PDA

View Full Version : بلاگر کی دنیا امن عالم ایک خواب ہے مگر ۔۔۔۔&am



intelligent086
01-09-2016, 05:04 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14554_81979291.jpg.pagespeed.ic.B_WmvfPkW4 .jpg



محمد حسین
انسانوں کی ضروریات، صلاحیتیں، دلچسپیاں، خواہشات، خیالات، مفادات اور مزاج مختلف ہیں اس لیے ان میں اختلاف رونما ہونا ایک فطری بات ہے۔ کبھی یہ اختلافات شدت اختیار کر جاتی ہیں جس سے ان کے درمیان تلخیاں اور بدمزگیاں پیدا ہوتی ہیں اور کبھی کبھی لڑائی جھگڑے تک نوبت پہنچ جاتی ہے اسی طرح کبھی کبھی معاشرے میں کچھ افراد زور زبردستی اور زیادتی کرتے ہیں اور لوگوں کے حقوق غصب کرنے لگتے ہیں ، اس طرح معاشرے میں انتشار پھیلنے لگتا ہے ۔ اگر ہم نجی سطح پر اپنے گھر اور خاندان کی زندگی ، پڑوس اور محلے داروں کیساتھ رہن سہن یا علاقے کی سطح پر دوسروں کو ان کا حق نہ دیں بلکہ ان کے حقوق مارنے لگیں تو اس طرح ہر شخص زور زبر دستی سے اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس طرح رشتہ داروں کے درمیان، پڑوسیوں کے درمیان اور علاقے میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، انفرادی جھگڑوں سے بات آگے بڑھتی ہے اور لوگ مختلف نعروں کی بنیاد پر گروپ بنا کر جھگڑے شروع کر دیتے ہیں اور اس طرح ہماری زندگی تشدد، جنگ، منافرت، تفریق اور تعصب کا شکار ہوجاتی ہے ۔ اب انفرادی، سماجی ، ریاستی اور عالمی انصاف کی فراہمی کیسے ممکن ہے ،اس سوال کا جواب ہم چند نکات میں تلاش کرتے ہیں۔ انفرادی سطح پر انصاف انفرادی زندگی میں انصاف کے اصولوں پر کاربند رہنا ایک مشکل امر ہے ۔ انفرادی انصاف کے لیے سب سے شفاف میزان آپ کا اپنا ضمیر ہے۔ ضمیر کی عدالت میں کبھی انصاف کا تقاضا آپ کی خواہشات کی قربانی اور مفادات سے دست برداری کی صورت میں ہوتا ہے اور کبھی آپ کی توقعات اور تعلقات کے ٹوٹنے سے ، آپ کو اپنے والدین اور رشتہ داروں کے خلاف بھی کھڑا ہونا پڑ سکتا ہے۔ سماجی سطح پر انصاف اجتماعی زندگی کا نظام چلانے کے لیے ہر سماج مختلف ادارے تشکیل دیتا ہے اور پھر ان اداروں کے لیے باہمی مشاورت سے اصول اور ضوابط بناتا ہے تاکہ وہ ادارے ان اصول و ضوابط کے تحت چلیں ، عام لوگ عوامی سطح پر مختلف ادارے قائم کرتے ہیں، تعلیمی ادارے ، ہسپتال اور سماجی خدمات کے مختلف ادارے قائم کیے جاتے ہیں‘ مختلف انسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے انسانوں کے درمیان ان اداروں کا وجود بہت ضروری ہے ۔ اگر یہ ادارے نہ ہوں تو انسان کی اجتماعی ضروریات کا پور ا کرناناممکن ہوجائے گا جس سے ہماری سماجی زندگی بہت مشکل ہوجائے گی ، اس طرح یہ ادارے گویا تمام لوگوں کے مشترکہ مفادات کو پورا کرتے ہیں ۔ ان اداروں کے کاموں میں اگر اصولوں کی پاسداری کی جائے تو تمام لوگ اس قسم کے اداروں سے یکساں طور پر فائدہ حاصل کر پاتے ہیں ۔ اگر ان اداروں سے فائدہ پہنچانے میں لوگوں کے ساتھ انصاف نہ ہو بلکہ لاقانونیت جیسا کہ امتیازی سلوک، کرپشن، اقربا پروری اور سفارش وغیرہ کا کلچر رائج ہو تو ان اداروں کا اپنا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے ، ان اداروں کے چلانے والوں کی ذمہ داری ہے کہ اداروں میں نا انصافی اور لاقانونیت کو پیدا نہ ہونے دیں ورنہ امن کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں ۔ عدالتی سطح پر انصاف معاشرے میں عدل و انصاف کو یقینی بنانے کے لیے اور مظلوموں کو ان کا حق دینے کے لیے ملک میں چھوٹی بڑی عدالتیں قائم ہیں ۔ ملکی عدالتیں لوگوں کی امیدوں کا آخری سہارا ہوتی ہیں۔اگر کسی بھی وجہ سے لوگوں کو عدالت سے انصاف نہ ملے تو لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنا حق حاصل کرنے کے لیے بعض اوقات ظلم اور زیادتی کرجاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے عدالتی نظام پر لوگوں کا یقین و اعتماد ہو ، عدالتوں میں رشوت ، سفارش اور دھونس دھمکی کی بنیاد پر اپنے حق میں فیصلے لینے کا سلسلہ نہ ہو ، وکیل حق کی طرف داری کریں ، انصاف کا حصول مہنگا نہ ہو بلکہ سستا ہو اور انصاف کی فراہمی حتی الامکان فوری اور بروقت ہو اور اس میں غیر ضروری صرف نہ ہو ۔ ریاستی سطح پر انصاف ہر ریاست ملکی نظام چلانے کے لیے مختلف قسم کے ادارے قائم کرتی ہے۔ عدل و انصاف، حکومت و سلطنت کی عمارت کا ستون ہے۔ ریاست چوں کہ اپنی عوام کے آئینی، سیاسی ، معاشی حقوق اورمفادات کی محافظ ہے۔ عوام کی اجتماعی زندگی میں ریاستی عمل دخل کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اس لیے ریاستی سطح پر اگر کسی نسلی، لسانی، مذہبی یا سماجی گروہ کے خلاف تفریق، تشدد اور وسائل و اختیارات کے ناجائز استعمال کا سلسلہ شروع ہو جائے تو اس گروہ میں احساس محرومی پروان چڑھتا ہے جو رفتہ رفتہ پورے ملک کے امن و استحکام کو متاثر کردیتا ہے ۔ عالمی سطح پر انصاف دنیا جدید ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ میں غیر معمولی پیش رفت کے نتیجے میں ایک عالمی گائوںکی شکل اختیار کر چکی ہے۔ تجارت، سیاست، ثقافت، سفارت کاری، ملکوں کے تعلقات، عالمی وسائل پر حق تصرف، بین الملکی تنازعات اور تعلقات کی نوعیت کے سارے روایتی تصورات، اصول، معیارات، تناظرات اور ان سے نمٹنے کے اسالیب یکسر بدل چکے ہیں۔ اب معیشت ، سیاست ، سیاحت ، تجارت بین الاقوامی رنگ اختیار کرچکی ہے‘ اسی طرح امن بھی عالمی تناظر کی حیثیت رکھتا ہے، دنیا بھر کے تنازعات، قدرتی، وسائل پر حق تصرف، تجارتی مواقع میں شفافیت، سیاسی حقوق کی فراہمی وغیرہ سے نمٹنا اور عالمی سطح پر عدل و انصاف کا قیام عالمی برادری کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ مشرق وسطی، افغانستان، کشمیر، فلسطین، برما، افریقہ کے باسیوں اور مغربی ممالک میں بسنے والے سیاہ فام باشندوں کو عدل و انصاف کی فراہمی میں رکاوٹوں کو دور کرنا اور انصاف فراہم کرنا امن عالم کے لیے نہایت ضروری ہے۔ ٭…٭…٭

KhUsHi
03-26-2016, 03:02 AM
Buhat achi sharing

intelligent086
03-26-2016, 06:56 AM
http://www.mobopk.com/images/hanks4comments.gif

muzafar ali
03-26-2016, 08:31 PM
thanks for so nice sharing

intelligent086
03-27-2016, 04:33 AM
http://i14.tinypic.com/6lxfc4x.gif