intelligent086
12-21-2015, 04:42 PM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14429_95388360.jpg.pagespeed.ic.BWFsH1_f73 .jpg
آپ ﷺ کی روزمرہ کی زندگی غریبوں اور مسکینوں کی سی تھی ۔آپ ﷺ ہرقسم کے ہاتھ کا کام خود کرلیتے تھے۔ اس میں کسی طرح کی عار نہ سمجھتے تھے، گھر کی صفائی کرتے، مویشیوں کو چارہ ڈالتے ، بازار سے سامان خریدتے، پھٹے کپڑوں کو پیوند لگاتے، ٹوٹے جوتوں کو گانٹھتے ، غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر اکٹھے کھاناکھاتے اور اگر بعض دفعہ کھانے کو کچھ بھی میسر نہ ہوتاتو خدا کا شکر ادا کرتے اور بھوکے ہی سوجاتے، کبھی کئی کئی ہفتے چولہے میں آگ نہ جلتی اور پانی اور کھجوروں پر گزاراہوتا۔ سادگی کا یہ عالم کھانے میں آپﷺ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ آپﷺ کی غذا عموماً جو کی روٹی ہوتی تھی اور چونکہ نبی اکرمﷺ کے یہاں چھلنی نہیں تھی ،اس لئے اس کی بھوسی پھونک مارکر ہٹا دی جاتی تھی چنانچہ عمر بھر آپﷺ نے نہ کبھی چھنے ہوئے باریک آٹے کی روٹی تناول فرمائی اور نہ ہی کبھی دسترخوان پر کھانا کھایا ۔ آپﷺ نے کبھی کسی کھانے کو برا نہیں کہا، جو کچھ موجود ہوتا تھا، تناول فرما لیتے تھے اور بھوک نہیں ہوتی تھی تو چھوڑ دیتے تھے۔ نصف کھجور آپﷺ اپنے اہل وعیال سے زیادہ اپنی امت کی آسائش وسہولت کا خیال رکھتے تھے چنانچہ لگان و خراج سے جو مال ودولت اور اشیا آپﷺ کو موصول ہوتیں توآپ ﷺفوری طورپر لوگوں میں تقسیم کردیتے تھے اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اپنے لئے کچھ نہ چھوڑتے۔ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ بسا اوقات تین تین روز تک گھر میں آگ نہ جلتی اور آل ِنبی ایک یا نصف کھجور کھا کر روزہ افطار کرلیتے۔ کھائیے اور کھائیے نبیﷺ کے دستر خوان پر جب کوئی مہمان ہوتا تو آپ ﷺبار بار اس سے فرماتے جاتے ، کھائیے اور کھائیے، جب مہمان خوب سیر ہوتا اور بے حد انکار کرتا تب اپنے اصرار سے باز آجاتے۔ سادہ زندگی آپ ﷺنے بہت سادہ زندگی بسر کی اور وصال سے قبل فرمایا: ’’ میرے ورثاء کو میرے ترکہ میں روپیہ پیسہ کچھ نہ ملے گا‘‘۔حقیقت میں آپﷺ کے پاس دنیوی سازوسامان میں سے کچھ تھا ہی نہیں جو کسی کو دیا جاتا۔ حالت تو یہ تھی کہ آپﷺ کی زرہ مبارک ایک یہودی کے پاس 30 درہم کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی اور آپﷺ کے پاس اتنی رقم بھی نہ تھی کہ اسے چھڑا لیتے۔ آپﷺ نے ترکہ میں صرف اپنے ہتھیار، ایک خچر اور تھوڑی سی مملوکہ زمین کے سوا کوئی چیز نہیں چھوڑی ۔ ٹاٹ کا ٹکڑا حضرت حفصہ ؓ فرماتی ہیں گھر میں ایک ٹاٹ کا ٹکڑا تھا،جسے ہم دہرا کردیا کرتے تھے۔آپﷺ اسی پر آرام فرمایا کرتے ۔ ایک رات میں نے خیال کیا کہ اگر اس کی چارتہیں کردیں تو غالباً آپﷺ کو زیادہ آرام ملے گا چنانچہ ہم نے ایسا ہی کیا ۔ جب صبح ہوئی تو آپﷺ نے پوچھا:’’رات کو تم نے میرے لیے کیا بچھایا تھا‘‘ میں نے کہا:’’وہی آپﷺ کا ٹاٹ تھا ، مگر اس کی چارتہیں کردی تھیںتاکہ آپﷺ بہتر طریقے سے آرام کرسکیں‘‘ آپﷺ نے فرمایا : ’’نہیں !اسے تو جیسا پہلے تھا ویسا ہی کردو اس نے مجھے نماز شب سے بازرکھا۔‘‘ خدا کا شکر گزار آپﷺ راتوں کو اتنی دیرتک نماز میں کھڑے رہتے تھے کہ پائوں مبارک پر ورم آجاتا تھا یہ دیکھ کر بعض صحابہؓ نے عرض کیا کہ ’’یارسول اللہ ! آپﷺ کی مغفرت تو خدا کرچکا ہے۔ اب آپ ﷺ کیوں یہ زحمت اٹھاتے ہیں؟‘‘ ارشاد ہوا:’’کیا میں خدا کا شکرگزار بندہ نہ بنوں ‘‘۔ رونا آتا ہے ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کے دودھ شریک بھائی مسروق اُن کے پاس آئے۔ حضرت عائشہؓ نے کھانا منگوایا اور فرمانے لگیں : ’’ جب سیر ہو کرکھانا کھاتی ہوں تو مجھے رونا آتا ہے‘‘انہوں نے پوچھا؛ کیوں؟ حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا کہ مجھے آپﷺ کا زمانہ یاد آ جاتا ہے کہ جب تک رسول اللہ حیات رہے ،خدا گواہ ہے کہ کبھی ایک دن میں دوبار سیر ہو کر روٹی نہیں کھائی اور بعض دفعہ گھر میں پورا مہینہ آگ نہیں جلتی تھی اور ہم صرف کھجوروں اور پانی پر گزارا کرتے تھے۔ یہ دعا کرتے ایک مرتبہ آپﷺ نے ایک پرانے پالان پر حج کیا اور اس پالان پر ایک کملی تھی جو بہت ہی معمولی قیمت یعنی چار درہم کی بھی نہ تھی۔ اس پر بھی یہ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ، اس کو ایسا حج (مبرور) بنا جس میں نمائش اورقصدِ شہرت نہ ہو۔ 30 دن رات حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ پیغمبر خدانے فرمایا کہ ایک بار مجھ پر 30 دن رات اس حالت میں گزرے کہ میرے پاس کھانے کی کوئی چیز نہ تھی جس کو کوئی جاندار کھا سکے‘ سوائے اتنی قلیل مقدار کے جوبلالؓ بغل میں دبائے رہتے تھے۔آپﷺ کے پاس کبھی صبح یا شام کا کھانا جمع نہیں ہوا کہ کھانے سے کھانے والے بھی زیادہ ہوئے۔ مستقل مزاج اور قوی القلب حضرت علیؓ کا بیان ہے کہ ’’جب لڑائی شدت کی ہوتی تھی اور جوش و محنت سے آنکھیں سرخ ہو جاتی تھیں تو ہم آنحضرتؐ کی آڑ لیتے تھے اور ہم میں سے کوئی آدمی دشمن سے آپﷺ سے زیادہ قریب نہ ہوتا تھا اور میں نے جنگ بدر میں اپنے آپ کو دیکھا کہ ہم آپﷺ ہی کی پناہ ڈھونڈتے تھے اور آپﷺ اس دن سب سے زیادہ مستقل مزاج اور قوی القلب تھے۔‘‘ سات دینار حضرت ام سلمیٰؓ بیان کرتی ہیں کہ ’’ایک دفعہ آپﷺ بڑے اداس اور غمگیں گھر تشریف لائے‘‘ میں نے سبب دریافت کیاتو فرمایا:’’ ام سلمیٰؓ! کل جو سات دینار آئے تھے۔ شام ہوگئی اور وہ بستر پر پڑے رہ گئے۔‘‘ پانی کے سوا اور کچھ نہیں ایک مرتبہ نبیؐ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور بولا !یا رسول اللہ! میں بھوک سے بے تاب ہوں۔ آپﷺ نے اپنی کسی بیوی کے ہاں پیغام بھیجاکہ کھانے کے لئے جو کچھ موجود ہو‘ بھیج دو۔ جواب آیا: اس خدا کی قسم جس نے آپﷺ کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ یہاں تو پانی کے سوا اور کچھ نہیں، پھر آپﷺ نے دوسری بیوی کے ہاں معلوم کیا تو وہاں سے بھی یہی جواب آیا۔ یہاں تک کہ آپﷺ نے ایک ایک کرکے اپنے تمام گھروں سے پتا کیا تو سب کے ہاں سے اسی طرح کا جواب آیا۔اب آپﷺ اپنے صحابہ ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ’’ آج رات کیلئے اس مہمان کی میزبانی کون قبول کرتا ہے؟‘‘ ایک انصاری نے کہا : ’’یا رسول اللہ! میں قبول کرتا ہوں‘‘ یہ انصاری ان کو اپنے گھر لے گئے اور گھرجا کر بیوی کو بتایاکہ میرے ساتھ رسول اللہ کے مہمان ہیں‘ ان کی خاطر داری کرو۔ بیوی نے کہا:’’اس وقت تو گھر میں صرف بچوں کیلئے کھانا ہے‘‘ صحابیؓ نے کہا:’’ بچوں کو کسی طرح بہلا کر سلا دو اور جب مہمان کے سامنے کھانا رکھو تو کسی بہانے چراغ بجھا دینا اور کھانے پر مہمان کے ساتھ بیٹھ جانا تاکہ اس کو یہ محسوس ہو کہ ہم بھی کھانے میں شریک ہیں‘‘۔ صبح جب صحابیؓ نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے دیکھتے ہی فرمایا:’’ تم دونوں نے رات مہمان کے ساتھ جو حسن سلوک کیا‘ وہ خدا کو بہت ہی پسند آیا۔‘‘ ٭…٭…٭
آپ ﷺ کی روزمرہ کی زندگی غریبوں اور مسکینوں کی سی تھی ۔آپ ﷺ ہرقسم کے ہاتھ کا کام خود کرلیتے تھے۔ اس میں کسی طرح کی عار نہ سمجھتے تھے، گھر کی صفائی کرتے، مویشیوں کو چارہ ڈالتے ، بازار سے سامان خریدتے، پھٹے کپڑوں کو پیوند لگاتے، ٹوٹے جوتوں کو گانٹھتے ، غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر اکٹھے کھاناکھاتے اور اگر بعض دفعہ کھانے کو کچھ بھی میسر نہ ہوتاتو خدا کا شکر ادا کرتے اور بھوکے ہی سوجاتے، کبھی کئی کئی ہفتے چولہے میں آگ نہ جلتی اور پانی اور کھجوروں پر گزاراہوتا۔ سادگی کا یہ عالم کھانے میں آپﷺ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ آپﷺ کی غذا عموماً جو کی روٹی ہوتی تھی اور چونکہ نبی اکرمﷺ کے یہاں چھلنی نہیں تھی ،اس لئے اس کی بھوسی پھونک مارکر ہٹا دی جاتی تھی چنانچہ عمر بھر آپﷺ نے نہ کبھی چھنے ہوئے باریک آٹے کی روٹی تناول فرمائی اور نہ ہی کبھی دسترخوان پر کھانا کھایا ۔ آپﷺ نے کبھی کسی کھانے کو برا نہیں کہا، جو کچھ موجود ہوتا تھا، تناول فرما لیتے تھے اور بھوک نہیں ہوتی تھی تو چھوڑ دیتے تھے۔ نصف کھجور آپﷺ اپنے اہل وعیال سے زیادہ اپنی امت کی آسائش وسہولت کا خیال رکھتے تھے چنانچہ لگان و خراج سے جو مال ودولت اور اشیا آپﷺ کو موصول ہوتیں توآپ ﷺفوری طورپر لوگوں میں تقسیم کردیتے تھے اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اپنے لئے کچھ نہ چھوڑتے۔ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ بسا اوقات تین تین روز تک گھر میں آگ نہ جلتی اور آل ِنبی ایک یا نصف کھجور کھا کر روزہ افطار کرلیتے۔ کھائیے اور کھائیے نبیﷺ کے دستر خوان پر جب کوئی مہمان ہوتا تو آپ ﷺبار بار اس سے فرماتے جاتے ، کھائیے اور کھائیے، جب مہمان خوب سیر ہوتا اور بے حد انکار کرتا تب اپنے اصرار سے باز آجاتے۔ سادہ زندگی آپ ﷺنے بہت سادہ زندگی بسر کی اور وصال سے قبل فرمایا: ’’ میرے ورثاء کو میرے ترکہ میں روپیہ پیسہ کچھ نہ ملے گا‘‘۔حقیقت میں آپﷺ کے پاس دنیوی سازوسامان میں سے کچھ تھا ہی نہیں جو کسی کو دیا جاتا۔ حالت تو یہ تھی کہ آپﷺ کی زرہ مبارک ایک یہودی کے پاس 30 درہم کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی اور آپﷺ کے پاس اتنی رقم بھی نہ تھی کہ اسے چھڑا لیتے۔ آپﷺ نے ترکہ میں صرف اپنے ہتھیار، ایک خچر اور تھوڑی سی مملوکہ زمین کے سوا کوئی چیز نہیں چھوڑی ۔ ٹاٹ کا ٹکڑا حضرت حفصہ ؓ فرماتی ہیں گھر میں ایک ٹاٹ کا ٹکڑا تھا،جسے ہم دہرا کردیا کرتے تھے۔آپﷺ اسی پر آرام فرمایا کرتے ۔ ایک رات میں نے خیال کیا کہ اگر اس کی چارتہیں کردیں تو غالباً آپﷺ کو زیادہ آرام ملے گا چنانچہ ہم نے ایسا ہی کیا ۔ جب صبح ہوئی تو آپﷺ نے پوچھا:’’رات کو تم نے میرے لیے کیا بچھایا تھا‘‘ میں نے کہا:’’وہی آپﷺ کا ٹاٹ تھا ، مگر اس کی چارتہیں کردی تھیںتاکہ آپﷺ بہتر طریقے سے آرام کرسکیں‘‘ آپﷺ نے فرمایا : ’’نہیں !اسے تو جیسا پہلے تھا ویسا ہی کردو اس نے مجھے نماز شب سے بازرکھا۔‘‘ خدا کا شکر گزار آپﷺ راتوں کو اتنی دیرتک نماز میں کھڑے رہتے تھے کہ پائوں مبارک پر ورم آجاتا تھا یہ دیکھ کر بعض صحابہؓ نے عرض کیا کہ ’’یارسول اللہ ! آپﷺ کی مغفرت تو خدا کرچکا ہے۔ اب آپ ﷺ کیوں یہ زحمت اٹھاتے ہیں؟‘‘ ارشاد ہوا:’’کیا میں خدا کا شکرگزار بندہ نہ بنوں ‘‘۔ رونا آتا ہے ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کے دودھ شریک بھائی مسروق اُن کے پاس آئے۔ حضرت عائشہؓ نے کھانا منگوایا اور فرمانے لگیں : ’’ جب سیر ہو کرکھانا کھاتی ہوں تو مجھے رونا آتا ہے‘‘انہوں نے پوچھا؛ کیوں؟ حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا کہ مجھے آپﷺ کا زمانہ یاد آ جاتا ہے کہ جب تک رسول اللہ حیات رہے ،خدا گواہ ہے کہ کبھی ایک دن میں دوبار سیر ہو کر روٹی نہیں کھائی اور بعض دفعہ گھر میں پورا مہینہ آگ نہیں جلتی تھی اور ہم صرف کھجوروں اور پانی پر گزارا کرتے تھے۔ یہ دعا کرتے ایک مرتبہ آپﷺ نے ایک پرانے پالان پر حج کیا اور اس پالان پر ایک کملی تھی جو بہت ہی معمولی قیمت یعنی چار درہم کی بھی نہ تھی۔ اس پر بھی یہ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ، اس کو ایسا حج (مبرور) بنا جس میں نمائش اورقصدِ شہرت نہ ہو۔ 30 دن رات حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ پیغمبر خدانے فرمایا کہ ایک بار مجھ پر 30 دن رات اس حالت میں گزرے کہ میرے پاس کھانے کی کوئی چیز نہ تھی جس کو کوئی جاندار کھا سکے‘ سوائے اتنی قلیل مقدار کے جوبلالؓ بغل میں دبائے رہتے تھے۔آپﷺ کے پاس کبھی صبح یا شام کا کھانا جمع نہیں ہوا کہ کھانے سے کھانے والے بھی زیادہ ہوئے۔ مستقل مزاج اور قوی القلب حضرت علیؓ کا بیان ہے کہ ’’جب لڑائی شدت کی ہوتی تھی اور جوش و محنت سے آنکھیں سرخ ہو جاتی تھیں تو ہم آنحضرتؐ کی آڑ لیتے تھے اور ہم میں سے کوئی آدمی دشمن سے آپﷺ سے زیادہ قریب نہ ہوتا تھا اور میں نے جنگ بدر میں اپنے آپ کو دیکھا کہ ہم آپﷺ ہی کی پناہ ڈھونڈتے تھے اور آپﷺ اس دن سب سے زیادہ مستقل مزاج اور قوی القلب تھے۔‘‘ سات دینار حضرت ام سلمیٰؓ بیان کرتی ہیں کہ ’’ایک دفعہ آپﷺ بڑے اداس اور غمگیں گھر تشریف لائے‘‘ میں نے سبب دریافت کیاتو فرمایا:’’ ام سلمیٰؓ! کل جو سات دینار آئے تھے۔ شام ہوگئی اور وہ بستر پر پڑے رہ گئے۔‘‘ پانی کے سوا اور کچھ نہیں ایک مرتبہ نبیؐ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور بولا !یا رسول اللہ! میں بھوک سے بے تاب ہوں۔ آپﷺ نے اپنی کسی بیوی کے ہاں پیغام بھیجاکہ کھانے کے لئے جو کچھ موجود ہو‘ بھیج دو۔ جواب آیا: اس خدا کی قسم جس نے آپﷺ کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ یہاں تو پانی کے سوا اور کچھ نہیں، پھر آپﷺ نے دوسری بیوی کے ہاں معلوم کیا تو وہاں سے بھی یہی جواب آیا۔ یہاں تک کہ آپﷺ نے ایک ایک کرکے اپنے تمام گھروں سے پتا کیا تو سب کے ہاں سے اسی طرح کا جواب آیا۔اب آپﷺ اپنے صحابہ ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ’’ آج رات کیلئے اس مہمان کی میزبانی کون قبول کرتا ہے؟‘‘ ایک انصاری نے کہا : ’’یا رسول اللہ! میں قبول کرتا ہوں‘‘ یہ انصاری ان کو اپنے گھر لے گئے اور گھرجا کر بیوی کو بتایاکہ میرے ساتھ رسول اللہ کے مہمان ہیں‘ ان کی خاطر داری کرو۔ بیوی نے کہا:’’اس وقت تو گھر میں صرف بچوں کیلئے کھانا ہے‘‘ صحابیؓ نے کہا:’’ بچوں کو کسی طرح بہلا کر سلا دو اور جب مہمان کے سامنے کھانا رکھو تو کسی بہانے چراغ بجھا دینا اور کھانے پر مہمان کے ساتھ بیٹھ جانا تاکہ اس کو یہ محسوس ہو کہ ہم بھی کھانے میں شریک ہیں‘‘۔ صبح جب صحابیؓ نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے دیکھتے ہی فرمایا:’’ تم دونوں نے رات مہمان کے ساتھ جو حسن سلوک کیا‘ وہ خدا کو بہت ہی پسند آیا۔‘‘ ٭…٭…٭