intelligent086
01-28-2016, 05:48 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14704_35556078.jpg.pagespeed.ic.dODvZrnGv0 .jpg
ایک روز ایک بادشاہ، گھوڑے پر سوار ہے، سبزہ زار کی سیر کرتا جا رہا ہے۔ وزیر ہمراہ ہے، بادشاہ ایک کھیت کے قریب سے گزرا۔ دیکھا کہ اس کھیت میں ایک بڈھا پھونس گنوار کمزوری سے ہانپتا جاتا ہے، لیکن محنت سے اپنے کھیت کو جوت رہا ہے۔ بادشاہ کو اس کی حالت پر رحم آیا۔ گھوڑا روک کر اس بڈھے سے کہا ’’بڑے میاں، آپ خدا کے واسطے یہ تو بتائیں کہ تم نے پھر ایسا کیوں نہ کیا؟‘‘اس بڈھے نے جواب دیا ’’کیا کہوں! کیا، لیکن اس کی مرضی نہ ہوئی۔ ‘‘ یہ سن کر بادشاہ نے پھر کہا ’’اُس کے بعد ایسا کیوں نہ کیا؟‘‘ کسان نے عرض کی ’’اے صاحب، ایسا کیوں نہیں کیا، لیکن اس میں بھی خدا کی مرضی نہ تھی۔‘‘ پھر تیسری بار بادشاہ نے وہی سوال کیا، پھر اس بڈھے نے عرض کی اور پھر کہا ’’ اس کی مرضی کے سوا کیا ہو سکتا تھا۔ ‘‘ اس کے بعد بادشاہ نے اس بڈھے سے کہا ’’تم کسان ہو۔ تمہارا کام کس سے چلتا ہے؟’’ بڈھے نے جواب دیا ’’ہمارا کام بادشاہ سے چلتا ہے۔‘‘ بادشاہ نے فرمایا ’’اگر بادشاہ نہ آئے تب؟‘‘ کسان نے عرض کی ’’پھر ہم وزیر اعظم کی مہربانی پر بھروسا کرتے ہیں۔‘‘ بادشاہ کہا ’’اگر وزیر بھی نہ آئے، تب کیوں کر کام ہو گا؟‘‘ زمین دار نے جواب دیا کہ ’’پھر ہم جوان شاہ زادے کی امید لگائیں گے اگر وہ لائق ہوگا۔‘‘ یہ سن کر بادشاہ نے، بڈھے کسان کو قریب بلا کر، چپکے سے کان میں کہا کہ ’’ہمارے جانے کے بعد اگر کوئی آکر ان باتوں کا مطلب دریافت کرنے آئے ،تو جب تک تم اپنی مرضی کے مواقف بھر پور روپیانہ لے لو ہر گز نہ بتانا۔‘‘ اب بادشاہ یہ فرما کر واپس ہوا۔ وزیر کو بلایا اور فرمایا کہ ’’کل تم ساتھ تھے۔ ہم نے جس بڈھے کسان سے باتیں کیں، وہ تم نے سنیں؟‘‘ وزیر نے عرض کی کہ ’’پیرو مرشد، سنیں۔‘‘ بادشاہ نے فرمایا کہ ’’باتیں سنی ہیں تو ان کا مطلب بتائو کہ میں نے کسان سے کیا کہا اور اس نے کیا جواب دیا ؟‘‘ وزیر نے عرض کی کہ ’’سنا تو ایک ایک لفظ ،لیکن مطلب نہیں سمجھا۔‘‘ بادشاہ نے فرمایا کہ ’’پھر تم نے کیا سنا کہ جس کو سمجھا ہی نہیں۔ بڑا افسوس ہے کہ تم وزیر ہو کر اور بات سننی نہ جانو، دیکھو! یا تو میری باتوں اور اس زمین دار کے جوابوں کا مطلب بیان کرو ،ورنہ اپنے کو نوکری سے برطرف سمجھنا۔‘‘ وزیر یہ سن کر بہت گھبرایا اور گھر آیا۔ سوچا کہ ’’افسوس، میری اتنی عمر گزری اور بات سننی نہیں آئی کہ بات ہی سننے پر ہماری زندگی کا دارومدار ہے اور سب کام بات ہی سننے پر موقوف ہیں۔ اب تدبیر یہ ہے کہ اس زمین دار سے جا کر دریافت کروں۔‘‘ یہ خیال کر کے، بہت سا روپیا اپنے ساتھ لے کر ، اس کسان کی تلاش میں نکلا۔ غرض اسی کھیت میں کسان ملا۔ وزیر نے اس بڈھے سے دریافت کیا کہ ’’ بڑے صاحب، اس روز جو تمہاری بادشاہ سے جو باتیں ہوئی ،میں بھی ہمراہ تھا، لیکن میں نہ بادشاہ کے ارشاد کو سمجھا اور نہ تمہارے جوابوں کا مطلب سمجھ میں آیا، مہربانی کر کے آپ بتائیں۔ ‘‘ زمین دار نے کہا کہ ’’میں غریب آدمی ہوں۔ اگر آپ مجھ کو چھے ہزار روپے دیں، تب میں بتائوں گا۔ ‘‘ وزیر نے چھے ہزار روپیا دیا۔ زمین دار نے وہ روپیا گن کر جب اپنے پلے میں باندھ لیا، تو اب وزیر کی طرف مخاطب ہو کر بولا کہ ’’افسوس ہے کہ تو نے وزیر ہو کر اتنی عمر بے کار گزاری اور یہ نہ جانا کہ بات سننے کا طریقہ کیا ہے اور بات کا پہلو کیوں کر دیکھتے ہیں۔ اے وزیر، تو نے یہ نہ دیکھا کہ بادشاہ ایک بڈھے کو محنت کرتے ہوئے دیکھ کر رحم کھاتا ہے اور افسوس کرتا ہے کہ اس عمر میں تیرا کوئی مددگار نہیںاور ایسے وقت میں اولاد ہی کام آتی ہے اور اولاد شادی کرنے سے ہوتی ہے، چونکہ بادشاہ ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں اخلاقی پہلو کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ ایک بڈھے سے دریافت کرتا ہے کہ تو نے شادی کیوں نہیں کی، جو اولاد ہوتی اور تیرے کام آتی؟ اس مضمون کو اس طرح سے ارشاد فرمایا کہ بڈھے، تو نے ایسا کیوں نہیں کیا، یعنی شادی کہ جس سے اولاد ہوتی اور ایسے آڑے وقت میں کام آتی؟ میں نے جواب دیا کہ میں نے کیا، لیکن خدا کی مرضی نہ ہوئی، یعنی شادی کی اور اولاد ہو کر مر گئی، پھر بادشاہ نے اسی جملے کو دہرایا۔ میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں نے دوسری شادی بھی کی، لیکن اس میں سے بھی اولاد ہو کر مر گئی، پھر بادشاہ نے فرمایا کہ تیسری شادی کیوں نہ کی۔ میں نے پھر بھی وہی جواب دیا کہ تیسری سے بھی اولاد ہو کر مر گئی۔ اب بادشاہ نے گفتگو کا دوسرا پہلو اختیار کیا۔ ہم زمین دار ہیں۔ ہمارا سہارا اناج کی پیداوار پر ہے اورا ناج کا پیداہونا بارش پر موقوف ہے۔ یوں تو بارش جب ہو ،اچھا ہی ہے کہ اکثر کہتے ہیں کہ اللہ کرم کرے ،تو مینہ برسائے، لیکن مینہ اور مفید مینہ ہمارے واسطے جولائی کا مینہ ہے۔ جولائی کی بارش کا ایک ایک دن، سبحان اللہ، بڑی پیداوار پر موقوف ہے۔ میں تم کو اپنے گائوں کی سنائوں۔ میرے گائوں میں ایک ڈہر ہے۔ اس میں جھاڑو کی سیخیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک سال خوب بارش ہوئی، لیکن ایک ہفتے مینہ نہ برسا۔ اس سال ایک سیخ پیدا نہ ہوئی اور سب کچھ ہوا۔ ہم تو قدرت کی مڑک کو نہیں سمجھتے کہ قدرت کا منشا کیا ہے۔ اگر ہم کچھ بھی سمجھ لیں، تو پھر ہم کو پرواہی کیا ہے، لیکن نہ سمجھنے میں ہمار ا قصور ہے‘‘۔ (کاناباتی ،از:میر باقر علی داستان گو، مرتب: محمد سلیم الرحمن
ایک روز ایک بادشاہ، گھوڑے پر سوار ہے، سبزہ زار کی سیر کرتا جا رہا ہے۔ وزیر ہمراہ ہے، بادشاہ ایک کھیت کے قریب سے گزرا۔ دیکھا کہ اس کھیت میں ایک بڈھا پھونس گنوار کمزوری سے ہانپتا جاتا ہے، لیکن محنت سے اپنے کھیت کو جوت رہا ہے۔ بادشاہ کو اس کی حالت پر رحم آیا۔ گھوڑا روک کر اس بڈھے سے کہا ’’بڑے میاں، آپ خدا کے واسطے یہ تو بتائیں کہ تم نے پھر ایسا کیوں نہ کیا؟‘‘اس بڈھے نے جواب دیا ’’کیا کہوں! کیا، لیکن اس کی مرضی نہ ہوئی۔ ‘‘ یہ سن کر بادشاہ نے پھر کہا ’’اُس کے بعد ایسا کیوں نہ کیا؟‘‘ کسان نے عرض کی ’’اے صاحب، ایسا کیوں نہیں کیا، لیکن اس میں بھی خدا کی مرضی نہ تھی۔‘‘ پھر تیسری بار بادشاہ نے وہی سوال کیا، پھر اس بڈھے نے عرض کی اور پھر کہا ’’ اس کی مرضی کے سوا کیا ہو سکتا تھا۔ ‘‘ اس کے بعد بادشاہ نے اس بڈھے سے کہا ’’تم کسان ہو۔ تمہارا کام کس سے چلتا ہے؟’’ بڈھے نے جواب دیا ’’ہمارا کام بادشاہ سے چلتا ہے۔‘‘ بادشاہ نے فرمایا ’’اگر بادشاہ نہ آئے تب؟‘‘ کسان نے عرض کی ’’پھر ہم وزیر اعظم کی مہربانی پر بھروسا کرتے ہیں۔‘‘ بادشاہ کہا ’’اگر وزیر بھی نہ آئے، تب کیوں کر کام ہو گا؟‘‘ زمین دار نے جواب دیا کہ ’’پھر ہم جوان شاہ زادے کی امید لگائیں گے اگر وہ لائق ہوگا۔‘‘ یہ سن کر بادشاہ نے، بڈھے کسان کو قریب بلا کر، چپکے سے کان میں کہا کہ ’’ہمارے جانے کے بعد اگر کوئی آکر ان باتوں کا مطلب دریافت کرنے آئے ،تو جب تک تم اپنی مرضی کے مواقف بھر پور روپیانہ لے لو ہر گز نہ بتانا۔‘‘ اب بادشاہ یہ فرما کر واپس ہوا۔ وزیر کو بلایا اور فرمایا کہ ’’کل تم ساتھ تھے۔ ہم نے جس بڈھے کسان سے باتیں کیں، وہ تم نے سنیں؟‘‘ وزیر نے عرض کی کہ ’’پیرو مرشد، سنیں۔‘‘ بادشاہ نے فرمایا کہ ’’باتیں سنی ہیں تو ان کا مطلب بتائو کہ میں نے کسان سے کیا کہا اور اس نے کیا جواب دیا ؟‘‘ وزیر نے عرض کی کہ ’’سنا تو ایک ایک لفظ ،لیکن مطلب نہیں سمجھا۔‘‘ بادشاہ نے فرمایا کہ ’’پھر تم نے کیا سنا کہ جس کو سمجھا ہی نہیں۔ بڑا افسوس ہے کہ تم وزیر ہو کر اور بات سننی نہ جانو، دیکھو! یا تو میری باتوں اور اس زمین دار کے جوابوں کا مطلب بیان کرو ،ورنہ اپنے کو نوکری سے برطرف سمجھنا۔‘‘ وزیر یہ سن کر بہت گھبرایا اور گھر آیا۔ سوچا کہ ’’افسوس، میری اتنی عمر گزری اور بات سننی نہیں آئی کہ بات ہی سننے پر ہماری زندگی کا دارومدار ہے اور سب کام بات ہی سننے پر موقوف ہیں۔ اب تدبیر یہ ہے کہ اس زمین دار سے جا کر دریافت کروں۔‘‘ یہ خیال کر کے، بہت سا روپیا اپنے ساتھ لے کر ، اس کسان کی تلاش میں نکلا۔ غرض اسی کھیت میں کسان ملا۔ وزیر نے اس بڈھے سے دریافت کیا کہ ’’ بڑے صاحب، اس روز جو تمہاری بادشاہ سے جو باتیں ہوئی ،میں بھی ہمراہ تھا، لیکن میں نہ بادشاہ کے ارشاد کو سمجھا اور نہ تمہارے جوابوں کا مطلب سمجھ میں آیا، مہربانی کر کے آپ بتائیں۔ ‘‘ زمین دار نے کہا کہ ’’میں غریب آدمی ہوں۔ اگر آپ مجھ کو چھے ہزار روپے دیں، تب میں بتائوں گا۔ ‘‘ وزیر نے چھے ہزار روپیا دیا۔ زمین دار نے وہ روپیا گن کر جب اپنے پلے میں باندھ لیا، تو اب وزیر کی طرف مخاطب ہو کر بولا کہ ’’افسوس ہے کہ تو نے وزیر ہو کر اتنی عمر بے کار گزاری اور یہ نہ جانا کہ بات سننے کا طریقہ کیا ہے اور بات کا پہلو کیوں کر دیکھتے ہیں۔ اے وزیر، تو نے یہ نہ دیکھا کہ بادشاہ ایک بڈھے کو محنت کرتے ہوئے دیکھ کر رحم کھاتا ہے اور افسوس کرتا ہے کہ اس عمر میں تیرا کوئی مددگار نہیںاور ایسے وقت میں اولاد ہی کام آتی ہے اور اولاد شادی کرنے سے ہوتی ہے، چونکہ بادشاہ ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں اخلاقی پہلو کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ ایک بڈھے سے دریافت کرتا ہے کہ تو نے شادی کیوں نہیں کی، جو اولاد ہوتی اور تیرے کام آتی؟ اس مضمون کو اس طرح سے ارشاد فرمایا کہ بڈھے، تو نے ایسا کیوں نہیں کیا، یعنی شادی کہ جس سے اولاد ہوتی اور ایسے آڑے وقت میں کام آتی؟ میں نے جواب دیا کہ میں نے کیا، لیکن خدا کی مرضی نہ ہوئی، یعنی شادی کی اور اولاد ہو کر مر گئی، پھر بادشاہ نے اسی جملے کو دہرایا۔ میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں نے دوسری شادی بھی کی، لیکن اس میں سے بھی اولاد ہو کر مر گئی، پھر بادشاہ نے فرمایا کہ تیسری شادی کیوں نہ کی۔ میں نے پھر بھی وہی جواب دیا کہ تیسری سے بھی اولاد ہو کر مر گئی۔ اب بادشاہ نے گفتگو کا دوسرا پہلو اختیار کیا۔ ہم زمین دار ہیں۔ ہمارا سہارا اناج کی پیداوار پر ہے اورا ناج کا پیداہونا بارش پر موقوف ہے۔ یوں تو بارش جب ہو ،اچھا ہی ہے کہ اکثر کہتے ہیں کہ اللہ کرم کرے ،تو مینہ برسائے، لیکن مینہ اور مفید مینہ ہمارے واسطے جولائی کا مینہ ہے۔ جولائی کی بارش کا ایک ایک دن، سبحان اللہ، بڑی پیداوار پر موقوف ہے۔ میں تم کو اپنے گائوں کی سنائوں۔ میرے گائوں میں ایک ڈہر ہے۔ اس میں جھاڑو کی سیخیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک سال خوب بارش ہوئی، لیکن ایک ہفتے مینہ نہ برسا۔ اس سال ایک سیخ پیدا نہ ہوئی اور سب کچھ ہوا۔ ہم تو قدرت کی مڑک کو نہیں سمجھتے کہ قدرت کا منشا کیا ہے۔ اگر ہم کچھ بھی سمجھ لیں، تو پھر ہم کو پرواہی کیا ہے، لیکن نہ سمجھنے میں ہمار ا قصور ہے‘‘۔ (کاناباتی ،از:میر باقر علی داستان گو، مرتب: محمد سلیم الرحمن