intelligent086
12-20-2015, 10:18 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14409_20312606.jpg.pagespeed.ic.Qf89DNbR_9 .jpg
اسرار زیدی
صدیوں پہلے ایک دانشور قسم کے بزرگ ہوا کرتے تھے جن کا نام شیخ سعدی تھا۔ ان صاحب کو حکائتیں وضع کرنے میں کمال حاصل تھا۔ شیخ سعدی کی دو تصانیف ’’گلستان و بوستان‘‘ جونی الواقع حکائتوں پر مشتمل تھیں۔ ایک مدت تک ادب عالیہ کا حصہ رہیں۔ ہم نے شیخ سعدی اور ان کی عظیم تصانیف کے ضمن میں ماضی کا صیغہ اس لیے استعمال کیا ہے کہ ان کا تعلق عہد ماضی سے تھا آج کے مروجہ اصولوں کی بنیاد پر ماضی کو مسترد کرنے کا رویہ بہت سے نئے دانشوروں کا بنیادی حق ہے۔ یوں بھی لکھنے پڑھنے والوں کی کم از کم نئی نسل کی حد تک شیخ سعدی کا نام بڑی حد تک اجنبی ہے۔ اور ان کی تصانیف گلستان و بوستان تو ایک عرصے سے آثارِ قدیمہ کی حیثیت رکھتی ہیں کہ ان کتابوں کا علم شاید اب ضروری نہیں رہا۔ اس تمہید کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ہم اپنے اس مضمون کا آغاز جس حکایت سے کرنے لگے ہیں۔ اس کے بارے میں قارئین کو باور کرا سکیں کہ شیخ سعدی سے کم از کم اس حکایت کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ حکایت سو فیصد ہمارے اپنے ذہن کی اختراع ہے اور یہ کہ ہمارا تعلق آج کے عہد سے ہے۔ اس لیے اس حکایت کو آج کی حکایت سمجھ کر ہی پڑھا جانا چاہیے۔ دو بالشتیے سدا اپنا قد بڑھانے کے جنون میں مبتلا رہتے تھے۔ وہ ہفتے عشرے بعد بالالتزام ایک ریسٹورنٹ میں اکٹھا ہوتے تو قد بڑھانے کے مجرب نسخوں کا ذکر چھیڑا جاتا‘ ان پر زور شور سے بحث ہوتی اور جب ریسٹورنٹ سے باہر نکلتے تو اس یقین و اعتماد کے ساتھ کہ ان میں سے ہر ایک کے قد میں کچھ نہ کچھ یعنی ’’سوت دو سوت‘‘ کا اضافہ ضرور ہوا ہے۔ ایک روز جب وہ معمول کے مطابق ریسٹورنٹ میں اکھٹے ہوئے تو ان میں سے ایک بالشتیے نے سینہ پھیلاتے ہوئے دوسرے کو چیلنج کیا۔ ’’دیکھتے ہو! اس بار میرا قد کتنا بڑھ گیا ہے؟‘‘ ’’اور میرا قد بھی تو بڑھ گیا ہے! ‘‘ دوسرے نے گرہ لگائی۔ ’’تمہارا قد ! یار مجھے تو یوںمحسوس ہوتا ہے کہ تم نے ان دنوں گلبرگ سے الفلاح تک کے زیادہ چکر لگانا شروع کر دیے ہیں۔ ان چکروں نے تو تم کو اور زیادہ گھسا کر رکھ دیا ہے۔‘‘ پہلے نے اپنا خیال ظاہر کیا۔ پھر بولا ’’میں نے تمہیں مشورہ دیا تھا کہ حکیم اقبال حسین کی کتاب ’’قد بڑھانے کی ورزشیں‘‘ پڑھا کرو۔ مگر تم ہو کہ میری بات پر دھیان ہی نہیں دیتے‘‘۔ ’’میں کتابی علم کا قائل نہیں۔‘‘ دوسرے نے تلخی سے جواب دیتے ہوئے کہا۔ ’’مگر حکیم صاحب کی کتاب پر عمل کرنے سے میرے قد میں تو کافی اضافہ ہو گیا ہے۔‘‘ پہلے نے بااصرار کہا ۔’’بالکل غلط! تم اب جھوٹ بھی بولنے لگے ہو۔ تمہارا قد تو بالکل پہلے جتنا ہے۔ البتہ میرے قد میں ضرور کوئی اضافہ ہوا ہے۔‘‘ ’’تم خواہ مخواہ اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہو۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو آئو پھرمینار پاکستان چلتے ہیں وہاں پہنچ کر پتہ چل جائے گا کہ کس کا قد بڑھا ہے۔‘‘ پہلے نے تجویز پیش کی۔ دونوں بالشتیے اپنا اپنا قد ناپنے کے لیے ریسٹورنٹ سے اُٹھے اور رکشہ میں سوار ہو کر مینار پاکستان پہنچ گئے لیکن مینار کی بلندی دیکھتے ہی دونوں کو غش آ گیا پھر بھی سوال انا کا تھا۔ اس لیے اپنی تمام قوت مجتمع کر کے خود کو سنبھالا اور بڑی تیزی کے ساتھ مینار کی محراب میں داخل ہو گئے۔ چنانچہ اسی روز سے لوگ ان دونوں کی واپسی کے منتظر ہیں۔ ٭…٭…٭
اسرار زیدی
صدیوں پہلے ایک دانشور قسم کے بزرگ ہوا کرتے تھے جن کا نام شیخ سعدی تھا۔ ان صاحب کو حکائتیں وضع کرنے میں کمال حاصل تھا۔ شیخ سعدی کی دو تصانیف ’’گلستان و بوستان‘‘ جونی الواقع حکائتوں پر مشتمل تھیں۔ ایک مدت تک ادب عالیہ کا حصہ رہیں۔ ہم نے شیخ سعدی اور ان کی عظیم تصانیف کے ضمن میں ماضی کا صیغہ اس لیے استعمال کیا ہے کہ ان کا تعلق عہد ماضی سے تھا آج کے مروجہ اصولوں کی بنیاد پر ماضی کو مسترد کرنے کا رویہ بہت سے نئے دانشوروں کا بنیادی حق ہے۔ یوں بھی لکھنے پڑھنے والوں کی کم از کم نئی نسل کی حد تک شیخ سعدی کا نام بڑی حد تک اجنبی ہے۔ اور ان کی تصانیف گلستان و بوستان تو ایک عرصے سے آثارِ قدیمہ کی حیثیت رکھتی ہیں کہ ان کتابوں کا علم شاید اب ضروری نہیں رہا۔ اس تمہید کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ہم اپنے اس مضمون کا آغاز جس حکایت سے کرنے لگے ہیں۔ اس کے بارے میں قارئین کو باور کرا سکیں کہ شیخ سعدی سے کم از کم اس حکایت کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ حکایت سو فیصد ہمارے اپنے ذہن کی اختراع ہے اور یہ کہ ہمارا تعلق آج کے عہد سے ہے۔ اس لیے اس حکایت کو آج کی حکایت سمجھ کر ہی پڑھا جانا چاہیے۔ دو بالشتیے سدا اپنا قد بڑھانے کے جنون میں مبتلا رہتے تھے۔ وہ ہفتے عشرے بعد بالالتزام ایک ریسٹورنٹ میں اکٹھا ہوتے تو قد بڑھانے کے مجرب نسخوں کا ذکر چھیڑا جاتا‘ ان پر زور شور سے بحث ہوتی اور جب ریسٹورنٹ سے باہر نکلتے تو اس یقین و اعتماد کے ساتھ کہ ان میں سے ہر ایک کے قد میں کچھ نہ کچھ یعنی ’’سوت دو سوت‘‘ کا اضافہ ضرور ہوا ہے۔ ایک روز جب وہ معمول کے مطابق ریسٹورنٹ میں اکھٹے ہوئے تو ان میں سے ایک بالشتیے نے سینہ پھیلاتے ہوئے دوسرے کو چیلنج کیا۔ ’’دیکھتے ہو! اس بار میرا قد کتنا بڑھ گیا ہے؟‘‘ ’’اور میرا قد بھی تو بڑھ گیا ہے! ‘‘ دوسرے نے گرہ لگائی۔ ’’تمہارا قد ! یار مجھے تو یوںمحسوس ہوتا ہے کہ تم نے ان دنوں گلبرگ سے الفلاح تک کے زیادہ چکر لگانا شروع کر دیے ہیں۔ ان چکروں نے تو تم کو اور زیادہ گھسا کر رکھ دیا ہے۔‘‘ پہلے نے اپنا خیال ظاہر کیا۔ پھر بولا ’’میں نے تمہیں مشورہ دیا تھا کہ حکیم اقبال حسین کی کتاب ’’قد بڑھانے کی ورزشیں‘‘ پڑھا کرو۔ مگر تم ہو کہ میری بات پر دھیان ہی نہیں دیتے‘‘۔ ’’میں کتابی علم کا قائل نہیں۔‘‘ دوسرے نے تلخی سے جواب دیتے ہوئے کہا۔ ’’مگر حکیم صاحب کی کتاب پر عمل کرنے سے میرے قد میں تو کافی اضافہ ہو گیا ہے۔‘‘ پہلے نے بااصرار کہا ۔’’بالکل غلط! تم اب جھوٹ بھی بولنے لگے ہو۔ تمہارا قد تو بالکل پہلے جتنا ہے۔ البتہ میرے قد میں ضرور کوئی اضافہ ہوا ہے۔‘‘ ’’تم خواہ مخواہ اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہو۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو آئو پھرمینار پاکستان چلتے ہیں وہاں پہنچ کر پتہ چل جائے گا کہ کس کا قد بڑھا ہے۔‘‘ پہلے نے تجویز پیش کی۔ دونوں بالشتیے اپنا اپنا قد ناپنے کے لیے ریسٹورنٹ سے اُٹھے اور رکشہ میں سوار ہو کر مینار پاکستان پہنچ گئے لیکن مینار کی بلندی دیکھتے ہی دونوں کو غش آ گیا پھر بھی سوال انا کا تھا۔ اس لیے اپنی تمام قوت مجتمع کر کے خود کو سنبھالا اور بڑی تیزی کے ساتھ مینار کی محراب میں داخل ہو گئے۔ چنانچہ اسی روز سے لوگ ان دونوں کی واپسی کے منتظر ہیں۔ ٭…٭…٭