intelligent086
12-20-2015, 10:25 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14411_29820552.jpg.pagespeed.ic.Z-eaY-r-gq.jpg
مجھے گرمیوں کی چھٹیوں کی وہ نیلی چمکتی ہوئی سہانی صبح خوب یاد ہے جب میں نے بادل نخواستہ خود کو کچھ نہ کرنے کے عالم سے گھسیٹ کر الگ کیا ٹوپی قسم کی کوئی شے سر پر رکھی، چھڑی ہاتھ میں لی اور نصف درجن چمکتے ہوئے چاک اپنی جیب میں ٹھونس لئے۔ اس کے بعد میں باورچی خانے میں داخل ہوا (جس کی مالکن سسکس گائوں کی ایک ہوشمند بوڑھی خاتون تھی) اور اس خاتون سے پوچھا کہ کیا اس کے پاس بھورے رنگ کا کوئی کاغذ ہے؟…کاغذ اس کے پاس کافی مقدار میں تھا بلکہ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی تھا لیکن اس کے صحیح استعمال کے بارے میں اس کا ذہن صاف نہیں تھا۔ اس کا غالباً یہ خیال تھا کہ اگر کوئی بھورے رنگ کاکا غذمانگے تو اس کی ضرورت پارسل بنانا ہی ہو سکتی ہے۔ یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ فی الواقع مجھے یہ کام ہمیشہ اپنی ذہنی صلاحیت سے ماورا نظر آیا ہے چنانچہ وہ تفصیل کے ساتھ اس شے (کاغذ) کی مضبوطی اور دیر پائی ایسے متنوع اوصاف پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگی۔ میں نے وضاحت کی کہ میں تو اس پر صرف تصویریں بنانا چاہتا ہوں اور مجھے اس بات کی قطعاً آرزو نہیں کہ وہ دیرپا بھی ثابت ہوں، نیز میرے نقطۂ نظر سے سوال مضبوطی اور دیر پائی کا نہیں بلکہ جاذب سطح کا ہے جو پارس بنانے کے معاملے میں ایک نسبتاً مہمل بات ہے۔ جب اس کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ میں مصوری کرنا چاہتا ہوں تو اس نے مفروضہ کی بنا پر کہ میں کفایت شعاری کے تحت اپنی جملہ خط و کتابت بھی پرانے بھُورے رنگ کے کاغذ ی ریپر پر کرنے کا عادی ہوں، مجھے لکھنے کے کاغذ کی پیش کش کر دی۔ تب میں نے بات کے لطیف منطقی پہلو کی وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ میں نہ صرف بھورے رنگ کے کاغذ کو پسند کرتا ہوں بلکہ کاغذ میں بھُورے پن کے وصف کا بھی مداح ہوں بعینہ جیسے مجھے اکتوبر کے جنگل میں، جو کی شراب میں یا شمالی علاقے کی ندیوں میں بھُورے رنگ کا وصف اچھا لگتا ہے۔ بھُورا کاغذ تخلیق کی پہلی ضرب سے پھوٹنے والی ابتدائی شفقی روشنی کا مظہر ہے اور ایک یا دو تیز رنگ کے چاکوں سے آپ اس میں آگ کی اُس تمازت کو بھی نمایاں کر سکتے ہیں جس میں سونے ایسی چنگاریاں لہو کی طرح سرخ اور سمندر کی طرح سبز ہوتی ہیں جیسے ان کی حیثیت ان تندستاروں کی سی ہو جو رمذِازل تاریکی سے لپک کر باہر آ گئے تھے۔ میں نے بوڑھی خاتون سے یہ سب کچھ بڑے سرسری انداز میں کہا اور پھر بھورے کاغذ کو اپنی جیب میں ٹھونس لیا جہاں چاک اور دوسری اشیاء پہلے ہی موجود تھیں۔ میرا اندازہ ہے کہ ہر کسی نے اس بات پر ضرور غور کیا ہو گا کہ اس کی جیب میں کیسی کیسی نادر اور شعریت سے لبریز اشیاء موجود ہوتی ہیں مثلاً جیبی چاقو جو تمام انسانی اوزاروں کا باواآدم اور تلوار کا شیر خوار بچہ ہے۔ ایک بار میں نے ارادہ کیا تھا کہ اپنی جیب کی اشیاء پر ایک پوری نظم قلم بند کروں مگر مجھے محسوس ہوا کہ نظم بہت طویل ہو جائے گی اور بڑ ی بڑی رزمیہ نظموں کا زمانہ بیت چکا ہے۔ چھڑی، چاقو ، چاک اور بھُورے کاغذ سے لیس ہو کر میں نے ایک کشادہ خطۂ زمین کا رُخ کیا اور زمین کے اُن اونچے نیچے حصّوں پر سے رینگتا چلا گیا جو انگلستان کے سب سے اچھے وصف کے مظہر ہیں کیونکہ وہ بیک وقت نرم بھی ہیںاور مضبوط بھی ! ان کی نرمی گاڑی میں جتے ہوئے گھوڑوں یا بیچ کے درختوں کی نرمی سے مشابہہ ہے۔ جیسے جیسے میری نظریں زمین پر پھیلتی چلی گئیں، مجھے محسوس ہوا کہ یہ زمین ویسی ہی مہربان تھی جیسی اس کی جھونپڑیاں لیکن قوتّ کے اعتبار سے یہ زمین کسی زلزلے سے کم نہیں تھی۔ صاف دکھائی دیتا تھا کہ وسیع و بے کناروادی کے دیہات صدیوں سے بالکل محفوظ کھڑے ہیں۔ پھر بھی یوں لگتا تھا جیسے ساری دھرتی ایک بہت بڑی لہر کی طرح اوپر کو اُٹھ آئی ہوتا کہ انہیں بہا لے جائے۔ (ترجمہ: وقارالنساء آغا
مجھے گرمیوں کی چھٹیوں کی وہ نیلی چمکتی ہوئی سہانی صبح خوب یاد ہے جب میں نے بادل نخواستہ خود کو کچھ نہ کرنے کے عالم سے گھسیٹ کر الگ کیا ٹوپی قسم کی کوئی شے سر پر رکھی، چھڑی ہاتھ میں لی اور نصف درجن چمکتے ہوئے چاک اپنی جیب میں ٹھونس لئے۔ اس کے بعد میں باورچی خانے میں داخل ہوا (جس کی مالکن سسکس گائوں کی ایک ہوشمند بوڑھی خاتون تھی) اور اس خاتون سے پوچھا کہ کیا اس کے پاس بھورے رنگ کا کوئی کاغذ ہے؟…کاغذ اس کے پاس کافی مقدار میں تھا بلکہ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی تھا لیکن اس کے صحیح استعمال کے بارے میں اس کا ذہن صاف نہیں تھا۔ اس کا غالباً یہ خیال تھا کہ اگر کوئی بھورے رنگ کاکا غذمانگے تو اس کی ضرورت پارسل بنانا ہی ہو سکتی ہے۔ یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ فی الواقع مجھے یہ کام ہمیشہ اپنی ذہنی صلاحیت سے ماورا نظر آیا ہے چنانچہ وہ تفصیل کے ساتھ اس شے (کاغذ) کی مضبوطی اور دیر پائی ایسے متنوع اوصاف پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگی۔ میں نے وضاحت کی کہ میں تو اس پر صرف تصویریں بنانا چاہتا ہوں اور مجھے اس بات کی قطعاً آرزو نہیں کہ وہ دیرپا بھی ثابت ہوں، نیز میرے نقطۂ نظر سے سوال مضبوطی اور دیر پائی کا نہیں بلکہ جاذب سطح کا ہے جو پارس بنانے کے معاملے میں ایک نسبتاً مہمل بات ہے۔ جب اس کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ میں مصوری کرنا چاہتا ہوں تو اس نے مفروضہ کی بنا پر کہ میں کفایت شعاری کے تحت اپنی جملہ خط و کتابت بھی پرانے بھُورے رنگ کے کاغذ ی ریپر پر کرنے کا عادی ہوں، مجھے لکھنے کے کاغذ کی پیش کش کر دی۔ تب میں نے بات کے لطیف منطقی پہلو کی وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ میں نہ صرف بھورے رنگ کے کاغذ کو پسند کرتا ہوں بلکہ کاغذ میں بھُورے پن کے وصف کا بھی مداح ہوں بعینہ جیسے مجھے اکتوبر کے جنگل میں، جو کی شراب میں یا شمالی علاقے کی ندیوں میں بھُورے رنگ کا وصف اچھا لگتا ہے۔ بھُورا کاغذ تخلیق کی پہلی ضرب سے پھوٹنے والی ابتدائی شفقی روشنی کا مظہر ہے اور ایک یا دو تیز رنگ کے چاکوں سے آپ اس میں آگ کی اُس تمازت کو بھی نمایاں کر سکتے ہیں جس میں سونے ایسی چنگاریاں لہو کی طرح سرخ اور سمندر کی طرح سبز ہوتی ہیں جیسے ان کی حیثیت ان تندستاروں کی سی ہو جو رمذِازل تاریکی سے لپک کر باہر آ گئے تھے۔ میں نے بوڑھی خاتون سے یہ سب کچھ بڑے سرسری انداز میں کہا اور پھر بھورے کاغذ کو اپنی جیب میں ٹھونس لیا جہاں چاک اور دوسری اشیاء پہلے ہی موجود تھیں۔ میرا اندازہ ہے کہ ہر کسی نے اس بات پر ضرور غور کیا ہو گا کہ اس کی جیب میں کیسی کیسی نادر اور شعریت سے لبریز اشیاء موجود ہوتی ہیں مثلاً جیبی چاقو جو تمام انسانی اوزاروں کا باواآدم اور تلوار کا شیر خوار بچہ ہے۔ ایک بار میں نے ارادہ کیا تھا کہ اپنی جیب کی اشیاء پر ایک پوری نظم قلم بند کروں مگر مجھے محسوس ہوا کہ نظم بہت طویل ہو جائے گی اور بڑ ی بڑی رزمیہ نظموں کا زمانہ بیت چکا ہے۔ چھڑی، چاقو ، چاک اور بھُورے کاغذ سے لیس ہو کر میں نے ایک کشادہ خطۂ زمین کا رُخ کیا اور زمین کے اُن اونچے نیچے حصّوں پر سے رینگتا چلا گیا جو انگلستان کے سب سے اچھے وصف کے مظہر ہیں کیونکہ وہ بیک وقت نرم بھی ہیںاور مضبوط بھی ! ان کی نرمی گاڑی میں جتے ہوئے گھوڑوں یا بیچ کے درختوں کی نرمی سے مشابہہ ہے۔ جیسے جیسے میری نظریں زمین پر پھیلتی چلی گئیں، مجھے محسوس ہوا کہ یہ زمین ویسی ہی مہربان تھی جیسی اس کی جھونپڑیاں لیکن قوتّ کے اعتبار سے یہ زمین کسی زلزلے سے کم نہیں تھی۔ صاف دکھائی دیتا تھا کہ وسیع و بے کناروادی کے دیہات صدیوں سے بالکل محفوظ کھڑے ہیں۔ پھر بھی یوں لگتا تھا جیسے ساری دھرتی ایک بہت بڑی لہر کی طرح اوپر کو اُٹھ آئی ہوتا کہ انہیں بہا لے جائے۔ (ترجمہ: وقارالنساء آغا