intelligent086
01-19-2016, 12:38 AM
شعور کی اثرافرینی ۔۔ آرٹیکل : ابوییحئ
http://mag.dunya.com.pk/magazin_news/2015/April/04-12-15/2106_85367222.jpg
دل کا قبرستان ساون کی رت آئی اور آسمان نے بادلوں کی ردا اوڑھ لی ۔ہواکی خنکی نے پیاسی زمین کو پیام زندگی بھیجا اورابر رحمت نے برسنا شروع کردیا۔تپتی ہوئی دھرتی کا آنچل تر ہوگیا۔نرم زمین کا سینہ شق کرکے کونپلیں پھوٹنے لگیں۔ پھریہ مٹیالا آنچل سبز ہوگیا۔مردہ زمین زندہ ہوگئی ۔ وہ کہتا ہے کہ میں ایسے ہی ایک روز ہر مردہ کو زندہ کردوں گا۔ پھرہرنفس کے ایک ایک لمحہ زندگی کا حساب کروں گا۔وہ غلط نہیں کہتا۔ جو مردہ زمین کو زندہ کرسکتا ہے ، وہ مردہ انسانوں کو بھی اٹھا سکتا ہے۔جو بارش کے ہر قطرہ اور درخت کے ہر پتے کو گن سکتا ہے ،وہ زندگی کے ہر لمحہ کا حساب بھی کرسکتا ہے۔ بندے نے سر سبز زمین کو دیکھا، نظر اٹھائی اور کہا، ’’ تجھے معلوم ہے کہ مردے صرف زمین ہی میں دفن نہیں ہوتے۔ ایک قبرستان اور بھی ہوتا ہے۔ یہ خواہشوںکا قبرستان ہے جو بندہ ٔمومن کے سینے میں جنم لیتا ہے۔ اس قبرستان میں کتنی امنگیں، کتنی خواہشیں، کتنے خواب اور کتنی رنگینیاں صرف تیرے لیے دفن کی جاتی ہیں۔کیا تو اُس دن اِن کو بھی زندہ کرے گا؟‘‘ ’’تمھارے سینے کی ہر خلش کو ہم کھینچ لیں گے‘‘(الاعراف 43:7 )۔ آسمان کی جگہ قرآن نے جواب دیا۔ کیونکہ اب قیامت تک قرآن ہی نے بولنا ہے۔شیطان نے دیکھا کہ بات بن رہی ہے تو وہ بات بگاڑنے آگیا۔سوالات کا ایک انبار اس کے سامنے رکھ دیا۔بندہ پھر بندہ ہے۔ سوالات کے طوفان میں اس کی کشتی ڈولنے لگی۔وہ سوچنے لگا کہ اس کی جنت خدا بنائے گا۔ بہت خوب بنائے گا، مگر اپنی خواہش اور اپنی مرضی سے بنائے گا۔ تو پھر میری مرضی اور میری خواہش کا کیا ہوگا۔ دیر تک جواب نہ ملا تو خاموشی سے سر جھکا کر آگے بڑھ گیا۔ ’’مگر اسی لمحے ایک جھونکا آیا اور اپنے نرم لمس میں یہ پیغام چھوڑگیا ۔ جنت ہماری ہوگی ، مگر مرضی تمھاری ہوگی۔ ہمیں اپنے بندوں کو نہ کہنے کی عادت نہیں۔ اور ہماری راہ میں کسی اگر اور مگر کی دیوار بھی نہیں آسکتی ۔وہاں جو تمھارا جی چاہے گا، ملے گا اور جو مانگوگے، پاؤ گے‘‘۔(29:89,32:41)۔ بندے نے سنا اوردل کے قبرستان میں مزید قبریں بنانے کا حوصلہ پیدا ہوگیا۔
آرنلڈ شوارز نگر کا شمار ہا لی وڈ کے مقبول ترین فنکاروں میں ہوتا ہے۔آسٹریا سے تعلق رکھنے والے آرنلڈ 30 جولائی 1947میں پیداہوئے۔عملی زندگی کا آغاز ایک باڈی بلڈر کے طور پر کیا اور کئی بین الاقوامی اعزازات حاصل کیے۔ 1968میں وہ امریکہ آئے۔ باڈی بلدنگ کے ساتھ انہوں نے فلموں میں آنے کی تگ و دو شروع کردی ۔ 1970میں انہیں ایک فلمHercules in New York میں کام کرنے کا موقع ملا۔تاہم ان اصل شہرت 1984میں منظر عام پر آنے والی فلم The Terminator کے ذریعے سے ہوئی۔پھر اس میدان میں انہوں نے کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ فلمی دنیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد انہوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ یہاں بھی تقدیر ان پر مہربان رہی اور فلم کا ہیرو سیاست کے میدان میں بھی ہیرو بن گیا۔ اکتوبر 2003میں امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کی گورنری کا تاج ان کے سرسج گیا۔پھر وہ کیلیفورنیا کے گورنر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ اُن دنوں آرنلڈ کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوئیتھی کہ آرنلڈ نے موٹر سائیکل کا لائسنس بنوانے کا ارادہ کیا۔وہ آخر کار اس مقصد میں کامیاب ہوگئے مگر اس کے لیے انہیں چھ مہینے تک مختلف عملی اور تحریری امتحانات سے گزرنا پڑا۔ اہل پاکستان کے لیے یقینا یہ ایک انتہائی عجیب و غریب خبر تھی۔ ا س لیے کہ ہمارے ملک میں کسی گورنر کو اول تو کسی قسم کے لائسنس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر ضرورت پیش آجائے تو امتحان سے گزرنا تو دور کی بات ہے ، متعلقہ ڈپارٹمنٹ کا اعلیٰ ترین افسر اس کی خد مت میں پیش ہوکر لائسنس اس کے قدموں میں رکھ دے گا۔معاملہ صرف لائسنس بنوانے تک ہی محدود نہیں ، زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، حکمران طبقے کے لیے ہمارے ملک میں کوئی قانون نہیں ہوتا۔ ان کے لیے ہر جگہ ہر قانون معطل کردیا جاتا ہے۔تاہم معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں حکمرانوں نے اپنے لیے یہ انداز پسند کرلیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں قانون کی حکمرانیRule of Lawکو کبھی ایک معاشرتی قدر کے طور پر پیش ہی نہیں کیا گیا۔یہی سبب ہے کہ بظاہر لوگ اس طرح کے واقعات پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں مگر جیسے ہی انہیں موقع ملتا ہے وہ خود بھی اسی طرح قانون کو پامال کرتے ہیں۔آپ دیکھ لیجیے کہ عوام کی خدمت کا نعرہ لگانے والے لوگوں سے لے کر اسلام کے نام پر منتخب ہونے والے لوگ جب اقتدار میں آتے ہیں تو ان کے لیے اسی طرح قانون معطل ہوجاتا ہے جس طرح ایک فوجی حکمران کے لیے ہوجاتا ہے۔ یہی معاملہ عوام الناس کا ہے۔ انفرادی طور جب کبھی اور جتنا کبھی انہیں اختیارملتا ہے وہ یہی پسند کرتے ہیں کہ انہیں قانون کی پاسداری نہ کرنی پڑے۔چونکہ حکمران قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اختیار رکھتے ہیں اس لیے ان کے لیے بڑا آسان ہوتا ہے کہ وہ قانون کو جب چاہیں اپنے لیے معطل کردیں۔عوام کو یہ اختیار کم کم ملتا ہے مگر جب کبھی ملتا ہے ان کا رویہ حکمرانوں سے قطعاً مختلف نہیں ہوتا۔ یہی وہ رویہ ہے جسے ہم قانون کی حکمرانی کا ایک قدر کے طور پر نہ ہونے سے تعبیر کررہے ہیں۔ دنیا میں کوئی قوم قانون کی پاسداری کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی۔قانون کی حکمرانی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب فیصلہ فرد کی حیثیت کے بنیاد پر نہیں ہوگا بلکہ اصول اور ضابطہ پر ہوگا۔قانون کی حکمرانی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب کمزور بھی طاقتور کے برابر کا مقام رکھتا ہے۔یہی وہ چیز ہے جو معاشرے میں فساد کو پھیلنے سے روکتی ہے۔ اس لیے کہ فساد اصل میں طاقتور لوگ پھیلاتے ہیں۔قانون کی حکمرانی ان کی طاقت کو محدود کردیتی ہے۔ زندہ قومیں جس قدر کو معاشرے میں سب سے پہلے عام کرتی ہیں وہ یہی رول آف لا ہے۔ہمیں اگر اپنے ملک میں سے ظلم اور ناانصافی کو ختم کرنا ہے تو اس کے لیے رول آف لا کو سب سے بڑا مقام دینا ہوگا۔اس کے بغیر امن اور انصاف کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ نظام اور شعور امریکہ یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں لائن بنانا روزمرہ زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ وہاں لوگ بس کا انتظار کررہے ہوں، کھانے پینے کی اشیاء خرید رہے ہوں یا عام ضرورت کی کسی اور شے کو استعمال کررہے ہوں، جہاں چند آدمی اکٹھے ہوتے ہیں لائن بنالیتے ہیں۔ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کے شہری جب مغربی ممالک میں جاتے ہیں تو ان لوگوں کی قطار پسندی سے بے حد متاثر ہوتے ہیں۔ وہ ان کے نظام کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ پاتے۔ تاہم مسلمانوں کے پاس اس ڈسپلن کا ایک زیادہ متاثر کن نمونہ دنیا کو دکھانے کے لیے موجود ہے ۔ دن میں پانچ دفعہ مسلمان تکبیر شروع ہونے کے بعد چند لمحوں میں ، ایک بے ترتیب گروہ سے صف در صف منظم اجتماع میں بدل جاتے ہیں۔ ایک امام کی پکا رپر وہ انتہائی منظم طریقے سے نماز ادا کرتے ہیں ۔ بلاشبہ یہ ایک قابل دید نظارہ ہوتا ہے۔ یہ کسی عام نماز کا ذکر نہیں جس میں چند مسلمان شریک ہوں ، جمعہ میں سیکڑوں ، عید پر ہزاروں اور حرم میں لاکھوں کے اجتماع میں بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف منظر نہیں ہوتا ۔ مگر عجیب بات ہے کہ یہی مسلمان جب مسجد سے نکلتے ہیں تو قدم قدم پر اپنے عمل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ گویا لائن بناکر کھڑا ہونا ایک جرم ہے۔ کسی تقریب میں کھانا شروع ہوتے وقت ہلڑبازی اور رش کے اوقات میں بسوں میں چڑھتے وقت کی دھکم پیل ہماری ثقافتی اقدار بن چکی ہیں۔ جن جگہوں پر مجبوراً لائن بنانا پڑتی ہے وہاں بھی لوگ لائن سے باہر ہی کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں تاکہ دامن تہمت قطار سے آلودہ نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان جن کے پاس نماز جیسا اعلیٰ تربیتی نظام موجود ہے ، ایسا طرزِ عمل کیوں اختیار کرتے ہیں ، جبکہ اہل ِ مغرب جو اقامت صلوٰۃ کے تصور سے بھی واقف نہیں ہیں ، اس درجے ڈسپلن کیسے قائم کرلیتے ہیں ؟ جن لوگوں نے مغرب کا سفر کیا ہے اور وہ پاکستانی جو مغرب میں مقیم ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ ان کے نظام کی خوبی ہے، مگر میں اس تجزیئے سے اتفاق نہیں کرسکا ۔ میں نے مغرب میں اپنے قیام کے دوران میں ایسا کوئی نظام نہیں دیکھا جو لوگوں کو لائن بنانے پر مجبور کرتا ہو۔ یہ دراصل ان کے شعور کی پختگی ہے جو انہیں بتاتی ہے کہ لائن بنانے میں سب کا فائدہ ہے ۔ لائن نہیں بنے گی تو سب کو تکلیف ہوگی ۔ خاص طور پر ضعیف ، بزرگ ، معذور ، عورتیں اور بچے محروم رہ جائیں گے۔ چنانچہ وہ اپنے اس شعور کی وجہ سے لائن بناتے ہیں نہ کہ کسی نظام کی وجہ سے ۔ دوسری طرف مسلمان نماز جیسی اعلیٰ تربیتی عبادت بھی بے شعوری کے عالم میں اداکرتے ہیں۔ اس لیے وہ اس سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھ پاتے ۔ دورانِ نماز میں آخری درجے کا ڈسپلن قائم کرنے والے نماز سے باہر ابتدائی درجے کا بھی ڈسپلن قائم نہیں کرپاتے ۔ اصل میں یہ عمدہ نظام نہیں ہوتا جو اعلیٰ شعور دیتا ہے، یہ اعلیٰ شعور ہوتا ہے جو عمدہ نظام دیتا ہے۔ اور وقت اور حالات کے اعتبار سے یہ نظام اپنی شکلیں بدلتا رہتا ہے۔ مغرب کی کامیاب زندگی میں اس بات کا بڑا عمدہ سبق ہے۔ اس بات کو ایک اور مثال سے سمجھیں ۔ امریکہ کینیڈا کے بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ ، بس اور زمین دوز ریلوے پر مشتمل ہوتا ہے، جسے ’’سب وے‘‘ کہتے ہیں۔ یہ لوگ بس میں ہمیشہ لائن بناکر چڑھتے ہیں البتہ سب وے میں کبھی لائن نہیںبنائی جاتی ۔ کیونکہ وہاں ٹرین چند لمحے کے لیے رکتی ہے۔ اگر لائن بنائی جائے گی تو اکثر لوگ ٹرین میں سوار ہونے سے رہ جائیں گے۔ لہٰذا وہاں کا اصول یہ ہے کہ سب وے پر لوگ بکھر کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ٹرین آنے پر پہلے اترنے والوں کو اترنے دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد لوگ تیزی سے اپنے سامنے کھڑی بوگی کے خالی دروازے سے اندر داخل ہوجاتے ہیں۔ اپنے نتائج واثرات کے اعتبار سے یہ انتہائی غیر معمولی بات ہے ۔ اس بات کو سمجھنے کی بڑی اہمیت ہے کہ نظام سے لوگ باشعور نہیں ہوتے، شعور سے نظام تشکیل پاتا ہے، اسی سے پروان چڑھتا اور اسی سے برقرار رہتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اجتماعی زندگی میں انسان کے اندر شعور جب باہر اپنا اظہار کرتا ہے تو نظام کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ مغرب کا نظام صدیوں کے تجربات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے شعور سے تشکیل پایا ہے۔ اب بھی اس نظام کو کوئی خطرہ درپیش ہوتا ہے تو اس کا اجتماعی شعور حرکت میں آجاتا ہے اور اس صورت ِ حال کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کرلیتا ہے۔ مسلمانوں کی اپنی تاریخ بھی اس سے کچھ مختلف سبق نہیں دیتی ۔صرف اس فرق کے ساتھ کہ اس شعور کی بنیادیں الہامی تھیں، جنہیں کسی قسم کے تجربے سے گذرنے کی ضرورت نہیں پڑی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید و آخرت کے اسلامی شعور کی بنیاد پر لوگوں کو اٹھایا اور جب ان لوگوں نے ایک معاشرہ تشکیل دیا تو اس کے اندر اپنے تمدن و حالات کے اعتبار سے ایک بہترین نظام کو جنم دیا ۔ آج اگر کرنے کا کوئی کام ہے تو یہی ہے کہ توحید وآخرت کی بنیاد پر مسلمانوں کے اجتماعی شعور کی تربیت کی جائے ۔ اس کے جو نتائج نکلیں گے ان میں سے ایک یہ بھی ہوگا کہ اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ایک نظام دنیا کے سامنے آجائے گا۔ جس کے فیوض و برکات سے ایک عالم فیض یاب ہوگا۔
http://mag.dunya.com.pk/magazin_news/2015/April/04-12-15/2106_85367222.jpg
دل کا قبرستان ساون کی رت آئی اور آسمان نے بادلوں کی ردا اوڑھ لی ۔ہواکی خنکی نے پیاسی زمین کو پیام زندگی بھیجا اورابر رحمت نے برسنا شروع کردیا۔تپتی ہوئی دھرتی کا آنچل تر ہوگیا۔نرم زمین کا سینہ شق کرکے کونپلیں پھوٹنے لگیں۔ پھریہ مٹیالا آنچل سبز ہوگیا۔مردہ زمین زندہ ہوگئی ۔ وہ کہتا ہے کہ میں ایسے ہی ایک روز ہر مردہ کو زندہ کردوں گا۔ پھرہرنفس کے ایک ایک لمحہ زندگی کا حساب کروں گا۔وہ غلط نہیں کہتا۔ جو مردہ زمین کو زندہ کرسکتا ہے ، وہ مردہ انسانوں کو بھی اٹھا سکتا ہے۔جو بارش کے ہر قطرہ اور درخت کے ہر پتے کو گن سکتا ہے ،وہ زندگی کے ہر لمحہ کا حساب بھی کرسکتا ہے۔ بندے نے سر سبز زمین کو دیکھا، نظر اٹھائی اور کہا، ’’ تجھے معلوم ہے کہ مردے صرف زمین ہی میں دفن نہیں ہوتے۔ ایک قبرستان اور بھی ہوتا ہے۔ یہ خواہشوںکا قبرستان ہے جو بندہ ٔمومن کے سینے میں جنم لیتا ہے۔ اس قبرستان میں کتنی امنگیں، کتنی خواہشیں، کتنے خواب اور کتنی رنگینیاں صرف تیرے لیے دفن کی جاتی ہیں۔کیا تو اُس دن اِن کو بھی زندہ کرے گا؟‘‘ ’’تمھارے سینے کی ہر خلش کو ہم کھینچ لیں گے‘‘(الاعراف 43:7 )۔ آسمان کی جگہ قرآن نے جواب دیا۔ کیونکہ اب قیامت تک قرآن ہی نے بولنا ہے۔شیطان نے دیکھا کہ بات بن رہی ہے تو وہ بات بگاڑنے آگیا۔سوالات کا ایک انبار اس کے سامنے رکھ دیا۔بندہ پھر بندہ ہے۔ سوالات کے طوفان میں اس کی کشتی ڈولنے لگی۔وہ سوچنے لگا کہ اس کی جنت خدا بنائے گا۔ بہت خوب بنائے گا، مگر اپنی خواہش اور اپنی مرضی سے بنائے گا۔ تو پھر میری مرضی اور میری خواہش کا کیا ہوگا۔ دیر تک جواب نہ ملا تو خاموشی سے سر جھکا کر آگے بڑھ گیا۔ ’’مگر اسی لمحے ایک جھونکا آیا اور اپنے نرم لمس میں یہ پیغام چھوڑگیا ۔ جنت ہماری ہوگی ، مگر مرضی تمھاری ہوگی۔ ہمیں اپنے بندوں کو نہ کہنے کی عادت نہیں۔ اور ہماری راہ میں کسی اگر اور مگر کی دیوار بھی نہیں آسکتی ۔وہاں جو تمھارا جی چاہے گا، ملے گا اور جو مانگوگے، پاؤ گے‘‘۔(29:89,32:41)۔ بندے نے سنا اوردل کے قبرستان میں مزید قبریں بنانے کا حوصلہ پیدا ہوگیا۔
آرنلڈ شوارز نگر کا شمار ہا لی وڈ کے مقبول ترین فنکاروں میں ہوتا ہے۔آسٹریا سے تعلق رکھنے والے آرنلڈ 30 جولائی 1947میں پیداہوئے۔عملی زندگی کا آغاز ایک باڈی بلڈر کے طور پر کیا اور کئی بین الاقوامی اعزازات حاصل کیے۔ 1968میں وہ امریکہ آئے۔ باڈی بلدنگ کے ساتھ انہوں نے فلموں میں آنے کی تگ و دو شروع کردی ۔ 1970میں انہیں ایک فلمHercules in New York میں کام کرنے کا موقع ملا۔تاہم ان اصل شہرت 1984میں منظر عام پر آنے والی فلم The Terminator کے ذریعے سے ہوئی۔پھر اس میدان میں انہوں نے کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ فلمی دنیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد انہوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ یہاں بھی تقدیر ان پر مہربان رہی اور فلم کا ہیرو سیاست کے میدان میں بھی ہیرو بن گیا۔ اکتوبر 2003میں امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کی گورنری کا تاج ان کے سرسج گیا۔پھر وہ کیلیفورنیا کے گورنر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ اُن دنوں آرنلڈ کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوئیتھی کہ آرنلڈ نے موٹر سائیکل کا لائسنس بنوانے کا ارادہ کیا۔وہ آخر کار اس مقصد میں کامیاب ہوگئے مگر اس کے لیے انہیں چھ مہینے تک مختلف عملی اور تحریری امتحانات سے گزرنا پڑا۔ اہل پاکستان کے لیے یقینا یہ ایک انتہائی عجیب و غریب خبر تھی۔ ا س لیے کہ ہمارے ملک میں کسی گورنر کو اول تو کسی قسم کے لائسنس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر ضرورت پیش آجائے تو امتحان سے گزرنا تو دور کی بات ہے ، متعلقہ ڈپارٹمنٹ کا اعلیٰ ترین افسر اس کی خد مت میں پیش ہوکر لائسنس اس کے قدموں میں رکھ دے گا۔معاملہ صرف لائسنس بنوانے تک ہی محدود نہیں ، زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، حکمران طبقے کے لیے ہمارے ملک میں کوئی قانون نہیں ہوتا۔ ان کے لیے ہر جگہ ہر قانون معطل کردیا جاتا ہے۔تاہم معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں حکمرانوں نے اپنے لیے یہ انداز پسند کرلیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں قانون کی حکمرانیRule of Lawکو کبھی ایک معاشرتی قدر کے طور پر پیش ہی نہیں کیا گیا۔یہی سبب ہے کہ بظاہر لوگ اس طرح کے واقعات پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں مگر جیسے ہی انہیں موقع ملتا ہے وہ خود بھی اسی طرح قانون کو پامال کرتے ہیں۔آپ دیکھ لیجیے کہ عوام کی خدمت کا نعرہ لگانے والے لوگوں سے لے کر اسلام کے نام پر منتخب ہونے والے لوگ جب اقتدار میں آتے ہیں تو ان کے لیے اسی طرح قانون معطل ہوجاتا ہے جس طرح ایک فوجی حکمران کے لیے ہوجاتا ہے۔ یہی معاملہ عوام الناس کا ہے۔ انفرادی طور جب کبھی اور جتنا کبھی انہیں اختیارملتا ہے وہ یہی پسند کرتے ہیں کہ انہیں قانون کی پاسداری نہ کرنی پڑے۔چونکہ حکمران قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اختیار رکھتے ہیں اس لیے ان کے لیے بڑا آسان ہوتا ہے کہ وہ قانون کو جب چاہیں اپنے لیے معطل کردیں۔عوام کو یہ اختیار کم کم ملتا ہے مگر جب کبھی ملتا ہے ان کا رویہ حکمرانوں سے قطعاً مختلف نہیں ہوتا۔ یہی وہ رویہ ہے جسے ہم قانون کی حکمرانی کا ایک قدر کے طور پر نہ ہونے سے تعبیر کررہے ہیں۔ دنیا میں کوئی قوم قانون کی پاسداری کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی۔قانون کی حکمرانی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب فیصلہ فرد کی حیثیت کے بنیاد پر نہیں ہوگا بلکہ اصول اور ضابطہ پر ہوگا۔قانون کی حکمرانی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب کمزور بھی طاقتور کے برابر کا مقام رکھتا ہے۔یہی وہ چیز ہے جو معاشرے میں فساد کو پھیلنے سے روکتی ہے۔ اس لیے کہ فساد اصل میں طاقتور لوگ پھیلاتے ہیں۔قانون کی حکمرانی ان کی طاقت کو محدود کردیتی ہے۔ زندہ قومیں جس قدر کو معاشرے میں سب سے پہلے عام کرتی ہیں وہ یہی رول آف لا ہے۔ہمیں اگر اپنے ملک میں سے ظلم اور ناانصافی کو ختم کرنا ہے تو اس کے لیے رول آف لا کو سب سے بڑا مقام دینا ہوگا۔اس کے بغیر امن اور انصاف کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ نظام اور شعور امریکہ یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں لائن بنانا روزمرہ زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ وہاں لوگ بس کا انتظار کررہے ہوں، کھانے پینے کی اشیاء خرید رہے ہوں یا عام ضرورت کی کسی اور شے کو استعمال کررہے ہوں، جہاں چند آدمی اکٹھے ہوتے ہیں لائن بنالیتے ہیں۔ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کے شہری جب مغربی ممالک میں جاتے ہیں تو ان لوگوں کی قطار پسندی سے بے حد متاثر ہوتے ہیں۔ وہ ان کے نظام کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ پاتے۔ تاہم مسلمانوں کے پاس اس ڈسپلن کا ایک زیادہ متاثر کن نمونہ دنیا کو دکھانے کے لیے موجود ہے ۔ دن میں پانچ دفعہ مسلمان تکبیر شروع ہونے کے بعد چند لمحوں میں ، ایک بے ترتیب گروہ سے صف در صف منظم اجتماع میں بدل جاتے ہیں۔ ایک امام کی پکا رپر وہ انتہائی منظم طریقے سے نماز ادا کرتے ہیں ۔ بلاشبہ یہ ایک قابل دید نظارہ ہوتا ہے۔ یہ کسی عام نماز کا ذکر نہیں جس میں چند مسلمان شریک ہوں ، جمعہ میں سیکڑوں ، عید پر ہزاروں اور حرم میں لاکھوں کے اجتماع میں بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف منظر نہیں ہوتا ۔ مگر عجیب بات ہے کہ یہی مسلمان جب مسجد سے نکلتے ہیں تو قدم قدم پر اپنے عمل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ گویا لائن بناکر کھڑا ہونا ایک جرم ہے۔ کسی تقریب میں کھانا شروع ہوتے وقت ہلڑبازی اور رش کے اوقات میں بسوں میں چڑھتے وقت کی دھکم پیل ہماری ثقافتی اقدار بن چکی ہیں۔ جن جگہوں پر مجبوراً لائن بنانا پڑتی ہے وہاں بھی لوگ لائن سے باہر ہی کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں تاکہ دامن تہمت قطار سے آلودہ نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان جن کے پاس نماز جیسا اعلیٰ تربیتی نظام موجود ہے ، ایسا طرزِ عمل کیوں اختیار کرتے ہیں ، جبکہ اہل ِ مغرب جو اقامت صلوٰۃ کے تصور سے بھی واقف نہیں ہیں ، اس درجے ڈسپلن کیسے قائم کرلیتے ہیں ؟ جن لوگوں نے مغرب کا سفر کیا ہے اور وہ پاکستانی جو مغرب میں مقیم ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ ان کے نظام کی خوبی ہے، مگر میں اس تجزیئے سے اتفاق نہیں کرسکا ۔ میں نے مغرب میں اپنے قیام کے دوران میں ایسا کوئی نظام نہیں دیکھا جو لوگوں کو لائن بنانے پر مجبور کرتا ہو۔ یہ دراصل ان کے شعور کی پختگی ہے جو انہیں بتاتی ہے کہ لائن بنانے میں سب کا فائدہ ہے ۔ لائن نہیں بنے گی تو سب کو تکلیف ہوگی ۔ خاص طور پر ضعیف ، بزرگ ، معذور ، عورتیں اور بچے محروم رہ جائیں گے۔ چنانچہ وہ اپنے اس شعور کی وجہ سے لائن بناتے ہیں نہ کہ کسی نظام کی وجہ سے ۔ دوسری طرف مسلمان نماز جیسی اعلیٰ تربیتی عبادت بھی بے شعوری کے عالم میں اداکرتے ہیں۔ اس لیے وہ اس سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھ پاتے ۔ دورانِ نماز میں آخری درجے کا ڈسپلن قائم کرنے والے نماز سے باہر ابتدائی درجے کا بھی ڈسپلن قائم نہیں کرپاتے ۔ اصل میں یہ عمدہ نظام نہیں ہوتا جو اعلیٰ شعور دیتا ہے، یہ اعلیٰ شعور ہوتا ہے جو عمدہ نظام دیتا ہے۔ اور وقت اور حالات کے اعتبار سے یہ نظام اپنی شکلیں بدلتا رہتا ہے۔ مغرب کی کامیاب زندگی میں اس بات کا بڑا عمدہ سبق ہے۔ اس بات کو ایک اور مثال سے سمجھیں ۔ امریکہ کینیڈا کے بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ ، بس اور زمین دوز ریلوے پر مشتمل ہوتا ہے، جسے ’’سب وے‘‘ کہتے ہیں۔ یہ لوگ بس میں ہمیشہ لائن بناکر چڑھتے ہیں البتہ سب وے میں کبھی لائن نہیںبنائی جاتی ۔ کیونکہ وہاں ٹرین چند لمحے کے لیے رکتی ہے۔ اگر لائن بنائی جائے گی تو اکثر لوگ ٹرین میں سوار ہونے سے رہ جائیں گے۔ لہٰذا وہاں کا اصول یہ ہے کہ سب وے پر لوگ بکھر کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ٹرین آنے پر پہلے اترنے والوں کو اترنے دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد لوگ تیزی سے اپنے سامنے کھڑی بوگی کے خالی دروازے سے اندر داخل ہوجاتے ہیں۔ اپنے نتائج واثرات کے اعتبار سے یہ انتہائی غیر معمولی بات ہے ۔ اس بات کو سمجھنے کی بڑی اہمیت ہے کہ نظام سے لوگ باشعور نہیں ہوتے، شعور سے نظام تشکیل پاتا ہے، اسی سے پروان چڑھتا اور اسی سے برقرار رہتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اجتماعی زندگی میں انسان کے اندر شعور جب باہر اپنا اظہار کرتا ہے تو نظام کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ مغرب کا نظام صدیوں کے تجربات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے شعور سے تشکیل پایا ہے۔ اب بھی اس نظام کو کوئی خطرہ درپیش ہوتا ہے تو اس کا اجتماعی شعور حرکت میں آجاتا ہے اور اس صورت ِ حال کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کرلیتا ہے۔ مسلمانوں کی اپنی تاریخ بھی اس سے کچھ مختلف سبق نہیں دیتی ۔صرف اس فرق کے ساتھ کہ اس شعور کی بنیادیں الہامی تھیں، جنہیں کسی قسم کے تجربے سے گذرنے کی ضرورت نہیں پڑی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید و آخرت کے اسلامی شعور کی بنیاد پر لوگوں کو اٹھایا اور جب ان لوگوں نے ایک معاشرہ تشکیل دیا تو اس کے اندر اپنے تمدن و حالات کے اعتبار سے ایک بہترین نظام کو جنم دیا ۔ آج اگر کرنے کا کوئی کام ہے تو یہی ہے کہ توحید وآخرت کی بنیاد پر مسلمانوں کے اجتماعی شعور کی تربیت کی جائے ۔ اس کے جو نتائج نکلیں گے ان میں سے ایک یہ بھی ہوگا کہ اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ایک نظام دنیا کے سامنے آجائے گا۔ جس کے فیوض و برکات سے ایک عالم فیض یاب ہوگا۔