intelligent086
01-16-2016, 09:57 PM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14620_37101627.jpg.pagespeed.ic.CQfJj78Hqh .jpg
میں تنہائی اور یا سیّت پسند نہیں ہوں۔ گھر کے لوگوں کے شور، رشتہ داروں کے جمگھٹے اور دوستوں کی پر رونق محفلوں کو پسند کرتا ہوں اور ہنگاموں میں خوش رہتا ہوں لیکن جب مجھے کوئی تخلیقی کام کرنا ہو، لکھنے کے لیے ذہن میں بہت کچھ جمع ہو گیا ہو، تب مجھے انڈا دینے والی مرغی کی طرح کسی تنہا گوشے کی تلاش ہوتی ہے۔ تنہائی کے علاوہ مجھے ایک خاص قسم کی اُداسی کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس میں مبتلا ہوئے بغیر میرا قلم اور ذہن رواں نہیں ہوتے البتہ کوئی چلتا سا مضمون کوئی فرمائشی تقریر یا روایتی قسم کا سکرپٹ لکھنا ہو تو مجھے تنہائی اور اُداسی کی کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ میں بچوں کے شور اور دوسروں کی موجودگی میں بھی یوں قلم برداشتہ لکھ لیتا ہوں، جیسے دکاندار اپنے گاہک کو اس کی مطلوبہ چیز بغیر کسی وقت اور تاخیر کے تلاش کر دیتا بلکہ پڑیا میں باندھ کر دے دیتا ہے۔ لیکن تخلیقی کام کی ایک سطر لکھنے کے لیے بھی مجھے تنہائی کا انتظام اور اُداسی کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ اوّل تو اُداسی اس موضوع، خیال یا مواد میں پہلے سے موجود ہوتی ہے جو مجھے لکھنا ہوتا ہے کیونکہ کوئی خیال کسی زہریلے سانپ کی طرح کئی روز سے مجھے اندر ہی اندر ڈس رہا ہوتا ہے اور آخر کار تنہائی کے بستر پر ڈالتا ہے ورنہ پھر میں مبتلا ہونے کی شعوری کوشش کرتا ہوں اور کتابوں خصوصاً شعری مجموعوں سے مدد لیتا ہوں یا پھر موسیقی سنتا ہوں کیونکہ موسیقی میں متاثر کرنے، تحریک پیدا کرنے اور اُداسی کی کیفیت پیدا کرنے کی بے حد صلاحیت ہوتی ہے۔ بعض سنگدل لوگ موسیقی کو نا پسند کرتے ہیں اور اسے جذبات بھڑ کانے کا الزام دیتے ہیں۔ شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا گیا ہے کہ؎ پیار نہیں ہے جس کو سُر سے وہ مورکھ انسان نہیں۔ (ویسے اس مصرعے کا ایک دوسرا مطلب یہ بھی نکل سکتا ہے کہ جسے سُر سے پیار نہیں وہ انسان مورکھ نہیں ہوتا) لیکن میرا خیال ہے موسیقی جذبات کی تطہیر کرتی اور روح کو بالیدگی بخشتی ہے۔ اعلیٰ درجے کی موسیقی سن کر آدمی کے اندر کا سارا میل دُھل سکتا ہے۔ البتہ روح حزن و ملال سے لتھڑ جاتی ہے جو تخلیق پر مائل کرتی ہے۔ بعض گیتوں اور غزلوں کے الفاظ اور مفاہیم میں ملال چھپا ہوتا ہے۔ بعض طرزیں اور آوازیں ایسی ہوتی ہیں کہ سن کر اندر تنور سا تپ جاتا ہے۔ شاید اداسی میں نشاط کا کوئی پہلو چھپا ہوتا ہے کہ آدمی حزنیہ گیت سننے کی طرف مائل رہتا ہے۔ میں بعض اداس گیتوں کو بار بار سنتا ہوں اور مجھ پر عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے سوئی ہوئی حسیات آہستہ آہستہ بیدار ہو رہی ہیں، دھندلے خیالات واضح ہونے لگتے ہیں، اُداسی کے اندھیرے میں ذہن انوکھی اور ان دیکھی چیزوں کی تصویروں کے پرنٹس بنانے لگتا ہے۔ موسیقی کے بعض آلات بھی اُداسی پیدا کرنے کی خاص صلاحیت رکھتے ہیں۔ مثلاً کون صاحبِ دل اور صاحبِ اولاد ایسا ہو گا جسے شہنائی سن کر رخصتی کا دیکھایا اَن دیکھا منظر دکھائی نہ دینے لگے اور اس کی روح پر اُداسی کا تنبونہ تن جاتا ہو۔ اسی طرح سارنگی کی آوازیوں آدمی کے اندر دھنس جاتی ہے جیسے سردیوں کی ہلکی بارش زمین میں۔ سارنگی سُن کر مجھے اکثر سلائی مشین میں کپڑے کی جگہ سلتے چلے جانے کا احساس ہوتا ہے اس کے مقابلے میں وائلن سن کر چیرے جانے کا … جیسے کوئی تیز اور نوکدار چیز جسم کے آرپار ہو رہی ہو۔ بانسری کی آواز اُداسی کا مانجھا لگی وہ ڈور ہوتی ہے جو دل کی پتنگ کو درد کے تنکے لگاتی ہے اور پیانو… ملال کی گھنگھور گھٹا اُمنڈ آتی ہے، درد سرہانے آبیٹھتا ہے اور ہو کے بھرنے لگتا ہے… موسیقی کی کمپوزیشنوں میں بعض ساز اس سلیقے اور طریقے سے مناسب وقفوں کے ساتھ بجائے جاتے ہیں کہ سننے والے کلیجہ مسوس کر رہ جاتے ہیں۔ ستار دل پر پچھنے لگاتی اور طبلہ چوٹوں کا احساس دلاتا ہے۔ بیچ بیچ میں کسی دوسرے ساز کی لے یا تان چاقو سا گھونپ جاتی ہے۔ ٭…٭…٭
میں تنہائی اور یا سیّت پسند نہیں ہوں۔ گھر کے لوگوں کے شور، رشتہ داروں کے جمگھٹے اور دوستوں کی پر رونق محفلوں کو پسند کرتا ہوں اور ہنگاموں میں خوش رہتا ہوں لیکن جب مجھے کوئی تخلیقی کام کرنا ہو، لکھنے کے لیے ذہن میں بہت کچھ جمع ہو گیا ہو، تب مجھے انڈا دینے والی مرغی کی طرح کسی تنہا گوشے کی تلاش ہوتی ہے۔ تنہائی کے علاوہ مجھے ایک خاص قسم کی اُداسی کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس میں مبتلا ہوئے بغیر میرا قلم اور ذہن رواں نہیں ہوتے البتہ کوئی چلتا سا مضمون کوئی فرمائشی تقریر یا روایتی قسم کا سکرپٹ لکھنا ہو تو مجھے تنہائی اور اُداسی کی کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ میں بچوں کے شور اور دوسروں کی موجودگی میں بھی یوں قلم برداشتہ لکھ لیتا ہوں، جیسے دکاندار اپنے گاہک کو اس کی مطلوبہ چیز بغیر کسی وقت اور تاخیر کے تلاش کر دیتا بلکہ پڑیا میں باندھ کر دے دیتا ہے۔ لیکن تخلیقی کام کی ایک سطر لکھنے کے لیے بھی مجھے تنہائی کا انتظام اور اُداسی کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ اوّل تو اُداسی اس موضوع، خیال یا مواد میں پہلے سے موجود ہوتی ہے جو مجھے لکھنا ہوتا ہے کیونکہ کوئی خیال کسی زہریلے سانپ کی طرح کئی روز سے مجھے اندر ہی اندر ڈس رہا ہوتا ہے اور آخر کار تنہائی کے بستر پر ڈالتا ہے ورنہ پھر میں مبتلا ہونے کی شعوری کوشش کرتا ہوں اور کتابوں خصوصاً شعری مجموعوں سے مدد لیتا ہوں یا پھر موسیقی سنتا ہوں کیونکہ موسیقی میں متاثر کرنے، تحریک پیدا کرنے اور اُداسی کی کیفیت پیدا کرنے کی بے حد صلاحیت ہوتی ہے۔ بعض سنگدل لوگ موسیقی کو نا پسند کرتے ہیں اور اسے جذبات بھڑ کانے کا الزام دیتے ہیں۔ شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا گیا ہے کہ؎ پیار نہیں ہے جس کو سُر سے وہ مورکھ انسان نہیں۔ (ویسے اس مصرعے کا ایک دوسرا مطلب یہ بھی نکل سکتا ہے کہ جسے سُر سے پیار نہیں وہ انسان مورکھ نہیں ہوتا) لیکن میرا خیال ہے موسیقی جذبات کی تطہیر کرتی اور روح کو بالیدگی بخشتی ہے۔ اعلیٰ درجے کی موسیقی سن کر آدمی کے اندر کا سارا میل دُھل سکتا ہے۔ البتہ روح حزن و ملال سے لتھڑ جاتی ہے جو تخلیق پر مائل کرتی ہے۔ بعض گیتوں اور غزلوں کے الفاظ اور مفاہیم میں ملال چھپا ہوتا ہے۔ بعض طرزیں اور آوازیں ایسی ہوتی ہیں کہ سن کر اندر تنور سا تپ جاتا ہے۔ شاید اداسی میں نشاط کا کوئی پہلو چھپا ہوتا ہے کہ آدمی حزنیہ گیت سننے کی طرف مائل رہتا ہے۔ میں بعض اداس گیتوں کو بار بار سنتا ہوں اور مجھ پر عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے سوئی ہوئی حسیات آہستہ آہستہ بیدار ہو رہی ہیں، دھندلے خیالات واضح ہونے لگتے ہیں، اُداسی کے اندھیرے میں ذہن انوکھی اور ان دیکھی چیزوں کی تصویروں کے پرنٹس بنانے لگتا ہے۔ موسیقی کے بعض آلات بھی اُداسی پیدا کرنے کی خاص صلاحیت رکھتے ہیں۔ مثلاً کون صاحبِ دل اور صاحبِ اولاد ایسا ہو گا جسے شہنائی سن کر رخصتی کا دیکھایا اَن دیکھا منظر دکھائی نہ دینے لگے اور اس کی روح پر اُداسی کا تنبونہ تن جاتا ہو۔ اسی طرح سارنگی کی آوازیوں آدمی کے اندر دھنس جاتی ہے جیسے سردیوں کی ہلکی بارش زمین میں۔ سارنگی سُن کر مجھے اکثر سلائی مشین میں کپڑے کی جگہ سلتے چلے جانے کا احساس ہوتا ہے اس کے مقابلے میں وائلن سن کر چیرے جانے کا … جیسے کوئی تیز اور نوکدار چیز جسم کے آرپار ہو رہی ہو۔ بانسری کی آواز اُداسی کا مانجھا لگی وہ ڈور ہوتی ہے جو دل کی پتنگ کو درد کے تنکے لگاتی ہے اور پیانو… ملال کی گھنگھور گھٹا اُمنڈ آتی ہے، درد سرہانے آبیٹھتا ہے اور ہو کے بھرنے لگتا ہے… موسیقی کی کمپوزیشنوں میں بعض ساز اس سلیقے اور طریقے سے مناسب وقفوں کے ساتھ بجائے جاتے ہیں کہ سننے والے کلیجہ مسوس کر رہ جاتے ہیں۔ ستار دل پر پچھنے لگاتی اور طبلہ چوٹوں کا احساس دلاتا ہے۔ بیچ بیچ میں کسی دوسرے ساز کی لے یا تان چاقو سا گھونپ جاتی ہے۔ ٭…٭…٭