intelligent086
01-14-2016, 05:07 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14606_27675989.jpg.pagespeed.ic.KYpLhoOyo7 .jpg
ڈاکٹر انوار احمد
محسن نقوی پیپلزپارٹی سے وابستہ تورہا ،’’مساوات‘‘ میں روزانہ قطعہ بھی لکھتارہا، مگر عملی سیاست کی پہلی صف میں نظرنہ آیا،اس کے تایا سسر کی کاٹن فیکٹری تو پہلے سے تھی،آہستہ آہستہ اس کے اپنے تمول میں بھی اضافہ ہوتاگیا،مشترکہ دوست یا دشمن بتاتے تھے کہ وہ کراچی میں کنسٹرکشن کا بڑا کام کرتاہے،پھرڈیرہ غازی خان میں شیوخ کے محلات جیسے ایک قصر کی خریداری ، کوئی نئی شادی، ایک دومقدمے اور شاید ایک قتل کی سنسنی خیزی میں بھی اس کانام آیا،جو ہر مشہور آدمی کی حفاظت کرنے والے رومانوی تخیل کی پیداواربھی ہوسکتا ہے ۔ بے نظیر بھٹو کے دوبارہ اقتدار میںآنے کے بعد ایک مختصر سا وقفہ روشن خیال ا دیبوں کی زندگی میں بھی فخرزمان کی بدولت اس خمار کاآیا کہ وہ قومی تاریخ لکھنے یا ثقافت اورسیاست کی پالیسیوں کے سلسلے میں کم ازکم اپنی رائے دے سکتے ہیںاورجسے بیوروکریٹ بھی سننے اور نوٹ کرنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔اس وقت ادیبوں کا ایک اجتماع اکادمی ادبیات ،پاکستان کے زیراہتمام ہوا ،جن کے اعزاز میں ایک عشائیہ ایوان ِصدر میں دیاگیا۔محسن نقوی وہاں مجھے ملا ،پہلا صدمہ تو مجھے اس وقت ہوا، جب اس نے کہاکہ فخر زمان سے کہہ کر تمہیں ادبی کتب پر انعام دینے والی کمیٹی کا جج بنواتا ہوںاور تم میری کتاب کو پہلا انعام دے دو۔میں نے اس سے نہیں کہاکہ میں پہلے سے اس کمیٹی کا رکن ہوں اور نہ ہی یہ بھی کہا کہ فخر زمان نے تو مجھے ہمیشہ عزت واحترام دیا۔حالانکہ اس سے پہلی ملاقات 1986ء میں سبط حسن مرحوم کی کوششوں سے ہونے والی ترقی پسند کانفرنس کی گولڈن جوبلی تقریبات میں ہوئی تھی۔میں ٹکرٹکراسے دیکھتا رہا۔بہرطورپر جب اس نے پوچھا اپنا حال سنائو تو میں نے کہاکہ ہماری یونیورسٹی کے اساتذہ کی تحریک کے نتیجے میں اب یونیورسٹی میں ایک ترقی پسند قیادت آنے کوتھی،مگر نتیجہ خیز مرحلے پر ڈاکٹر اے بی اشرف ،ڈاکٹرکرامت علی اور ڈاکٹر غلام مصطفی کی باہمی ناپسندیدگی یا رقابت میں میں الجھ کر رہ گیا ہوں۔محسن نقوی مجھے ایوان صدرکے تالاب کے کونے میں لے گیا اورکہنے لگا کہ میں تمہیں فاروق لغاری سے ملواتا ہوں اورکل تمہاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے آرڈر نکل آئیں گے بشرطیکہ تم میرا نام پیش کرکے کہو کہ تمام اساتذہ اس نام پر متفق ہیں۔ نومبر1995ء میں، میں انقرہ یونیورسٹی سے وابستہ ہو کر ترکی چلاگیا ، وہاں سے میں نے غالباً جنوری کے پہلے ہفتے میں اصغر ندیم سید کے نام خط میں یہ باتیں لکھیں اور کہاکہ یار،محسن جب 27سال پہلے ہمیں ملاتھا ،کئی باتوں میں ہم سے آگے یا ہم سے بہتر تھا،پھراس نے شہرت اور دولت کی وہ منزلیں پائیں ،جو ہم سے یا کم ازکم مجھ سے بہت دُور ہیں، پھروہ ایسی باتیں ،حرص والی باتیں کیوں کررہاتھا، وہ جلدی میں کیوں ہے؟ 15جنوری1996ء کی سہ پہر اصغر ندیم سید کا فون آیا ۔وہ رو رہاتھا کہ گولیوں کے برسٹ نے ہم میں سے سب سے زیادہ زندہ کوماردیاہے۔میرے لیے یہ ناقابل ِیقین بات تھی اور ہے کہ زندگی کی بے انت مسرتوں کو چھونے کی تمنا کرنے والا کسی کی نفرت کا نشانہ کیسے بن سکتا ہے؟اتنی بے پایاں زندگی کو نفرت کس طرح مسل سکتی ہے؟ ( کتاب ’’یادگارزمانہ ہیں جو لوگ ‘‘سے اقتباس) ٭…٭…٭
ڈاکٹر انوار احمد
محسن نقوی پیپلزپارٹی سے وابستہ تورہا ،’’مساوات‘‘ میں روزانہ قطعہ بھی لکھتارہا، مگر عملی سیاست کی پہلی صف میں نظرنہ آیا،اس کے تایا سسر کی کاٹن فیکٹری تو پہلے سے تھی،آہستہ آہستہ اس کے اپنے تمول میں بھی اضافہ ہوتاگیا،مشترکہ دوست یا دشمن بتاتے تھے کہ وہ کراچی میں کنسٹرکشن کا بڑا کام کرتاہے،پھرڈیرہ غازی خان میں شیوخ کے محلات جیسے ایک قصر کی خریداری ، کوئی نئی شادی، ایک دومقدمے اور شاید ایک قتل کی سنسنی خیزی میں بھی اس کانام آیا،جو ہر مشہور آدمی کی حفاظت کرنے والے رومانوی تخیل کی پیداواربھی ہوسکتا ہے ۔ بے نظیر بھٹو کے دوبارہ اقتدار میںآنے کے بعد ایک مختصر سا وقفہ روشن خیال ا دیبوں کی زندگی میں بھی فخرزمان کی بدولت اس خمار کاآیا کہ وہ قومی تاریخ لکھنے یا ثقافت اورسیاست کی پالیسیوں کے سلسلے میں کم ازکم اپنی رائے دے سکتے ہیںاورجسے بیوروکریٹ بھی سننے اور نوٹ کرنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔اس وقت ادیبوں کا ایک اجتماع اکادمی ادبیات ،پاکستان کے زیراہتمام ہوا ،جن کے اعزاز میں ایک عشائیہ ایوان ِصدر میں دیاگیا۔محسن نقوی وہاں مجھے ملا ،پہلا صدمہ تو مجھے اس وقت ہوا، جب اس نے کہاکہ فخر زمان سے کہہ کر تمہیں ادبی کتب پر انعام دینے والی کمیٹی کا جج بنواتا ہوںاور تم میری کتاب کو پہلا انعام دے دو۔میں نے اس سے نہیں کہاکہ میں پہلے سے اس کمیٹی کا رکن ہوں اور نہ ہی یہ بھی کہا کہ فخر زمان نے تو مجھے ہمیشہ عزت واحترام دیا۔حالانکہ اس سے پہلی ملاقات 1986ء میں سبط حسن مرحوم کی کوششوں سے ہونے والی ترقی پسند کانفرنس کی گولڈن جوبلی تقریبات میں ہوئی تھی۔میں ٹکرٹکراسے دیکھتا رہا۔بہرطورپر جب اس نے پوچھا اپنا حال سنائو تو میں نے کہاکہ ہماری یونیورسٹی کے اساتذہ کی تحریک کے نتیجے میں اب یونیورسٹی میں ایک ترقی پسند قیادت آنے کوتھی،مگر نتیجہ خیز مرحلے پر ڈاکٹر اے بی اشرف ،ڈاکٹرکرامت علی اور ڈاکٹر غلام مصطفی کی باہمی ناپسندیدگی یا رقابت میں میں الجھ کر رہ گیا ہوں۔محسن نقوی مجھے ایوان صدرکے تالاب کے کونے میں لے گیا اورکہنے لگا کہ میں تمہیں فاروق لغاری سے ملواتا ہوں اورکل تمہاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے آرڈر نکل آئیں گے بشرطیکہ تم میرا نام پیش کرکے کہو کہ تمام اساتذہ اس نام پر متفق ہیں۔ نومبر1995ء میں، میں انقرہ یونیورسٹی سے وابستہ ہو کر ترکی چلاگیا ، وہاں سے میں نے غالباً جنوری کے پہلے ہفتے میں اصغر ندیم سید کے نام خط میں یہ باتیں لکھیں اور کہاکہ یار،محسن جب 27سال پہلے ہمیں ملاتھا ،کئی باتوں میں ہم سے آگے یا ہم سے بہتر تھا،پھراس نے شہرت اور دولت کی وہ منزلیں پائیں ،جو ہم سے یا کم ازکم مجھ سے بہت دُور ہیں، پھروہ ایسی باتیں ،حرص والی باتیں کیوں کررہاتھا، وہ جلدی میں کیوں ہے؟ 15جنوری1996ء کی سہ پہر اصغر ندیم سید کا فون آیا ۔وہ رو رہاتھا کہ گولیوں کے برسٹ نے ہم میں سے سب سے زیادہ زندہ کوماردیاہے۔میرے لیے یہ ناقابل ِیقین بات تھی اور ہے کہ زندگی کی بے انت مسرتوں کو چھونے کی تمنا کرنے والا کسی کی نفرت کا نشانہ کیسے بن سکتا ہے؟اتنی بے پایاں زندگی کو نفرت کس طرح مسل سکتی ہے؟ ( کتاب ’’یادگارزمانہ ہیں جو لوگ ‘‘سے اقتباس) ٭…٭…٭