intelligent086
12-22-2015, 11:07 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14435_57145889.jpg.pagespeed.ic.GevCkcmbfK .jpg
احمد عقیل روبی
کنگ لیئر کا موضوع بوڑھے والدین اور نافرماں بردار اولاد کے گرد گھومتا ہے۔ اس ڈرامے میں ان والدین کو موضوع بنایا گیا ہے جو اپنی اولاد کو پہچاننے میں ذرا سی غلطی کرتے ہیں جو ان سے حقیقت میں محبت کرتی ہے جب کہ اس اولاد پر محبت اور دولت نچھاور کر دیتے ہیں جو بناوٹی محبت کا اظہار کر کے والدین کی نواز شات سے جھولیاں بھر لیتے ہیں اور پھر والدین ا نہی کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔اس ڈرامے میں شیکسپیئر کے دو پلاٹوں کے گرد کہانی گھومتی ہے لیکن مرکزی کردار کنگ لیئر ہی کا ہے۔ ڈرامے میں دو بوڑھے آدمی کنگ لیئر اور ڈیوک گلوسٹر اپنی اولاد کے ہاتھوں ذلت اور خواری سے دو چار ہوتے ہیں۔ کنگ لیئر برطانیہ کا بادشاہ ہے۔ گونرل، ریگن اور کارڈیلیا اس کی بیٹیاں ہیں۔ تینوں شادی شد ہ ہیں، بادشاہ تینوں بیٹیوں سے پوچھتا ہے کہ وہ اس سے کتنی محبت کرتی ہیں؟ دو بیٹیاں (گوندل اور ریگن) بناوٹی اور جھوٹے الفاظ کا سہارا لے کر مبالغہ آرائی سے کام لیتی ہیں اور بادشاہ کو یہی انداز بھا جاتا ہے۔ تیسری بیٹی کارڈ یلیا۔ جو اپنے باپ سے سچی محبت کرتی ہے حقیقی انداز اختیار کر کے اپنی محبت کا اظہار کرتی ہے جو بادشاہ کو پسند نہیں آتا چنانچہ وہ کارڈیلیا کو اپنی بادشاہت سے ملنے والی ہر رعایت سے عاق کردیتا ہے۔ دوسری بیٹیوں کو اپنی بادشاہت میں سے کچھ علاقے دے دیتا ہے۔ بادشاہ نے جب بیٹیوں سے پوچھا تھا کہ وہ اس سے کتنا پیار کرتی ہیں تو انہوں نے جو جواب دئیے وہ دیکھئے۔گونرل:’’ مجھے آپ سے جتنی محبت ہے میں الفاظ میں اظہار نہیں کر سکتی۔ آپ مجھے بادشاہت سے زیادہ، آنکھوں کی روشنی سے زیادہ، کائنات سے زیادہ، تمام انمول اور کمیاب چیزوں سے زیادہ محبوب ہیں۔ میں جتنی محبت آپ سے کرتی ہوں۔ آج تک کسی بچے نے اپنی ماں اور باپ سے نہیں کی ہوگی۔‘‘ پھر دوسری بیٹی ریگن کہتی ہے: ریگن: ’’ میرا بھی یہی خیال ہے جو میری بہن کا ہے۔ اس نے میری محبت اپنی زبان سے بیان کر دی ہے۔ بس میں ہر خوشی سے بے نیاز ہوں۔ میری اصل خوشی آپ ہیں۔‘‘ کنگ لیئر دونوں بیٹیوں سے بہت خوش ہوتا ہے۔ سر سبز گھنے جنگل، شاداب علاقے جن میں دریا اور ندیاں بہتی ہیں، ان دونوں بیٹیوں کو دے دیتا ہے۔ اور پھر وہ اپنی تیسری بیٹی کارڈیلیا سے مخاطب ہو کر پوچھتا ہے۔ کارڈیلیا بے حد مختصر الفاظ میں کہتی ہے۔ کاڈیلیا:’’ ابا حضور میں اپنے بد بخت دل کی بات لبوں تک نہیں لا سکتی۔ میں جہاں پناہ کو اتنا چاہتی ہوں جتنا میرا فرض ہے۔ نہ اس سے زیادہ نہ کم۔‘‘ کنگ لیئرغصے میں اسے دوبارہ سوچنے پر اور اپنی زبان اور الفاظ بدلنے کا مشورہ دیتا ہے لیکن کارڈیلیا ایسا نہیں کرتی۔ کارڈیلیا:’’آپ نے مجھے پیدا کیا، پرورش کی، میرے ساتھ محبت کی‘ میں ان عنایتوں کا حق ادا کرتی ہوں۔ آپ کی تعظیم کرتی ہوں۔ اگر میری بہنوں کی ساری محبت اور ساری خوشی آپ کے لئے ہے تو انہوں نے شادی کیوں کی۔ میں اگر شادی کروں گی تو میری آدھی محبت میرے خاوند کے لیے ہوگی۔‘‘ کنگ لیئر:’’ کیا تم یہ دل سے کہہ رہی ہو؟‘‘ کاڈیلیا: دل سے کہہ رہی ہوں۔ لیئر: کیا تم اتنی بے درد ہو؟ کارڈیلیا: سچائی یہی ہے جہاں پناہ۔ کنگ لیئر: تو پھر یہی سچائی تمہارا جہیز ہے۔ اور پھر کنگ لیئر اسے عاق کر دیتا ہے اور دوسری بیٹیوں کو دولت، علاقے سے نواز تا ہے۔ حکومت، خزانہ، سارے امور سلطنت اور تاج دونوں بیٹیوں میں بانٹ دیتا ہے۔اور پھر حالات بدلتے ہیں بہت سے نشیب و فراز کے بعد یہی کنگ لیئر اپنی دو چیہتی بیٹیوں کے ظلم و ستم کا شکار ہو کر اپنی ’’عاق شدہ‘‘ بیٹی کارڈیلیا کی محبت کی پناہ میں آتا ہے۔ جو اس پاگل، نڈھال اور مصیبت زدہ باپ کو (جو بے وفا بیٹیوں کے بُرے سلوک سے مرنے کے قریب ہے) اپنی محبت کی بانہوں میں لیتی ہے اور کہتی ہے۔ کارڈیلیا: اگر آپ ان کے باپ نہ ہوتے تو آپ کے یہ برف جیسے سفید بال میری بہنوں کی نگاہ میں رحم کے مستحق ہوتے۔ کیا یہ نورانی چہرہ اس لائق تھا کہ غضب ناک ہوائوں کے تھپیڑے کھائے یا دل ہلا دینے والی گرج اورتیز لہرائی ہوئی بجلیوں کے صدموں کا مقابلہ کرے۔ کنگ لیئر شرمندہے اسے پچھتاوا ہے جب جنگ میں کارڈیلیا کو پھانسی دے دی جاتی ہے تو کنگ لیئر بھی اس کے پہلو میں دم توڑ دیتا ہے۔ کنگ لیئر: میری بھولی بچی کو پھانسی دے دی گئی۔ اس میں بالکل جان باقی نہیں رہی۔ پھر کسی کتے، کسی گھوڑے، کسی چوہے میں جان کیوں باقی ہے۔‘‘ کنگ لیئر بھی دم توڑ دیتا ہے۔ کنگ لیئرکے ساتھ دوسرا بوڑھا گلوسٹر ہے جس کا انجام کنگ لیئر سے بھی زیادہ عبرتناک ہے ‘وہ ایڈگر اور ایڈمنڈ کا باپ ہے۔ ایڈمنڈ اس کا نا جائز بیٹا ہے۔ گلوسٹر کی آنکھیں نکال کر پیروں سے مسل دی جاتی ہیں اور وہ شیکسپیئر کے لافانی الفاظ بڑا بڑاتا ہوا دنیا سے رخصت ہوتا ہے۔ ’’دیوتائوں کے ہاتھوں انسان کی وہی حالت ہے جو شریر لڑکوں کے ہاتھوں مکھیوں کی ہوتی ہے۔ یہ دیوتا اپنی تفریح اور کھیل کے لیے ہمیں مٹا دیتے ہیں۔‘‘
احمد عقیل روبی
کنگ لیئر کا موضوع بوڑھے والدین اور نافرماں بردار اولاد کے گرد گھومتا ہے۔ اس ڈرامے میں ان والدین کو موضوع بنایا گیا ہے جو اپنی اولاد کو پہچاننے میں ذرا سی غلطی کرتے ہیں جو ان سے حقیقت میں محبت کرتی ہے جب کہ اس اولاد پر محبت اور دولت نچھاور کر دیتے ہیں جو بناوٹی محبت کا اظہار کر کے والدین کی نواز شات سے جھولیاں بھر لیتے ہیں اور پھر والدین ا نہی کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔اس ڈرامے میں شیکسپیئر کے دو پلاٹوں کے گرد کہانی گھومتی ہے لیکن مرکزی کردار کنگ لیئر ہی کا ہے۔ ڈرامے میں دو بوڑھے آدمی کنگ لیئر اور ڈیوک گلوسٹر اپنی اولاد کے ہاتھوں ذلت اور خواری سے دو چار ہوتے ہیں۔ کنگ لیئر برطانیہ کا بادشاہ ہے۔ گونرل، ریگن اور کارڈیلیا اس کی بیٹیاں ہیں۔ تینوں شادی شد ہ ہیں، بادشاہ تینوں بیٹیوں سے پوچھتا ہے کہ وہ اس سے کتنی محبت کرتی ہیں؟ دو بیٹیاں (گوندل اور ریگن) بناوٹی اور جھوٹے الفاظ کا سہارا لے کر مبالغہ آرائی سے کام لیتی ہیں اور بادشاہ کو یہی انداز بھا جاتا ہے۔ تیسری بیٹی کارڈ یلیا۔ جو اپنے باپ سے سچی محبت کرتی ہے حقیقی انداز اختیار کر کے اپنی محبت کا اظہار کرتی ہے جو بادشاہ کو پسند نہیں آتا چنانچہ وہ کارڈیلیا کو اپنی بادشاہت سے ملنے والی ہر رعایت سے عاق کردیتا ہے۔ دوسری بیٹیوں کو اپنی بادشاہت میں سے کچھ علاقے دے دیتا ہے۔ بادشاہ نے جب بیٹیوں سے پوچھا تھا کہ وہ اس سے کتنا پیار کرتی ہیں تو انہوں نے جو جواب دئیے وہ دیکھئے۔گونرل:’’ مجھے آپ سے جتنی محبت ہے میں الفاظ میں اظہار نہیں کر سکتی۔ آپ مجھے بادشاہت سے زیادہ، آنکھوں کی روشنی سے زیادہ، کائنات سے زیادہ، تمام انمول اور کمیاب چیزوں سے زیادہ محبوب ہیں۔ میں جتنی محبت آپ سے کرتی ہوں۔ آج تک کسی بچے نے اپنی ماں اور باپ سے نہیں کی ہوگی۔‘‘ پھر دوسری بیٹی ریگن کہتی ہے: ریگن: ’’ میرا بھی یہی خیال ہے جو میری بہن کا ہے۔ اس نے میری محبت اپنی زبان سے بیان کر دی ہے۔ بس میں ہر خوشی سے بے نیاز ہوں۔ میری اصل خوشی آپ ہیں۔‘‘ کنگ لیئر دونوں بیٹیوں سے بہت خوش ہوتا ہے۔ سر سبز گھنے جنگل، شاداب علاقے جن میں دریا اور ندیاں بہتی ہیں، ان دونوں بیٹیوں کو دے دیتا ہے۔ اور پھر وہ اپنی تیسری بیٹی کارڈیلیا سے مخاطب ہو کر پوچھتا ہے۔ کارڈیلیا بے حد مختصر الفاظ میں کہتی ہے۔ کاڈیلیا:’’ ابا حضور میں اپنے بد بخت دل کی بات لبوں تک نہیں لا سکتی۔ میں جہاں پناہ کو اتنا چاہتی ہوں جتنا میرا فرض ہے۔ نہ اس سے زیادہ نہ کم۔‘‘ کنگ لیئرغصے میں اسے دوبارہ سوچنے پر اور اپنی زبان اور الفاظ بدلنے کا مشورہ دیتا ہے لیکن کارڈیلیا ایسا نہیں کرتی۔ کارڈیلیا:’’آپ نے مجھے پیدا کیا، پرورش کی، میرے ساتھ محبت کی‘ میں ان عنایتوں کا حق ادا کرتی ہوں۔ آپ کی تعظیم کرتی ہوں۔ اگر میری بہنوں کی ساری محبت اور ساری خوشی آپ کے لئے ہے تو انہوں نے شادی کیوں کی۔ میں اگر شادی کروں گی تو میری آدھی محبت میرے خاوند کے لیے ہوگی۔‘‘ کنگ لیئر:’’ کیا تم یہ دل سے کہہ رہی ہو؟‘‘ کاڈیلیا: دل سے کہہ رہی ہوں۔ لیئر: کیا تم اتنی بے درد ہو؟ کارڈیلیا: سچائی یہی ہے جہاں پناہ۔ کنگ لیئر: تو پھر یہی سچائی تمہارا جہیز ہے۔ اور پھر کنگ لیئر اسے عاق کر دیتا ہے اور دوسری بیٹیوں کو دولت، علاقے سے نواز تا ہے۔ حکومت، خزانہ، سارے امور سلطنت اور تاج دونوں بیٹیوں میں بانٹ دیتا ہے۔اور پھر حالات بدلتے ہیں بہت سے نشیب و فراز کے بعد یہی کنگ لیئر اپنی دو چیہتی بیٹیوں کے ظلم و ستم کا شکار ہو کر اپنی ’’عاق شدہ‘‘ بیٹی کارڈیلیا کی محبت کی پناہ میں آتا ہے۔ جو اس پاگل، نڈھال اور مصیبت زدہ باپ کو (جو بے وفا بیٹیوں کے بُرے سلوک سے مرنے کے قریب ہے) اپنی محبت کی بانہوں میں لیتی ہے اور کہتی ہے۔ کارڈیلیا: اگر آپ ان کے باپ نہ ہوتے تو آپ کے یہ برف جیسے سفید بال میری بہنوں کی نگاہ میں رحم کے مستحق ہوتے۔ کیا یہ نورانی چہرہ اس لائق تھا کہ غضب ناک ہوائوں کے تھپیڑے کھائے یا دل ہلا دینے والی گرج اورتیز لہرائی ہوئی بجلیوں کے صدموں کا مقابلہ کرے۔ کنگ لیئر شرمندہے اسے پچھتاوا ہے جب جنگ میں کارڈیلیا کو پھانسی دے دی جاتی ہے تو کنگ لیئر بھی اس کے پہلو میں دم توڑ دیتا ہے۔ کنگ لیئر: میری بھولی بچی کو پھانسی دے دی گئی۔ اس میں بالکل جان باقی نہیں رہی۔ پھر کسی کتے، کسی گھوڑے، کسی چوہے میں جان کیوں باقی ہے۔‘‘ کنگ لیئر بھی دم توڑ دیتا ہے۔ کنگ لیئرکے ساتھ دوسرا بوڑھا گلوسٹر ہے جس کا انجام کنگ لیئر سے بھی زیادہ عبرتناک ہے ‘وہ ایڈگر اور ایڈمنڈ کا باپ ہے۔ ایڈمنڈ اس کا نا جائز بیٹا ہے۔ گلوسٹر کی آنکھیں نکال کر پیروں سے مسل دی جاتی ہیں اور وہ شیکسپیئر کے لافانی الفاظ بڑا بڑاتا ہوا دنیا سے رخصت ہوتا ہے۔ ’’دیوتائوں کے ہاتھوں انسان کی وہی حالت ہے جو شریر لڑکوں کے ہاتھوں مکھیوں کی ہوتی ہے۔ یہ دیوتا اپنی تفریح اور کھیل کے لیے ہمیں مٹا دیتے ہیں۔‘‘