intelligent086
01-18-2016, 03:39 AM
شاہد ہ بیگم(نینا
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14631_47332711.jpg.pagespeed.ic.T2kGf-cGPh.jpg
اس زمانے میں یہ صرف ’’سنی ‘‘ تھے اور گورنمنٹ کالج سے تازہ تازہ گریجویٹ بن کر نکلے تھے۔ تھیٹر اور فلم ان کا شوق تھا۔ احمد صاحب انہیں گہری نیند سے جگاتے اور ہم لوگوں کو کار میں ڈراپ کرنے کے لئے کہتے کیونکہ اس قدر کڑاکے کی سردی میں صبح کے چار بجے کوئی اور ڈرائیور یہ خدمت انجام نہیں دے سکتا تھا۔ ’’سنی‘‘ بے چارے خاموشی سے آنکھیں ملتے ہوئے اٹھتے۔ احمد صاحب باہر کار تک آکر ہم سب کو خدا حافظ کہتے اور ’’سنی‘‘ ہم سب کو گھروں تک پہنچا دیتے۔ فلم کو آپریٹو میں ہم نے جن قابل ذکر شخصیات کو دیکھا ان میںا داکارہ ’’نینا‘بھی تھیں۔ یہ ڈبلیو زیڈ احمد صاحب کی بیگم تھیں۔ ان کا اصلی نام شاہدہ تھا۔ علی گڑھ کے ایک انتہائی اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور بی اے پاس تھیں۔ محسن عبداللہ سے ان کی شادی ہوئی تھی جو بمبئی کی ایک لیبارٹری میں کام کرتے تھے۔ ڈبلیو زیڈ احمد اس زمانے میں بمبئی میں فلمیں بنانے کا پروگرام بنا رہے تھے۔ شالیمار پکچرز کے نام سے انہوں نے پونا میں ایک فلم سٹوڈیو بنایا تھا اور ہندوستان کا کوئی قابل ذکر ادیب اور شاعر ایسا نہ تھا، جسے انہوں نے شالیمار کمپنی میں ملازم نہ رکھا ہو۔ یہاں تک کہ شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی بھی ان کے سٹوڈیو میں ملازم تھے۔ بمبئی میں احمد صاحب نے شاہد ہ بیگم کو دیکھا تو فلم میں کام کرنے کی پیش کش کی ،جو انہوں نے پس و پیش کے بعد قبول کر لی۔ ’’ایک رات‘‘ ، ’’من کی جیت‘‘ جیسی فلموں میں کام کرنے کے بعد وہ ہندوستان کی صف اوّل کی ہیروئن بن گئی تھیں۔ اسی دوران میں محسن عبداللہ سے علیحدگی ہو گئی اور انہوں نے ڈبلیو زیڈ احمد سے شادی کر لی۔ ان کی یادگار فلموں میں ’’میرا بائی‘‘ بھی شامل ہے۔ کہتے ہیں کہ ان کے پاکیزہ حسن اور فطری اداکاری کے باعث ہندوئوں نے انہیں پوجنا شروع کر دیا تھا۔ اخباروں نے تبصرہ میں لکھا کہ ’’میرا بائی‘‘ اس سے بڑھ کر کیا ہو گی؟ اپنے حسن جمال اور بے ساختہ اور سادہ اداکاری کے باعث انہوں نے ہندوستان کی بڑی بڑی ہیروئینوں کے چراغ گل کر دئیے تھے۔ وہ کرشن جی پر ایک فلم میں کام کر رہی تھیں کہ پاکستان قائم ہو گیا۔ فسادات کی آگ نے بمبئی اور پونا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ احمد صاحب کے تمام رشتے دار پاکستان میں تھے۔ وہ خود بھی کٹر پاکستانی تھے ،اس لئے پاکستان چلے آئے۔ پاکستان آکر ’’نینا‘‘ نے صرف ایک فلم ’’اکیلی‘‘ میں کام کیا تھا ،جو سید عطا ٔاللہ شاہ ہاشمی نے بنائی تھی۔ اس کے بعد وہ اداکاری سے کنارہ کش ہو گئیں۔ البتہ فلم کو آپریٹو میںا ور احمد صاحب کی فلموں میں ڈیکوریشن اور ملبوسات کے بارے میں وہ مشورہ دیتی رہتی تھیں۔ چند سال قبل طویل علالت کے بعد ان کا انتقال ہو گیا تو احمد صاحب نے اپنے سٹوڈیو کے احاطے میں ہی ان کو دفن کر دیا۔ اب بھی وہ ان کا تذکرہ یوں کرتے تھے جیسے وہ ابھی تک زندہ سلامت ہیں۔ آج بھی وہ ’’بیگم صاحب‘‘ کہہ کر ان کا نام لیتے ہیں۔ ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ وہ ایک عظیم اداکارہ تھیں یا عظیم خاتون؟ یہ فیصلہ کرنا آسان بھی نہیں ۔ ہم نے ان کی زبان سے کبھی فلمی زمانے کا کوئی تذکرہ نہیں سنا تھا۔ کبھی محسوس ہی نہیں ہوا کہ ہمارے سامنے جو شفیق اور پُر وقار خاتو ن بیٹھی بے تکلفی سے باتیں کر رہی ہیں ،کسی زمانے میں ہندوستان کی چوٹی کی ہیروئن تھیں۔ ’’روحی‘‘ کی ہیروئن شمی سے ہماری پہلے بھی ملاقات ہو چکی تھی ،جس کا دلچسپ قصہ ہم وقت آنے پر بیان کریں گے۔ وہ چھوٹے سے قد اور دلکش شکل و صورت رکھنے والی خاموشی پسند خاتون تھیں۔ ہر ایک سے بے تکلف بھی نہیں ہوتی تھیں۔ اس زمانے میں وہ اور صبیحہ خانم ہی دو بڑی ہیروئنیں تصور کی جاتی تھیں۔ تھوڑے عرصے بعد ہی انہوںنے اداکار سدھیر سے شادی کر کے اداکاری سے منہ موڑ لیا۔ شادی کے بعد انہوں نے سدھیر صاحب کی ایک فلم ’’ساحل‘‘ میں ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا، پھر چند سال بعد سدھیر صاحب ہی کی ایک اور فلم ’’بغاوت‘‘ میں بھی ہیروئن کا رول ادا کیا اور اس کے بعد فلمی کیمرے نے کبھی ان کی جھلک تک نہیں دیکھی۔ شادی کے بعد شمی نے فلمی تقریبات میں شرکت کرنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ (فلمی الف لیلہ از: علی سفیان آفاقی) ٭…٭…٭
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14631_47332711.jpg.pagespeed.ic.T2kGf-cGPh.jpg
اس زمانے میں یہ صرف ’’سنی ‘‘ تھے اور گورنمنٹ کالج سے تازہ تازہ گریجویٹ بن کر نکلے تھے۔ تھیٹر اور فلم ان کا شوق تھا۔ احمد صاحب انہیں گہری نیند سے جگاتے اور ہم لوگوں کو کار میں ڈراپ کرنے کے لئے کہتے کیونکہ اس قدر کڑاکے کی سردی میں صبح کے چار بجے کوئی اور ڈرائیور یہ خدمت انجام نہیں دے سکتا تھا۔ ’’سنی‘‘ بے چارے خاموشی سے آنکھیں ملتے ہوئے اٹھتے۔ احمد صاحب باہر کار تک آکر ہم سب کو خدا حافظ کہتے اور ’’سنی‘‘ ہم سب کو گھروں تک پہنچا دیتے۔ فلم کو آپریٹو میں ہم نے جن قابل ذکر شخصیات کو دیکھا ان میںا داکارہ ’’نینا‘بھی تھیں۔ یہ ڈبلیو زیڈ احمد صاحب کی بیگم تھیں۔ ان کا اصلی نام شاہدہ تھا۔ علی گڑھ کے ایک انتہائی اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور بی اے پاس تھیں۔ محسن عبداللہ سے ان کی شادی ہوئی تھی جو بمبئی کی ایک لیبارٹری میں کام کرتے تھے۔ ڈبلیو زیڈ احمد اس زمانے میں بمبئی میں فلمیں بنانے کا پروگرام بنا رہے تھے۔ شالیمار پکچرز کے نام سے انہوں نے پونا میں ایک فلم سٹوڈیو بنایا تھا اور ہندوستان کا کوئی قابل ذکر ادیب اور شاعر ایسا نہ تھا، جسے انہوں نے شالیمار کمپنی میں ملازم نہ رکھا ہو۔ یہاں تک کہ شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی بھی ان کے سٹوڈیو میں ملازم تھے۔ بمبئی میں احمد صاحب نے شاہد ہ بیگم کو دیکھا تو فلم میں کام کرنے کی پیش کش کی ،جو انہوں نے پس و پیش کے بعد قبول کر لی۔ ’’ایک رات‘‘ ، ’’من کی جیت‘‘ جیسی فلموں میں کام کرنے کے بعد وہ ہندوستان کی صف اوّل کی ہیروئن بن گئی تھیں۔ اسی دوران میں محسن عبداللہ سے علیحدگی ہو گئی اور انہوں نے ڈبلیو زیڈ احمد سے شادی کر لی۔ ان کی یادگار فلموں میں ’’میرا بائی‘‘ بھی شامل ہے۔ کہتے ہیں کہ ان کے پاکیزہ حسن اور فطری اداکاری کے باعث ہندوئوں نے انہیں پوجنا شروع کر دیا تھا۔ اخباروں نے تبصرہ میں لکھا کہ ’’میرا بائی‘‘ اس سے بڑھ کر کیا ہو گی؟ اپنے حسن جمال اور بے ساختہ اور سادہ اداکاری کے باعث انہوں نے ہندوستان کی بڑی بڑی ہیروئینوں کے چراغ گل کر دئیے تھے۔ وہ کرشن جی پر ایک فلم میں کام کر رہی تھیں کہ پاکستان قائم ہو گیا۔ فسادات کی آگ نے بمبئی اور پونا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ احمد صاحب کے تمام رشتے دار پاکستان میں تھے۔ وہ خود بھی کٹر پاکستانی تھے ،اس لئے پاکستان چلے آئے۔ پاکستان آکر ’’نینا‘‘ نے صرف ایک فلم ’’اکیلی‘‘ میں کام کیا تھا ،جو سید عطا ٔاللہ شاہ ہاشمی نے بنائی تھی۔ اس کے بعد وہ اداکاری سے کنارہ کش ہو گئیں۔ البتہ فلم کو آپریٹو میںا ور احمد صاحب کی فلموں میں ڈیکوریشن اور ملبوسات کے بارے میں وہ مشورہ دیتی رہتی تھیں۔ چند سال قبل طویل علالت کے بعد ان کا انتقال ہو گیا تو احمد صاحب نے اپنے سٹوڈیو کے احاطے میں ہی ان کو دفن کر دیا۔ اب بھی وہ ان کا تذکرہ یوں کرتے تھے جیسے وہ ابھی تک زندہ سلامت ہیں۔ آج بھی وہ ’’بیگم صاحب‘‘ کہہ کر ان کا نام لیتے ہیں۔ ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ وہ ایک عظیم اداکارہ تھیں یا عظیم خاتون؟ یہ فیصلہ کرنا آسان بھی نہیں ۔ ہم نے ان کی زبان سے کبھی فلمی زمانے کا کوئی تذکرہ نہیں سنا تھا۔ کبھی محسوس ہی نہیں ہوا کہ ہمارے سامنے جو شفیق اور پُر وقار خاتو ن بیٹھی بے تکلفی سے باتیں کر رہی ہیں ،کسی زمانے میں ہندوستان کی چوٹی کی ہیروئن تھیں۔ ’’روحی‘‘ کی ہیروئن شمی سے ہماری پہلے بھی ملاقات ہو چکی تھی ،جس کا دلچسپ قصہ ہم وقت آنے پر بیان کریں گے۔ وہ چھوٹے سے قد اور دلکش شکل و صورت رکھنے والی خاموشی پسند خاتون تھیں۔ ہر ایک سے بے تکلف بھی نہیں ہوتی تھیں۔ اس زمانے میں وہ اور صبیحہ خانم ہی دو بڑی ہیروئنیں تصور کی جاتی تھیں۔ تھوڑے عرصے بعد ہی انہوںنے اداکار سدھیر سے شادی کر کے اداکاری سے منہ موڑ لیا۔ شادی کے بعد انہوں نے سدھیر صاحب کی ایک فلم ’’ساحل‘‘ میں ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا، پھر چند سال بعد سدھیر صاحب ہی کی ایک اور فلم ’’بغاوت‘‘ میں بھی ہیروئن کا رول ادا کیا اور اس کے بعد فلمی کیمرے نے کبھی ان کی جھلک تک نہیں دیکھی۔ شادی کے بعد شمی نے فلمی تقریبات میں شرکت کرنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ (فلمی الف لیلہ از: علی سفیان آفاقی) ٭…٭…٭