intelligent086
01-20-2016, 04:07 AM
اینگما: مغربی موسیقی کی اساطیر کیفیت بھری موسیقی کے اس منصوبے کے خالق کا نام مائیکل کریٹو ہے
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14660_51044730.jpg.pagespeed.ic.6BpASkUHg0 .jpg
موسیقی نے ہمیشہ تہذیبوں کی نمائندگی کی ہے۔ ہر خطے کی موسیقی میں وہاں کا تمدن کھنکتا ہے۔ مشرق اور مغرب کی موسیقی کے اپنے جداگانہ پیمانے ہیں، لیکن کچھ ایسے اصول ہیں، جن کی بنیاد یکساں ہے۔مشرق اور مغرب میں ترقی کے زینے طے کرنے کے بعد جب معاشرت اس قابل ہوئی کہ وہ فنون کو سنبھال سکے، تو موسیقی بھی ان میں سرفہرست فن تھا، جس کی تخلیق سے تحفظ تک کی تمام ذمے داری انسان نے اپنے ذوق سے پیوست کر دی۔ اس طرح شاندار موسیقی کی روایات نے جنم لیا۔ ان میں سے ایک معروف مغربی موسیقی کے مقبول ترین منصوبے کا یہاں تذکرہ کیا جارہاہے، جس کے پیچھے فردِ واحد کی سوچ کارفرما تھی۔ موسیقی کے اس منصوبے کا نام اینگما (Enigma) یعنی ’’پہیلی‘‘ ہے، جس نے 90 کی دہائی میں پوری دنیا پر اپنی دھاک بٹھا دی۔ اس منصوبے سے موسیقی کے ایک نئے عہد نے جنم لیا اور کئی نسلیں یکے بعد دیگرے متاثر ہوئیں۔موسیقی کے اس منصوبے کے خالق کا نام مائیکل کریٹو ہے۔ اس اندازِ موسیقی کو مغرب میں کائناتی موسیقی، نئے آہنگ کی موسیقی، پرسکون کر دینے والی موسیقی، برقی موسیقی اور تجرباتی موسیقی کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ان ناموں سے ظاہر ہوتا ہے، یہ کیفیت بھری موسیقی ہے، جس میں عالمگیریت کا احساس پوری طرح موجود ہے۔ اس کو سنتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے، آپ کسی پرندے کی طرح خلا میں اڑتے ہوئے فلک سے زمین کی طرف دیکھ رہے ہیں، انسانوں کی دنیا ایک پیالے کی مانند محسوس ہوتی ہے، یہ اس موسیقی کی کرشمہ سازی ہے۔اس اندازِ موسیقی میں جدید اور عصری انداز کے ساتھ ساتھ روایتی، لوک، کلاسیکی موسیقی کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ اس امتزاج سے نئے انداز کی موسیقی جنم لیتی ہے، جس کو ہم ان تمام اقسام سے قریب ترین کی موسیقی کہہ سکتے ہیں۔ موسیقی کی مشہور مغربی صنف ’’داستانی اندازِ موسیقی‘‘ بھی اس سے قریب ترین ہے۔ اس موسیقی میں طلسم اور پراسراریت سنائی دیتی ہے، مگر خوف کا عنصر عنقا ہے اور رومانویت حاوی ہے۔ اینگما کی موسیقی کے اتار چڑھاؤ میں کہیں محبوب سے جدائی کے مناظر دکھائی دیتے ہیں، تو کہیں محبوب کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں۔ یہ موسیقی صدیوں پیچھے کے سفر پر لے جاتی ہے۔ یہ کیفیت کی موسیقی ہے۔ عصر حاضر میں اس کا نام اینگما ہے، جو ہمارے دل میں جاگزیں پہیلیوں کو بوجھ لینے والی موسیقی ہے۔مغرب میں اس موسیقی سے وابستہ ایک موسیقار کو ہمارے ہاں بہت شہرت ملی، اس کا نام پیٹر گیبرئیل ہے، جس نے استاد نصرت فتح علی خان کے ساتھ مل کر ایسی موسیقی ترتیب دی، جس نے دنیا کو حیران کر دیا۔ پیٹر گیبرئیل نے اپنے کریئر کی بہترین موسیقی داستانی اندازِ موسیقی کی صنف میں تخلیق کی۔ یہی وجہ تھی کہ اس کو ہمارا لوک گائیک اور قوال بے حد پسند آیا اوراس نے وہی تجربہ ہماری موسیقی پر بھی کیا اور کامیاب رہا۔ آج بھی دنیا کے 100 بہترین داستانی انداز موسیقی کے گانوں میں جس بینڈ کے گیت کو اول مانا جاتا ہے، اس بینڈ کا نام ’’جینیسز‘‘ ہے۔ یہ 60 کی دہائی میں برطانیہ کا معروف بینڈ تھا، جس کے ممبرز میں سے ایک پیٹر گیبرئیل بھی تھا۔ اس تمہید کو باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ مغرب میں اس طرز کی موسیقی پر کئی دہائیوں سے کام ہو رہا ہے۔ اس میں سے ایک نام مائیکل کریٹو کا بھی ہے ،جس نے 90ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں سے یہ موسیقی تخلیق کی، جس کی مقبولیت اورمعیار آج بھی برقرار ہے۔ مائیکل کریٹو نے یہ کام اپنی شریک حیات سینڈرا کے ساتھ مل کر شروع کیا تھا۔ اس کے بعد کئی مزید فنکار اس موسیقی کے منصوبے میں اس کے شریک تخلیق کار بنے، جن میں ڈیوڈ فرسٹین، فرینک پیٹرسن، لوسیا اسٹینلے، پیٹر کارنیلوس، جینز گارڈ، اینڈرس ہارڈی، روتھ این بولے، اینڈریو ڈونلڈز اور الزبتھ ہوٹون شامل ہیں، جنہوں نے اس شاندار موسیقی کو مرتب کرنے میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔مائیکل کریٹو کی پیدائش رومانیہ کی ہے جبکہ پرورش جرمنی میں ہوئی۔ یہیں اس نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کی بنیاد رکھی۔ پہلے انفرادی حیثیت میں موسیقی کی مختلف اصناف پر کام کرتا رہا، کچھ دوسرے موسیقاروں کے ساتھ بھی کام کرنے کے تجربے کیے، مگر اسے کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ اس نے اینگما کے منصوبے کو شروع کرنے سے پہلے اپنی بیوی کی ایک سولو البم بھی مکمل کی، مگر اس کے باوجود شہرت اور کامیابی کی دیوی اس پر مہربان نہ ہوئی۔ موسیقی کے اس شاندار منصوبے اینگما نے اس کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور اس کی زندگی بدل کر رکھ دی۔اس نے اپنا سٹوڈیو سپین میں بنایا اور وہیں سے اپنا کام کرتا رہا۔ دیکھا جائے، تو اس موسیقی کی تخلیق میں بھی تین ممالک بالواسطہ شریک ہیں، یعنی رومانیہ، جرمنی اور سپین۔ عالمگیر ہونے کی خصوصیت صرف موسیقی تک ہی محدود نہیں بلکہ اس منصوبے کے خدوخال پر بھی محیط ہے جس کا عکس اس موسیقی کے انداز، شاعری اور طرزوں میں ملتا ہے۔ اینگما میں استعمال ہونے والے موسیقی کے آلات میں جو اہم ہیں، ان میں سیمپلر، ڈرمز، سینتھیسائزر، کی بورڈ وغیرہ شامل ہیں۔ مائیکل کی سابقہ بیوی سمیت کئی گلوکاروں نے اپنی آوازوں سے اس موسیقی میں تاثرات انڈیلے، جس سے یہ اور سریلی ہوگئی۔ اس منصوبے میں جینز گاڈ بھی ایک اہم رکن تھا، جس نے ابتدائی تین البموں میں موسیقی کو ترتیب دی اور گٹار بھی بجایا اور ابتدائی عرصے میں پیٹر کارنیلوس نے بھی اس منصوبے کے لیے اپنی خدمات فراہم کیے رکھیں۔ اب ایک طویل عرصے سے صرف مائیکل اس منصوبے کے تحت موسیقی تخلیق کر رہا ہے۔1990ء سے لے کر آج تک اینگما کے اب تک 10 البم ریلیز ہوچکے ہیں، جن میں مختلف ممالک میں ریلیز کیے جانے والے ایڈیشنز بھی شامل ہیں اور ان میں جاپان ایڈیشنز سب سے زیادہ شامل ہیں۔ان کے علاوہ اینگما کے وہ گیت جن کو انہوں نے کہیں کسی کانسرٹ میں پرفارم کیا، وہ گزشتہ برسوں کے دروان عوام تک پہنچ چکے ہیں۔ مختلف ناموں سے انتخاب کی گئی البموں کی تعداد بھی 10 ہے، جو مختلف دس برسوں میں ریلیز ہوئیں۔ 19 ایسے گیت ہیں، جن کو ایک ایک کر کے ریلیز کیا گیا، ان میں سے بیشتر بے حد مقبول ہوئے۔ کئی ایک گیت مختلف ٹیلی ویژن پروگراموں اور فلموں میں بھی شامل کیے گئے۔ ان چند ایک مشہور فلموں میں سلور، دی سکورپین کنگ، چارلیز اینجلز اور دی میٹرکس شامل ہیں۔ اسی طرح ٹیلی ویژن پروگراموں میں ’’امریکن آئیڈل‘‘ اور ’’چیپلز شو‘‘ و دیگر شوز ہیں، جن میں یہ موسیقی شامل کی گئی۔ اینگما جیسی تخلیق کی جانے والی موسیقی کی پسندیدگی کا دائرہ عالمگیر ہوتا ہے جبکہ اس کی مقبولیت برقرار رہنے کی عمر سینکڑوں برس ہوتی ہے، یہی اس موسیقی کا کمال ہے۔ (خرم سہیل کے ایک مضمون سے ماخوذ) ٭…٭…٭
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14660_51044730.jpg.pagespeed.ic.6BpASkUHg0 .jpg
موسیقی نے ہمیشہ تہذیبوں کی نمائندگی کی ہے۔ ہر خطے کی موسیقی میں وہاں کا تمدن کھنکتا ہے۔ مشرق اور مغرب کی موسیقی کے اپنے جداگانہ پیمانے ہیں، لیکن کچھ ایسے اصول ہیں، جن کی بنیاد یکساں ہے۔مشرق اور مغرب میں ترقی کے زینے طے کرنے کے بعد جب معاشرت اس قابل ہوئی کہ وہ فنون کو سنبھال سکے، تو موسیقی بھی ان میں سرفہرست فن تھا، جس کی تخلیق سے تحفظ تک کی تمام ذمے داری انسان نے اپنے ذوق سے پیوست کر دی۔ اس طرح شاندار موسیقی کی روایات نے جنم لیا۔ ان میں سے ایک معروف مغربی موسیقی کے مقبول ترین منصوبے کا یہاں تذکرہ کیا جارہاہے، جس کے پیچھے فردِ واحد کی سوچ کارفرما تھی۔ موسیقی کے اس منصوبے کا نام اینگما (Enigma) یعنی ’’پہیلی‘‘ ہے، جس نے 90 کی دہائی میں پوری دنیا پر اپنی دھاک بٹھا دی۔ اس منصوبے سے موسیقی کے ایک نئے عہد نے جنم لیا اور کئی نسلیں یکے بعد دیگرے متاثر ہوئیں۔موسیقی کے اس منصوبے کے خالق کا نام مائیکل کریٹو ہے۔ اس اندازِ موسیقی کو مغرب میں کائناتی موسیقی، نئے آہنگ کی موسیقی، پرسکون کر دینے والی موسیقی، برقی موسیقی اور تجرباتی موسیقی کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ان ناموں سے ظاہر ہوتا ہے، یہ کیفیت بھری موسیقی ہے، جس میں عالمگیریت کا احساس پوری طرح موجود ہے۔ اس کو سنتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے، آپ کسی پرندے کی طرح خلا میں اڑتے ہوئے فلک سے زمین کی طرف دیکھ رہے ہیں، انسانوں کی دنیا ایک پیالے کی مانند محسوس ہوتی ہے، یہ اس موسیقی کی کرشمہ سازی ہے۔اس اندازِ موسیقی میں جدید اور عصری انداز کے ساتھ ساتھ روایتی، لوک، کلاسیکی موسیقی کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ اس امتزاج سے نئے انداز کی موسیقی جنم لیتی ہے، جس کو ہم ان تمام اقسام سے قریب ترین کی موسیقی کہہ سکتے ہیں۔ موسیقی کی مشہور مغربی صنف ’’داستانی اندازِ موسیقی‘‘ بھی اس سے قریب ترین ہے۔ اس موسیقی میں طلسم اور پراسراریت سنائی دیتی ہے، مگر خوف کا عنصر عنقا ہے اور رومانویت حاوی ہے۔ اینگما کی موسیقی کے اتار چڑھاؤ میں کہیں محبوب سے جدائی کے مناظر دکھائی دیتے ہیں، تو کہیں محبوب کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں۔ یہ موسیقی صدیوں پیچھے کے سفر پر لے جاتی ہے۔ یہ کیفیت کی موسیقی ہے۔ عصر حاضر میں اس کا نام اینگما ہے، جو ہمارے دل میں جاگزیں پہیلیوں کو بوجھ لینے والی موسیقی ہے۔مغرب میں اس موسیقی سے وابستہ ایک موسیقار کو ہمارے ہاں بہت شہرت ملی، اس کا نام پیٹر گیبرئیل ہے، جس نے استاد نصرت فتح علی خان کے ساتھ مل کر ایسی موسیقی ترتیب دی، جس نے دنیا کو حیران کر دیا۔ پیٹر گیبرئیل نے اپنے کریئر کی بہترین موسیقی داستانی اندازِ موسیقی کی صنف میں تخلیق کی۔ یہی وجہ تھی کہ اس کو ہمارا لوک گائیک اور قوال بے حد پسند آیا اوراس نے وہی تجربہ ہماری موسیقی پر بھی کیا اور کامیاب رہا۔ آج بھی دنیا کے 100 بہترین داستانی انداز موسیقی کے گانوں میں جس بینڈ کے گیت کو اول مانا جاتا ہے، اس بینڈ کا نام ’’جینیسز‘‘ ہے۔ یہ 60 کی دہائی میں برطانیہ کا معروف بینڈ تھا، جس کے ممبرز میں سے ایک پیٹر گیبرئیل بھی تھا۔ اس تمہید کو باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ مغرب میں اس طرز کی موسیقی پر کئی دہائیوں سے کام ہو رہا ہے۔ اس میں سے ایک نام مائیکل کریٹو کا بھی ہے ،جس نے 90ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں سے یہ موسیقی تخلیق کی، جس کی مقبولیت اورمعیار آج بھی برقرار ہے۔ مائیکل کریٹو نے یہ کام اپنی شریک حیات سینڈرا کے ساتھ مل کر شروع کیا تھا۔ اس کے بعد کئی مزید فنکار اس موسیقی کے منصوبے میں اس کے شریک تخلیق کار بنے، جن میں ڈیوڈ فرسٹین، فرینک پیٹرسن، لوسیا اسٹینلے، پیٹر کارنیلوس، جینز گارڈ، اینڈرس ہارڈی، روتھ این بولے، اینڈریو ڈونلڈز اور الزبتھ ہوٹون شامل ہیں، جنہوں نے اس شاندار موسیقی کو مرتب کرنے میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔مائیکل کریٹو کی پیدائش رومانیہ کی ہے جبکہ پرورش جرمنی میں ہوئی۔ یہیں اس نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کی بنیاد رکھی۔ پہلے انفرادی حیثیت میں موسیقی کی مختلف اصناف پر کام کرتا رہا، کچھ دوسرے موسیقاروں کے ساتھ بھی کام کرنے کے تجربے کیے، مگر اسے کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ اس نے اینگما کے منصوبے کو شروع کرنے سے پہلے اپنی بیوی کی ایک سولو البم بھی مکمل کی، مگر اس کے باوجود شہرت اور کامیابی کی دیوی اس پر مہربان نہ ہوئی۔ موسیقی کے اس شاندار منصوبے اینگما نے اس کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور اس کی زندگی بدل کر رکھ دی۔اس نے اپنا سٹوڈیو سپین میں بنایا اور وہیں سے اپنا کام کرتا رہا۔ دیکھا جائے، تو اس موسیقی کی تخلیق میں بھی تین ممالک بالواسطہ شریک ہیں، یعنی رومانیہ، جرمنی اور سپین۔ عالمگیر ہونے کی خصوصیت صرف موسیقی تک ہی محدود نہیں بلکہ اس منصوبے کے خدوخال پر بھی محیط ہے جس کا عکس اس موسیقی کے انداز، شاعری اور طرزوں میں ملتا ہے۔ اینگما میں استعمال ہونے والے موسیقی کے آلات میں جو اہم ہیں، ان میں سیمپلر، ڈرمز، سینتھیسائزر، کی بورڈ وغیرہ شامل ہیں۔ مائیکل کی سابقہ بیوی سمیت کئی گلوکاروں نے اپنی آوازوں سے اس موسیقی میں تاثرات انڈیلے، جس سے یہ اور سریلی ہوگئی۔ اس منصوبے میں جینز گاڈ بھی ایک اہم رکن تھا، جس نے ابتدائی تین البموں میں موسیقی کو ترتیب دی اور گٹار بھی بجایا اور ابتدائی عرصے میں پیٹر کارنیلوس نے بھی اس منصوبے کے لیے اپنی خدمات فراہم کیے رکھیں۔ اب ایک طویل عرصے سے صرف مائیکل اس منصوبے کے تحت موسیقی تخلیق کر رہا ہے۔1990ء سے لے کر آج تک اینگما کے اب تک 10 البم ریلیز ہوچکے ہیں، جن میں مختلف ممالک میں ریلیز کیے جانے والے ایڈیشنز بھی شامل ہیں اور ان میں جاپان ایڈیشنز سب سے زیادہ شامل ہیں۔ان کے علاوہ اینگما کے وہ گیت جن کو انہوں نے کہیں کسی کانسرٹ میں پرفارم کیا، وہ گزشتہ برسوں کے دروان عوام تک پہنچ چکے ہیں۔ مختلف ناموں سے انتخاب کی گئی البموں کی تعداد بھی 10 ہے، جو مختلف دس برسوں میں ریلیز ہوئیں۔ 19 ایسے گیت ہیں، جن کو ایک ایک کر کے ریلیز کیا گیا، ان میں سے بیشتر بے حد مقبول ہوئے۔ کئی ایک گیت مختلف ٹیلی ویژن پروگراموں اور فلموں میں بھی شامل کیے گئے۔ ان چند ایک مشہور فلموں میں سلور، دی سکورپین کنگ، چارلیز اینجلز اور دی میٹرکس شامل ہیں۔ اسی طرح ٹیلی ویژن پروگراموں میں ’’امریکن آئیڈل‘‘ اور ’’چیپلز شو‘‘ و دیگر شوز ہیں، جن میں یہ موسیقی شامل کی گئی۔ اینگما جیسی تخلیق کی جانے والی موسیقی کی پسندیدگی کا دائرہ عالمگیر ہوتا ہے جبکہ اس کی مقبولیت برقرار رہنے کی عمر سینکڑوں برس ہوتی ہے، یہی اس موسیقی کا کمال ہے۔ (خرم سہیل کے ایک مضمون سے ماخوذ) ٭…٭…٭