intelligent086
01-19-2016, 12:29 AM
فلسفۂ صحبت
http://mag.dunya.com.pk/magazin_news/2015/July/07-27-15/2259_44563262.jpg
فلسفۂ صحبت ’’ایک بڑا سائنسداں جو چیز اپنے شاگرد کو دیتا ہے، وہ ایک ذہنی رجحان (attitude of mind) ہے۔‘‘ ایک مبصر نے یہ بات نوبیل انعام پانے والوں کی ایک جماعت کا جائزہ لینے کے بعد لکھی ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ کسی سائنسداں کو نوبیل انعام پانے کے قابل بنانے والی چیز یہ نہیں ہے کہ اس کو کہیں سے سائنسی معلومات کا بڑا ڈھیر حاصل ہوگیا تھا۔ وہ چیز جس نے اس کو اس عالمی اعزاز کا مستحق بنایا، وہ صرف اخذ و مطالعہ کا ایک ذہنی رجحان تھا جو کسی بڑے سائنسداں کی صحبت سے اسے ملا تھا۔ اسی چیزنے بالآ خر اس کو ترقی کے اعلیٰ مقام تک پہنچایا۔ صوفیاء کے یہاں جس چیز کو صحبت کہا جاتا ہے اس کی اصل بھی یہی ہے۔ یہ صحبت کوئی پراسرار چیز نہیں۔ یہ ایک سادہ فطری حقیقت ہے۔ اپنی اصل کے اعتبار سے وہ مذہبی شخصیت کے یہاں بھی پائی جاتی ہے اور غیر مذہبی شخصیت کے یہاں بھی۔ ایک شخص جس نے لمبی جدو جہد کے بعد علم اور تجربہ میں اپنا حصہ پایا ہو اس کی ہر بات گہرے معانی لئے ہوئے ہوتی ہے۔ وہ جب بولتا ہے تو وہ علوم کے سرے کو بتاتا ہے۔ وہ جب تبصرہ کرتا ہے تو اس کا تبصرہ ایک بڑے ذخیرۂ کتب کا خلاصہ ہوتا ہے۔ وہ جب اپنے تجربات بیان کرتا ہے تو وہ برسوں کے درمیان پھیلے ہوئے سفر کو چند منٹوں میں سمیٹ رہا ہوتا ہے۔ وہ جب مشورہ دیتا ہے تو اس کے مشورہ کے پیچھے نشیب و فراز اور کامیابی و ناکامی کی طویل کہانی چھپی ہوئی ہوتی ہے جس سے وہ گزر چکا ہے۔ اس کا ہر لفظ ایک کتاب ہوتا ہے، اس کی ہر تقریر ایک پورے کتب خانہ کا خلاصہ ہوتی ہے۔ اس کا بولنا پوری تاریخ کا بولنا ہوتاہے اور اس کا سوچنا پورے عالمِ بشری کا سوچنا۔ یہی فلسفۂ صحبت کا خلاصہ ہے۔ زیر صحبت آ دمی اس حیثیت میں ہوتا ہے کہ صاحب صحبت نے جو چیز ایک عمر صرف کرکے حاصل کی ہے، اس کو وہ چند لمحات صرف کرکے حاصل کرلے۔ زیر صحبت آ دمی، صاحب صحبت سے صرف علم حاصل نہیں کرتا ، اسی کے ساتھ، وہ ایک زاویۂ نظر بھی حاصل کرتا ہے۔ وہ صرف معلومات نہیں لیتا بلکہ وہ اسی سے تڑپ بھی پاتا ہے۔ اس کو صرف یہ فائدہ نہیں ہوتا کہ وہ کتابوں اور مصنفوں کے نام سن کر اپنی فہرست مکمل کر لے بلکہ اس کی صحبت اس کو اس قابل بنا دیتی ہے کہ وہ علم کی ہوائو ں میں سانس لے اورمعرفت کے سمندروں میںنہائے۔ تاہم یہ فائدہ صرف حقیقی طالب کے لئے ہے نہ کہ محض ظاہری طورپرصحبت میں بیٹھنے والے کے لیے۔ قرآ ن میں اہل ایمان کو نصیحت کرتے ہوئے ایک مقام پر ارشاد ہوا ہے ’’ یعنی اے ایمان والو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔ یہ سچے لوگ یا صادقین کون ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ جن کا ظاہر و باطن یکساں ہو‘‘ اس قسم کے صادقین کی صحبت میں بیٹھنا ہمیشہ مفید ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کا ہر بیان مبنی بر حقیقت ہوتا ہے۔ وہ وہی کہتے ہیں جو انہیں کہنا چاہئے، وہ وہی بولتے ہیں جوانہیں بولنا چاہئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس بیٹھنے والوں کے اندر سچائی کا مزاج پرورش پاتا ہے۔ وہ بے بنیاد باتوں میں جینے کے بجائے حقائق میں جینے والے بن جاتے ہیں۔ ان کے اندر اعلیٰ انسانی اوصاف ابھرتے ہیں۔ ان کی نیتوں میں پاکی اور ان کے قول میں سنجیدگی آ جاتی ہے۔ ایسے لوگ بے حد نادر الوجود ہیں جو صحبت سے یا اپنے ماحول سے اثر نہ لیں۔ بیشتر لوگوں کا حال یہی ہے کہ وہ دوسروں سے اثر لیتے ہیں۔ وہ ویسے ہی بن جاتے ہیں جیسا کہ ان کے گرد وپیش کا ماحول ہو۔ اس لئے آ دمی کو صحبت کے معاملہ میں بے حد محتاط رہنا چاہئے۔ قرآ ن کے مطابق قابل صحبت آ دمی وہ ہے جس کے ظاہر اور باطن میں فرق نہ پایا جاتا ہو۔ مثبت انداز میں سوچنا دور اول کے مسلمانوں نے جو بے نظیر کامیابی حاصل کی اس کا سب سے بڑا راز یہ تھا کہ ان کا ہر فرد مکمل معنوں میں مثبت سوچ کا مالک تھا۔ وہ ،قرآ ن کے مطابق عسر میں یسر کا پہلو تلاش کر لیتا تھا۔ وہ بظاہر شکست کے واقعہ میں فتح کا راز دریافت کر لیتا تھا۔ اس کے لئے پوری دنیا اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ مثبت خوراک کا دستر خوان بن گئی تھی۔ مسلمانوں کا یہی مزاج تقریباً ہزار سال تک جاری رہا۔ انیسویں صدی میں جب مسلم سلطنتیں اہل مغرب کے ہاتھوں ٹوٹ گئیں تو اس کے بعد جو مسلم رہنما اٹھے وہ رد عمل کی نفسیات میں مبتلا ہو چکے تھے۔انہوں نے دور جدید کی مسلم نسلوں کو احتجاجی ذہن میں مبتلا کر دیا۔ ساری دنیا کے مسلمان ، خواص اور عوام دونوں احساس محرومی میں مبتلا ہوگئے۔ اس نازک تاریخی موقع پر مسلم رہنمائوں کی اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اس نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا ہو گئے جس کو انگریزی میں پیرا نوئیا(Paranoia) کہاجاتاہے۔ قرآ ن میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ گمراہی کا راستہ دیکھیں تو وہ اس کو اختیار کر لیںگے اور اگر وہ فلاح کا راستہ دیکھیں تو وہ اس کو اختیار نہ کریں گے (الاعراف۔۱۴۶) اس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ لوگ منفی پکار کی طرف تیزی سے دوڑتے ہیں، مگر مثبت پکار کی طرف وہ اس طرح نہیں دوڑتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ منفی کلام حال کی زبان میں ہوتا ہے اور مثبت کلام ہمیشہ مستقبل کی زبان میں ، اور تاریخ کا تجربہ یہ ہے کہ مستقبل کی زبان سمجھنے والے ہمیشہ بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور حال کی زبان سمجھنے والے ہمیشہ بہت زیادہ۔ اس دنیا میں ہر قسم کی ناکامیوں کا راز منفی طرز فکر ہے اور ہر قسم کی کامیابی کا راز مثبت طرز فکر۔ منفی طرز فکر ہر قسم کی دینی اور اخلاقی برائیوں کا سر چشمہ ہے اور مثبت طرز فکر اس کے مقابلے میں ہر قسم کے دینی اور دنیوی خیر کا سر چشمہ۔ اتحاد میں خدا کی مدد ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں دو شریکوں کے ساتھ تیسرا ہوتا ہوں، جب تک ان میں کا کوئی ایک ساتھی اپنے دوسرے ساتھی کے ساتھ خیانت نہ کرے۔ اس حدیث کو لفظی طورپر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دوآدمی اگر خدا کے لیے آ پس میں متحد ہوجائیں تو ان کے ساتھ خدا خود ایک تیسرے رکن کی حیثیت سے شریک ہوجاتا ہے اور جس اتحادی مجموعہ میں خود خدا شریک ہوجائے اس کی طاقت بلا شبہہ بے پناہ حد تک بڑھ جاتی ہے۔ ان کا اتحاد ناقابل تسخیر حد تک مضبوط ہوجاتا ہے۔ یہ کوئی پر اسرار بات نہیں۔ یہ ایک سادہ فطری حقیقت ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ جب کچھ لوگ صرف اللہ کی خاطر متحد ہوں تو ان کی نفسیاتی حالت عام لوگوں سے مختلف ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر معاملے کو اپنی ذات کی نظر سے دیکھنے کے بجائے خدا کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ انہیں اگر اپنے ساتھی سے کوئی شکایت ہو تو وہ یہ سوچ کر اسے بھلا دیتے ہیں کہ میں تو خدا کے لیے متحد ہوا ہوں نہ کہ کسی انسان کے لیے۔ کسی موقع پر اگر ان کی انا کو چوٹ لگتی ہے تو وہ اس کا اثر نہیں لیتے کیوں کہ وہ پہلے ہی اپنی اَنا کو خدا کے لیے چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔ اجتماعی زندگی میں انہیں کوئی نقصان پہنچاتا ہے تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ کیوں کہ ان کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ میںنے آ خرت کا فائدہ لینے کے لیے اس اتحاد میں شرکت کی ہے نہ کہ دنیا کا فائدہ لینے کے لیے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کے لیے متحد ہونا اپنے آ پ میںایک طاقت ہے۔ خدا کے لیے متحد ہونے والے لوگوں میں وہ مزاج بن جاتا ہے جو اختلاف کا قاتل ہے۔ یہ رباّنی مزاج اس بات کی ضمانت بن جاتا ہے کہ کوئی بھی اختلافی سبب ان کے اتحاد کو نہ توڑے۔ وہ تمام اختلافات کو بھلا کر پوری مضبوطی سے اتّحاد کی رسّی کے ساتھ بندھے ہوئے رہیں۔ اتحاد کی یہ برکت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک اتّحادیوں میں خیانت کی ذہنیت نہ پیدا ہو۔ خیانت کیا ہے۔ خیانت یہ ہے کہ ایک شریکِ اتّحاد دوسرے شریکِ اتّحاد کا خیر خواہ نہ رہے، ایک شریکِ اتّحاد، دوسرے شریک اتّحاد کو غیر سمجھ لے۔ جب لوگوں میں یہ نفسیاتی برائی آ جائے تو لوگوں کے دل ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔ ان میں ایک دوسرے کو اپنا سمجھنے کا مزاج باقی نہیں رہتا۔ وہ ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ جب ایسا ہو جائے تو ان کے اتحاد کی تمام اینٹیں ہل جاتی ہیں۔ ان کا آ پس کا جوڑ ختم ہوجاتا ہے۔ اتّحاد کے افراد پہلے اگر جمی ہوئی اینٹوں کے مانند تھے تو اب وہ بکھری ہوئی اینٹوں کے مانند ہوجاتے ہیں۔ اب ان کا اتحاد بھی ختم ہوجاتا ہے اور ان کی طاقت بھی۔ اتحاد پیدا ہونا نہایت آ سان ہے، مگر اتحاد کو باقی رکھنا اتنا ہی مشکل ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اتحاد کے بعد لازماً آ پس میں شکایتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ایک کو دوسرے سے نقصان پہنچتا ہے۔ اب لوگوں کے لیے دو راستے ہوتے ہیں۔ ایک خیانت کا اور دوسرا اخلاص کا۔ اتحادی افراد میں جب خیانت کامزاج آ جائے تو ان کی شکایتیں بڑھتی رہیں گی۔یہاں تک کہ ان کا اتّحاد ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہوجائے گا۔ اس کے برعکس جب لوگوں میںاخلاص کا مزاج ہو تو ہر شکایت پیدا ہوتے ہی ختم ہوجائے گی۔ کوئی بھی شکایت اختلاف کے درجے تک نہ پہنچے گی۔ کام کی عظمت حدیث میں آ یا ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ سے پوچھا گیا کہ سب سے اچھی کمائی کون سی ہے۔ آ پ ﷺ نے فرمایاکہ آ دمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا ۔ اس حدیث میں کام کی عظمت کو بتایا گیا ہے۔ اسلام میں اس بات کی بے حد اہمیت ہے کہ آ دمی خود کام کرے اور ہمیشہ اپنے آ پ کو کام میں مشغول رکھے۔ یہ اسلامی مزاج کے سراسر خلاف ہے کہ کسی کام کو چھوٹا کام سمجھا جائے یا کسی کام کے کرنے میں شرم محسوس کی جائے۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام پیغمبر اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے۔ حضرت دائو د اگر چہ بادشاہ تھے مگر وہ بھی اپنا کام خود اپنے ہاتھ سے کرنا پسند کرتے تھے۔ کوئی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔ ہر کام کام ہے، اور اس قابل ہے کہ اس کو کیا جائے۔ جب ایک آ دمی کوئی کام کرتا ہے تو وہ صرف کام نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے آ پ کو بے کاری سے بچاتا ہے۔ وہ اپنے بارے میں اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ میرے اندر یہ عظیم انسانی اسپرٹ زندہ ہے کہ میں جب کسی کام کو دیکھوں تو فوراً خود اس کو انجام دوں۔ جب کوئی کام سامنے آ جائے تو میرے اندر یہ اسپرٹ جاگ اٹھے کہ میں اس کام کو انجام دوں گا۔ کام شخصیت کا آئینہ دار ایک آ دمی جب کوئی کام کرتا ہے تو اس وقت وہ اپنی شخصیت کو بتارہا ہوتا ہے۔ کام کرنا کام کرنے والے کی شخصیت کا تعارف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فرض شناس آ دمی ہے۔ اس کے اندر سنجیدگی ہے۔ اس کے اندر ذمہ داری کا احساس ہے۔ اس کے اندر کرڈالنے کا جذبہ ہے۔ وہ سست اور کاہل آ دمی نہیں۔ وہ اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو لے کر بے کار پڑا رہے۔ اس کی لذت کام میں ہے نہ کہ بے کار رہ کر وقت گزارنے میں۔
http://mag.dunya.com.pk/magazin_news/2015/July/07-27-15/2259_44563262.jpg
فلسفۂ صحبت ’’ایک بڑا سائنسداں جو چیز اپنے شاگرد کو دیتا ہے، وہ ایک ذہنی رجحان (attitude of mind) ہے۔‘‘ ایک مبصر نے یہ بات نوبیل انعام پانے والوں کی ایک جماعت کا جائزہ لینے کے بعد لکھی ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ کسی سائنسداں کو نوبیل انعام پانے کے قابل بنانے والی چیز یہ نہیں ہے کہ اس کو کہیں سے سائنسی معلومات کا بڑا ڈھیر حاصل ہوگیا تھا۔ وہ چیز جس نے اس کو اس عالمی اعزاز کا مستحق بنایا، وہ صرف اخذ و مطالعہ کا ایک ذہنی رجحان تھا جو کسی بڑے سائنسداں کی صحبت سے اسے ملا تھا۔ اسی چیزنے بالآ خر اس کو ترقی کے اعلیٰ مقام تک پہنچایا۔ صوفیاء کے یہاں جس چیز کو صحبت کہا جاتا ہے اس کی اصل بھی یہی ہے۔ یہ صحبت کوئی پراسرار چیز نہیں۔ یہ ایک سادہ فطری حقیقت ہے۔ اپنی اصل کے اعتبار سے وہ مذہبی شخصیت کے یہاں بھی پائی جاتی ہے اور غیر مذہبی شخصیت کے یہاں بھی۔ ایک شخص جس نے لمبی جدو جہد کے بعد علم اور تجربہ میں اپنا حصہ پایا ہو اس کی ہر بات گہرے معانی لئے ہوئے ہوتی ہے۔ وہ جب بولتا ہے تو وہ علوم کے سرے کو بتاتا ہے۔ وہ جب تبصرہ کرتا ہے تو اس کا تبصرہ ایک بڑے ذخیرۂ کتب کا خلاصہ ہوتا ہے۔ وہ جب اپنے تجربات بیان کرتا ہے تو وہ برسوں کے درمیان پھیلے ہوئے سفر کو چند منٹوں میں سمیٹ رہا ہوتا ہے۔ وہ جب مشورہ دیتا ہے تو اس کے مشورہ کے پیچھے نشیب و فراز اور کامیابی و ناکامی کی طویل کہانی چھپی ہوئی ہوتی ہے جس سے وہ گزر چکا ہے۔ اس کا ہر لفظ ایک کتاب ہوتا ہے، اس کی ہر تقریر ایک پورے کتب خانہ کا خلاصہ ہوتی ہے۔ اس کا بولنا پوری تاریخ کا بولنا ہوتاہے اور اس کا سوچنا پورے عالمِ بشری کا سوچنا۔ یہی فلسفۂ صحبت کا خلاصہ ہے۔ زیر صحبت آ دمی اس حیثیت میں ہوتا ہے کہ صاحب صحبت نے جو چیز ایک عمر صرف کرکے حاصل کی ہے، اس کو وہ چند لمحات صرف کرکے حاصل کرلے۔ زیر صحبت آ دمی، صاحب صحبت سے صرف علم حاصل نہیں کرتا ، اسی کے ساتھ، وہ ایک زاویۂ نظر بھی حاصل کرتا ہے۔ وہ صرف معلومات نہیں لیتا بلکہ وہ اسی سے تڑپ بھی پاتا ہے۔ اس کو صرف یہ فائدہ نہیں ہوتا کہ وہ کتابوں اور مصنفوں کے نام سن کر اپنی فہرست مکمل کر لے بلکہ اس کی صحبت اس کو اس قابل بنا دیتی ہے کہ وہ علم کی ہوائو ں میں سانس لے اورمعرفت کے سمندروں میںنہائے۔ تاہم یہ فائدہ صرف حقیقی طالب کے لئے ہے نہ کہ محض ظاہری طورپرصحبت میں بیٹھنے والے کے لیے۔ قرآ ن میں اہل ایمان کو نصیحت کرتے ہوئے ایک مقام پر ارشاد ہوا ہے ’’ یعنی اے ایمان والو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔ یہ سچے لوگ یا صادقین کون ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ جن کا ظاہر و باطن یکساں ہو‘‘ اس قسم کے صادقین کی صحبت میں بیٹھنا ہمیشہ مفید ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کا ہر بیان مبنی بر حقیقت ہوتا ہے۔ وہ وہی کہتے ہیں جو انہیں کہنا چاہئے، وہ وہی بولتے ہیں جوانہیں بولنا چاہئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس بیٹھنے والوں کے اندر سچائی کا مزاج پرورش پاتا ہے۔ وہ بے بنیاد باتوں میں جینے کے بجائے حقائق میں جینے والے بن جاتے ہیں۔ ان کے اندر اعلیٰ انسانی اوصاف ابھرتے ہیں۔ ان کی نیتوں میں پاکی اور ان کے قول میں سنجیدگی آ جاتی ہے۔ ایسے لوگ بے حد نادر الوجود ہیں جو صحبت سے یا اپنے ماحول سے اثر نہ لیں۔ بیشتر لوگوں کا حال یہی ہے کہ وہ دوسروں سے اثر لیتے ہیں۔ وہ ویسے ہی بن جاتے ہیں جیسا کہ ان کے گرد وپیش کا ماحول ہو۔ اس لئے آ دمی کو صحبت کے معاملہ میں بے حد محتاط رہنا چاہئے۔ قرآ ن کے مطابق قابل صحبت آ دمی وہ ہے جس کے ظاہر اور باطن میں فرق نہ پایا جاتا ہو۔ مثبت انداز میں سوچنا دور اول کے مسلمانوں نے جو بے نظیر کامیابی حاصل کی اس کا سب سے بڑا راز یہ تھا کہ ان کا ہر فرد مکمل معنوں میں مثبت سوچ کا مالک تھا۔ وہ ،قرآ ن کے مطابق عسر میں یسر کا پہلو تلاش کر لیتا تھا۔ وہ بظاہر شکست کے واقعہ میں فتح کا راز دریافت کر لیتا تھا۔ اس کے لئے پوری دنیا اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ مثبت خوراک کا دستر خوان بن گئی تھی۔ مسلمانوں کا یہی مزاج تقریباً ہزار سال تک جاری رہا۔ انیسویں صدی میں جب مسلم سلطنتیں اہل مغرب کے ہاتھوں ٹوٹ گئیں تو اس کے بعد جو مسلم رہنما اٹھے وہ رد عمل کی نفسیات میں مبتلا ہو چکے تھے۔انہوں نے دور جدید کی مسلم نسلوں کو احتجاجی ذہن میں مبتلا کر دیا۔ ساری دنیا کے مسلمان ، خواص اور عوام دونوں احساس محرومی میں مبتلا ہوگئے۔ اس نازک تاریخی موقع پر مسلم رہنمائوں کی اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اس نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا ہو گئے جس کو انگریزی میں پیرا نوئیا(Paranoia) کہاجاتاہے۔ قرآ ن میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ گمراہی کا راستہ دیکھیں تو وہ اس کو اختیار کر لیںگے اور اگر وہ فلاح کا راستہ دیکھیں تو وہ اس کو اختیار نہ کریں گے (الاعراف۔۱۴۶) اس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ لوگ منفی پکار کی طرف تیزی سے دوڑتے ہیں، مگر مثبت پکار کی طرف وہ اس طرح نہیں دوڑتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ منفی کلام حال کی زبان میں ہوتا ہے اور مثبت کلام ہمیشہ مستقبل کی زبان میں ، اور تاریخ کا تجربہ یہ ہے کہ مستقبل کی زبان سمجھنے والے ہمیشہ بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور حال کی زبان سمجھنے والے ہمیشہ بہت زیادہ۔ اس دنیا میں ہر قسم کی ناکامیوں کا راز منفی طرز فکر ہے اور ہر قسم کی کامیابی کا راز مثبت طرز فکر۔ منفی طرز فکر ہر قسم کی دینی اور اخلاقی برائیوں کا سر چشمہ ہے اور مثبت طرز فکر اس کے مقابلے میں ہر قسم کے دینی اور دنیوی خیر کا سر چشمہ۔ اتحاد میں خدا کی مدد ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں دو شریکوں کے ساتھ تیسرا ہوتا ہوں، جب تک ان میں کا کوئی ایک ساتھی اپنے دوسرے ساتھی کے ساتھ خیانت نہ کرے۔ اس حدیث کو لفظی طورپر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دوآدمی اگر خدا کے لیے آ پس میں متحد ہوجائیں تو ان کے ساتھ خدا خود ایک تیسرے رکن کی حیثیت سے شریک ہوجاتا ہے اور جس اتحادی مجموعہ میں خود خدا شریک ہوجائے اس کی طاقت بلا شبہہ بے پناہ حد تک بڑھ جاتی ہے۔ ان کا اتحاد ناقابل تسخیر حد تک مضبوط ہوجاتا ہے۔ یہ کوئی پر اسرار بات نہیں۔ یہ ایک سادہ فطری حقیقت ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ جب کچھ لوگ صرف اللہ کی خاطر متحد ہوں تو ان کی نفسیاتی حالت عام لوگوں سے مختلف ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر معاملے کو اپنی ذات کی نظر سے دیکھنے کے بجائے خدا کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ انہیں اگر اپنے ساتھی سے کوئی شکایت ہو تو وہ یہ سوچ کر اسے بھلا دیتے ہیں کہ میں تو خدا کے لیے متحد ہوا ہوں نہ کہ کسی انسان کے لیے۔ کسی موقع پر اگر ان کی انا کو چوٹ لگتی ہے تو وہ اس کا اثر نہیں لیتے کیوں کہ وہ پہلے ہی اپنی اَنا کو خدا کے لیے چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔ اجتماعی زندگی میں انہیں کوئی نقصان پہنچاتا ہے تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ کیوں کہ ان کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ میںنے آ خرت کا فائدہ لینے کے لیے اس اتحاد میں شرکت کی ہے نہ کہ دنیا کا فائدہ لینے کے لیے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کے لیے متحد ہونا اپنے آ پ میںایک طاقت ہے۔ خدا کے لیے متحد ہونے والے لوگوں میں وہ مزاج بن جاتا ہے جو اختلاف کا قاتل ہے۔ یہ رباّنی مزاج اس بات کی ضمانت بن جاتا ہے کہ کوئی بھی اختلافی سبب ان کے اتحاد کو نہ توڑے۔ وہ تمام اختلافات کو بھلا کر پوری مضبوطی سے اتّحاد کی رسّی کے ساتھ بندھے ہوئے رہیں۔ اتحاد کی یہ برکت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک اتّحادیوں میں خیانت کی ذہنیت نہ پیدا ہو۔ خیانت کیا ہے۔ خیانت یہ ہے کہ ایک شریکِ اتّحاد دوسرے شریکِ اتّحاد کا خیر خواہ نہ رہے، ایک شریکِ اتّحاد، دوسرے شریک اتّحاد کو غیر سمجھ لے۔ جب لوگوں میں یہ نفسیاتی برائی آ جائے تو لوگوں کے دل ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔ ان میں ایک دوسرے کو اپنا سمجھنے کا مزاج باقی نہیں رہتا۔ وہ ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ جب ایسا ہو جائے تو ان کے اتحاد کی تمام اینٹیں ہل جاتی ہیں۔ ان کا آ پس کا جوڑ ختم ہوجاتا ہے۔ اتّحاد کے افراد پہلے اگر جمی ہوئی اینٹوں کے مانند تھے تو اب وہ بکھری ہوئی اینٹوں کے مانند ہوجاتے ہیں۔ اب ان کا اتحاد بھی ختم ہوجاتا ہے اور ان کی طاقت بھی۔ اتحاد پیدا ہونا نہایت آ سان ہے، مگر اتحاد کو باقی رکھنا اتنا ہی مشکل ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اتحاد کے بعد لازماً آ پس میں شکایتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ایک کو دوسرے سے نقصان پہنچتا ہے۔ اب لوگوں کے لیے دو راستے ہوتے ہیں۔ ایک خیانت کا اور دوسرا اخلاص کا۔ اتحادی افراد میں جب خیانت کامزاج آ جائے تو ان کی شکایتیں بڑھتی رہیں گی۔یہاں تک کہ ان کا اتّحاد ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہوجائے گا۔ اس کے برعکس جب لوگوں میںاخلاص کا مزاج ہو تو ہر شکایت پیدا ہوتے ہی ختم ہوجائے گی۔ کوئی بھی شکایت اختلاف کے درجے تک نہ پہنچے گی۔ کام کی عظمت حدیث میں آ یا ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ سے پوچھا گیا کہ سب سے اچھی کمائی کون سی ہے۔ آ پ ﷺ نے فرمایاکہ آ دمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا ۔ اس حدیث میں کام کی عظمت کو بتایا گیا ہے۔ اسلام میں اس بات کی بے حد اہمیت ہے کہ آ دمی خود کام کرے اور ہمیشہ اپنے آ پ کو کام میں مشغول رکھے۔ یہ اسلامی مزاج کے سراسر خلاف ہے کہ کسی کام کو چھوٹا کام سمجھا جائے یا کسی کام کے کرنے میں شرم محسوس کی جائے۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام پیغمبر اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے۔ حضرت دائو د اگر چہ بادشاہ تھے مگر وہ بھی اپنا کام خود اپنے ہاتھ سے کرنا پسند کرتے تھے۔ کوئی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔ ہر کام کام ہے، اور اس قابل ہے کہ اس کو کیا جائے۔ جب ایک آ دمی کوئی کام کرتا ہے تو وہ صرف کام نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے آ پ کو بے کاری سے بچاتا ہے۔ وہ اپنے بارے میں اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ میرے اندر یہ عظیم انسانی اسپرٹ زندہ ہے کہ میں جب کسی کام کو دیکھوں تو فوراً خود اس کو انجام دوں۔ جب کوئی کام سامنے آ جائے تو میرے اندر یہ اسپرٹ جاگ اٹھے کہ میں اس کام کو انجام دوں گا۔ کام شخصیت کا آئینہ دار ایک آ دمی جب کوئی کام کرتا ہے تو اس وقت وہ اپنی شخصیت کو بتارہا ہوتا ہے۔ کام کرنا کام کرنے والے کی شخصیت کا تعارف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فرض شناس آ دمی ہے۔ اس کے اندر سنجیدگی ہے۔ اس کے اندر ذمہ داری کا احساس ہے۔ اس کے اندر کرڈالنے کا جذبہ ہے۔ وہ سست اور کاہل آ دمی نہیں۔ وہ اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو لے کر بے کار پڑا رہے۔ اس کی لذت کام میں ہے نہ کہ بے کار رہ کر وقت گزارنے میں۔