PDA

View Full Version : میری ابتدائی زندگی



intelligent086
01-29-2016, 10:01 PM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14713_42393349.jpg.pagespeed.ic.7gtCsMlf9T .jpg


چچا سید ریاض الحسن میرے والدکے اکلوتے اور بے حد لاڈلے بھائی تھے ۔چچا میاں دوسری جنگ عظیم سے کچھ عرصہ قبل رائیل برٹش آرمی میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کے عہدے پر بھرتی ہوئے تھے اور فوج جوائن کرنے کے فورا ً بعد جنگ لڑنے عراق چلے گئے تھے۔ہندوستان کی تقسیم کے وقت چچا میاں فیروزپور میں تعینات تھے‘ اسی لئے وہ ہمارے خاندان کو پاکستان لانے میں زیادہ معاون ثابت نہ ہو سکے تھے مگر پاکستان بنتے ہی انہوں نے خود ہجرت کی تھی اور وہ پاک فوج میں کیپٹن کے عہدے پر فائز ہوئے تھے اور آخری دموں تک کپتان صاحب کہلائے تھے ۔ چچا ریاض الحسن کے مجھ سمیت میرے بچپن میں یتیم ہوئے بہن بھائیوں کی زندگیوں پر اتنے احسانات ہیں کہ ہماری سات پشتیں مل کر بھی اُن کا یہ احسان نہیں اتار سکتیں۔چچا میاں کی شادی بہاولپور کے ایک نہایت ہی معزز گھرانے میں ہوئی تھی۔اُن کے سسرا ل کا تعلق یوپی کے قصبے رٹول سے تھا‘جو غالباً انیس سو بیس کی دہائی میں بہاولپور آکر آباد ہوگئے تھے۔اسی خاندان کی ایک بے حد حسین و جمیل دوشیزہ ذکیہ بیگم جو سید تفضل حسین اور آسیہ بیگم کی بیٹی تھیں ہماری چچی بنیں۔ پاکستانی آم کی ایک مشہور و معروف قسم’ ’انور رٹول‘‘ کو متعارف کروانے کا سہرا چچی بیگم(ذکیہ بیگم) کے ماموں انوار الحق کے سر جاتا ہے‘جو اُن کے نام کی مناسبت سے بعد میں انور رٹول مشہور ہوا تھا۔ منفرد ذائقے کا حامل یہ آ م پاکستانی پنجاب کے جنوبی خطے (سرائیکی بیلٹ)میں زیادہ تر کاشت کیا جاتا ہے۔ہم بے سہارا بہن بھائیوں کو عزت دار چھت اور بہترین لائف اسٹائل دینے میں چچی بیگم جیسی نیک دل خاتون کا کلیدی کردار تھا ۔اُن کی نیک نیتی اور نیکی کا مجھے شدت سے احساس ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے ہمارے ساتھ یہ نیکی نہ کی ہوتی تو پتہ نہیں ہم بہن بھائی کہاں ہوتے؟چچا میاں کے دو بچے سید حسن ریاض اور رعنا ریاض ہیں جو الحمد اللہ اپنے اپنے خا ندانوں سمیت امریکہ اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔چچا کے دونوں بچے ہمارے دلوں کے انتہائی قریب ہیں۔ رعنا کہ جسے میں اپنے جگر کا ٹکڑا مانتی ہوں‘ میری یہ ننھی منی بہن میری پکی سہیلی ہے‘ جس سے میں اپنے دل کی ہر بات شیئر کر لیتی ہوں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اُن کے شوہر سید زید اختراور بچے فاروق‘فاطمہ اور زہر ہ میرے دل کے انتہائی قریب ہیں ۔حسن میاں کے بچے زینب‘ محب‘منیب اور چھوٹا بچہ مومن اور بیوی عظمیٰ بھی بہت قریب تھے جب تک ہم لاہور میں رہے۔ اگرچہ اب جغرافیائی دُوریوں نے انہیں مجھ سے تھوڑا دور کر دیا ہے مگر وہ سب آج بھی میرے دل میں آباد ہیں۔ چچا میاں کے بعد تین پھوپھیاں (پھپھو سلطان‘ پھپھو رضیہ اور سب سے چھوٹی پھپھو صفیہ بیگم) تھیں۔ پھپھو سلطان زچگی کے دوران جبکہ رضیہ پھپھو اَٹھارہ برس کی عمر میں ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہونے کے سبب انتقال کرگئی تھیں۔سب سے چھوٹی پھپھو صفیہ جو میری دادی کے انتقال کے وقت صرف تین ماہ کی معصوم بچی تھیں اُنہیں اُن کی نانی ‘دادی اور چھوٹی عمر کی بڑی بہن پھپھو قیصر نے مل کر پالا تھا۔پھپھو نے تاحیات شادی نہ کی اور اپنے آپ کو ہم بہن بھائیوں کے لئے وقف کر دیاتھا۔پھپھو تو ہماری پالنے والی ماں تھیں اور اُس ماں کے بارے میں اگر میں لکھنے بیٹھوں تو شاید بہت دور نکل جائوں ،مگرصرف اتنا کہہ سکتی ہوں کہ میری پھپھو مجھے بالکل اکیلا چھوڑ کر میری غیر موجودگی میں دنیا چھوڑ کر چلی گئی تھیں ۔میری پھپھو ‘ میری ماں‘ میری دوست‘میری ہمدم‘میری ساتھی اور ہمدرد تھیں۔ اس دنیا میں مجھے اگر کسی نے واقعی سمجھا اور بلا مشروط پیار دیا تو وہ میری پھپھو تھیں۔ پھپھو کا سوچتے ہی بے خیالی میں آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آتے ہیں۔ (معروف اداکارہ عظمیٰ گیلانی کی خودنوشت ’’جو ہم پہ گزری‘‘سے اقتباس