Log in

View Full Version : سوائن فلو آخر ہے کس بلا کا نام؟



intelligent086
01-23-2016, 04:43 AM
سوائن فلو آخر ہے کس بلا کا نام؟


http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14675_91136260.jpg.pagespeed.ic.Sxjo8sFcF8 .jpg

علی عباس
سوال یہ ہے کہ سوائن فلو آخرہے کس بلا کا نام؟ یہ ہر آنے والے برس کا سورج ایک نئی بیماری کے ساتھ کیوں کر طلوع ہوتا ہے؟ ڈینگی وائرس، برڈ فلو اور اب سوائن فلو… ان دنوں پاکستان میں سوائن فلو کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر یہ اہم ہو گیا تھا کہ قارئین کو اس بیماری کے متعلق معلومات فراہم کی جاتیں چناں چہ ذیل کی سطور میں سوائن فلو کے حوالے سے چند اہم حقائق پیش کیے جا رہے ہیں: یہ انفلوئنزا کی قسم کی ایک بیماری ہے جو ہوسکتا ہے بہ ظاہر سانس کا مسئلہ نظر دکھائی دے لیکن سوائن فلو کی کئی قسمیں ہیں جن سے بہت سے ممالیہ جانور اور حتیٰ کہ پرندے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ 2009ء سے قبل تک سوائن فلو سے عموماً سوائن(سور) ہی متاثر ہوتے تھے ۔ دوسرا، اگر کوئی سوائن فلو کے حملے سے متاثر بھی ہوتا تو اس کی دو وجوہات ہوتیں۔ ایک تو سوائن کے بہت قریب رہنے کے باعث متاثر ہونے کے خدشات بڑھ جاتے اور عموماً وہ لوگ اس جان لیوا بیماری کی زد میں آتے جنہوں نے سوائن فارم بنا رکھے تھے یاوہ میلوں میں اپنے جانوروں کے ساتھ شریک ہوتے۔ 2009ء میں یہ سارا منظرنامہ یکسر تبدیل ہوگیا اور انسانوں میں یہ بیماری ایک وبا کی صورت میں پھیلی لیکن اس سے قبل ماضی پر نظر دوڑانا ضروری ہے۔ سوائن میں پہلی بار اس وقت فلو کی علامات دیکھی گئی تھیں جب 1918ء میں انسانوں میں فلو ایک وبا کی صورت میں کئی ملکوں میں پھیلا اوردنیا بھر میں لاکھوں انسان متاثر ہوئے۔ 1918ء تک سوائن اس وبا کی وجہ نہیں تھا بلکہ سوائن میں تو ماہرین کے خیال میں یہ بیماری انسانوں سے منتقل ہوئی تھی لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اس بارے میں وثوق سے کچھ کہنا شاید ممکن نہ ہو۔ دہائیوں تک سوائن وائرس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔1990ء کی دہائی میں سوائن فلو ایک وائرس کی صورت اختیار کرگیالیکن یہ تبدیلی کیوں کر رونما ہوئی؟ اس بارے میں قطعیت سے کچھ کہنا ممکن نہیں ہے لیکن غالباً اس کی ایک اہم وجہ سوائن کے بڑے پیمانے پر فارم قائم ہونا ہوسکتی ہے۔ 2009ء سے قبل صرف ایک بار سوائن فلو لوگوں میں وبا کی صورت میں پھیلا جس نے عوامی صحت کے حوالے سے خدشات کو امریکہ کی حد تک بڑھایا۔ 1979ء میں امریکی ریاست نیوجرسی میں ٹرینٹن سے چند میل دور پورٹ ڈکس میں امریکی فوج کی سابق پوسٹ پر سپاہی اس بیماری سے متاثر ہونے لگے۔ ایک سپاہی جاں بر نہ ہوسکا جب کہ تقریباً 12شدید ترین فلو کے باعث کئی روز تک ہسپتال میں زیرِعلاج رہے۔ بعدازاں جب مزیدسپاہیوں کے ٹیسٹ کیے گئے تو یہ پریشان کن انکشاف ہوا کہ دو سو سے زائد سپاہی اس بیماری سے متاثر ہوئے تھے جن میں سے بیش تر میں شاذ و نادر ہی اس کی علامات پائی گئیں۔ اس وائرس کی مماثلت بڑی حد تک سوائن میں پائے جانے والے فلو سے تھی جس کے باعث مستقبل میں بھی ایسی وبا پھوٹنے کے خدشات بڑھ گئے، اُس وقت پبلک ہیلتھ سے منسلک اہل کاروں نے فوری طور پر بڑے پیمانے پر ویکسی نیشن پروگرام شروع کیا جس کے تحت امریکہ میں 25فی صد لوگوں کو ویکسین پلائی گئی۔ اِن دنوں پاکستان میں روزانہ سوائن فلو سے ہلاکتوں کی خبریں آرہی ہیں ۔وزیر برائے نیشنل ہیلتھ سروسز اینڈ کوارڈینیشن سائرہ افضل تارڑ نے تو یہ ماننے سے ہی انکار کر دیا ہے کہ ملک اور بالخصوص پنجاب میں سوائن فلو کی کوئی وبا پھوٹی ہے بلکہ انہوں نے اسے موسمی زکام قرار دیاہے ۔ اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو اس صورت میں حکومت کی جانب سے اس موسمی زکام کی روک تھام کے لیے اب تک کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟قصہ مختصر امریکہ میں یہ بیماری فورٹ ڈکس کی حدود سے باہر نہیں پھیلی۔ یہ صورتِ حال اس وقت تشویش ناک صورتِ حال اختیار کر گئی جب چند برس قبل مارچ اور اپریل 2009ء میں میکسیکو میں سینکڑوں لوگ سوائن فلو سے متاثر ہوئے۔ اپریل تک یہ وبا امریکہ میں دستک دے چکی تھی اور سان ڈیاگو کائونٹی میں ایک شخص اس سے متاثر ہوا جس کے بعد ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی سوائن فلو کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور یہ وبا جلد ہی دنیا بھر میں پھیل گئی۔ عالمی ادارۂ صحت نے سرکاری طور پر سوائن فلو کو ایک وبا قرار دیا۔ امریکی ادارے سی ڈی سی (Center for Disease Control and Prevention)کے ایک اندازے کے مطابق 10لاکھ سے زائد امریکی شہری سوائن فلو سے متاثر ہوئے۔ اگست 2009ء تک سوائن فلو دنیا کے 170ملکوں میں پھیل چکا تھا۔ اسی برس اکتوبر میں صرف امریکہ میں سوائن فلو سے ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہوگئی جن میںایک سو سے زائد بچے بھی شامل تھے۔ امریکی صدر نے اسے قومی ایمرجنسی قرار دیا ۔ اس وقت ہنگامی بنیادوں پر اس جان لیوا وائرس کے توڑ کے لیے ویکسین تیار کی گئی جو متاثرین کی تعداد کے اعتبار سے ناکافی تھی۔ امریکی حکومت کے بروقت اقدامات کے باعث سوائن فلو پر تو قابو پالیا گیا لیکن اس وقت بھی یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا یہ بیماری سوائن فلو ہی تھی یا موسمی زکام بگڑ گیا تھا؟ بعدازاں سی ڈی سی کی تحقیق سے یہ منکشف ہوا کہ یہ سوائن فلو کی ایک قسم ہی تھی۔ 2011ء میں سوائن فلو ایک بار پھر دنیا بھر میں پھیلا لیکن اس نے وبائی صورت اختیار نہیں کی۔ یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ سوائن فلو کی کئی اقسام ہیں۔ کچھ صرف سوائن کو متاثر کرتی ہیں۔ کچھ انسانوں اور جانوروں کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ فلو کی وہ قسم ہے جس میں مختلف وائرس مل جاتے ہیں اور یوں زکام کی ایک نئی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ 2009ء میں جب دنیا بھر میں سوائن فلو پھیلا تو اس کے وائرس میں پرندوں، سوائن اور انسانوں کے جینز شامل تھے۔ سوائن فلو ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے‘ ایسا سانس کے ذریعے ہوسکتا ہے یا پھر ایسی جگہوں کو چھونے سے بھی سوائن فلو ہوسکتا ہے جہاں اس کا وائرس موجود ہو۔کھانسی اور چھینکنے کے باعث بھی اردگردموجود لوگوں کے اس بیماری سے متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر کسی گھر میں کوئی شخص سوائن فلو سے متاثر ہوتا ہے تو اس کے اہلِ خانہ کے اس بیماری سے متاثر ہونے کے آٹھ سے 19فی صد تک امکانات ہوتے ہیں۔ سی ڈی سی کے ماہرین کے مطابق ان لوگوں میں سوائن فلو کا خطرہ ہوسکتا ہے جنہیں بخار ہواور سانس لینے میں دشواری پیش آرہی ہو، بالخصوص کھانسی اور گلا سوجا ہوا ہو۔ مریض تھکاوت محسوس کرے یا پھر سردی سے کپکپی طاری ہوجائے، سرمیں یا جسم کے مختلف حصوں میں درد ہو۔ سوائن فلو کے مریضوں میں متلی، قے یا ڈائریا کی علامات بھی ہوسکتی ہیں۔ بہت چھوٹے بچے بخار یا کھانسی کی شکایت غالباًنہ کریں لیکن سانس کی رکاوٹ ان کی بیماری کی ایک اہم علامت ہوسکتی ہے۔ 2009ء میں نومولود بچوں سے لے کر 24برس کی عمر تک کے نوجوان سوائن فلو سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ 65برس سے زائد عمر کے افراد میں سوائن فلو سے متاثر ہونے کے خدشات نسبتاً کم ہوتے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق یہ بیماری کسی بھی وقت ایک وبا کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ سوائن فلو کا وائرس چوں کہ تبدیل ہوتا رہتا ہے تو شاید اس کے حوالے سے قوتِ مدافعت پیدا ہونے میں کچھ عرصہ درکار ہو۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنا انتہائی اہم ہے کہ یہ فلو کتنا خطرناک ہے؟ اس بارے میں ماہرین فی الحال اندازے مرتب کررہے ہیں۔سوائن فلو کے خلاف عام حفاظتی ٹیکے بے اثر ثابت ہوچکے ہیں جبکہ کوئی نئی ویکسین اب تک تیار نہیں ہوئی۔ امریکہ میں سوائن فلو کے علاج کے لیے ویکسین کی تیاری پر کام ہورہا ہے لیکن فی الحال کوئی مؤثر دوا تیار نہیں ہوسکی۔

Moona
02-10-2016, 11:44 PM
OMG
intelligent086 thanks 4 informative sharing

intelligent086
02-11-2016, 03:47 AM
OMG
@intelligent086 (http://www.urdutehzeb.com/member.php?u=61) thanks 4 informative sharing


http://www.mobopk.com/images/hanks4comments.gif