intelligent086
01-16-2016, 09:59 PM
اشفاق احمد گلستان ادب کی سنہری ےیادیں
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14621_32468456.jpg.pagespeed.ic.QIa-yg4VZk.jpg
اے حمید
میرا اور اشفاق احمد کا ساتھ نصف صدی کا ساتھ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے لاہور آیا تو کچھ روز ملتان شہر کے کسی مہاجر کیمپ میں مہاجرین کی آمد وغیرہ کا اندراج کرتا رہا۔ پھر وہاں سے لاہور کے والٹن کیمپ میں آگیا اور یہاں میری اس سے پہلی ملاقات ہوئی۔ یہ پہلی ملاقات مجھے ایک خواب کی طرح یاد ہے۔ خوبصورت خواب پورے یاد نہیں رہتے۔ پل بھر کیلئے ایک جھلک سی دکھا کر ٹوٹے ہوئے ستاروں کی دھند میں غائب ہو جاتے تھے۔ بہت یاد کرتا ہوں تو ایک دھندلا سا منظر ابھرتا ہے۔ میں اور اشفاق کسی جگہ بیٹھے ہوئے ہیں، باتیں کر رہے ہیں۔ وہ بتا رہا ہے کہ پہلے میں ملتان کے مہاجر کیمپ میں تھا، اب میں والٹن کے مہاجر کیمپ میں مہاجرین کی آمد اور ان کے نام اور جہاں سے وہ ہجرت کر کے آئے ہیں ان دیہات اور شہروں کے ناموں کا اندراج کرتا ہوں۔ اس کے گورے چٹے چہرے پر بھر پور شباب کی چمک ہے۔ اس کے بعد خواب کا منظر بدلتا ہے۔ ہم دونوں بانسوں والے بازار میں سے گزرتے شاہ عالمی دروازے کی طرف جا رہے ہیں۔ شاہ عالمی دروازے کا بازار شروع سے لے کر آخر تک یعنی رنگ محل تک جل کر راکھ ہو چکا تھا۔ بازار غائب تھا، بازار کی جگہ مکانوں کے ملبے کے ڈھیر نہیں بلکہ ملبے کی پہاڑیاں بنی ہوئی تھیں۔ لوگوں کے چلنے پھرنے سے ان پہاڑیوں پر اونچی نیچی پگڈنڈیاں بن گئی تھیں۔ ہماری بائیں جانب والی پرانی عمارتوں میں سے صرف لال مسجد باقی بچی تھی بلکہ ساری عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی تھیں۔ دائیں جانب چند ایک مکانوں کے جلے ہوئے ڈھانچے اس طرح کھڑے تھے کہ ابھی گرے کہ گرے۔ لال مسجد سے ذرا آگے جا کر ہم ملبے کی پہاڑیوں سے اتر کر چوہٹہ مفتی باقر کے ایک بازار میں آ جاتے ہیں جہاں خالی بوتلیں خالی شیشیاں بکتی تھیں، شاید اب بھی بکتی ہیں۔ اشفاق احمد یہاں پونڈز کریم کے سائز کی کچھ خالی شیشیاں خرید نے آیا تھا۔ اس کے بعد میں اس سے ملنے اکثر ان کے نمبر1مزنگ روڈ والے مکان میں جایا کرتا۔ پھر ہماری پاک ٹی ہائوس والی ملاقاتیں شروع ہو گئیں۔ اس دوران ہم دونوں نے افسانے، ناولٹ وغیرہ لکھنے شروع کر دئیے تھے اور ہم نے اردو ادب میں ایک قابل عزت مقام بنا لیا تھا۔ ہم دونوں یعنی اشفاق اور میں نے پاکستان میں آکر لکھنا شروع کیا جبکہ افسانہ نگار شوکت صدیقی اور انتظار حسین پاکستان بننے سے پہلے سے لکھ رہے تھے۔ اشفاق احمد اپنے افسانوں میں متوسط طبقے کے معاشرتی مسائل اور ان مسائل میں الجھے ہوئے لوگوں کی حقیقت نگاری کرتا جبکہ میرے افسانوں میں محبت اور رومان کی ایک فضا ہوتی۔ قدرت نے اسے کردار نگاری کا خاص وصف عطا کیا تھا۔ دو تین سطروں میں ایک جیتا جاگتا کردار ابھر کر سامنے آجاتا۔ اس کی کردار نگاری اور حقیقت نگاری میں مجھے جو خاص بات محسوس ہوتی وہ یہ تھی کہ ساری فضا کو سارے کرداروں کو اشفاق احمد کے دل کی شفقت، محبت، رحمدلی اور انسان دوستی نے اپنی آغوش میںلے رکھا ہوتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے پہلے افسانے سے بڑا افسانہ نگار تھا اور اپنے آخری افسانے تک بڑا افسانہ نگار ہے۔ اشفاق احمد کے افسانوں کا (شاید ) پہلا مجموعہ 1957ء میں لاہور کے ایک اشاعتی ادارے بک لینڈ کی طرف سے چھپا۔ اس مجموعے کا نام ’’اجلے پھول‘‘ ہے۔ اس کتاب میں سے اس کا افسانہ ’’گڈریا‘‘ نکال کر پڑھئے اور دیکھیں کہ اس شخص نے دائو جی کا کردار کس قدر اپنے دل کے ساتھ لگا کر پیش کیا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ آپ کتاب پڑھتے پڑھتے سطروں کی سیڑھیاں اتر کر ایک عالم بے خودی میں کتاب کے اندر چلے جائیں اور جو منظر بیان ہو رہا ہے اس کا ایک حصہ بن جائیں۔ یہ کوئی جادو نہیں ہے۔ کوئی طلسم نہیں ہے۔ اگر کچھ ہے تو دلوں کو فتح کرنے والی محبت ہے اور اشفاق احمد کا دل اس محبت سے لبریز تھا۔ یہ اسی لازوال محبت کی ایک لہر تھی جو لکھتے وقت اس کے قلم سے نکل کر کاغذ کی سطروں میں جاری و ساری رہتی تھی اور جس نے اس کے ادب کو ہمیشہ کی زندگی عطا کر دی ہے۔ ٭…٭…٭
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14621_32468456.jpg.pagespeed.ic.QIa-yg4VZk.jpg
اے حمید
میرا اور اشفاق احمد کا ساتھ نصف صدی کا ساتھ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے لاہور آیا تو کچھ روز ملتان شہر کے کسی مہاجر کیمپ میں مہاجرین کی آمد وغیرہ کا اندراج کرتا رہا۔ پھر وہاں سے لاہور کے والٹن کیمپ میں آگیا اور یہاں میری اس سے پہلی ملاقات ہوئی۔ یہ پہلی ملاقات مجھے ایک خواب کی طرح یاد ہے۔ خوبصورت خواب پورے یاد نہیں رہتے۔ پل بھر کیلئے ایک جھلک سی دکھا کر ٹوٹے ہوئے ستاروں کی دھند میں غائب ہو جاتے تھے۔ بہت یاد کرتا ہوں تو ایک دھندلا سا منظر ابھرتا ہے۔ میں اور اشفاق کسی جگہ بیٹھے ہوئے ہیں، باتیں کر رہے ہیں۔ وہ بتا رہا ہے کہ پہلے میں ملتان کے مہاجر کیمپ میں تھا، اب میں والٹن کے مہاجر کیمپ میں مہاجرین کی آمد اور ان کے نام اور جہاں سے وہ ہجرت کر کے آئے ہیں ان دیہات اور شہروں کے ناموں کا اندراج کرتا ہوں۔ اس کے گورے چٹے چہرے پر بھر پور شباب کی چمک ہے۔ اس کے بعد خواب کا منظر بدلتا ہے۔ ہم دونوں بانسوں والے بازار میں سے گزرتے شاہ عالمی دروازے کی طرف جا رہے ہیں۔ شاہ عالمی دروازے کا بازار شروع سے لے کر آخر تک یعنی رنگ محل تک جل کر راکھ ہو چکا تھا۔ بازار غائب تھا، بازار کی جگہ مکانوں کے ملبے کے ڈھیر نہیں بلکہ ملبے کی پہاڑیاں بنی ہوئی تھیں۔ لوگوں کے چلنے پھرنے سے ان پہاڑیوں پر اونچی نیچی پگڈنڈیاں بن گئی تھیں۔ ہماری بائیں جانب والی پرانی عمارتوں میں سے صرف لال مسجد باقی بچی تھی بلکہ ساری عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی تھیں۔ دائیں جانب چند ایک مکانوں کے جلے ہوئے ڈھانچے اس طرح کھڑے تھے کہ ابھی گرے کہ گرے۔ لال مسجد سے ذرا آگے جا کر ہم ملبے کی پہاڑیوں سے اتر کر چوہٹہ مفتی باقر کے ایک بازار میں آ جاتے ہیں جہاں خالی بوتلیں خالی شیشیاں بکتی تھیں، شاید اب بھی بکتی ہیں۔ اشفاق احمد یہاں پونڈز کریم کے سائز کی کچھ خالی شیشیاں خرید نے آیا تھا۔ اس کے بعد میں اس سے ملنے اکثر ان کے نمبر1مزنگ روڈ والے مکان میں جایا کرتا۔ پھر ہماری پاک ٹی ہائوس والی ملاقاتیں شروع ہو گئیں۔ اس دوران ہم دونوں نے افسانے، ناولٹ وغیرہ لکھنے شروع کر دئیے تھے اور ہم نے اردو ادب میں ایک قابل عزت مقام بنا لیا تھا۔ ہم دونوں یعنی اشفاق اور میں نے پاکستان میں آکر لکھنا شروع کیا جبکہ افسانہ نگار شوکت صدیقی اور انتظار حسین پاکستان بننے سے پہلے سے لکھ رہے تھے۔ اشفاق احمد اپنے افسانوں میں متوسط طبقے کے معاشرتی مسائل اور ان مسائل میں الجھے ہوئے لوگوں کی حقیقت نگاری کرتا جبکہ میرے افسانوں میں محبت اور رومان کی ایک فضا ہوتی۔ قدرت نے اسے کردار نگاری کا خاص وصف عطا کیا تھا۔ دو تین سطروں میں ایک جیتا جاگتا کردار ابھر کر سامنے آجاتا۔ اس کی کردار نگاری اور حقیقت نگاری میں مجھے جو خاص بات محسوس ہوتی وہ یہ تھی کہ ساری فضا کو سارے کرداروں کو اشفاق احمد کے دل کی شفقت، محبت، رحمدلی اور انسان دوستی نے اپنی آغوش میںلے رکھا ہوتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے پہلے افسانے سے بڑا افسانہ نگار تھا اور اپنے آخری افسانے تک بڑا افسانہ نگار ہے۔ اشفاق احمد کے افسانوں کا (شاید ) پہلا مجموعہ 1957ء میں لاہور کے ایک اشاعتی ادارے بک لینڈ کی طرف سے چھپا۔ اس مجموعے کا نام ’’اجلے پھول‘‘ ہے۔ اس کتاب میں سے اس کا افسانہ ’’گڈریا‘‘ نکال کر پڑھئے اور دیکھیں کہ اس شخص نے دائو جی کا کردار کس قدر اپنے دل کے ساتھ لگا کر پیش کیا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ آپ کتاب پڑھتے پڑھتے سطروں کی سیڑھیاں اتر کر ایک عالم بے خودی میں کتاب کے اندر چلے جائیں اور جو منظر بیان ہو رہا ہے اس کا ایک حصہ بن جائیں۔ یہ کوئی جادو نہیں ہے۔ کوئی طلسم نہیں ہے۔ اگر کچھ ہے تو دلوں کو فتح کرنے والی محبت ہے اور اشفاق احمد کا دل اس محبت سے لبریز تھا۔ یہ اسی لازوال محبت کی ایک لہر تھی جو لکھتے وقت اس کے قلم سے نکل کر کاغذ کی سطروں میں جاری و ساری رہتی تھی اور جس نے اس کے ادب کو ہمیشہ کی زندگی عطا کر دی ہے۔ ٭…٭…٭