intelligent086
01-24-2016, 06:08 AM
باب:مناولہ (احادیث کا باہمی تبادلہ) اور اہل علم کا علم کی باتیں لکھ کر شہروں میں بھیجنا۔۔صحیح بخاری
بَاب مَا يُذْكَرُ فِي الْمُنَاوَلَةِ وَكِتَابِ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْعِلْمِ إِلَى الْبُلْدَانِ وَقَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ نَسَخَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ الْمَصَاحِفَ فَبَعَثَ بِهَا إِلَى الْآفَاقِ وَرَأَى عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ذَلِكَ جَائِزًا وَاحْتَجَّ بَعْضُ أَهْلِ الْحِجَازِ فِي الْمُنَاوَلَةِ بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ كَتَبَ لِأَمِيرِ السَّرِيَّةِ كِتَابًا وَقَالَ لَا تَقْرَأْهُ حَتَّى تَبْلُغَ مَكَانَ كَذَا وَكَذَا فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ الْمَكَانَ قَرَأَهُ عَلَى النَّاسِ وَأَخْبَرَهُمْ بِأَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
مناولہ کا بیان او راہل علم کا علمی باتیں لکھ کر (دوسرے) شہروں کی طرف بھیجنا اور حضرت انسؓ نے فرمایا کہ حضرت عثمانؓ نے مصاحف (یعنی قرآن) لکھوادئے اور انہیں چاروں طرف بھیج دیا اور عبد اللہ بن عمرؓ، یحیٰ بن سعید اور امام مالکؒ کے نزدیک یہ (کتابت) جائز ہے اور بعض اہل حجاز نے مناولہ پر رسول اللہ ﷺ کی حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں آپؐ نے امیر لشکر کے لئے خط لکھا، پھر (قاصد سے) فرمایا: جب تک تم فلاں فلاں مقام پر نہ پہنچ جاؤ اس خط کو نہ پڑھنا، پھر جب وہ اس جگہ پہنچ گئے تو اس خط کو لوگوں کے سامنے پڑھا اور جو آپؐ کا حکم تھا وہ انہیں بتلایا۔
جلد نمبر ۱ / پہلا پارہ / حدیث نمبر ۶۵ / حدیث مرفوع
۶۵۔حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللہِ قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ بِکِتَابِهِ رَجُلًا وَأَمَرَهُ أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَی عَظِيمِ الْبَحْرَيْنِ فَدَفَعَهُ عَظِيمُ الْبَحْرَيْنِ إِلَی کِسْرَی فَلَمَّا قَرَأَهُ مَزَّقَهُ فَحَسِبْتُ أَنَّ ابْنَ الْمُسَيَّبِ قَالَ فَدَعَا عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُمَزَّقُوا کُلَّ مُمَزَّقٍ۔
۶۵۔اسماعیل بن عبد اللہ ، ابراہیم بن سعد، صالح، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ نے اپنا خط ایک شخص کے ہاتھ بھیجا اور اس کو یہ حکم دیا کہ یہ خط بحرین کے حاکم کو دے دے (چناچہ اس نے دے دیا) بحرین کے حاکم نے اس کو کسٰری (شاہ ایران) تک پہنچایا، جب کسری ٰنے اس کو پڑھا تو اپنی بدبختی سے اس کو پھاڑ ڈالا، ابن شہاب (جو اس حدیث کے روای ہیں) کہتے ہیں کہ میرے خیال میں ابن مسیب نے اس کے بعد مجھ سے یہ کہا کہ رسول اللہ نے (اپنے خط کو پھاڑنا سنا) تو ان لوگوں کو بددعا دی کہ ان کے پرخچے اڑا دیئے جائیں گے۔
جلد نمبر ۱ / پہلا پارہ / حدیث نمبر ۶۶ / حدیث مرفوع
۶۶۔حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ کَتَبَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کِتَابًا أَوْ أَرَادَ أَنْ يَکْتُبَ فَقِيلَ لَهُ إِنَّهُمْ لَا يَقْرَئُونَ کِتَابًا إِلَّا مَخْتُومًا فَاتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ فِضَّةٍ نَقْشُهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہِ کَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی بَيَاضِهِ فِي يَدِهِ فَقُلْتُ لِقَتَادَةَ مَنْ قَالَ نَقْشُهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہِ قَالَ أَنَسٌ۔
۶۶۔محمد بن مقاتل، ابوالحسن، عبد اللہ، شعبہ، قتادہ، انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خط (شاہ روم یا شاہ ایران کو) لکھا، یا لکھنے کا ارادہ کیا، تو آپ سے یہ کہا گیا کہ وہ لوگ ایسا خط نہیں پڑھتے جس پر مہر نہ لگی ہو، لہذا آپ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی، اس میں محمد رسول اللہ نقش تھا (حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اس انگوٹھی کی سجاوٹ میرے دل میں کھب گئی) گویا مجھے معلوم ہو رہا ہے کہ وہ اس وقت بھی میری نظر کے سامنے آپ کی انگلی میں چمک رہی ہے، شعبہ (جو اس حدیث کے راوی ہیں) کہتے ہیں کہ میں نے قتادہ سے کہا کہ یہ آپ سے کس نے کہا کہ اس میں محمد رسول اللہ نقش تھا وہ بولے انس نے کہا۔
بَاب مَا يُذْكَرُ فِي الْمُنَاوَلَةِ وَكِتَابِ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْعِلْمِ إِلَى الْبُلْدَانِ وَقَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ نَسَخَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ الْمَصَاحِفَ فَبَعَثَ بِهَا إِلَى الْآفَاقِ وَرَأَى عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ذَلِكَ جَائِزًا وَاحْتَجَّ بَعْضُ أَهْلِ الْحِجَازِ فِي الْمُنَاوَلَةِ بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ كَتَبَ لِأَمِيرِ السَّرِيَّةِ كِتَابًا وَقَالَ لَا تَقْرَأْهُ حَتَّى تَبْلُغَ مَكَانَ كَذَا وَكَذَا فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ الْمَكَانَ قَرَأَهُ عَلَى النَّاسِ وَأَخْبَرَهُمْ بِأَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
مناولہ کا بیان او راہل علم کا علمی باتیں لکھ کر (دوسرے) شہروں کی طرف بھیجنا اور حضرت انسؓ نے فرمایا کہ حضرت عثمانؓ نے مصاحف (یعنی قرآن) لکھوادئے اور انہیں چاروں طرف بھیج دیا اور عبد اللہ بن عمرؓ، یحیٰ بن سعید اور امام مالکؒ کے نزدیک یہ (کتابت) جائز ہے اور بعض اہل حجاز نے مناولہ پر رسول اللہ ﷺ کی حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں آپؐ نے امیر لشکر کے لئے خط لکھا، پھر (قاصد سے) فرمایا: جب تک تم فلاں فلاں مقام پر نہ پہنچ جاؤ اس خط کو نہ پڑھنا، پھر جب وہ اس جگہ پہنچ گئے تو اس خط کو لوگوں کے سامنے پڑھا اور جو آپؐ کا حکم تھا وہ انہیں بتلایا۔
جلد نمبر ۱ / پہلا پارہ / حدیث نمبر ۶۵ / حدیث مرفوع
۶۵۔حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللہِ قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ بِکِتَابِهِ رَجُلًا وَأَمَرَهُ أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَی عَظِيمِ الْبَحْرَيْنِ فَدَفَعَهُ عَظِيمُ الْبَحْرَيْنِ إِلَی کِسْرَی فَلَمَّا قَرَأَهُ مَزَّقَهُ فَحَسِبْتُ أَنَّ ابْنَ الْمُسَيَّبِ قَالَ فَدَعَا عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُمَزَّقُوا کُلَّ مُمَزَّقٍ۔
۶۵۔اسماعیل بن عبد اللہ ، ابراہیم بن سعد، صالح، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ نے اپنا خط ایک شخص کے ہاتھ بھیجا اور اس کو یہ حکم دیا کہ یہ خط بحرین کے حاکم کو دے دے (چناچہ اس نے دے دیا) بحرین کے حاکم نے اس کو کسٰری (شاہ ایران) تک پہنچایا، جب کسری ٰنے اس کو پڑھا تو اپنی بدبختی سے اس کو پھاڑ ڈالا، ابن شہاب (جو اس حدیث کے روای ہیں) کہتے ہیں کہ میرے خیال میں ابن مسیب نے اس کے بعد مجھ سے یہ کہا کہ رسول اللہ نے (اپنے خط کو پھاڑنا سنا) تو ان لوگوں کو بددعا دی کہ ان کے پرخچے اڑا دیئے جائیں گے۔
جلد نمبر ۱ / پہلا پارہ / حدیث نمبر ۶۶ / حدیث مرفوع
۶۶۔حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ کَتَبَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کِتَابًا أَوْ أَرَادَ أَنْ يَکْتُبَ فَقِيلَ لَهُ إِنَّهُمْ لَا يَقْرَئُونَ کِتَابًا إِلَّا مَخْتُومًا فَاتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ فِضَّةٍ نَقْشُهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہِ کَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی بَيَاضِهِ فِي يَدِهِ فَقُلْتُ لِقَتَادَةَ مَنْ قَالَ نَقْشُهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہِ قَالَ أَنَسٌ۔
۶۶۔محمد بن مقاتل، ابوالحسن، عبد اللہ، شعبہ، قتادہ، انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خط (شاہ روم یا شاہ ایران کو) لکھا، یا لکھنے کا ارادہ کیا، تو آپ سے یہ کہا گیا کہ وہ لوگ ایسا خط نہیں پڑھتے جس پر مہر نہ لگی ہو، لہذا آپ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی، اس میں محمد رسول اللہ نقش تھا (حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اس انگوٹھی کی سجاوٹ میرے دل میں کھب گئی) گویا مجھے معلوم ہو رہا ہے کہ وہ اس وقت بھی میری نظر کے سامنے آپ کی انگلی میں چمک رہی ہے، شعبہ (جو اس حدیث کے راوی ہیں) کہتے ہیں کہ میں نے قتادہ سے کہا کہ یہ آپ سے کس نے کہا کہ اس میں محمد رسول اللہ نقش تھا وہ بولے انس نے کہا۔