intelligent086
01-30-2016, 05:20 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14725_98236490.jpg.pagespeed.ic.oG4CPC9A-y.jpg
جب بربر قوم نے اپنے پے درپے حملوں سے رومی شہنشاہیت کو تاراج کر دیا اور اس طرح اطالوی مملکت اور روم کا دارالحکومت تباہی سے دو چار ہونے لگا تو روم کی مکمل تباہی سے کچھ عرصہ قبل (123ق م)مبلغین اپنے کتابی ذخائر کے کچھ حصے کو کسی طرح محفوظ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ ذخیرہ جس کو پادری ’’ببلوتصیکا مقدس کرسچیانا‘‘ کہتے تھے، اس میں بائبل کی تمام نقلیں ،پادریوں کی لکھی شرحیں اور تقاسیر، گرجائوں کی رسومات اور دعائوں پر مشتمل ادب شامل تھا۔ اس ذخیرے کا کافی بڑا حصہ عیسائیوں کے باہمی فرقہ وارانہ جھگڑوں میں تلف ہو کر رہ گیا تھا۔ راہبوں کا اولین فرقہ دوسری صدی عیسوی میں سامنے آیا۔ اس نے مصر میں قبطعی زبان کی کتابوں کو جمع کرنے کا کام شروع کر دیا۔ اس وقت مصری قدیم ہیروغلیفی تحریر ختم ہو چکی تھی اور اس کی جگہ مصری اور یونانی زبانوں کے ملاپ سے پیدا ہونے والی قبطی زبان نے فروغ پا لیا تھا۔ یہ زبان ساتویں صدی عیسوی میں مسلمان عربوں کے مصر فتح کرنے تک رائج رہی۔ راہبوں کی تحریر کردہ یہ کتابیں 19ویں صدی عیسوی میں انگریزوں کے ہاتھ لگیں۔ ان میں قبطی زبان کے علاوہ شامی زبان میں تحریر کردہ کتابیں بھی شامل تھی۔ یہ کتابیں راہبوں کے ابتدائی مذاق کا پتا دیتی ہیں۔ کلیسا کے راہبوں نے قدیم مصری اور قبطی عہد کی کتابوں سے نہ صرف علمی اور ادبی مواد حاصل کیا بلکہ لکھائی کا ہنر اور سلیقہ بھی سیکھا جس میں کچھ اپنے بنائے ہوئے اصولوں کا اضافہ کیا۔ قدیم مصری کاتبوں نے اپنے تصویری خط میں جو دلکشی پیدا کی تھی، اس کی جھلک قبطی کے یونیفارمخط کے ذریعہ سکندریہ کے کاتبوں نے اپنی تحریروں میں پیش کی اور جب خانقا ہی کاتبوں نے قلم سنبھالا تو حروف کی خوش نمائی اور دیدہ زیبی کو اس قدر اہمیت دی کہ خطاطی باقاعدہ ایک فن کی شکل اختیار کرنے لگی۔ انہوں نے حروف کی کشید کے کچھ اصول مقرر کیے۔ خطاط ان کی پیروی کرنے پر راغب ہوئے۔ اس کے علاوہ تحریر میں کتابت سے زیادہ صفائی اور رعنائی کا خیال رکھا جانے لگا۔ پادری تھیوڈ ورنے حرف بہ حرف نقل کا جو اصول وضع کیا تھا وہ خانقاہوں کے ان ابتدائی خطاط سے شروع ہو کر بہت زمانے تک یورپ اور ایشیا کے بڑے علاقوں میں خطاطی کے طور پر اپنایا گیا اور اس طرح فن خطاطی میں اس کی بھی ایک روایت قائم ہو گئی۔ جس ہال یا کمرے میں کتابت یا خطاطی کی جاتی تھی، اس میں مکمل سکون رکھا جاتا تھا تا کہ کاتب یا خطاط سے کوئی غلطی سرزد نہ ہو سکے۔ صرف متن بولنے والے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ اشاروں اور کنایوں میں بات کی جا سکتی تھی۔ آگ بھڑک اٹھنے کے ڈر کی وجہ سے لکھائی کے کمرے راتوں کو تاریک رکھے جاتے تھے۔ تحریری مواد کی حرمت کا اہتمام بہت رکھا جاتا تھا۔ کتاب کامخطوطہ خانقاہ کے سربراہ کی اجازت کے بغیر باہر لایا اور لے جایا نہیں جا سکتا تھا۔ (’’کتب اور کتب خانوں کی تاریخ‘‘ سے انتخاب) ٭…٭…٭
جب بربر قوم نے اپنے پے درپے حملوں سے رومی شہنشاہیت کو تاراج کر دیا اور اس طرح اطالوی مملکت اور روم کا دارالحکومت تباہی سے دو چار ہونے لگا تو روم کی مکمل تباہی سے کچھ عرصہ قبل (123ق م)مبلغین اپنے کتابی ذخائر کے کچھ حصے کو کسی طرح محفوظ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ ذخیرہ جس کو پادری ’’ببلوتصیکا مقدس کرسچیانا‘‘ کہتے تھے، اس میں بائبل کی تمام نقلیں ،پادریوں کی لکھی شرحیں اور تقاسیر، گرجائوں کی رسومات اور دعائوں پر مشتمل ادب شامل تھا۔ اس ذخیرے کا کافی بڑا حصہ عیسائیوں کے باہمی فرقہ وارانہ جھگڑوں میں تلف ہو کر رہ گیا تھا۔ راہبوں کا اولین فرقہ دوسری صدی عیسوی میں سامنے آیا۔ اس نے مصر میں قبطعی زبان کی کتابوں کو جمع کرنے کا کام شروع کر دیا۔ اس وقت مصری قدیم ہیروغلیفی تحریر ختم ہو چکی تھی اور اس کی جگہ مصری اور یونانی زبانوں کے ملاپ سے پیدا ہونے والی قبطی زبان نے فروغ پا لیا تھا۔ یہ زبان ساتویں صدی عیسوی میں مسلمان عربوں کے مصر فتح کرنے تک رائج رہی۔ راہبوں کی تحریر کردہ یہ کتابیں 19ویں صدی عیسوی میں انگریزوں کے ہاتھ لگیں۔ ان میں قبطی زبان کے علاوہ شامی زبان میں تحریر کردہ کتابیں بھی شامل تھی۔ یہ کتابیں راہبوں کے ابتدائی مذاق کا پتا دیتی ہیں۔ کلیسا کے راہبوں نے قدیم مصری اور قبطی عہد کی کتابوں سے نہ صرف علمی اور ادبی مواد حاصل کیا بلکہ لکھائی کا ہنر اور سلیقہ بھی سیکھا جس میں کچھ اپنے بنائے ہوئے اصولوں کا اضافہ کیا۔ قدیم مصری کاتبوں نے اپنے تصویری خط میں جو دلکشی پیدا کی تھی، اس کی جھلک قبطی کے یونیفارمخط کے ذریعہ سکندریہ کے کاتبوں نے اپنی تحریروں میں پیش کی اور جب خانقا ہی کاتبوں نے قلم سنبھالا تو حروف کی خوش نمائی اور دیدہ زیبی کو اس قدر اہمیت دی کہ خطاطی باقاعدہ ایک فن کی شکل اختیار کرنے لگی۔ انہوں نے حروف کی کشید کے کچھ اصول مقرر کیے۔ خطاط ان کی پیروی کرنے پر راغب ہوئے۔ اس کے علاوہ تحریر میں کتابت سے زیادہ صفائی اور رعنائی کا خیال رکھا جانے لگا۔ پادری تھیوڈ ورنے حرف بہ حرف نقل کا جو اصول وضع کیا تھا وہ خانقاہوں کے ان ابتدائی خطاط سے شروع ہو کر بہت زمانے تک یورپ اور ایشیا کے بڑے علاقوں میں خطاطی کے طور پر اپنایا گیا اور اس طرح فن خطاطی میں اس کی بھی ایک روایت قائم ہو گئی۔ جس ہال یا کمرے میں کتابت یا خطاطی کی جاتی تھی، اس میں مکمل سکون رکھا جاتا تھا تا کہ کاتب یا خطاط سے کوئی غلطی سرزد نہ ہو سکے۔ صرف متن بولنے والے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ اشاروں اور کنایوں میں بات کی جا سکتی تھی۔ آگ بھڑک اٹھنے کے ڈر کی وجہ سے لکھائی کے کمرے راتوں کو تاریک رکھے جاتے تھے۔ تحریری مواد کی حرمت کا اہتمام بہت رکھا جاتا تھا۔ کتاب کامخطوطہ خانقاہ کے سربراہ کی اجازت کے بغیر باہر لایا اور لے جایا نہیں جا سکتا تھا۔ (’’کتب اور کتب خانوں کی تاریخ‘‘ سے انتخاب) ٭…٭…٭