Log in

View Full Version : ’’کیمیا گری کے شوق‘‘ف



intelligent086
01-31-2016, 05:16 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14734_49018788.jpg.pagespeed.ic.5t8_K79MM-.jpg



دادا جان روایت کرتے ہیں کہ گرمیوں کی ایک تپتی دوپہر میں وہ لوگ نہر پر پکنک منا رہے تھے کہ اچانک ایک لنگوٹی پوش سنیاسی کا ادھر سے گزر ہوا۔ یہ لوگ دری پر بیٹھے آم چوس رہے تھے کہ وہ سنیاسی ان کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور بولا۔ ’’ بابا لوگ! بھوک لگی ہے۔‘‘ بڑے شاہ جی جو کیمیا گری کے شوق میں ہمیشہ سنیاسی لوگوں کی تلاش میں رہا کرتے تھے فورًا مؤدب ہو کر بولے۔ ’’تشریف لائیے جو گی بابا! روکھی سوکھی حاضر ہے۔بڑے شاہ جی نے سنیاسی کے آگے بھنا ہوا گوشت اور نان رکھے۔ سنیاسی نے گوشت کو ہاتھ لگایا البتہ آم کے ساتھ آدھا نان کھایا۔ ٹھنڈا پانی پیا اور بولا:’’آپ نے سنیاسی کو بھوجن کھلایا ہے۔ سنیاسیوں کا اصول ہے کہ جو کوئی ان کی سیوا کرتا ہے وہ سیوا کا پھل ضرور دیتے ہیں۔ بولو بابا لوگ! تم کو کس شے کی ضرورت ہے؟‘‘بڑے شاہ جی تو اس موقع کی تاک میں تھے فوراً بولے۔ ’’سنیاسی بابا! مجھے سونا بنانے کا گر بتا دیں۔‘‘ دادا جان کہتے ہیں کہ بڑے شاہ جی کی اس خواہش پر سنیاسی کے چہرہ پر ایک طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ جیسے کہہ رہے ہوں۔ ارے شاہ جی! مانگا بھی تو کیا مانگا! … وہ بولا۔ ’’مجھے وہاں لے چلئے جہاں آپ رہتے ہیں۔‘‘ بڑے شاہ جی سنیاسی کو اپنے محلے میںلے آئے اور ایک بیٹھک میں ٹھہرا دیا۔ سنیاسی نے ایک من تھاپیاں منگوائیں۔ تانبے کا ایڈورڈ ہفتم والا گول پیسا منگوا کر اس کے گرد گوندھا ہوا آٹا لپیٹا اسے مٹی کے کوزے میں رکھ کر کوزے کا منہ گیلی مٹی سے بند کیا۔ تھاپیوں کی آگ جلائی اور بیچ میں وہ مٹی کا کوزہ رکھ دیا۔ ایک رات اور آدھا دن آگ جلتی رہی۔ جب آگ کی تمازت ماند پڑ گئی تو سنیاسی نے لکڑی سے کرید کر مٹی کا کوزہ باہر نکالا، اُسے توڑ کر تانبے کا پیسہ چمٹے سے پکڑ کر لکڑ یکی چوکی پر رکھا۔ جیب سے ایک چھوٹی سی شیشی نکال کر اس میں سے سفید عرق کا ایک قطرہ پیسے پر ڈالا۔ اسے دوبارہ تھاپیوں کی آگ میں ایک پل کے لئے رکھا پھر باہر نکال کر جھاڑا تو وہ خالص سونے کے پائونڈ میں تبدیل ہو چکا تھا۔ بڑے شاہ جی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ سنیاسی نے شیشی بڑے شاہ جی کی طرف بڑھا کر کہا۔ ’’شاہ جی! یہ شیشی لے لیجئے آپ کی پشتوں کے لئے کافی ہوگی۔‘ ‘ لیکن شاہ جی نے کہا۔ ’’بابا جی! مجھے یہ بتائیں کہ اس شیشی میں جو عرق ہے۔ اسے بنانے کا نسخہ کیا ہے؟‘‘ داد جان روایت کرتے ہیں کہ سنیاسی ایک پل کے لئے خاموش ہو گیا۔ اس نے بڑے شاہ جی کو ایسی نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو۔ تم بد قسمت ہو شاہ جی… پھر شیشی اپنے بخیے میں ڈال کر بولا۔ ’’اچھا۔ اگر آپ کو اس عرق کا نسخہ چائیے تو کوئی بات نہیں۔ اب رات ہو گئی ہے۔ صبح آپ کو بتا دوں گا۔ ذرا لمبا نسخہ ہے۔‘‘ بڑے شاہ جی بڑے خوش ہوئے۔ آدھی رات تک سنیاسی بابا کی خدمت کرتے رہے۔ کبھی چائے بنا کر دے رہے ہیں۔ کبھی پائوں دبا رہے ہیں۔ آدھی رات کو سنیاسی بابا کو بیٹھک میں سلا کر خوشی خوشی گھر آ گئے کہ صبح سونا بنانے کا اصل گُر ہاتھ آجائے گا اور گھر کے سارے تانبے کے برتنوں کو سونے میں تبدیل کر دیں گے۔ دن چڑھا تو سنیاسی بابا کے لئے بڑے چائو سے دہی اور کلچہ لے کر بازار والی بیٹھک میں گئے، دیکھا بیٹھک کا دروازہ چوپٹ کھلا ہے اور سنیاسی کا کہیں نام و نشان تک نہیں۔ سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گئے مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ سونے کی چڑیا اُڑ گئی تھی۔ داد اجان کہتے ہیں کہ بڑے شاہ جی کو زندگی بھر یہ افسوس رہا کہ انہوں نے زیادہ لالچ کیوں کیا! (’’یادوں کے گلاب‘‘ اے حمید کی کتاب سے اقتباس) ٭…٭…٭