھ بھی گو قریب قریب ایسی ہی ہے ،لیکن آنکھوں میں اتنی کمی ہے کہ جب تک کھلی ہے (کذا) اپنا کام کر رہی ہے (کذا) اور بند ہوئیں تو سب کام بند، لیکن کان ہر حالت میں اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ بس ایسے کامی عضو کو ہمارا پہلا فرض ہے کہ قوت دار اور کام کا بنائیں۔ کان کی قوت اور صحت کے متعلق لکھ آیا ہوں۔ اگر دنیا میں ہم کو اچھی زندگی بسر کرنے کو جی چاہتا ہے ،تو بے کانوں کو اچھا بنائے گزر نہیں سکتی۔ کان سن کر اعضاء کی حفاظت کرتے ہیں اور تمام اعضا ء اپنی معلومات سے کانوں کی قوت بڑھاتے ہیں اور زبان کانوں کی ترجمان ہے۔ زبان کانوں کی مرضی کے موافق اظہار کرتی ہے۔ بس اگر کان اچھے ہیں ،تو تمام اعضا ء اچھے اور یہ برے تو سب اعضا ء خراب۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں آئو تو پہلے اپنے کان بنائو۔ گو دماغ کا مرتبہ اور قلب کے تمام اعضاء سے اونچا ہے اور بزرگ ہے۔ اگر دماغ کے کام چھیڑے جائیں تو پھر سمیٹے نہیں سمٹیں گے۔ مجھے تو اس وقت کانوں سے بحث ہے۔ اس بحث کو غور سے سنور اور اس کے عامل بنو۔ تم دنیا میں جب تک کام نہ کرو گے ،قدرت تم کو کوئی حق نہ دے گی۔ قدرت تو عالم ہے، جاہل نہیں۔ قدرت تو نہایت پرکھ پرکھ کر حق دیتی ہے اور حق دار کو محروم نہیں کرتی۔ بس جہاں تک ہو سکے حق دار بنو، محنت کرو کیونکہ ؎ حقیقت جو محنت کی پہچانتے ہیں اسے کیمیا سے سوا جانتے ہیں بڑے کام کی چیز ہے کام کرنا جہاں کو اسی کام سے رام کرنا وہی لوگ پاتے ہیں عزت زیادہ جو دنیا میں کرتے ہیں محنت زیادہ کانوں کو صاف رکھو۔ کبھی کبھی رفع خشکی کے واسطے تیل ڈالنا، کانوں کو سخت اور کرخت آواز سے محفوظ رکھنا، کان میں لوہے کی سلائی یا تنکا وغیرہ ڈالنے سے پرہیز کرنا۔ اگر رطوبت کی کثرت ہو تو نیم کی کونپلوں کو پانی میں جوش دے کر بھپارا دینا یا اسی پانی سے آہستہ آہستہ پچکاری کان میں دینا۔ اس کے بعد کان کو جب خشک ہو جائے، تو کوئی روغن مفید، جو کان کے واسطے اچھا ہو، ڈالنا مناسب ہے۔ جتنے اعضاء ہیں ان میں سے جس عضو سے کام لو تو اس میں زیادہ کام کرنے کی قابلیت ہو جاتی ہے اور وہ عضو کام کرنے کا عادی بن جاتا ہے، لیکن محنت کے بعد اس عضو کو، جس سے کام لیا جائے، آرام دینا بھی نہایت ضروری ہے ورنہ وہ عضو بجائے قوت دار ہونے کے کمزور ہو جاتا ہے اور ہر عضو کی کسرت اور اس کے آرام کا طریقہ جداگانہ ہی سا ہے اور کسرت وہ شے ہے کہ تمام امراضِ بدن کو دور کرتی ہے، تندرست بنا دیتی ہے۔ مثال اس کی یہ ہے کہ مرضِ جذام یا کوڑھ، یہ تو قریب قریب لا علاج ہی سے ہیں، لیکن کسرت سے اچھے ہو جاتے ہیں۔ اب مرضِ جذام پیدا ہوا کیوں؟ جب خون میں کثافت بڑھ گئی جذامی سے ایسی کسرت کرانی، جس سے اس کو پسینہ آیا اور پسینہ جب آتا ہے تو خون کی کثافت کو دور کرتا ہے۔ علاوہ اس کے کسرت سے جس عضو کو جیسا چاہو بن سکتا ہے۔ یہ بحث میرے رسالے سے دُور ہے، ورنہ کسرت سے بحث کی جائے تو نہایت کام کی شے ہے۔ (میر باقر علی داستان گو کی داستان کانا باتی، مرتب: محمد سلیم الرحمن)