intelligent086
01-28-2016, 05:37 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14708_37840827.jpg.pagespeed.ic.mDM1Lnbda2 .jpg
ظفر عمران
ستمبر1999ء کی ایک شام، پریس چیمبرز کے زینے کے نیچے کھڑا سوچ رہا تھا کہ انھیں طے کیا جائے یا نہیں؟ دو قدم بڑھائے اور پلٹ گیا۔ راجندر سنگھ بیدی کا قول یاد آیا کہ جس سے آپ متاثر ہوں، اس سے ہاتھ ملا لیں، آپ کو یہ احساس ہوگاکہ وہ بھی آپ ہی کی طرح گوشت پوست کا انسان ہے۔ زینے طے کرتا ’’سب رنگ‘‘ ڈائجسٹ کی چوکھٹ پہ جا کھڑا ہوا۔ بائیں ہاتھ پہ دو صوفوں پہ دو افراد بیٹھے تھے۔ انھوں نے میری طرف استفسارانہ دیکھا۔راجندر نے یہ نہیں بتایا تھا کہ جو ہاتھ ملانا ہے، وہ پسینے میں شرابور ہو، تو کیا کرنا چاہیے۔۔۔ ان میں سے دراز قد گویا ہوئے: جی؟ میں نے جھجکتے ہوئے پوچھا،شکیل عادل زادہ؟’’آ جایئے‘‘ انھی صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا، تو میں نے آمد کا مقصد بتانا چاہا کہ میں سب رنگ ڈائجسٹ کا دیوانہ ہوں یا یہ کہتا کہ مجھے شکیل عادل زادہ سے ملنے کا از حد اشتیاق ہے، لیکن انھوں نے یہ کہہ کر مجھے اظہار کا موقع ہی نہیں دیا کہ ارے سانس تو لے لیجیے، بیٹھیے۔ میں دم سادھ کر بیٹھ گیا۔ دوسرے صوفے پر جو صاحب براجمان تھے، وہی شکیل عادل زادہ تھے ۔ وہ مسکراتا ہوا، شفیق چہرہ، جس نے مجھے سانس بہ حال کرنے کا مشورہ دیا تھا، ان کا نام حسن ہاشمی تھا۔ حسن ہاشمی اب ہم میں نہیں رہے۔ ’’کوہ نور‘‘ جہاں سے دریافت ہوا ہوگا، وہاں مزید کتنے ہیرے ہوں گے، سب رنگ ڈائجسٹ کے دفتر میں جا کر اس کا ادراک ہوا۔ شکیل عادل زادہ، دیو مالائی سا ایک کردار۔ دیو مالائی کردار پہ لکھنا کتنا مشکل عمل ہوگا؟ یہ شکیل عادل زادہ پر لکھتے احساس ہوتا ہے۔ آپ یہ نہیں سمجھ پاتے، کس کرامت کا بیان پہلے کیا جائے اور کس معجزے کو کہاں لایا جائے۔ میں اس روز اُردو بازار سے ہوتا ہوا، یہاں آیا تھا۔ دو تین شاپنگ بیگز میں کتابیں تھیں۔ حسن ہاشمی اور شکیل عادل زادہ نے جاننا چاہا کہ میں نے کون کون سی کتابیں خریدی ہیں۔ ابن ِصفی کا ’’عمران سیریز ‘‘ میرے بچپن کا عشق ہے۔ ان دنوں میں عمران سیریز کے وہ ناول جمع کرتا پھر رہا تھا، جو میرے خزانے میں نہ تھے۔ میںعمران سیریز کے ناول دکھاتے جز بز ہواکہ کہیں میرے ذوق کا مذاق نہ اڑایا جائے، لیکن اس وقت حوصلہ ہوا، جب شکیل عادل زادہ کہنے لگے، کہ ابن ِصفی کا اُردو پہ بہت بڑا احسان ہے، وغیرہ۔ باتوں باتوں میں سب رنگ کے حالیہ شمارے کی بابت پوچھاکہ کیسا تھا؟ میں نے برملا کہا کہ اس بار کا شمارہ اس معیار کا نہیں تھا، جس کی توقع کی جاتی ہے۔ شکیل عادل زادہ ترنت بولے: آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ اس بار کا شمارہ واقعی اچھا نہ تھا۔ مجھے اپنے کہے پر پشیمانی ہوئی۔ یہ میرا پہلا سبق تھا۔ اس دن کے بعد، جب جب کراچی جانا ہوا، سب رنگ کے دفتر حاضری نہ ہوئی، ایسا نہ تھا۔ سب رنگ کے دفتر میں دوپہر کا کھانا ایک روایت تھی (سنتے ہیں، یہ روایت پھر سے زندہ کی گئی ہے) دوپہر کے کھانے کے بعد شکیل عادل زادہ جو شکیل بھائی کے نام سے پکارے جاتے ہیں، قیلولہ کرتے چونکہ سبھی احباب اس روٹین سے واقف تھے۔ لہٰذا تین سے پانچ کوئی مہمان نہ ہوتا۔ میں راول پنڈی یا لاہور سے کراچی گیا ہوتا، تو دل میں یہ چاہ ہوتی کہ زیادہ سے زیادہ وقت وہاں گزاروں۔ کھانے کے وقت سے پہلے پریس چیمبرز بلڈنگ پہنچ جاتا، لنچ ٹائم پر مخصوص احباب اکٹھے ہونا شروع ہوتے، میں یہ اداکاری کرتا کہ مجھے بھوک نہیں ۔ اصرار کیا جاتا کہ کھایئے۔ چند لقمے لیتا اور الگ ہوجاتا۔ حیا مانع ہوتی، کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ کھانے کے وقت نازل ہو جاتا ہے۔ وہاں ایسا سوچنے والا کوئی نہ تھا، لیکن میں تو تھا، ناں۔ تین سے پانچ شکیل بھائی قیلولے کے لئے ملحقہ کمرے میں چلے جاتے اور میں وہاں تن ِ تنہا پانچ بجے کا انتظار کرتا، جو میرا فیورٹ ٹائم تھا۔ پانچ بجے ملاقاتیوں کا تانتا نہ ہوتا۔ شکیل بھئی سے گفت گو کرنے کا بہترین وقت وہی تھا۔ چھے بجے شکیل بھئی گھر کے لئے روانہ ہوتے، تو میں ہم راہ ہوتا کہ مجھے میری منزل پر چھوڑتے ہوئے جاتے تھے۔ میرے اولین سوالوں میں ایک یہ تھا کہ کورا کون ہے؟ اس کا جواب مجھے ایک وقت حسن ہاشمی نے دیا تھا، لیکن بوجوہ یہاں تذکرہ نہیں کر رہا، پھر میں نے یہ پوچھا کہ بازی گر کے بِٹھل آپ ہی ہیں ناں؟ میرا یہ خیال ہے کہ شکیل عادل زادہ کو بِٹھل ہی ہونا چاہیے، وہ بابر زمان خان نہیں ہو سکتے۔ تیسرا سوال جو مجھے یاد ہے، وہ یہ تھا کہ بابر کو کورا کبھی نہیں ملے گی، ناں؟ شکیل بھائی نے بڑے تیقن سے فخریہ کہا، بالکل نہیں۔ میری یہی خواہش تھی کہ بابر کو کورا کبھی نہ ملے، اب مجھے زریں کی فکر ہوئی اور زریں؟ زریں کا کیا ہوگا؟ زریں ،بازی گر کے یادگار کرداروں میں سے ایک حسین کردار، اسے بابر زماں خان سے محبت ہے۔ مجھے کورا سے زیادہ زریں سے محبت ہے۔۔۔ ان ملاقاتوں میں بہت سے لمحے ہیں، جنھیں ایک ترتیب سے بیان کرنا میرے لئے تو ممکن نہیں۔ ایک بار کہنے لگے، شادی کا انسٹی ٹیوٹ جس نے بھی بنایا، بہت ظلم کیا۔ سب کو آزادی ہونی چاہیے تھی، جس سے اور جب چاہے تعلق قائم کرلے۔ یہ سن کر، میرے کان غصے سے لال ہو گئے، میں نے انتہائی بد تمیزی سے سوال کیے، انھوں نے کمال تحمل سے جواب دئیے، یہ دوسرا موقع تھا کہ مجھے اپنے سوال پہ پشیمانی ہوئی۔ مختلف لوگوں سے ایک ہی سوال کرتے پایا، شادی سے کیا راحت ملی؟ مجھ سے بھی پوچھا، میرا جواب تھا، بچے۔اثبات میں سر ہلایا، خاموش رہے۔ کیسے سب رنگ کے حقوق فروخت ہوئے، کیسے شکیل بھئی اس ادارے سے الگ ہوئے، وہ بھی آنکھوں دیکھا ہے۔ یہاں شکیل بھئی کے لکھے شذرے یاد آتے ہیں، جس میں وہ کہتے ہیں، سب رنگ فرد ہے، ادارہ نہیں۔ فرد الگ ہوا، تو سب رنگ ماند پڑ گیا۔ جب نور الہدیٰ شاہ نگران حکومت میں وزیر ہوئیں، تو ان کی کوششوں سے سب رنگ ایک بار پھر شکیل عادل زادہ کے نام ہوا۔ آج اگر ان کے لئے سب رنگ کورا ہے، تو یہ وہ بابر زمان خان ہیں، جو کورا کا گھونگٹ اٹھاتے لرزتے ہیں، ان کے چاہنے والے زریں کے مانند ہیں، جن کے لئے سب رنگ بابر زماں خان ہے اور وہ اس کی ایک جھلک کے منتظر۔۔۔! ٭…٭…٭
ظفر عمران
ستمبر1999ء کی ایک شام، پریس چیمبرز کے زینے کے نیچے کھڑا سوچ رہا تھا کہ انھیں طے کیا جائے یا نہیں؟ دو قدم بڑھائے اور پلٹ گیا۔ راجندر سنگھ بیدی کا قول یاد آیا کہ جس سے آپ متاثر ہوں، اس سے ہاتھ ملا لیں، آپ کو یہ احساس ہوگاکہ وہ بھی آپ ہی کی طرح گوشت پوست کا انسان ہے۔ زینے طے کرتا ’’سب رنگ‘‘ ڈائجسٹ کی چوکھٹ پہ جا کھڑا ہوا۔ بائیں ہاتھ پہ دو صوفوں پہ دو افراد بیٹھے تھے۔ انھوں نے میری طرف استفسارانہ دیکھا۔راجندر نے یہ نہیں بتایا تھا کہ جو ہاتھ ملانا ہے، وہ پسینے میں شرابور ہو، تو کیا کرنا چاہیے۔۔۔ ان میں سے دراز قد گویا ہوئے: جی؟ میں نے جھجکتے ہوئے پوچھا،شکیل عادل زادہ؟’’آ جایئے‘‘ انھی صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا، تو میں نے آمد کا مقصد بتانا چاہا کہ میں سب رنگ ڈائجسٹ کا دیوانہ ہوں یا یہ کہتا کہ مجھے شکیل عادل زادہ سے ملنے کا از حد اشتیاق ہے، لیکن انھوں نے یہ کہہ کر مجھے اظہار کا موقع ہی نہیں دیا کہ ارے سانس تو لے لیجیے، بیٹھیے۔ میں دم سادھ کر بیٹھ گیا۔ دوسرے صوفے پر جو صاحب براجمان تھے، وہی شکیل عادل زادہ تھے ۔ وہ مسکراتا ہوا، شفیق چہرہ، جس نے مجھے سانس بہ حال کرنے کا مشورہ دیا تھا، ان کا نام حسن ہاشمی تھا۔ حسن ہاشمی اب ہم میں نہیں رہے۔ ’’کوہ نور‘‘ جہاں سے دریافت ہوا ہوگا، وہاں مزید کتنے ہیرے ہوں گے، سب رنگ ڈائجسٹ کے دفتر میں جا کر اس کا ادراک ہوا۔ شکیل عادل زادہ، دیو مالائی سا ایک کردار۔ دیو مالائی کردار پہ لکھنا کتنا مشکل عمل ہوگا؟ یہ شکیل عادل زادہ پر لکھتے احساس ہوتا ہے۔ آپ یہ نہیں سمجھ پاتے، کس کرامت کا بیان پہلے کیا جائے اور کس معجزے کو کہاں لایا جائے۔ میں اس روز اُردو بازار سے ہوتا ہوا، یہاں آیا تھا۔ دو تین شاپنگ بیگز میں کتابیں تھیں۔ حسن ہاشمی اور شکیل عادل زادہ نے جاننا چاہا کہ میں نے کون کون سی کتابیں خریدی ہیں۔ ابن ِصفی کا ’’عمران سیریز ‘‘ میرے بچپن کا عشق ہے۔ ان دنوں میں عمران سیریز کے وہ ناول جمع کرتا پھر رہا تھا، جو میرے خزانے میں نہ تھے۔ میںعمران سیریز کے ناول دکھاتے جز بز ہواکہ کہیں میرے ذوق کا مذاق نہ اڑایا جائے، لیکن اس وقت حوصلہ ہوا، جب شکیل عادل زادہ کہنے لگے، کہ ابن ِصفی کا اُردو پہ بہت بڑا احسان ہے، وغیرہ۔ باتوں باتوں میں سب رنگ کے حالیہ شمارے کی بابت پوچھاکہ کیسا تھا؟ میں نے برملا کہا کہ اس بار کا شمارہ اس معیار کا نہیں تھا، جس کی توقع کی جاتی ہے۔ شکیل عادل زادہ ترنت بولے: آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ اس بار کا شمارہ واقعی اچھا نہ تھا۔ مجھے اپنے کہے پر پشیمانی ہوئی۔ یہ میرا پہلا سبق تھا۔ اس دن کے بعد، جب جب کراچی جانا ہوا، سب رنگ کے دفتر حاضری نہ ہوئی، ایسا نہ تھا۔ سب رنگ کے دفتر میں دوپہر کا کھانا ایک روایت تھی (سنتے ہیں، یہ روایت پھر سے زندہ کی گئی ہے) دوپہر کے کھانے کے بعد شکیل عادل زادہ جو شکیل بھائی کے نام سے پکارے جاتے ہیں، قیلولہ کرتے چونکہ سبھی احباب اس روٹین سے واقف تھے۔ لہٰذا تین سے پانچ کوئی مہمان نہ ہوتا۔ میں راول پنڈی یا لاہور سے کراچی گیا ہوتا، تو دل میں یہ چاہ ہوتی کہ زیادہ سے زیادہ وقت وہاں گزاروں۔ کھانے کے وقت سے پہلے پریس چیمبرز بلڈنگ پہنچ جاتا، لنچ ٹائم پر مخصوص احباب اکٹھے ہونا شروع ہوتے، میں یہ اداکاری کرتا کہ مجھے بھوک نہیں ۔ اصرار کیا جاتا کہ کھایئے۔ چند لقمے لیتا اور الگ ہوجاتا۔ حیا مانع ہوتی، کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ کھانے کے وقت نازل ہو جاتا ہے۔ وہاں ایسا سوچنے والا کوئی نہ تھا، لیکن میں تو تھا، ناں۔ تین سے پانچ شکیل بھائی قیلولے کے لئے ملحقہ کمرے میں چلے جاتے اور میں وہاں تن ِ تنہا پانچ بجے کا انتظار کرتا، جو میرا فیورٹ ٹائم تھا۔ پانچ بجے ملاقاتیوں کا تانتا نہ ہوتا۔ شکیل بھئی سے گفت گو کرنے کا بہترین وقت وہی تھا۔ چھے بجے شکیل بھئی گھر کے لئے روانہ ہوتے، تو میں ہم راہ ہوتا کہ مجھے میری منزل پر چھوڑتے ہوئے جاتے تھے۔ میرے اولین سوالوں میں ایک یہ تھا کہ کورا کون ہے؟ اس کا جواب مجھے ایک وقت حسن ہاشمی نے دیا تھا، لیکن بوجوہ یہاں تذکرہ نہیں کر رہا، پھر میں نے یہ پوچھا کہ بازی گر کے بِٹھل آپ ہی ہیں ناں؟ میرا یہ خیال ہے کہ شکیل عادل زادہ کو بِٹھل ہی ہونا چاہیے، وہ بابر زمان خان نہیں ہو سکتے۔ تیسرا سوال جو مجھے یاد ہے، وہ یہ تھا کہ بابر کو کورا کبھی نہیں ملے گی، ناں؟ شکیل بھائی نے بڑے تیقن سے فخریہ کہا، بالکل نہیں۔ میری یہی خواہش تھی کہ بابر کو کورا کبھی نہ ملے، اب مجھے زریں کی فکر ہوئی اور زریں؟ زریں کا کیا ہوگا؟ زریں ،بازی گر کے یادگار کرداروں میں سے ایک حسین کردار، اسے بابر زماں خان سے محبت ہے۔ مجھے کورا سے زیادہ زریں سے محبت ہے۔۔۔ ان ملاقاتوں میں بہت سے لمحے ہیں، جنھیں ایک ترتیب سے بیان کرنا میرے لئے تو ممکن نہیں۔ ایک بار کہنے لگے، شادی کا انسٹی ٹیوٹ جس نے بھی بنایا، بہت ظلم کیا۔ سب کو آزادی ہونی چاہیے تھی، جس سے اور جب چاہے تعلق قائم کرلے۔ یہ سن کر، میرے کان غصے سے لال ہو گئے، میں نے انتہائی بد تمیزی سے سوال کیے، انھوں نے کمال تحمل سے جواب دئیے، یہ دوسرا موقع تھا کہ مجھے اپنے سوال پہ پشیمانی ہوئی۔ مختلف لوگوں سے ایک ہی سوال کرتے پایا، شادی سے کیا راحت ملی؟ مجھ سے بھی پوچھا، میرا جواب تھا، بچے۔اثبات میں سر ہلایا، خاموش رہے۔ کیسے سب رنگ کے حقوق فروخت ہوئے، کیسے شکیل بھئی اس ادارے سے الگ ہوئے، وہ بھی آنکھوں دیکھا ہے۔ یہاں شکیل بھئی کے لکھے شذرے یاد آتے ہیں، جس میں وہ کہتے ہیں، سب رنگ فرد ہے، ادارہ نہیں۔ فرد الگ ہوا، تو سب رنگ ماند پڑ گیا۔ جب نور الہدیٰ شاہ نگران حکومت میں وزیر ہوئیں، تو ان کی کوششوں سے سب رنگ ایک بار پھر شکیل عادل زادہ کے نام ہوا۔ آج اگر ان کے لئے سب رنگ کورا ہے، تو یہ وہ بابر زمان خان ہیں، جو کورا کا گھونگٹ اٹھاتے لرزتے ہیں، ان کے چاہنے والے زریں کے مانند ہیں، جن کے لئے سب رنگ بابر زماں خان ہے اور وہ اس کی ایک جھلک کے منتظر۔۔۔! ٭…٭…٭