intelligent086
12-27-2015, 09:53 AM
لطیف الزماں خاںکی یاد میں
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14454_40208753.jpg.pagespeed.ic.Aux1k_JnGc .jpg
منور آکاش
برصغیر کے نامور ادیب‘ غالب شناس لطیف الزماں خاں 13 مارچ 1924ء کو ریاست میواڑ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مولوی احمد حسن دہلوی سے حاصل کی۔ میٹرک راجپوتانہ سے پاس کیا۔ ابھی انٹر میں تھے کہ برصغیر کی تقسیم شروع ہو گئی اور فسادات پھوٹ پڑے۔ آپ کراچی آ گئے اور کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ ایمرسن کالج ملتان میں زیادہ عرصہ ملازمت کی‘ انگریزی پڑھائی مگر اردو ادبیات سے لگاؤ مثالی رہا۔ رشید احمد صدیقی اور غالب سے عشق کرتے تھے۔ خطوط نگاری اور غالب پر کتب کا ذخیرہ ان کی وجہ شہرت بنا۔ زندگی بھر ملک اور بیرون ملک ادیبوں‘ دانشوروں سے خط و کتابت رہی۔ ان کے خط انشاء پردازی کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ ان خطوط میں انہوں نے ایک عہد کے ادب کا مطالعہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے خطوط میں زیر مطالعہ کتابوں‘ لوگوں اور اہم ادبی رجحانات پر اپنا بے لاگ تبصرہ کیا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے اور مشاہیر کے 6ہزار خطوط مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری کو عطیہ کر دئیے۔ اپنے خطوط میں جہاں وہ بے تکلفانہ انداز میں بات کرتے ہیں وہیں مختلف شخصیات ‘ ادبی اقدار کو بھی زیربحث لاتے ہیں۔ زبان شائستہ اور جملے کی ساخت باکمال ہے۔ غالب پر ذخیرہ کتب ان کی خاص وجہ شہرت رہی۔ غالب پر جتنی کتب ان کے ذاتی ذخیرہ میں موجود ہیں‘ اتنی کتب ملک کے کسی سرکاری و نیم سرکاری ادارے میں نہیں ہیں۔ لطیف الزماں خاں کا کتب خانہ کا شمار غالبیات کے حوالے سے دنیا کے دوسرے بڑے کتب خانے میں ہوتا ہے۔ گلگشت کالونی ملتان میں انہوں نے اپنے گھر کو غالب نما کا نام دیا ۔ ہمیشہ طالب علموں اور غالب شناسوں کی رہنمائی کرتے رہے۔ ان کے ذخیرہ پر ایم فل کی سطح کا مقالہ ’’نادر ذخیرہ غالبیات‘‘ کے نام سے فرح ذبیح نے کیا جو بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوا۔خاں صاحب کی شخصیت اور فن‘ خطوط نگاری اور خاکہ نگاری پر بھی ایم اے کی سطح کے مقالے تحریر ہو چکے ہیں۔ خاں صاحب نے اپنا کتب خانہ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کو عطیہ کر دیا۔ لطیف الزماں خاں ملتان کی وجہ شہرت رہے۔ آپ کی وفات 26 دسمبر 2013ء کو ملتان میں ہوئی۔ ان کے خطوط کے 5مجموعے ’’انشائے لطیف‘‘ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے خاکوں کا مجموعہ ’’ان سے ملئے‘‘ ہے۔ جس میں انہوں نے مختلف شخصیات کا احوال زندگی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے تنقیدی نظریات‘ مشاہدات اور زندگی کے نشیب و فراز کی جھلکیاں بھی پیش کی ہیں۔ اس کے علاوہ غالب اور رشید صدیقی پر ان کی مرتبہ کتب کی تعداد درجن بھر کے قریب ہے۔ ٭…٭…٭
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14454_40208753.jpg.pagespeed.ic.Aux1k_JnGc .jpg
منور آکاش
برصغیر کے نامور ادیب‘ غالب شناس لطیف الزماں خاں 13 مارچ 1924ء کو ریاست میواڑ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مولوی احمد حسن دہلوی سے حاصل کی۔ میٹرک راجپوتانہ سے پاس کیا۔ ابھی انٹر میں تھے کہ برصغیر کی تقسیم شروع ہو گئی اور فسادات پھوٹ پڑے۔ آپ کراچی آ گئے اور کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ ایمرسن کالج ملتان میں زیادہ عرصہ ملازمت کی‘ انگریزی پڑھائی مگر اردو ادبیات سے لگاؤ مثالی رہا۔ رشید احمد صدیقی اور غالب سے عشق کرتے تھے۔ خطوط نگاری اور غالب پر کتب کا ذخیرہ ان کی وجہ شہرت بنا۔ زندگی بھر ملک اور بیرون ملک ادیبوں‘ دانشوروں سے خط و کتابت رہی۔ ان کے خط انشاء پردازی کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ ان خطوط میں انہوں نے ایک عہد کے ادب کا مطالعہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے خطوط میں زیر مطالعہ کتابوں‘ لوگوں اور اہم ادبی رجحانات پر اپنا بے لاگ تبصرہ کیا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے اور مشاہیر کے 6ہزار خطوط مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری کو عطیہ کر دئیے۔ اپنے خطوط میں جہاں وہ بے تکلفانہ انداز میں بات کرتے ہیں وہیں مختلف شخصیات ‘ ادبی اقدار کو بھی زیربحث لاتے ہیں۔ زبان شائستہ اور جملے کی ساخت باکمال ہے۔ غالب پر ذخیرہ کتب ان کی خاص وجہ شہرت رہی۔ غالب پر جتنی کتب ان کے ذاتی ذخیرہ میں موجود ہیں‘ اتنی کتب ملک کے کسی سرکاری و نیم سرکاری ادارے میں نہیں ہیں۔ لطیف الزماں خاں کا کتب خانہ کا شمار غالبیات کے حوالے سے دنیا کے دوسرے بڑے کتب خانے میں ہوتا ہے۔ گلگشت کالونی ملتان میں انہوں نے اپنے گھر کو غالب نما کا نام دیا ۔ ہمیشہ طالب علموں اور غالب شناسوں کی رہنمائی کرتے رہے۔ ان کے ذخیرہ پر ایم فل کی سطح کا مقالہ ’’نادر ذخیرہ غالبیات‘‘ کے نام سے فرح ذبیح نے کیا جو بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوا۔خاں صاحب کی شخصیت اور فن‘ خطوط نگاری اور خاکہ نگاری پر بھی ایم اے کی سطح کے مقالے تحریر ہو چکے ہیں۔ خاں صاحب نے اپنا کتب خانہ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کو عطیہ کر دیا۔ لطیف الزماں خاں ملتان کی وجہ شہرت رہے۔ آپ کی وفات 26 دسمبر 2013ء کو ملتان میں ہوئی۔ ان کے خطوط کے 5مجموعے ’’انشائے لطیف‘‘ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے خاکوں کا مجموعہ ’’ان سے ملئے‘‘ ہے۔ جس میں انہوں نے مختلف شخصیات کا احوال زندگی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے تنقیدی نظریات‘ مشاہدات اور زندگی کے نشیب و فراز کی جھلکیاں بھی پیش کی ہیں۔ اس کے علاوہ غالب اور رشید صدیقی پر ان کی مرتبہ کتب کی تعداد درجن بھر کے قریب ہے۔ ٭…٭…٭