intelligent086
01-05-2016, 02:46 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14516_71142439.jpg.pagespeed.ic.bPN5wqsr6z .jpg
مولوی محمد حسین آزاد اواخر عمر میں ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے۔ ایک دن اپنے گھر سے غائب ہو گئے‘ پہلے لاہور میں انھیں تلاش کیا گیا پھر اور شہروں میں۔ مگر ان کا کچھ پتہ نہ چلا‘ کئی مہینے غائب رہنے کے بعد وہ ایکا ایکی دلی میں رونما ہوئے۔ بیریاں لگی ہوئیں۔ ننگے پائوں‘ ننگے سر۔ پیروں میں چھالے۔ منہ پر خاک۔ چہرے پر وحشت۔ لال لال دیدے۔ سیدھے منشی ذکاء اللہ کے مکان میں گھس آئے۔ منشی ذکاء اللہ سے ان کا بچپن کا یارانہ تھا ۔ وہ انھیں اس جنون کی حا لت میں دیکھ کر لرز گئے۔ فوراً ان کے کپڑے بدلوائے۔ منہ ہاتھ دھلوایا۔ معلوم ہوا کہ لاہور سے پیدل چلے تھے اور خدا جانے کہاں کہاں کی خاک چھانتے دلی پہنچ گئے۔ ایک دن مولوی نذیر احمد منشی ذکاء اللہ کے ہاں پہنچے تو دیکھتے کیا ہیں کہ مولانا آزاد ایک مونڈھے پر بیٹھے ہیں اور دوسرے مونڈھے پر منشی ذکاء اللہ بیٹھے نائی سے حجامت بنوا رہے ہیں نہ جانے آزاد کو کیا خیال آیا کہ اٹھے اور نائی کے ہاتھ سے استراچھین لیا اور بولے! ’’ابے! تو کیا حجامت بنائے گا۔ ہم بنائیں گے‘‘۔ یہ کہہ کر منشی ذکاء اللہ کا گلا بنانے لگے اور سارا خط بنا ڈالا۔ مولوی نذیر احمد نے بعد میں منشی جی سے کہا! ’’اماں تم نے غضب کیا کہ اس جنونی کے آگے اپنا گلا کر دیا اور جو وہ اڑا دیتا؟‘‘ منشی ذکاء اللہ نے کہا! ’’نہیں۔ آزاد تو ہمارا دوست ہے ہمارا گلا نہیں کاٹ سکتا‘‘۔ (گنجینہ گوہر از شاہد احمد دہلوی
مولوی محمد حسین آزاد اواخر عمر میں ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے۔ ایک دن اپنے گھر سے غائب ہو گئے‘ پہلے لاہور میں انھیں تلاش کیا گیا پھر اور شہروں میں۔ مگر ان کا کچھ پتہ نہ چلا‘ کئی مہینے غائب رہنے کے بعد وہ ایکا ایکی دلی میں رونما ہوئے۔ بیریاں لگی ہوئیں۔ ننگے پائوں‘ ننگے سر۔ پیروں میں چھالے۔ منہ پر خاک۔ چہرے پر وحشت۔ لال لال دیدے۔ سیدھے منشی ذکاء اللہ کے مکان میں گھس آئے۔ منشی ذکاء اللہ سے ان کا بچپن کا یارانہ تھا ۔ وہ انھیں اس جنون کی حا لت میں دیکھ کر لرز گئے۔ فوراً ان کے کپڑے بدلوائے۔ منہ ہاتھ دھلوایا۔ معلوم ہوا کہ لاہور سے پیدل چلے تھے اور خدا جانے کہاں کہاں کی خاک چھانتے دلی پہنچ گئے۔ ایک دن مولوی نذیر احمد منشی ذکاء اللہ کے ہاں پہنچے تو دیکھتے کیا ہیں کہ مولانا آزاد ایک مونڈھے پر بیٹھے ہیں اور دوسرے مونڈھے پر منشی ذکاء اللہ بیٹھے نائی سے حجامت بنوا رہے ہیں نہ جانے آزاد کو کیا خیال آیا کہ اٹھے اور نائی کے ہاتھ سے استراچھین لیا اور بولے! ’’ابے! تو کیا حجامت بنائے گا۔ ہم بنائیں گے‘‘۔ یہ کہہ کر منشی ذکاء اللہ کا گلا بنانے لگے اور سارا خط بنا ڈالا۔ مولوی نذیر احمد نے بعد میں منشی جی سے کہا! ’’اماں تم نے غضب کیا کہ اس جنونی کے آگے اپنا گلا کر دیا اور جو وہ اڑا دیتا؟‘‘ منشی ذکاء اللہ نے کہا! ’’نہیں۔ آزاد تو ہمارا دوست ہے ہمارا گلا نہیں کاٹ سکتا‘‘۔ (گنجینہ گوہر از شاہد احمد دہلوی