intelligent086
01-25-2016, 05:56 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14688_80013371.jpg.pagespeed.ic.1LY95Xo1Yi .jpg
زبانِ اردو کی تاریخ اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہمارے اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے اور برج بھاشاخاص ہندوستانی زبان ہے، لیکن وہ ایسی زبان نہیں کہ دنیا کے پردے پر ہندوستان کے ساتھ آئی ہو۔ اس کی عمر آٹھ سو برس سے زیادہ نہیں اور برج کا سبزہ زار اس کا وطن ہے۔ تم خیال کرو گے کہ شاید اس میراثِ قدیمی کی سند سنسکرت کے پاس ہو گی اور وہ ایسا بیج ہو گا کہ یہیں پھوٹا ہو گا اور یہیں پَھلا پھولا ہو گا، لیکن نہیں، ابھی سراغ آگے چلتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ہندوستان اگرچہ بے ہمتی اور آرام طلبی کے سبب سے بدنام رہا، مگر باوجود اس کے مہذب قوموں کی آنکھوں میں ہمیشہ کھپا رہا ہے چنانچہ اس کی سرسبزی اور زرخیزی اور اعتدال نے بلائے جان ہو کر ہمیشہ اسے غیر قوموں کی گھڑ دوڑ کا میدان بنائے رکھا ہے۔ پس دانائے فرنگ کہ ہر بات کا پتہ پتال تک نکالنے والے ہیں۔ انھوں نے زبانوں اور قدیمی نشانوں سے ثابت کیا ہے کہ یہاں کے اصلی باشندے اور لوگ تھے۔ ایک زبردست قوم نے آ کر آہستہ آہستہ ملک پر قبضہ کر لیا۔ یہ فتحیاب غالباً جیحوں سیحوں کے میدانوں سے اٹھ کر اور ہمارے شمالی پہاڑ الٹ کر اس ملک میں آئے ہوں گے۔ اس زمانہ کے گیت اور پرانی نشانیاں دیکھ کر یہ بھی معلوم کیا ہے کہ وہ لوگ دل کے بہادر، ہمت کے پورے، صورت کے وجیہہ، رنگ کے گورے ہوں گے، اور اس زمانہ کی حیثیت کے بموجب تعلیم یافتہ بھی ہوں گے۔ موقع کا مقام اور سبز زمین دیکھ کر یہیں زمین گیر ہوئے۔ اس قوم کا نام ایرین تھا اور عجب نہیں کہ ان کی زبان وہ ہو جو اپنے اصل سے کچھ کچھ بدل کر اب سنسکرت کہلاتی ہے۔ یہی لوگ ہیں، جنہوں نے ہندوستان میں آ کر راجہ مہاراجہ کا خطاب لیا۔ ایران میں تاجِ کیانی پر درفش کا دیانی لہرایا۔ اپنے مذہب کا نادر طریقہ لے کر چین کو نگارخانہ بنایا۔ یونان کا طبقہ حکمت سے الگ جمایا، روما کی عالمگیر سلطنت کی بنیاد ڈالی، اندلس پہنچ کر چاندی نکالی۔ یورپ سے خبر آئی کہ کہیں دریا سے مچھلیاں نکالتے نکالتے گوہرِ سلطنت پائے، کہیں پہاڑوں سے دھات کھودتے کھودتے لعلِ بے بہا نکال لائے، تب اصلی رہنے والے کون تھے اور ان کی زبان کیا تھی؟ قیاس سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے پنجاب میں اب قطعہ قطعہ کی زبان کہیں کچھ کچھ اور کہیں بالکل اختلاف رکھتی ہے اور یہی حال اور اضلاعِ ہند میں ہے، اسی طرح اس عہد میں بھی اختلاف ہو گا اور اس عہد کی نامی زبانیں وہ ہوں گی جن کی نشانی تامل، اوڑیا اور تلنگو وغیرہ اضلاعِ دکن اور مشرق میں اب تک یادگار موجود ہیں بلکہ اس حالت میں بھی ان کی شاعری اور انشاء پردازی کہتی ہے کہ یہ گٹھلی کسی لذیذ میوہ کی ہے اور سنسکرت سے انہیں لگاؤ تک نہیں۔ (محمد حسین آزادؔ کی کتاب ’’ آب حیات‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭
زبانِ اردو کی تاریخ اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہمارے اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے اور برج بھاشاخاص ہندوستانی زبان ہے، لیکن وہ ایسی زبان نہیں کہ دنیا کے پردے پر ہندوستان کے ساتھ آئی ہو۔ اس کی عمر آٹھ سو برس سے زیادہ نہیں اور برج کا سبزہ زار اس کا وطن ہے۔ تم خیال کرو گے کہ شاید اس میراثِ قدیمی کی سند سنسکرت کے پاس ہو گی اور وہ ایسا بیج ہو گا کہ یہیں پھوٹا ہو گا اور یہیں پَھلا پھولا ہو گا، لیکن نہیں، ابھی سراغ آگے چلتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ہندوستان اگرچہ بے ہمتی اور آرام طلبی کے سبب سے بدنام رہا، مگر باوجود اس کے مہذب قوموں کی آنکھوں میں ہمیشہ کھپا رہا ہے چنانچہ اس کی سرسبزی اور زرخیزی اور اعتدال نے بلائے جان ہو کر ہمیشہ اسے غیر قوموں کی گھڑ دوڑ کا میدان بنائے رکھا ہے۔ پس دانائے فرنگ کہ ہر بات کا پتہ پتال تک نکالنے والے ہیں۔ انھوں نے زبانوں اور قدیمی نشانوں سے ثابت کیا ہے کہ یہاں کے اصلی باشندے اور لوگ تھے۔ ایک زبردست قوم نے آ کر آہستہ آہستہ ملک پر قبضہ کر لیا۔ یہ فتحیاب غالباً جیحوں سیحوں کے میدانوں سے اٹھ کر اور ہمارے شمالی پہاڑ الٹ کر اس ملک میں آئے ہوں گے۔ اس زمانہ کے گیت اور پرانی نشانیاں دیکھ کر یہ بھی معلوم کیا ہے کہ وہ لوگ دل کے بہادر، ہمت کے پورے، صورت کے وجیہہ، رنگ کے گورے ہوں گے، اور اس زمانہ کی حیثیت کے بموجب تعلیم یافتہ بھی ہوں گے۔ موقع کا مقام اور سبز زمین دیکھ کر یہیں زمین گیر ہوئے۔ اس قوم کا نام ایرین تھا اور عجب نہیں کہ ان کی زبان وہ ہو جو اپنے اصل سے کچھ کچھ بدل کر اب سنسکرت کہلاتی ہے۔ یہی لوگ ہیں، جنہوں نے ہندوستان میں آ کر راجہ مہاراجہ کا خطاب لیا۔ ایران میں تاجِ کیانی پر درفش کا دیانی لہرایا۔ اپنے مذہب کا نادر طریقہ لے کر چین کو نگارخانہ بنایا۔ یونان کا طبقہ حکمت سے الگ جمایا، روما کی عالمگیر سلطنت کی بنیاد ڈالی، اندلس پہنچ کر چاندی نکالی۔ یورپ سے خبر آئی کہ کہیں دریا سے مچھلیاں نکالتے نکالتے گوہرِ سلطنت پائے، کہیں پہاڑوں سے دھات کھودتے کھودتے لعلِ بے بہا نکال لائے، تب اصلی رہنے والے کون تھے اور ان کی زبان کیا تھی؟ قیاس سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے پنجاب میں اب قطعہ قطعہ کی زبان کہیں کچھ کچھ اور کہیں بالکل اختلاف رکھتی ہے اور یہی حال اور اضلاعِ ہند میں ہے، اسی طرح اس عہد میں بھی اختلاف ہو گا اور اس عہد کی نامی زبانیں وہ ہوں گی جن کی نشانی تامل، اوڑیا اور تلنگو وغیرہ اضلاعِ دکن اور مشرق میں اب تک یادگار موجود ہیں بلکہ اس حالت میں بھی ان کی شاعری اور انشاء پردازی کہتی ہے کہ یہ گٹھلی کسی لذیذ میوہ کی ہے اور سنسکرت سے انہیں لگاؤ تک نہیں۔ (محمد حسین آزادؔ کی کتاب ’’ آب حیات‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭