intelligent086
01-05-2016, 02:31 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14520_37455093.jpg.pagespeed.ic.BD3Ha-2PBE.jpg
میں لندن کے گلی کوچوں میں چاکلیٹ بس کے نمودار ہونے پر تاسّف کیے بغیر نہیں رہ سکتا، اس بنا پر نہیں کہ مجھے ایک نئے رنگ والی بس کی آمد پر اعتراض ہے بلکہ اس کے برعکس میں تو ہمیشہ سے موٹر بس کو پرانی گھوڑا گاڑی کا ایک کم حیثیت جانشین سمجھتا آیا ہوں، خصوصاً اس وجہ سے کہ گھوڑا گاڑیاں پکا ڈلی میں اُتنے ہی رنگوں میں مل جایا کرتی تھیں جتنے رنگ آپ’’رنگوں والے ڈبے‘‘ میں پاتے ہیں۔ جبکہ موٹر گاڑیاں ایک مقررہ رفتار سے سُرخ رنگ کی تھکا دینے والی یکسانیت سے ہم آہنگ یکے بعد دیگرے گزرتی رہتی ہیں تو یوں لگتا ہے کہ یہ شخصیت سے ویسے ہی تہی ہیں جیسے کہ جھینگا مچھلیوں کے ایک ہی طرح کے ڈھیر (اور وہ بھی اُبلے ہوئے)۔ لیکن اگر گلی کوچوں میں کسی ایک نئے رنگ کی رونمائی ناگزیر تھی تو پھر میں سارے رنگوں میں سے کم ا ز کم چاکلیٹ برائون کو وہاں دیکھنے کا متمنی نہیں ہوںگا۔ چاکلیٹ کی ایک خامی اس کا اپنا رنگ ہے۔ یہ چکھنے میں جس قدر لاجواب ہے دیکھنے میں اتنا ہی ٹھس۔ کوئی بھی شخص اِسے کھانے کی زحمت نہیں کرے گا، اگر اسے اپنے ذاتی تجربے سے یہ معلوم نہ ہو کہ یہ اپنے چہرے مُہرے سے زیادہ چھکنے میں خوش ذائقہ ہے۔ اس بات میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ تلافی کے بڑے بڑے اُصولوں کے مطابق جو زندگی میں جاری و ساری ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ پرندے جو نسبتاً کم خوشنما رنگ والے ہیں، نہایت ہی دلکش گیت گاتے ہیں اور وہ مٹھائیاں جو بدمزہ ہوتی ہیں اپنی مہک میں اتنی ہی بھرپور معلوم ہوتی ہیں۔ مگر بس نہ تو ایک پرندہ ہے نہ مٹھائی اور نہ ہی اسے سرخ، سبز، نیلی، پیلی، آسمانی حنائی اور بنفشی رنگوں میں رنگا گیا ہے۔ تا ہم مجھے زیادہ تر محض رنگ کی وجہ سے چاکلیٹ بس کو دیکھ کر ملال کا احساس نہیں ہوا تھا، جب میں نے اُسے اگلے ہی روز پہلی مرتبہ اس مخصوص راستے پر آہستہ آہستہ جاتے ہوئے دیکھا جو میرے غریب خانہ سے بمشکل سو گز کی دُوری پر ہے۔ بہر طور مجھے ان حالات میں کسی دوسرے رنگ والی بس پر بھی برابر کا معترض ہونا چاہیے تھا۔ کچھ مدّت سے میری حتی المقدور یہی کوشش رہی ہے کہ بسوں میں سفر کرنے سے اجتناب برتوں اور میں اس معاملے میں اکثر و بیشتر نہایت آسان طریقے سے ان میں ٹھنسی ہوئی زائد بھیڑ اور اُس کے منہ کے بھبھکوں کے کارن’’بس بدر‘‘ ہونے میں کامیاب رہا ہوں۔ میں لندن کے کم از کم ایک مضافاتی قصبے کے باسیوں سے ہمنوا ہو کر یہ کہہ چکا ہوں کہ ’’یہ سب کچھ نہایت غیر شریفانہ ہے‘‘ اور عمر بھر کے لیے بس میں سوار نہ ہونے کی قسم کھا چکا ہوں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ جیسے ہی میں کسی ایسی بس کو آتے ہوئے دیکھتا ہوں، جس میں ایک آدھ نشست خالی ہو یا کم سے کم کھڑا ہونے کی جگہ ہو تو میرا ہاتھ اس کی جانب کسی عادی شرابی کے ممنوعہ بوتل کی طرف لپکتے ہوئے ہاتھ کی طرح خود بخود بڑھ جاتا ہے اور اگلے ہی لمحے میں اپنے آپ کو ہمیشہ کی طرح اس سواری کے ’’بلیک ہول‘‘ میں مقید پاتا ہوں جو کہ ایک غیر فطری طریق سے بازاروں میں جھٹکے کھاتی پھرتی ہے اور اس کے وہ جھٹکے جو ناقابلِ برداشت ہیں‘ میری ایڑی میں گھس کر اور میری ہڈی پسلی میں سے گزر گاہ بنا کر جھنجھنا تے ہوئے اُوپر کی سمت بڑھتے چلے آتے ہیں۔ تاآنکہ یہ میری کھوپڑی تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں جسے فقط میرے ہیٹ نے اُس چھت سے محفوظ و مامون کر رکھا ہے جو ہر ہچکولے پر دونوں اطراف سے اس پر کاری ضرب لگاتی ہے۔ ’’یہی زندگی ہے‘‘ میں خود سے کہتا ہوں جب کہ میرے خالی ہاتھ میں تھاما ہوا بیگ اُس اخبار سے اٹھکیلیاں شروع کرتا ہے جسے ایک بد مزاج بوڑھا آدمی پڑھنے کی کوشش میں ہے۔ میں سوچتا ہوں کیا یہی وہ تہذیب ہے جسے ہم اہلِ یورپ ساری دنیا میں ترویج دینے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا یہی اہلِ یونان و روما اور دوسری تمام بڑی بڑی تہذیب یافتہ نسلوں کے خوابوں کی تعبیر ہے؟ بحرِ جنوبی کے جزیرے میں بسنے والا کس قدر بد نصیب ہے کہ ساحلی جھیل کے کنارے کاہلی سے پائوں پسارے پڑا رہتا ہے اور یوں خود کو بس میں جھٹکے کھانے کے ’’ارفع‘‘ تجربے سے محروم کر رکھتا ہے! فجی جزائر میں رہنے والے کے لیے یہ بات کتنی مایوس کُن ہے کہ وہ آدمی کی طرح کسی خود کا رڈنیو سار کے شکم میں سوار ہونے کے بجائے کسی جنگلی جانور کی طرح پاپیادہ جگہ جگہ گھومتا ہے! میں اس ڈگر پر بغیر کسی تاسف کے سوچتا جاتا ہوں اور اسی دوران میں کنڈیکٹر کو محض اِس بات کے لیے کرایہ بھی ادا کر دیتا ہوں کہ وہ مجھے سمٹ سمٹا کر اس جگہ گھُسنے کی اجازت دے دے جہاں اگر کسی قاتل یا دو بیویوں والے شوہر کو بھی مقید کر دیا جاتا تو وہ دُہائی دیتا کہ اُس کے لیے قیدو بند کی یہ زندگی نا قابلِ برداشت بنائی جا رہی ہے۔ اگر جیل خانہ ’’درونِ بس‘‘ سے کچھ ملتا جلتاہوتا جہاں ’’کھڑا ہونے کی جگہ صرف پانچ حضرات کے لیے ہے‘‘ کا بورڈ آویزاں ہوتا تو کوئی بھی شخص، اگر وہ پاگل یا پیدائشی مجرم نہیں ہے، کسی ایسے جُرم کا ارتکاب نہ کرتا جس کی پاداش میں اُسے کسی ایسی جگہ پہنچا دیئے جانے کا خدشہ لاحق ہوتا۔ میرے خیال میں اس سے بہتر اور کوئی دوسری ’’اصلاحِ حوالات‘‘ مؤثر ثابت نہیں ہو سکتی کہ جیل خانوں کا وجود یکسر ختم کر دیا جائے اور مجرموں کو جیل بھیجنے کے بجائے موٹر بسوں کے اندر محبوس کر دیا جائے۔ (ترجمہ: سلیم آغا قزلباش)
میں لندن کے گلی کوچوں میں چاکلیٹ بس کے نمودار ہونے پر تاسّف کیے بغیر نہیں رہ سکتا، اس بنا پر نہیں کہ مجھے ایک نئے رنگ والی بس کی آمد پر اعتراض ہے بلکہ اس کے برعکس میں تو ہمیشہ سے موٹر بس کو پرانی گھوڑا گاڑی کا ایک کم حیثیت جانشین سمجھتا آیا ہوں، خصوصاً اس وجہ سے کہ گھوڑا گاڑیاں پکا ڈلی میں اُتنے ہی رنگوں میں مل جایا کرتی تھیں جتنے رنگ آپ’’رنگوں والے ڈبے‘‘ میں پاتے ہیں۔ جبکہ موٹر گاڑیاں ایک مقررہ رفتار سے سُرخ رنگ کی تھکا دینے والی یکسانیت سے ہم آہنگ یکے بعد دیگرے گزرتی رہتی ہیں تو یوں لگتا ہے کہ یہ شخصیت سے ویسے ہی تہی ہیں جیسے کہ جھینگا مچھلیوں کے ایک ہی طرح کے ڈھیر (اور وہ بھی اُبلے ہوئے)۔ لیکن اگر گلی کوچوں میں کسی ایک نئے رنگ کی رونمائی ناگزیر تھی تو پھر میں سارے رنگوں میں سے کم ا ز کم چاکلیٹ برائون کو وہاں دیکھنے کا متمنی نہیں ہوںگا۔ چاکلیٹ کی ایک خامی اس کا اپنا رنگ ہے۔ یہ چکھنے میں جس قدر لاجواب ہے دیکھنے میں اتنا ہی ٹھس۔ کوئی بھی شخص اِسے کھانے کی زحمت نہیں کرے گا، اگر اسے اپنے ذاتی تجربے سے یہ معلوم نہ ہو کہ یہ اپنے چہرے مُہرے سے زیادہ چھکنے میں خوش ذائقہ ہے۔ اس بات میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ تلافی کے بڑے بڑے اُصولوں کے مطابق جو زندگی میں جاری و ساری ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ پرندے جو نسبتاً کم خوشنما رنگ والے ہیں، نہایت ہی دلکش گیت گاتے ہیں اور وہ مٹھائیاں جو بدمزہ ہوتی ہیں اپنی مہک میں اتنی ہی بھرپور معلوم ہوتی ہیں۔ مگر بس نہ تو ایک پرندہ ہے نہ مٹھائی اور نہ ہی اسے سرخ، سبز، نیلی، پیلی، آسمانی حنائی اور بنفشی رنگوں میں رنگا گیا ہے۔ تا ہم مجھے زیادہ تر محض رنگ کی وجہ سے چاکلیٹ بس کو دیکھ کر ملال کا احساس نہیں ہوا تھا، جب میں نے اُسے اگلے ہی روز پہلی مرتبہ اس مخصوص راستے پر آہستہ آہستہ جاتے ہوئے دیکھا جو میرے غریب خانہ سے بمشکل سو گز کی دُوری پر ہے۔ بہر طور مجھے ان حالات میں کسی دوسرے رنگ والی بس پر بھی برابر کا معترض ہونا چاہیے تھا۔ کچھ مدّت سے میری حتی المقدور یہی کوشش رہی ہے کہ بسوں میں سفر کرنے سے اجتناب برتوں اور میں اس معاملے میں اکثر و بیشتر نہایت آسان طریقے سے ان میں ٹھنسی ہوئی زائد بھیڑ اور اُس کے منہ کے بھبھکوں کے کارن’’بس بدر‘‘ ہونے میں کامیاب رہا ہوں۔ میں لندن کے کم از کم ایک مضافاتی قصبے کے باسیوں سے ہمنوا ہو کر یہ کہہ چکا ہوں کہ ’’یہ سب کچھ نہایت غیر شریفانہ ہے‘‘ اور عمر بھر کے لیے بس میں سوار نہ ہونے کی قسم کھا چکا ہوں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ جیسے ہی میں کسی ایسی بس کو آتے ہوئے دیکھتا ہوں، جس میں ایک آدھ نشست خالی ہو یا کم سے کم کھڑا ہونے کی جگہ ہو تو میرا ہاتھ اس کی جانب کسی عادی شرابی کے ممنوعہ بوتل کی طرف لپکتے ہوئے ہاتھ کی طرح خود بخود بڑھ جاتا ہے اور اگلے ہی لمحے میں اپنے آپ کو ہمیشہ کی طرح اس سواری کے ’’بلیک ہول‘‘ میں مقید پاتا ہوں جو کہ ایک غیر فطری طریق سے بازاروں میں جھٹکے کھاتی پھرتی ہے اور اس کے وہ جھٹکے جو ناقابلِ برداشت ہیں‘ میری ایڑی میں گھس کر اور میری ہڈی پسلی میں سے گزر گاہ بنا کر جھنجھنا تے ہوئے اُوپر کی سمت بڑھتے چلے آتے ہیں۔ تاآنکہ یہ میری کھوپڑی تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں جسے فقط میرے ہیٹ نے اُس چھت سے محفوظ و مامون کر رکھا ہے جو ہر ہچکولے پر دونوں اطراف سے اس پر کاری ضرب لگاتی ہے۔ ’’یہی زندگی ہے‘‘ میں خود سے کہتا ہوں جب کہ میرے خالی ہاتھ میں تھاما ہوا بیگ اُس اخبار سے اٹھکیلیاں شروع کرتا ہے جسے ایک بد مزاج بوڑھا آدمی پڑھنے کی کوشش میں ہے۔ میں سوچتا ہوں کیا یہی وہ تہذیب ہے جسے ہم اہلِ یورپ ساری دنیا میں ترویج دینے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا یہی اہلِ یونان و روما اور دوسری تمام بڑی بڑی تہذیب یافتہ نسلوں کے خوابوں کی تعبیر ہے؟ بحرِ جنوبی کے جزیرے میں بسنے والا کس قدر بد نصیب ہے کہ ساحلی جھیل کے کنارے کاہلی سے پائوں پسارے پڑا رہتا ہے اور یوں خود کو بس میں جھٹکے کھانے کے ’’ارفع‘‘ تجربے سے محروم کر رکھتا ہے! فجی جزائر میں رہنے والے کے لیے یہ بات کتنی مایوس کُن ہے کہ وہ آدمی کی طرح کسی خود کا رڈنیو سار کے شکم میں سوار ہونے کے بجائے کسی جنگلی جانور کی طرح پاپیادہ جگہ جگہ گھومتا ہے! میں اس ڈگر پر بغیر کسی تاسف کے سوچتا جاتا ہوں اور اسی دوران میں کنڈیکٹر کو محض اِس بات کے لیے کرایہ بھی ادا کر دیتا ہوں کہ وہ مجھے سمٹ سمٹا کر اس جگہ گھُسنے کی اجازت دے دے جہاں اگر کسی قاتل یا دو بیویوں والے شوہر کو بھی مقید کر دیا جاتا تو وہ دُہائی دیتا کہ اُس کے لیے قیدو بند کی یہ زندگی نا قابلِ برداشت بنائی جا رہی ہے۔ اگر جیل خانہ ’’درونِ بس‘‘ سے کچھ ملتا جلتاہوتا جہاں ’’کھڑا ہونے کی جگہ صرف پانچ حضرات کے لیے ہے‘‘ کا بورڈ آویزاں ہوتا تو کوئی بھی شخص، اگر وہ پاگل یا پیدائشی مجرم نہیں ہے، کسی ایسے جُرم کا ارتکاب نہ کرتا جس کی پاداش میں اُسے کسی ایسی جگہ پہنچا دیئے جانے کا خدشہ لاحق ہوتا۔ میرے خیال میں اس سے بہتر اور کوئی دوسری ’’اصلاحِ حوالات‘‘ مؤثر ثابت نہیں ہو سکتی کہ جیل خانوں کا وجود یکسر ختم کر دیا جائے اور مجرموں کو جیل بھیجنے کے بجائے موٹر بسوں کے اندر محبوس کر دیا جائے۔ (ترجمہ: سلیم آغا قزلباش)