intelligent086
01-29-2016, 10:14 PM
بچے ذہنی و جسمانی اعتبار سے توانا کیسے ہوں گے؟
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/14710_28498178.jpg
فرحانہ شکیل
والدین کی حیثیت سے جب کوئی اپنے بچوں کے مستقبل کی بابت سوچتا ہے تو اس سوچ کا دائرہ کار ان کی اسکولنگ، تعلیم و تربیت، اچھی صحت اور مناسب گھر تک ہی محدود رہتا ہے۔ شاذو نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی گھر سے باہر کی سرگرمیوں کے بارے میں بھی سوچیں حالانکہ یہ بھی ایک اہمیت کی حامل بات ہوتی ہے۔ عموماً بچوں کی صحت مندانہ نشوونما اور تعمیر جسم و دماغ کے حوالے سے تصوراتی خاکے بنائے جاتے ہیں اور والدین اس وقت مطمئن اور پرُسکون دکھائی دیتے ہیں اگر ان کے بچے کی سکول میں کارگزاری ٹھیک جا رہی ہو اور ان میں رویوں کے اعتبار سے بھی کوئی مشکل موجود نہ ہو۔ اگر بچوں کو سکول کے بعد کچھ وقت مل جائے تو وہ اسے تعلیمی سرگرمیوں میں صرف کرتے ہیں، ٹی وی دیکھتے ہیں یا پھر ویڈیو اور کمپیوٹر گیمز سے منسلک رہنے کے بعد کھانا کھاتے ہیں اور پھر سو جاتے ہیں تاہم فارغ وقت میں بچے کیا کرتے ہیں؟ اس سے والدین کو کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ بڑے شہروں میں رہنے والے بیشتر بچوں کی گھر سے باہر کوئی زندگی نہیں ہے اور اسے درست سمجھا جائے یا نہیں مگر کسی حد تک حقیقت پر مبنی بات ہے کہ گندگی سے بھرا ماحول، بے پناہ بھیڑ بھاڑ، کوڑے کرکٹ سے اٹی سڑکیں اور گلیاں، کھلے ہوئے گٹر کسی کو یہ ہمت ہی نہیں ہوتی کہ بچے کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی جائے۔ آج کے بچے کی زندگی یکسر مختلف ہے فی الوقت انہیں گھروں سے باہر جا کر کھیلنے اور خود کو قدرتی نظاروں سے منسلک رکھنے کے مواقع میسر نہیں ہیں اور کئی وجوہات کے باعث ان کی ’’فزیکل بائونڈری‘‘ سکڑ کر رہ گئی ہے۔ خوف کا کلچر والدین کو مستقل طور پر اپنے بچوں کی حفاظت کے حوالے سے فکر مندی میں مبتلا رکھتا ہے۔ ’’اجنبی افراد‘‘ کا خطرہ آج کے بچوں کو آزادی کے ساتھ پڑوس میں بھی نہیں جانے دیتا جبکہ وہ اپنی سڑکوں اور گلیوں میں بھی نہیں نکل سکتے یہاں تک کہ کوئی بڑا ساتھ نہ ہو۔ بچوں کے گھر سے باہر کھیلنے کا خوشگوار تصور عرصہ ہوا دم توڑ چکا ہے اور بچوں کی زندگیاں گھروں میں گھٹ کر رہ گئی ہیں۔ جن کے پا س روزمرہ کے فارغ اوقات میں کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ کمپیوٹر اورموبائل گیمز کا سہارا لیں۔ ایک محقق نے بچوں کی زندگی میں اس تبدیلی اور کھیل کود کے فقدان کو ’’کم عمری کی قید‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اسی ماحول کا نتیجہ ہے کہ بچے نہ صرف بہت عمدہ اور صحت مندانہ تفریح سے محروم ہو رہے ہیں بلکہ غیر رسمی سرگرمیوں سے منسلک رہنے کے مواقع بھی کھو بیٹھے ہیں جو کہ براہِ راست اور کہیں زیادہ موثر تعلیم ہے۔ جتنا سرسبز ماحول اتنے ہی عمدہ نتائج ،قدرتی ماحول میں کھیلنے کودنے کے ان گنت فوائد ہیں جن کے سبب بچے فعال، چست و چالاک، مضبوط اور ذہنی و جسمانی اعتبار سے توانا بھی ہو جاتے ہیں۔ قدرتی ماحول میں کھیلنے والے بچے جو باقاعدگی کے ساتھ مقررہ اوقات میں گھر سے باہر جاتے ہیں فٹنس کے لحاظ سے زیادہ بہتر ہوتے ہیں جن میں کوآرڈی نیشن، توازن اور پھرتی کمال کی ہوتی ہے جبکہ وہ بیمار بھی نہیں پڑتے ہیں۔ جب بچے قدرتی ماحول میں کھیلتے کودتے ہیں تو ان کے کھیل کی صلاحیت میں تو اضافہ ہوتا ہی ہے مگر زندگی کے بارے میں ان کے تصورات، تخلیقی قوت اور زبان و بیان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اہلیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ قدرتی ماحول کا ایکسپوژ رہی ہے جس کی بنا پر بچے میں ادراک و فہم کی تعمیر ہونے لگتی ہے کیونہ اس کی آگہی کا معیار بلند تر ہوتا جاتا ہے۔ بہت ساری وجوہات کا علم ہونے لگتا ہے اور کسی چیز کو دیکھ کر سمجھنے کی اہلیت بلند تر ہو جاتی ہے۔ قدرتی مناظر بچے کو اچھے اثرات کی گود میں لے کر دبائو سے بچاتے ہیں اور اسے برے سے برے حالات کا مقابلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ کئی اقسام کے قدرتی ماحول میں کھیلنے والے بچے نہ تو آسانی سے بیوقوف بنائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی ان سے ڈرا دھمکا کر کوئی کام کرا سکتا ہے۔ قدرت بچوں میں سیکھنے، سمجھنے اور مشاہدہ کرنے کے ساتھ ہی ایک تخلیقی قوت پیدا کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں ان کے اندر امن و سکون جگہ بنا لیتا ہے جبکہ وہ آپس میں بھی مثبت خیالات کے حامل ہوتے ہیں اور ان کے مابین سماجی روابط مضبوط ہو جاتے ہیں۔گھروں سے باہر کا ماحول بچوں میں آزادی و خود مختاری کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ آج کل آئوٹ ڈور سرگرمیوں کے متبادل کے طور پر ان ڈور کمپیوٹر گیمز آگئے ہیں ۔
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/14710_28498178.jpg
فرحانہ شکیل
والدین کی حیثیت سے جب کوئی اپنے بچوں کے مستقبل کی بابت سوچتا ہے تو اس سوچ کا دائرہ کار ان کی اسکولنگ، تعلیم و تربیت، اچھی صحت اور مناسب گھر تک ہی محدود رہتا ہے۔ شاذو نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی گھر سے باہر کی سرگرمیوں کے بارے میں بھی سوچیں حالانکہ یہ بھی ایک اہمیت کی حامل بات ہوتی ہے۔ عموماً بچوں کی صحت مندانہ نشوونما اور تعمیر جسم و دماغ کے حوالے سے تصوراتی خاکے بنائے جاتے ہیں اور والدین اس وقت مطمئن اور پرُسکون دکھائی دیتے ہیں اگر ان کے بچے کی سکول میں کارگزاری ٹھیک جا رہی ہو اور ان میں رویوں کے اعتبار سے بھی کوئی مشکل موجود نہ ہو۔ اگر بچوں کو سکول کے بعد کچھ وقت مل جائے تو وہ اسے تعلیمی سرگرمیوں میں صرف کرتے ہیں، ٹی وی دیکھتے ہیں یا پھر ویڈیو اور کمپیوٹر گیمز سے منسلک رہنے کے بعد کھانا کھاتے ہیں اور پھر سو جاتے ہیں تاہم فارغ وقت میں بچے کیا کرتے ہیں؟ اس سے والدین کو کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ بڑے شہروں میں رہنے والے بیشتر بچوں کی گھر سے باہر کوئی زندگی نہیں ہے اور اسے درست سمجھا جائے یا نہیں مگر کسی حد تک حقیقت پر مبنی بات ہے کہ گندگی سے بھرا ماحول، بے پناہ بھیڑ بھاڑ، کوڑے کرکٹ سے اٹی سڑکیں اور گلیاں، کھلے ہوئے گٹر کسی کو یہ ہمت ہی نہیں ہوتی کہ بچے کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی جائے۔ آج کے بچے کی زندگی یکسر مختلف ہے فی الوقت انہیں گھروں سے باہر جا کر کھیلنے اور خود کو قدرتی نظاروں سے منسلک رکھنے کے مواقع میسر نہیں ہیں اور کئی وجوہات کے باعث ان کی ’’فزیکل بائونڈری‘‘ سکڑ کر رہ گئی ہے۔ خوف کا کلچر والدین کو مستقل طور پر اپنے بچوں کی حفاظت کے حوالے سے فکر مندی میں مبتلا رکھتا ہے۔ ’’اجنبی افراد‘‘ کا خطرہ آج کے بچوں کو آزادی کے ساتھ پڑوس میں بھی نہیں جانے دیتا جبکہ وہ اپنی سڑکوں اور گلیوں میں بھی نہیں نکل سکتے یہاں تک کہ کوئی بڑا ساتھ نہ ہو۔ بچوں کے گھر سے باہر کھیلنے کا خوشگوار تصور عرصہ ہوا دم توڑ چکا ہے اور بچوں کی زندگیاں گھروں میں گھٹ کر رہ گئی ہیں۔ جن کے پا س روزمرہ کے فارغ اوقات میں کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ کمپیوٹر اورموبائل گیمز کا سہارا لیں۔ ایک محقق نے بچوں کی زندگی میں اس تبدیلی اور کھیل کود کے فقدان کو ’’کم عمری کی قید‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اسی ماحول کا نتیجہ ہے کہ بچے نہ صرف بہت عمدہ اور صحت مندانہ تفریح سے محروم ہو رہے ہیں بلکہ غیر رسمی سرگرمیوں سے منسلک رہنے کے مواقع بھی کھو بیٹھے ہیں جو کہ براہِ راست اور کہیں زیادہ موثر تعلیم ہے۔ جتنا سرسبز ماحول اتنے ہی عمدہ نتائج ،قدرتی ماحول میں کھیلنے کودنے کے ان گنت فوائد ہیں جن کے سبب بچے فعال، چست و چالاک، مضبوط اور ذہنی و جسمانی اعتبار سے توانا بھی ہو جاتے ہیں۔ قدرتی ماحول میں کھیلنے والے بچے جو باقاعدگی کے ساتھ مقررہ اوقات میں گھر سے باہر جاتے ہیں فٹنس کے لحاظ سے زیادہ بہتر ہوتے ہیں جن میں کوآرڈی نیشن، توازن اور پھرتی کمال کی ہوتی ہے جبکہ وہ بیمار بھی نہیں پڑتے ہیں۔ جب بچے قدرتی ماحول میں کھیلتے کودتے ہیں تو ان کے کھیل کی صلاحیت میں تو اضافہ ہوتا ہی ہے مگر زندگی کے بارے میں ان کے تصورات، تخلیقی قوت اور زبان و بیان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اہلیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ قدرتی ماحول کا ایکسپوژ رہی ہے جس کی بنا پر بچے میں ادراک و فہم کی تعمیر ہونے لگتی ہے کیونہ اس کی آگہی کا معیار بلند تر ہوتا جاتا ہے۔ بہت ساری وجوہات کا علم ہونے لگتا ہے اور کسی چیز کو دیکھ کر سمجھنے کی اہلیت بلند تر ہو جاتی ہے۔ قدرتی مناظر بچے کو اچھے اثرات کی گود میں لے کر دبائو سے بچاتے ہیں اور اسے برے سے برے حالات کا مقابلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ کئی اقسام کے قدرتی ماحول میں کھیلنے والے بچے نہ تو آسانی سے بیوقوف بنائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی ان سے ڈرا دھمکا کر کوئی کام کرا سکتا ہے۔ قدرت بچوں میں سیکھنے، سمجھنے اور مشاہدہ کرنے کے ساتھ ہی ایک تخلیقی قوت پیدا کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں ان کے اندر امن و سکون جگہ بنا لیتا ہے جبکہ وہ آپس میں بھی مثبت خیالات کے حامل ہوتے ہیں اور ان کے مابین سماجی روابط مضبوط ہو جاتے ہیں۔گھروں سے باہر کا ماحول بچوں میں آزادی و خود مختاری کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ آج کل آئوٹ ڈور سرگرمیوں کے متبادل کے طور پر ان ڈور کمپیوٹر گیمز آگئے ہیں ۔