intelligent086
01-05-2016, 02:38 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14519_93914555.jpg.pagespeed.ic.tpJeAwpcBx .jpg
اشرف علی
شاہان مغلیہ میں شہنشاہ جہانگیر (1627۔ 1605ء) اپنی خوش مزاجی اور علمی ذوق کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ اکبر کی وفات کے سات روز بعد سلیم تخت نشین ہوا۔ تاج پوشی آگرہ میں ہوئی۔ اس نے اپنا لقب نور الدین محمد جہانگیر بادشاہ غازی اختیار کیا۔ جہانگیر اگرچہ عیش پسند ہو گیا تھا مگر ذوق نفیس اس کی فطرت میں اور اعلیٰ صفات اپنے باپ اکبر اور دادا ہمایوں سے ورثہ میں ملی تھیں۔ اس کی خود نوشت تزک جہانگیری کے مطالعہ سے اس کے علمی و ادبی ذوق اور کتابوں سے والہانہ لگائو کا پتا چلتا ہے کہ جہانگیر اہل علم و ہنر کا سر پرست تھا۔ اس نے تعلیم کو فروغ دینے کے لیے مدر سے قائم کیے اور موجود علمی مراکز کی مالی اعانت کی۔ اس طرح اس کی علمی دلچسپی کی وجہ سے آگرہ شہر مرکز علوم اور علماو فضلا کا مسکن بن گیا۔ جہانگیر نے نہ صرف اس عظیم شاہی کتب خانہ کو جو ورثہ میں ملا تھا قائم رکھا بلکہ اس میں اضافہ کیا اور تصویر خانہ بھی بنوایا۔ اس کے عہد میں مکتوب خان کتب خانہ اور تصویر خانہ دونوں کا نگران تھا۔ شاہی کتب خانہ کے علاوہ جہانگیر کی ذاتی لائبریری بھی تھی۔ اس کو کتابوں سے الفت تھی اور اس نے خود جا کر علماء کو کتابیں بطور تحفہ دیں۔ جہانگیر کی شاہی لائبریری کو درست رکھنے کے لیے بڑا عملہ موجود رہتا تھا۔ جس میں نقل نویس بھی شامل تھے۔ جہانگیر نے جب تزک تیار کی تو اس کی بہت سی نقول تیار کیں اور ملک کے عمائدین میں تقسیم کر دیں۔ شاہجہاں کو پہلی نقل پیش کی گئی۔ جہانگیر نے فن خطاطی اور کتابوں کو سونے چاندی کے کاموں سے خوبصورت بنانے میں خاصی دلچسپی لی۔ چنانچہ بہت سے ماہر خطاط، نقل نویس اور جلد کار کتب خانہ میں دور دور سے کتابوں کی جلد سازی اور ان کی سجاوٹ کے لیے چلے آتے تھے۔ شہنشاہ نے شیخ بخاری کو جو عظیم خوش نویس تھے، خلعت سے نوازا جواہرات والی تلوار، قلم اور قلم دان وغیرہ دیے، میر بخشی کا خطاب عطا کیا۔ انھوں نے کہا میں تمھیں صاحب سیف و قلم سمجھتا ہوں۔ جہانگیر کی ملکہ نور جہاں انتہائی مہذب اور کتابوں کی دلدادہ تھی۔ اس کی ذاتی لائبریری تھی۔ اس نے تین سنہری مہریں دے کر دیوان کا مران خریدا تھا۔ یہ نسخہ ابھی تک خدا بخش لائبریری پٹنہ میں محفوظ ہے۔
اشرف علی
شاہان مغلیہ میں شہنشاہ جہانگیر (1627۔ 1605ء) اپنی خوش مزاجی اور علمی ذوق کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ اکبر کی وفات کے سات روز بعد سلیم تخت نشین ہوا۔ تاج پوشی آگرہ میں ہوئی۔ اس نے اپنا لقب نور الدین محمد جہانگیر بادشاہ غازی اختیار کیا۔ جہانگیر اگرچہ عیش پسند ہو گیا تھا مگر ذوق نفیس اس کی فطرت میں اور اعلیٰ صفات اپنے باپ اکبر اور دادا ہمایوں سے ورثہ میں ملی تھیں۔ اس کی خود نوشت تزک جہانگیری کے مطالعہ سے اس کے علمی و ادبی ذوق اور کتابوں سے والہانہ لگائو کا پتا چلتا ہے کہ جہانگیر اہل علم و ہنر کا سر پرست تھا۔ اس نے تعلیم کو فروغ دینے کے لیے مدر سے قائم کیے اور موجود علمی مراکز کی مالی اعانت کی۔ اس طرح اس کی علمی دلچسپی کی وجہ سے آگرہ شہر مرکز علوم اور علماو فضلا کا مسکن بن گیا۔ جہانگیر نے نہ صرف اس عظیم شاہی کتب خانہ کو جو ورثہ میں ملا تھا قائم رکھا بلکہ اس میں اضافہ کیا اور تصویر خانہ بھی بنوایا۔ اس کے عہد میں مکتوب خان کتب خانہ اور تصویر خانہ دونوں کا نگران تھا۔ شاہی کتب خانہ کے علاوہ جہانگیر کی ذاتی لائبریری بھی تھی۔ اس کو کتابوں سے الفت تھی اور اس نے خود جا کر علماء کو کتابیں بطور تحفہ دیں۔ جہانگیر کی شاہی لائبریری کو درست رکھنے کے لیے بڑا عملہ موجود رہتا تھا۔ جس میں نقل نویس بھی شامل تھے۔ جہانگیر نے جب تزک تیار کی تو اس کی بہت سی نقول تیار کیں اور ملک کے عمائدین میں تقسیم کر دیں۔ شاہجہاں کو پہلی نقل پیش کی گئی۔ جہانگیر نے فن خطاطی اور کتابوں کو سونے چاندی کے کاموں سے خوبصورت بنانے میں خاصی دلچسپی لی۔ چنانچہ بہت سے ماہر خطاط، نقل نویس اور جلد کار کتب خانہ میں دور دور سے کتابوں کی جلد سازی اور ان کی سجاوٹ کے لیے چلے آتے تھے۔ شہنشاہ نے شیخ بخاری کو جو عظیم خوش نویس تھے، خلعت سے نوازا جواہرات والی تلوار، قلم اور قلم دان وغیرہ دیے، میر بخشی کا خطاب عطا کیا۔ انھوں نے کہا میں تمھیں صاحب سیف و قلم سمجھتا ہوں۔ جہانگیر کی ملکہ نور جہاں انتہائی مہذب اور کتابوں کی دلدادہ تھی۔ اس کی ذاتی لائبریری تھی۔ اس نے تین سنہری مہریں دے کر دیوان کا مران خریدا تھا۔ یہ نسخہ ابھی تک خدا بخش لائبریری پٹنہ میں محفوظ ہے۔