Log in

View Full Version : ڈاکٹر وزیر آغا کا برگد



intelligent086
12-20-2015, 10:35 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14412_76264443.jpg.pagespeed.ic.RMn0iSOir5 .jpg


رشید امجد
آخری عمر میں وزیر آغااپنے کمرے تک محدود ہو گئے تھے۔ کہتے تھے، ’’میں نے اس کمرے کو اوڑھ لیا ہے، یہ اب میرا برگد ہے۔ ‘‘ اس برگد کے نیچے بیٹھ کر انہوں نے غور و فکر کا سلسلہ آخری دم تک جاری رکھا۔ انہوں نے اب نثر لکھنا چھوڑ دی تھی۔ کہتے تھے، ہاتھ کانپتا ہے۔ البتہ نظموں کا سلسلہ آخر تک جاری رہا۔ اس دوران انہوں نے ایک اہم مضمون لکھا جسے وہ اپنی کتاب ’’تخلیقی عمل‘‘ کا آخری باب کہتے تھے۔ کہنے لگے، ’’میری یہ کتاب تیس سال کے بعد مکمل ہوئی ہے۔‘‘ یہ مضمون جب کاغذی پیراہن میں چھپا تو مجھے فون کیا کہ اسے پڑھ کر ان سے بات کروں ۔ میرے پاس یہ پرچہ نہیں آیا۔ انہوں نے دو تین بار پوچھا، میں نے کہا، پرچہ ملا ہی نہیں۔ اسی دوران جمیل آذر سے پرچہ مل گیا۔ میں نے مضمون پڑھا۔ آغا صاحب نے برائن گرین کے بنیادی نظریے، کہ پلانک لینگتھ کے نیچے Cosmos کی چادر، مشتعل سلوٹوں سے بھرا ایک ایسا گورکھ دھندا ہے جس پر زمان و مکاں کا اطلاق نہیں ہوتا۔ سٹرنگ تھیوری والوں نے اس بے مقام کا سراغ لگا کر Branesکو بھی دریافت کیا ہے۔ ان مختلف ابعاد Branes میں تین ابعاد کے حامل برین ہیں۔ ایک برین اس لئے قابل ذکر ہے کہ ہماری کائنات اسی کے اندر بند ہے۔ قابلِ ذکر اور اہم بات یہ ہے کہ روشنی ایک برین سے دوسرے میں نہیں جا سکتی لیکن کشش (Gravity) ایک سے دوسرے ہی میں جا سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی اولین صفت نور نہیں بلکہ کشش ہے جس کے ذریعے اس نے اپنی ساری مخلوقات کو اپنے ساتھ جوڑا ہوا ہے۔ پرانے مشرقی نظریات کے تحت یہ فکرہمہ اوست اور ہمہ از اوست کے فلسفے سے جا ملتی ہے۔ آغا صاحب کا خیال ہے کہ کشش ثقل دراصل انسلاک، وحدت اور محبت کی علامت ہے۔ ’’تخلیقی عمل‘‘ کے آخری باب میں وہ مصنف اور اس کی تخلیق کو اس تعلق کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر کے تحت مصنف اور تخلیق کا رشتہ اَٹوٹ ہے۔ یہ ساختیات کے اس نظریے کے برعکس ہے جس میں مصنف کو تصنیف سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ آغا صاحب نے ساختیات کے تصور کو اُجاگر کرتے ہوئے اس نکتہ پر محتاط رویہ اختیار کیا تھا۔ ان کا یہ مضمون انہوں نے اپنی کتاب ’’تخلیقی عمل‘‘ کا آخری باب کہا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ اسے سوچنے اور لکھنے میں انہیں تیس برس لگے، فلسفیانہ تنقید کا ایک اہم حصہ ہے، میں اس بارے ان سے تفصیلی گفتگو کرنا چاہتا تھا لیکن آخری ملاقات میں موقع ہی نہیں ملا۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو آغا صاحب کی تنقید نے اُردو میں فلسفیانہ تنقید کی بنیاد رکھی ہے۔ ان کا طریقۂ کار استخراجی کی بجائے استقرائی ہے۔ بطور مدیر وزیر آغا کے سفر کا آغاز ’’ادبی دنیا ‘‘ سے ہوا۔ انہوں نے ’’ادبی دنیا ‘‘ کوجدید فکری رویوں سے ہم آہنگ کرنے میں وہی کردار ادا کیا جو ایک زمانے میں میرا جی نے کیا تھا۔ ادبی دنیا کے ادارتی دور میں مولانا سے بہت کچھ سیکھا۔ ’’اوراق‘‘ کا اجرا ہوا تو اس کی پیشانی پر درج تھا، ’’مولانا صلاح الدین احمد کی یاد میں‘‘ اور یہ جملہ آخری پرچے تک موجود رہا۔ ’’اوراق‘‘ نے جدیدیت کی تحریک کو معتدل بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ ’’سوال یہ ہے ‘‘ میں اپنے دور کے اہم فنی و فکری موضوعات پر بحث کی جاتی تھی۔ میرا جی نے ’’اس نظم میں ‘‘ کے عنوان سے اپنے عہد کی نظموں کا تجزیہ کر کے جدید نظم کی تفہیم کی بنیاد رکھی تھی۔ ’’اوراق‘‘ میں نظموں کے تجزیاتی مطالعوں کے ساتھ نئے افسانوں کے تجزیاتی مطالعے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ اس سلسلے کا پہلا تجزیہ میرے افسانے ’’پچھلے پہر کی موت‘‘ پر تھا۔ ’’اوراق‘‘ کے اداریے ہر بار ہم عصر ادب کے کسی سوال پر بحث کا آغاز کرتے۔ ’’اوراق‘‘ نے اپنی اشاعتوں میں اپنے زمانے کی نئی نسل کو ہمیشہ اہمیت دی۔ ’’اوراق‘‘ جب بند ہوا تو میں نے پوچھا، ’’آپ نے ’’اوراق‘‘ کو بند کیوں کر دیا؟‘‘ کہنے لگے، دو وجہیں ہیں۔ ایک یہ کہ میں ’’اوراق‘‘ کے لئے موصول ہونے والی ہر تخلق کو خود پڑھتا تھا۔ کتابت اور پروف ریڈنگ کے بعد پریس جانے سے پہلے پورا پرچہ دوبارہ پڑھتا تھا، اب مجھ میں اس کی سکت نہیں۔ دوسرا یہ کہ اُس وقت میں خود ذراعت کا کام کرتا تھا اور ’’اوراق‘‘ کا خرچہ اٹھاتا تھا۔ اب میں کچھ نہیں کرتا، سارا کام سلیم کر رہا ہے اور مجھے اچھا نہیں لگتا کہ اسے کبھی یہ احساس ہو کہ میں اس کی محنت سے اپنا مشغلہ پورا کر رہا ہوں۔ ادبی پرچے ہمیشہ مددکارونا روتے رہے ہیں۔ آغا صاحب نے کبھی اس کا اظہار نہیں کیا، نہ کبھی دوستوں سے اس سلسلے میں کچھ کہا۔ ٭…٭…٭

UmerAmer
12-20-2015, 03:12 PM
Nice Sharing
Thanks for sharing

intelligent086
12-30-2015, 01:58 AM
http://www.mobopk.com/images/pasandkarnekabohatbo.png