intelligent086
01-13-2016, 01:08 PM
ایلمورلیونارڈ جرم و سزا اور سراغ رسانی کو موضوع بنانے والا منفرد لکھاری
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14595_49263543.jpg.pagespeed.ic.zHRjMOxFrC .jpg
سلیم الرحمن
بعض اوقات تعجب ہوتا ہے کہ ان ناول نگاروں کو قدرے حقارت سے کیوں دیکھا جاتا ہے، جو جرائم، جرائم پیشہ افراد اور سراغ رسانوں کے بارے میں لکھتے ہیں یا سنسنی کا سہارا لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لکھنے والوں سے، بالخصوص ان سے، جو اس نوع کی اصناف میں اول درجے پر فائز ہوں، بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔کسا کسایا پلاٹ ہو یا کرداروں کی گوناگونی، جرائم کی طرف راغب افراد کی نفسیات ہو یا مکالموں کی چستی یا چند جملوں میں پس منظر یا پیش منظر کی صورت گری، ان تمام معاملات میں وہ طاق ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ناول لاکھوں کی تعداد میں بکتے ہیں، بیسیوں زبانوں میں ترجمہ کیے جاتے ہیں۔ موضوع کو دل نشیں انداز میں پیش کرنے کی اسی مہارت میں ان کی مقبولیت کا راز پنہاں ہے۔ بعض کے حصے میں جو شہرت آتی ہے اس کی حیثیت وقتی ہوتی ہے، بعضوں کی مقبولیت پر ماہ و سال اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ سر آرتھر کونن ڈوئل کی مثال سامنے ہے۔ جو قارئین، کسی زعم میں، ان ناولسٹوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اعلیٰ درجے کا ادب پڑھتے ہیں، بازاری کتابوں کو منہ نہیں لگاتے، وہ غلطی پر ہیں بلکہ وہ ادیب بھی، جو قارئین کا سا رویہ اختیار کرکے ناک منہ چڑھاتے ہیں، زیادہ نقصان اٹھاتے ہیں۔درست یہ ہے اور یہ بات بہت سوں کو ناگوار گزرے گی کہ استشنائی مثالوں کو چھوڑ کر یہ ناول نگار اُردو کے بہت سے فکشن لکھنے والوں کے مقابلے میں ناول اور افسانے کے فن پر زیادہ عبور رکھتے ہیں۔ امریکا میں جرم و سزا اور سراغ رسانی کو اپنا موضوع بنانے والے بہت ہیں، جو صحیح معنی میں اچھا لکھتے ہیں وہ، ظاہر ہے، کم ہیں،جن کو آسانی سے یاد رکھا جا سکتا ہے، ان میں جیمز ایم کین، جس کے مختصر ناول ڈاکیا ہمیشہ دو بار گھنٹی بجاتا ہے، کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہے، ڈیشمل ہیمٹ اور ریمنڈ چینڈلر ہیں۔ اسی لڑی کا ایک بڑا فکشن نگار ایلمور لیونارڈ ہے۔ لطف یہ کہ ان سب نے نثر لکھنے کا اسلوب ہیمنگوے سے سیکھا اور سچ پوچھیے تو سیکھنے کا حق ادا کر دیا۔ایلمور لیونارڈ کا والد جنرل موٹرز میں ملازم تھا۔ ایلمور نے اپنے لڑکپن اور نوجوانی کے دن ڈیٹرائٹ میں گزارے جو جنرل موٹرز کا مرکز تھا۔ اسی رعایت سے بعض دفعہ اسے ڈیٹرائٹ کا ڈکنز بھی کہا جاتا ہے۔ 1943ء میں وہ امریکی بحریہ میں بھرتی ہو گیا اور تین سال جنوبی بحرالکاہل میں فوجی خدمات انجام دیں۔ ابتدا میں اس نے ویسٹرن ناول اور افسانے لکھے۔ ویسٹرن سے ایسا فکشن مرادہے، جس میں کاؤ بوائز کی مہم جوئیوں اور پُر تشدد زندگیوں کا احوال ہو۔ اس کے پانچ ویسٹرن ناولوں پر کامیاب فلمیں بھی بنیں ،جن میں گلین فورڈ، پال نیومین، برٹ لنکاسٹر اور کلنٹ ایسٹ وڈ جیسے چوٹی کے اداکارو ں نے کام کیا۔اس کے ایک افسانے تھری ٹین ٹو یوما (تین بج کر دس منٹ پر یوما جانے والی ٹرین)کو دو دفعہ فلمایا گیا۔ یہ فلم ہے بھی اس لائق کہ اسے بار بار دیکھا جائے۔ یہ معلوم نہیں کہ وہ ویسٹرن فکشن کو چھوڑ کر جرائم کے ناولوں کی جانب کیوں راغب ہوا؟ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ویسٹرن ناولوں میں تنوع کی گنجائش کم ہے۔ ایلمور کو اس تنگ نائے کی بجائے کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے کی تلاش تھی اور وہ اسے مجرموں اور جرائم پیشہ دنیا نے فراہم کر دی۔یہاں اس کا فن عروج پر نظر آتا ہے۔ مقبولیت نے بھی نئی بلندیوں کو چھو لیا۔ محتاط اندازے کے مطابق اس کے ناول کروڑوں کی تعداد میں فروخت ہوچکے ہیں۔ کئی کو فلمایا بھی گیا۔ عجیب بات یہ کہ اپنے ناولوں پر بننے والی فلموں سے اس کی تسلی نہ ہوئی۔ اس کا کہنا تھا کہ لکھتے ہوئے ناول اول تا آخر فلم کی صورت مجھ پر نازل ہوتا ہے، لیکن ناول کی جو فضا میرے سامنے ہوتی ہے، اسے کوئی ہدایت کار فلم میں منتقل نہیں کر سکا۔یہاں اس کی چند خصوصیات کا ذکر لازمی ہے۔ جرائم پر لکھنے والے اور بھی بہت سے ہیں۔ امریکا اور انگلستان میں بھی ہیں اور یورپ میں بھی، لیکن ان میں سے اکثر طول نویسی سے اپنا دامن نہیں بچا سکتے۔چینڈلر کی طرح ایلمور لیونارڈ کی خوبی یہ ہے کہ کم و بیش دو سو صفحوں میں پورا قصہ کام یابی سے بیان کرنے پر قادر ہے۔ پلاٹ میں کوئی جھول نہیں آتا۔ اس طرح کا کفایتی بیانیہ لکھنا سہل نہیں۔ ایلمور لیونارڈ کے بہترین ناولوں میں ایک جملہ بھی فالتو نہ ملے گا۔ کرداروں کا تنوع بھی حیرت ناک ہے۔ مکالمے ایسے ٹھوک بجا کر لکھتا ہے کہ باید و شاید۔ اس کے مکالموں کی داد تو سأل بیلو، مارٹن ایمس اور سٹیفن کنگ بھی دے چکے ہیں۔ کمزوری ایک ہی ہے، جب وہ اس ماحول کو چھوڑ کر، جس کی رگ رگ سے واقف ہے، ایسے مقامات کے بارے میں لکھتا ہے جو امریکا میں نہیں تو ناولوں میں سکت کی کمی صاف محسوس ہوتی ہے۔ معلوم نہیں کہ وہ کبھی کیوبا یا جبوتی (مشرقی افریقا)گیا ،لیکن جو ناول ان مقامات کے بارے میں ہیں، ان میں وہ موضوع سے انصاف نہیں کر سکا۔اس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس کی نثر پر ہیمنگوے کا اثر ہے۔ یہ ذکر شاید کہیں نہیں کیا کہ اس نے فرانسیسی ناول نگار سیمنوں سے کیا سیکھا، جو اسی کی طرح جرائم کے بارے میں مختصر ناول لکھنے کا ماہر ہے اور بڑے بڑے ادیبوں سے اپنا لوہا منوا چکا ہے۔ یہ کہنے میں قطعاً کوئی مضائقہ نہیں کہ اس کے چند ناولوں کو ادب کے خانے میں رکھا جاسکتا ہے۔ یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ اس کا بہترین کام آج کل کے امریکہ کے مزاج، میلانات اور الجھنوں کی ان ناولوں کی بہ نسبت کہیں عمدگی سے ترجمانی کرتا ہے، جنھیں ادبی حلقوں میں بڑا مقام حاصل ہے اور سمجھا جاتا ہے یا فرض کرلیا گیا ہے کہ ان میں جو گہرائی اور گیرائی ہے وہ ایلمورلیونارڈ کے قبیل کے مصنفوں کو نصیب نہیں ہو سکتی۔خود کو ارفع مقام پر فائز کر لینے کی برخود غلط روش بہت دیر تک ساتھ نہیں دے سکے گی۔ ٭…٭…٭
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14595_49263543.jpg.pagespeed.ic.zHRjMOxFrC .jpg
سلیم الرحمن
بعض اوقات تعجب ہوتا ہے کہ ان ناول نگاروں کو قدرے حقارت سے کیوں دیکھا جاتا ہے، جو جرائم، جرائم پیشہ افراد اور سراغ رسانوں کے بارے میں لکھتے ہیں یا سنسنی کا سہارا لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لکھنے والوں سے، بالخصوص ان سے، جو اس نوع کی اصناف میں اول درجے پر فائز ہوں، بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔کسا کسایا پلاٹ ہو یا کرداروں کی گوناگونی، جرائم کی طرف راغب افراد کی نفسیات ہو یا مکالموں کی چستی یا چند جملوں میں پس منظر یا پیش منظر کی صورت گری، ان تمام معاملات میں وہ طاق ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ناول لاکھوں کی تعداد میں بکتے ہیں، بیسیوں زبانوں میں ترجمہ کیے جاتے ہیں۔ موضوع کو دل نشیں انداز میں پیش کرنے کی اسی مہارت میں ان کی مقبولیت کا راز پنہاں ہے۔ بعض کے حصے میں جو شہرت آتی ہے اس کی حیثیت وقتی ہوتی ہے، بعضوں کی مقبولیت پر ماہ و سال اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ سر آرتھر کونن ڈوئل کی مثال سامنے ہے۔ جو قارئین، کسی زعم میں، ان ناولسٹوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اعلیٰ درجے کا ادب پڑھتے ہیں، بازاری کتابوں کو منہ نہیں لگاتے، وہ غلطی پر ہیں بلکہ وہ ادیب بھی، جو قارئین کا سا رویہ اختیار کرکے ناک منہ چڑھاتے ہیں، زیادہ نقصان اٹھاتے ہیں۔درست یہ ہے اور یہ بات بہت سوں کو ناگوار گزرے گی کہ استشنائی مثالوں کو چھوڑ کر یہ ناول نگار اُردو کے بہت سے فکشن لکھنے والوں کے مقابلے میں ناول اور افسانے کے فن پر زیادہ عبور رکھتے ہیں۔ امریکا میں جرم و سزا اور سراغ رسانی کو اپنا موضوع بنانے والے بہت ہیں، جو صحیح معنی میں اچھا لکھتے ہیں وہ، ظاہر ہے، کم ہیں،جن کو آسانی سے یاد رکھا جا سکتا ہے، ان میں جیمز ایم کین، جس کے مختصر ناول ڈاکیا ہمیشہ دو بار گھنٹی بجاتا ہے، کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہے، ڈیشمل ہیمٹ اور ریمنڈ چینڈلر ہیں۔ اسی لڑی کا ایک بڑا فکشن نگار ایلمور لیونارڈ ہے۔ لطف یہ کہ ان سب نے نثر لکھنے کا اسلوب ہیمنگوے سے سیکھا اور سچ پوچھیے تو سیکھنے کا حق ادا کر دیا۔ایلمور لیونارڈ کا والد جنرل موٹرز میں ملازم تھا۔ ایلمور نے اپنے لڑکپن اور نوجوانی کے دن ڈیٹرائٹ میں گزارے جو جنرل موٹرز کا مرکز تھا۔ اسی رعایت سے بعض دفعہ اسے ڈیٹرائٹ کا ڈکنز بھی کہا جاتا ہے۔ 1943ء میں وہ امریکی بحریہ میں بھرتی ہو گیا اور تین سال جنوبی بحرالکاہل میں فوجی خدمات انجام دیں۔ ابتدا میں اس نے ویسٹرن ناول اور افسانے لکھے۔ ویسٹرن سے ایسا فکشن مرادہے، جس میں کاؤ بوائز کی مہم جوئیوں اور پُر تشدد زندگیوں کا احوال ہو۔ اس کے پانچ ویسٹرن ناولوں پر کامیاب فلمیں بھی بنیں ،جن میں گلین فورڈ، پال نیومین، برٹ لنکاسٹر اور کلنٹ ایسٹ وڈ جیسے چوٹی کے اداکارو ں نے کام کیا۔اس کے ایک افسانے تھری ٹین ٹو یوما (تین بج کر دس منٹ پر یوما جانے والی ٹرین)کو دو دفعہ فلمایا گیا۔ یہ فلم ہے بھی اس لائق کہ اسے بار بار دیکھا جائے۔ یہ معلوم نہیں کہ وہ ویسٹرن فکشن کو چھوڑ کر جرائم کے ناولوں کی جانب کیوں راغب ہوا؟ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ویسٹرن ناولوں میں تنوع کی گنجائش کم ہے۔ ایلمور کو اس تنگ نائے کی بجائے کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے کی تلاش تھی اور وہ اسے مجرموں اور جرائم پیشہ دنیا نے فراہم کر دی۔یہاں اس کا فن عروج پر نظر آتا ہے۔ مقبولیت نے بھی نئی بلندیوں کو چھو لیا۔ محتاط اندازے کے مطابق اس کے ناول کروڑوں کی تعداد میں فروخت ہوچکے ہیں۔ کئی کو فلمایا بھی گیا۔ عجیب بات یہ کہ اپنے ناولوں پر بننے والی فلموں سے اس کی تسلی نہ ہوئی۔ اس کا کہنا تھا کہ لکھتے ہوئے ناول اول تا آخر فلم کی صورت مجھ پر نازل ہوتا ہے، لیکن ناول کی جو فضا میرے سامنے ہوتی ہے، اسے کوئی ہدایت کار فلم میں منتقل نہیں کر سکا۔یہاں اس کی چند خصوصیات کا ذکر لازمی ہے۔ جرائم پر لکھنے والے اور بھی بہت سے ہیں۔ امریکا اور انگلستان میں بھی ہیں اور یورپ میں بھی، لیکن ان میں سے اکثر طول نویسی سے اپنا دامن نہیں بچا سکتے۔چینڈلر کی طرح ایلمور لیونارڈ کی خوبی یہ ہے کہ کم و بیش دو سو صفحوں میں پورا قصہ کام یابی سے بیان کرنے پر قادر ہے۔ پلاٹ میں کوئی جھول نہیں آتا۔ اس طرح کا کفایتی بیانیہ لکھنا سہل نہیں۔ ایلمور لیونارڈ کے بہترین ناولوں میں ایک جملہ بھی فالتو نہ ملے گا۔ کرداروں کا تنوع بھی حیرت ناک ہے۔ مکالمے ایسے ٹھوک بجا کر لکھتا ہے کہ باید و شاید۔ اس کے مکالموں کی داد تو سأل بیلو، مارٹن ایمس اور سٹیفن کنگ بھی دے چکے ہیں۔ کمزوری ایک ہی ہے، جب وہ اس ماحول کو چھوڑ کر، جس کی رگ رگ سے واقف ہے، ایسے مقامات کے بارے میں لکھتا ہے جو امریکا میں نہیں تو ناولوں میں سکت کی کمی صاف محسوس ہوتی ہے۔ معلوم نہیں کہ وہ کبھی کیوبا یا جبوتی (مشرقی افریقا)گیا ،لیکن جو ناول ان مقامات کے بارے میں ہیں، ان میں وہ موضوع سے انصاف نہیں کر سکا۔اس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس کی نثر پر ہیمنگوے کا اثر ہے۔ یہ ذکر شاید کہیں نہیں کیا کہ اس نے فرانسیسی ناول نگار سیمنوں سے کیا سیکھا، جو اسی کی طرح جرائم کے بارے میں مختصر ناول لکھنے کا ماہر ہے اور بڑے بڑے ادیبوں سے اپنا لوہا منوا چکا ہے۔ یہ کہنے میں قطعاً کوئی مضائقہ نہیں کہ اس کے چند ناولوں کو ادب کے خانے میں رکھا جاسکتا ہے۔ یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ اس کا بہترین کام آج کل کے امریکہ کے مزاج، میلانات اور الجھنوں کی ان ناولوں کی بہ نسبت کہیں عمدگی سے ترجمانی کرتا ہے، جنھیں ادبی حلقوں میں بڑا مقام حاصل ہے اور سمجھا جاتا ہے یا فرض کرلیا گیا ہے کہ ان میں جو گہرائی اور گیرائی ہے وہ ایلمورلیونارڈ کے قبیل کے مصنفوں کو نصیب نہیں ہو سکتی۔خود کو ارفع مقام پر فائز کر لینے کی برخود غلط روش بہت دیر تک ساتھ نہیں دے سکے گی۔ ٭…٭…٭