intelligent086
02-01-2016, 04:38 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14739_50424163.jpg.pagespeed.ic.684s_XyJ7B .jpg
(۱ ) آبنوس کا کندہ : کندہ یعنی بھاری ٹکڑا۔آبنوس ایک سخت اور سیاہ قسم کی لکڑی کو کہتے ہیں، اسی مناسبت سے سیاہ فام( بالکل کالے) آدمی کو آبنوس کا کندہ کہتے ہیں۔ ( ۲ ) آب آب کر مر گئے، سرہانے دَھرا رہا پانی : اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے، کوئی شخص ہندوستان سے باہر گیا اور وہاں سے فارسی سیکھ کر واپس آیا۔ اپنی فارسی دانی پر اس کو بہت ناز تھا۔اتفاق سے وہ بیمار ہو گیا اور طبیعت بہت خراب ہو گئی۔ وہ پیاس کی شدت میں ’’آب آب‘‘ کہہ کر پانی مانگتا رہا، لیکن کوئی اس کی بات نہ سمجھ سکا اور اسی حالت میں اس کا انتقال ہو گیا حالانکہ پانی اس کے سرہانے ہی رکھا ہوا تھا۔ اس مناسبت سے گویا کہاوت میں تنبیہ ہے کہ گفتگو ہمیشہ ایسی زبان میں کرنی چاہیے جس کو لوگ سمجھتے ہوں۔ اپنی قابلیت کے زعم میں ایسی زبان استعمال کرنا سرا سر نادانی ہے، جس سے لوگ نا واقف ہوں۔ (۳) آ بنی سر اپنے، چھوڑ پرائی آس : آ بنی سر اپنے یعنی مصیبت اپنے سر پر آ ہی پڑی ہے۔ ایسے میں کسی اور سے امید لگانی بیکار ہے، جو کچھ کرنا ہے خود ہی کرنا اور بھگتنا ہے۔ (۴) آ بیل مجھے مار : کسی مصیبت کو جان بوجھ کر اپنے سر پر بلانا ایسا ہی ہے جیسے راہ چلتے بیل کو چھیڑ کر حملہ کی دعوت دی جائے۔ اس حوالے سے یہ کہاوت حماقت یا کم عقلی کا استعارہ ہے۔ (۵) آب آید، تیمم برخواست : پانی اگر مل جائے تو پھر تیمم کرنے کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ اجازت۔گویا اگر کسی رعایت کی وجہ ہی باقی نہ رہے، تو پھر وہ رعایت بھی اٹھ جاتی ہے یا زیادہ اہم چیز مل جائے، تو کم اہم چیز کی مانگ اور ضرورت نہیں رہ جاتی۔ ( ۶ ) آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے : بڑے کارنامے آبِ زر یعنی سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔ ( ۷ ) آپ جانیں اور آپ کا ایمان : یعنی آپ اپنی نیت دیکھ کر خود ہی فیصلہ کریں کیونکہ نتائج کے بھی آپ ہی ذمہ دار ہیں۔ اسی کہاوت کی ایک دوسری شکل ہے کہ ’’ آپ جانیں اور آپ کا کام۔‘‘ ( ۸ ) آپ سے آتی ہے تو آنے دو : یہ کہاوت ایسے موقع پر استعمال کی جاتی ہے جب کوئی شخص کسی نا جائز چیز کو اپنے لئے جائز قرار دینے کا حیلہ تلاش کر رہا ہو۔ اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے، ایک مولوی صاحب کے گھر میں پڑوسی کا مرغ آ گیا۔ ان کی بیوی نے مرغ پکڑ لیا اور ذبح کر کے پکا بھی لیا۔ جب مولوی صاحب شام کو کھانے پر بیٹھے تو مرغ دیکھ کر پوچھا کہ ’’یہ کہاں سے آیا؟ ‘‘ بیوی کے بتانے پر انہوں نے فرمایا کہ ’’یہ تو حرام ہے، بھلا میں کسی اور کا مال اس طرح نا جائز طور پر کیسے کھا سکتا ہوں ؟ ‘‘ بیوی نے جواب دیا کہ ’’ سو تو ٹھیک ہے، لیکن سالن تو ہمارے ہی پیسوں کا بنا ہوا ہے۔اس میں کیا قباحت ہے؟ ‘‘ مولوی صاحب کی سمجھ میں یہ بات آ گئی اور انھوں نے بیوی سے کہا کہ وہ ان کو صرف سالن نکال دے۔ بیوی نے ایسا ہی کیا، لیکن احتیاط کے باوجود ایک بوٹی پیالے سے لڑھک کر مولوی صاحب کی پلیٹ میں آ گری۔ بیوی نے اس کو نکالنا چاہا تو مولوی صاحب نے کہا کہ ’’ نہیں نہیں ! جو بوٹی آپ سے آتی ہے ،اس کو آنے دو۔ ‘‘ بیوی نے کہا کہ ’’ وہ مرغ بھی تو آپ سے ہی ہمارے گھر آ گیا تھا۔‘‘ مولوی صاحب کی نیت تو پہلے ہی ڈانوا ڈول تھی۔ فوراً بیوی کی بات پر راضی ہو گئے اور دونوں مفت کا مرغ ہضم کر گئے۔ (۹) آپ کھائے، بَلّی کو بتائے : کوئی شخص غلط کام تو خود کرے، لیکن اپنے آپ کو معصوم ظاہر کرنے کے لئے نام دوسروں کا لے، تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔ (۱۰) آپ میاں صوبیدار، گھر بیوی جھونکے بھاڑ : یعنی آپ خود تو شان سے بڑے آدمی بنے پھرتے ہیں، لیکن بیوی گھر میں خستہ حال ہے۔ جب کوئی شخص شیخی تو بہت بگھارتا ہو، لیکن اندر سے کھوکھلا ہو ،تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔ (سرور عالم راز کی کتاب ’’ کہاوتیں‘‘ جلد اوّل سے ماخوذ) ٭…٭…٭
(۱ ) آبنوس کا کندہ : کندہ یعنی بھاری ٹکڑا۔آبنوس ایک سخت اور سیاہ قسم کی لکڑی کو کہتے ہیں، اسی مناسبت سے سیاہ فام( بالکل کالے) آدمی کو آبنوس کا کندہ کہتے ہیں۔ ( ۲ ) آب آب کر مر گئے، سرہانے دَھرا رہا پانی : اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے، کوئی شخص ہندوستان سے باہر گیا اور وہاں سے فارسی سیکھ کر واپس آیا۔ اپنی فارسی دانی پر اس کو بہت ناز تھا۔اتفاق سے وہ بیمار ہو گیا اور طبیعت بہت خراب ہو گئی۔ وہ پیاس کی شدت میں ’’آب آب‘‘ کہہ کر پانی مانگتا رہا، لیکن کوئی اس کی بات نہ سمجھ سکا اور اسی حالت میں اس کا انتقال ہو گیا حالانکہ پانی اس کے سرہانے ہی رکھا ہوا تھا۔ اس مناسبت سے گویا کہاوت میں تنبیہ ہے کہ گفتگو ہمیشہ ایسی زبان میں کرنی چاہیے جس کو لوگ سمجھتے ہوں۔ اپنی قابلیت کے زعم میں ایسی زبان استعمال کرنا سرا سر نادانی ہے، جس سے لوگ نا واقف ہوں۔ (۳) آ بنی سر اپنے، چھوڑ پرائی آس : آ بنی سر اپنے یعنی مصیبت اپنے سر پر آ ہی پڑی ہے۔ ایسے میں کسی اور سے امید لگانی بیکار ہے، جو کچھ کرنا ہے خود ہی کرنا اور بھگتنا ہے۔ (۴) آ بیل مجھے مار : کسی مصیبت کو جان بوجھ کر اپنے سر پر بلانا ایسا ہی ہے جیسے راہ چلتے بیل کو چھیڑ کر حملہ کی دعوت دی جائے۔ اس حوالے سے یہ کہاوت حماقت یا کم عقلی کا استعارہ ہے۔ (۵) آب آید، تیمم برخواست : پانی اگر مل جائے تو پھر تیمم کرنے کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ اجازت۔گویا اگر کسی رعایت کی وجہ ہی باقی نہ رہے، تو پھر وہ رعایت بھی اٹھ جاتی ہے یا زیادہ اہم چیز مل جائے، تو کم اہم چیز کی مانگ اور ضرورت نہیں رہ جاتی۔ ( ۶ ) آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے : بڑے کارنامے آبِ زر یعنی سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔ ( ۷ ) آپ جانیں اور آپ کا ایمان : یعنی آپ اپنی نیت دیکھ کر خود ہی فیصلہ کریں کیونکہ نتائج کے بھی آپ ہی ذمہ دار ہیں۔ اسی کہاوت کی ایک دوسری شکل ہے کہ ’’ آپ جانیں اور آپ کا کام۔‘‘ ( ۸ ) آپ سے آتی ہے تو آنے دو : یہ کہاوت ایسے موقع پر استعمال کی جاتی ہے جب کوئی شخص کسی نا جائز چیز کو اپنے لئے جائز قرار دینے کا حیلہ تلاش کر رہا ہو۔ اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے، ایک مولوی صاحب کے گھر میں پڑوسی کا مرغ آ گیا۔ ان کی بیوی نے مرغ پکڑ لیا اور ذبح کر کے پکا بھی لیا۔ جب مولوی صاحب شام کو کھانے پر بیٹھے تو مرغ دیکھ کر پوچھا کہ ’’یہ کہاں سے آیا؟ ‘‘ بیوی کے بتانے پر انہوں نے فرمایا کہ ’’یہ تو حرام ہے، بھلا میں کسی اور کا مال اس طرح نا جائز طور پر کیسے کھا سکتا ہوں ؟ ‘‘ بیوی نے جواب دیا کہ ’’ سو تو ٹھیک ہے، لیکن سالن تو ہمارے ہی پیسوں کا بنا ہوا ہے۔اس میں کیا قباحت ہے؟ ‘‘ مولوی صاحب کی سمجھ میں یہ بات آ گئی اور انھوں نے بیوی سے کہا کہ وہ ان کو صرف سالن نکال دے۔ بیوی نے ایسا ہی کیا، لیکن احتیاط کے باوجود ایک بوٹی پیالے سے لڑھک کر مولوی صاحب کی پلیٹ میں آ گری۔ بیوی نے اس کو نکالنا چاہا تو مولوی صاحب نے کہا کہ ’’ نہیں نہیں ! جو بوٹی آپ سے آتی ہے ،اس کو آنے دو۔ ‘‘ بیوی نے کہا کہ ’’ وہ مرغ بھی تو آپ سے ہی ہمارے گھر آ گیا تھا۔‘‘ مولوی صاحب کی نیت تو پہلے ہی ڈانوا ڈول تھی۔ فوراً بیوی کی بات پر راضی ہو گئے اور دونوں مفت کا مرغ ہضم کر گئے۔ (۹) آپ کھائے، بَلّی کو بتائے : کوئی شخص غلط کام تو خود کرے، لیکن اپنے آپ کو معصوم ظاہر کرنے کے لئے نام دوسروں کا لے، تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔ (۱۰) آپ میاں صوبیدار، گھر بیوی جھونکے بھاڑ : یعنی آپ خود تو شان سے بڑے آدمی بنے پھرتے ہیں، لیکن بیوی گھر میں خستہ حال ہے۔ جب کوئی شخص شیخی تو بہت بگھارتا ہو، لیکن اندر سے کھوکھلا ہو ،تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔ (سرور عالم راز کی کتاب ’’ کہاوتیں‘‘ جلد اوّل سے ماخوذ) ٭…٭…٭