intelligent086
12-18-2015, 10:39 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14401_87266590.jpg.pagespeed.ic.dowG2zqd2G .jpg
ذیشان انصاری
02 دواکتوبر1871 ء کو امریکی باشندے بلی ہل کی تیسری اولاد ٹینیسی کی پہاڑیوں میں پیدا ہوئی ، جس کا نام فیملی نے کورڈل ہل رکھا۔اس کی والدہ Mary Elizabeth Riley Hull کا تعلق ورجینیا سے تھا، جس کی رگوں میں حبشی خون کی آمیزش موجود تھی،فیملی ممبران کورڈل ہل کو پیار سے کورڈ کے نام سے مخاطب کیا کرتے تھے۔ کورڈ کے والد نے لکھا تھا کہ’’ کورڈ نے جب سے چلنا سیکھا تواسی وقت سے بالغوں جیسا برتائوکرنے لگا‘‘ ۔ کورڈ کو بچپن سے ہی تحقیق ومطالعہ کا شوق تھا۔بچپن میں وہ نئی کتابیں خریدنے اپنی فیملی کے ہمراہ نیش ویل جایا کرتا تھا، جہاں بیشتر افراد صرف گاڑیاں ، ٹانگے اور ہوٹل سے مرغوب ہونے جاتے تھے، لیکن اسے صرف کتابوں میں دلچسپی تھی۔ زمانہ طالب علمی میں جب کبھی وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ دریاکے کنارے پر مچھلیاں پکڑنے جاتا، تو دوسرے دوست مچھلیاں پکڑنے میں مصروف ہوتے ،تو وہ کسی درخت کے دوشاخے میں بیٹھاکتابیں پڑھنے میں مصروف ہوتا۔بلی ہل اپنے پانچ بچوں میں سے صرف ایک کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ کارڈ نے اپنے والد کی توجہ مرغوب کرنے کیلئے لوگردسکول میں مباحثہ کی کلاس میں داخلہ لیا، مرکزی مباحثے میں کورڈ کی تقریر کا عنوان تھا’’ کولمبس نے امریکا دریافت کرنے میں جو روپیہ خرچ کیاوہ اس کا اس قدر مستحق تھا جتنا جارج واشنگٹن امریکا کے دفاع کیلئے اس روپے کا مستحق تھا‘‘کیونکہ بلی ہل نے بھی اس مباحثے میں شرکت کرنا تھی، اسی وجہ سے کورڈ نے کئی روز تک روزوشب تاریخ کا مطالعہ کرکے حقائق جمع کرتا رہااور تقریر مکمل کرنے کے بعد اس کی ریہرسل میں مشغول رہا۔ کورڈ نے مباحثے میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کی، جس کے انعام کے طورپر اس کے والد نے اسے اعلیٰ تعلیم کیلئے گھر سے بارہ میل دور مونٹ ویل اکیڈمی نامی سکول میں پڑھنے کیلئے بھیج دیا، جہاں اس نے ایک کمرہ کرایہ پر حاصل کیا۔ دوران تعلیم وہ اپنا کھانا خود پکاتا، برتن خود صاف کرتا اور اپنا بستر خود لگاتا تھا۔ جمعہ کی رات وہ 12 میل سفر پیدل طے کرکے اپنے با پ کے فارم پر پہنچتا اور پیر کی صبح کو وہ پھر واپس بارہ میل پیدل سفر کرکے مونٹ ویل اکیڈمی پہنچتا تھا۔ مونٹ ویل اکیڈمی کی ایک دیوار پر تحریر تھا ’’ محنت شاقہ کے بغیر عروج حاصل نہیں ہوتا‘‘ اس جملے نے کورڈ کوروزانہ 12-14گھنٹے کام کرنے کا عادی بنا دیا تھا۔ کورڈنوعمری میں ہی عالمی و ملکی معاملات میں توجہ لینے لگ گیا تھا ۔ وہ نیش ویل کے ہفتہ وار اخبار’’ ہفت روزہ امریکن‘‘ کا قاری تھا۔ علاقے کے لوگ عالمی خبروں کی معلومات لینے کورڈ کے گرد موجود رہتے تھے وہ بلند آواز میںہجوم کو عالمی خبریں پڑھ کر سناتا تھا۔ کورڈ نے قانون کی ڈگری کمبرلینڈ یونیورسٹی لاء کالج سے حاصل کی ۔ کورڈ امریکی الیکشن میں ووٹ توکاسٹ نہیں کرسکتا تھا کیونکہ ابھی وہ نوجوان تھا۔1892ء میں کورڈ نے ٹینیسی بار کی ممبرشپ حاصل کی تھی ۔ وکالت کے شعبہ میں کورڈ ایک ناکام وکیل تھا، وہ عدالت میں زیادہ تر وقت ساتھی وکیلوں کے ساتھ تاش کھیلنے، تجرباتی کہانیاں سننے اور کتابوں کے مطالعہ میں صرف کرتا تھا۔ 1903ء میں 32کی عمر میں کورڈ کو موبائل کورٹ کا جج بنا دیا گیا تھا۔ دوران ملازمت وہ مکمل طور پر غیر جانبدار اور ایماندار جج رہا،دوران ملازمت اس نے قانون کی خلاف ورزی پراپنے والد کو بھی سزا سنا دی تھی۔ انہوں نے کورٹ روم میں سر پر ہیٹ پہنا ہوا تھا، جس پر کورڈ نے اپنے حقیقی باپ کو بھی ایک پونڈ جرمانہ کردیا تھا۔ کورڈ زمانہ طالب علمی میں ہی ایک کامیاب سیاستدان بننا چاہتا تھا۔ سیاستدان بننے کیلئے تقریر پر عبور ہونا ضروری تھا، وہ ہر وقت فن تقریر میں مطالعہ کرتا، وہ ہر جمعہ بوقت دوپہرکالج کے بچوں کے سامنے نظمیں پڑھا کرتا تھا۔ وہ وقت حاضرکا مشہور سیاستدان بنٹن میکملن کا فین تھا۔ وہ کوشش کرتا کہ بنٹن میکملن کی ہرتقریر کو لائیو سنے اور تقریر پر عبور حاصل کرئے، کورڈ نے اس مقصد کیلئے ایک گھوڑا گاڑی کرایے پر حاصل کی،جس پر سوار ہوکروہ بنٹن میکملن کے جلسوں ، میٹنگ،بیٹھک میں چلا جاتا جہاں پر بنٹن میکملن نے لب کشائی کرنا ہوتی تھی،کورڈ اپنی زندگی کی کامیابی کا سہرا بنٹن میکملن کے سرسجاتا ہے۔ 1906ء میں وہ امریکی کانگرس کے ایوان زیریں ’’ایوان نمائندگان‘‘ کا ممبر منتخب ہوا۔ وہ گیارہ دفعہ ایوان نمائندگا ن کا رکن بنا تھا۔ کامیاب سیاستدان بننے کیلئے 25 سال کورڈ نے ٹیکسوں اور محصولات کاماہر بننے میں صرف کیے۔ اس نے امریکا کا پہلاٹیکس لاء لکھا تھا۔ اسے محصولات کے متعلق علم حاصل کرنے کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ وہ لکھتا ہے ’’ اگر آپ مجھے سات صفحات پر مشتمل محصولات کے بارے میں کوئی کتابچہ دے دیں تو میں اسے سات کھانوں پرمشتمل ڈنر پر ترجیح دوں گا‘‘ کورڈ دعوتوں وغیرہ سے اجتناب کرتا تھا۔وہ صرف سرکاری ڈنر میں شمولیت اختیار کرتا تھا، وہاں بھی وہ بہت کم کھانا کھاتا اور دودھ کا ایک گلاس پی کرچلا آتا۔ کورڈ11 سال ) 04 مارچ1933ء سے 30نومبر1944 ء) یعنی 4289دن امریکا کا سیکرٹری آف سٹیٹ کے عہدہ میں فائز رہا ، اسے Franklin D. Roosevelt نے نامزد کیا تھا۔ وہ سب سے زیادہ عرصے تک وزارت خارجہ کے عہدے پر فائز رہنے کی وجہ سے مشہور ہیں جسکا زیادہ دورانیہ جنگ عظیم دوم میں رہا۔ وہ امریکا کے47 ویں سیکرٹری آف سٹیٹ تھے۔ ہل نے 1945ء میں نوبیل امن انعام حاصل کیا، جسکا سبب اقوام متحدہ بنانے میں ان کی کوششیں تھیں ،اسی وجہ سے انھیں امریکی صدر روزولٹ ’’بابائے اقوام متحدہ‘‘کہتے تھے۔کورڈ نے 46 برس کی عمر میں ورجینیا کی ایک بیوہ عورت سے شادی کی،ان کی کوئی اولاد نہیں تھی، وہ واشنگٹن میں چندکمروں پرمشتمل ایک فلیٹ میں رہتا تھااور دروازے پر آنے والے مہمانوں کا خود استقبال کرتا تھا۔ 23 جولائی 1955ء کو دل کے دورے کی وجہ سے وہ دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔ ٭…٭…٭
ذیشان انصاری
02 دواکتوبر1871 ء کو امریکی باشندے بلی ہل کی تیسری اولاد ٹینیسی کی پہاڑیوں میں پیدا ہوئی ، جس کا نام فیملی نے کورڈل ہل رکھا۔اس کی والدہ Mary Elizabeth Riley Hull کا تعلق ورجینیا سے تھا، جس کی رگوں میں حبشی خون کی آمیزش موجود تھی،فیملی ممبران کورڈل ہل کو پیار سے کورڈ کے نام سے مخاطب کیا کرتے تھے۔ کورڈ کے والد نے لکھا تھا کہ’’ کورڈ نے جب سے چلنا سیکھا تواسی وقت سے بالغوں جیسا برتائوکرنے لگا‘‘ ۔ کورڈ کو بچپن سے ہی تحقیق ومطالعہ کا شوق تھا۔بچپن میں وہ نئی کتابیں خریدنے اپنی فیملی کے ہمراہ نیش ویل جایا کرتا تھا، جہاں بیشتر افراد صرف گاڑیاں ، ٹانگے اور ہوٹل سے مرغوب ہونے جاتے تھے، لیکن اسے صرف کتابوں میں دلچسپی تھی۔ زمانہ طالب علمی میں جب کبھی وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ دریاکے کنارے پر مچھلیاں پکڑنے جاتا، تو دوسرے دوست مچھلیاں پکڑنے میں مصروف ہوتے ،تو وہ کسی درخت کے دوشاخے میں بیٹھاکتابیں پڑھنے میں مصروف ہوتا۔بلی ہل اپنے پانچ بچوں میں سے صرف ایک کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ کارڈ نے اپنے والد کی توجہ مرغوب کرنے کیلئے لوگردسکول میں مباحثہ کی کلاس میں داخلہ لیا، مرکزی مباحثے میں کورڈ کی تقریر کا عنوان تھا’’ کولمبس نے امریکا دریافت کرنے میں جو روپیہ خرچ کیاوہ اس کا اس قدر مستحق تھا جتنا جارج واشنگٹن امریکا کے دفاع کیلئے اس روپے کا مستحق تھا‘‘کیونکہ بلی ہل نے بھی اس مباحثے میں شرکت کرنا تھی، اسی وجہ سے کورڈ نے کئی روز تک روزوشب تاریخ کا مطالعہ کرکے حقائق جمع کرتا رہااور تقریر مکمل کرنے کے بعد اس کی ریہرسل میں مشغول رہا۔ کورڈ نے مباحثے میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کی، جس کے انعام کے طورپر اس کے والد نے اسے اعلیٰ تعلیم کیلئے گھر سے بارہ میل دور مونٹ ویل اکیڈمی نامی سکول میں پڑھنے کیلئے بھیج دیا، جہاں اس نے ایک کمرہ کرایہ پر حاصل کیا۔ دوران تعلیم وہ اپنا کھانا خود پکاتا، برتن خود صاف کرتا اور اپنا بستر خود لگاتا تھا۔ جمعہ کی رات وہ 12 میل سفر پیدل طے کرکے اپنے با پ کے فارم پر پہنچتا اور پیر کی صبح کو وہ پھر واپس بارہ میل پیدل سفر کرکے مونٹ ویل اکیڈمی پہنچتا تھا۔ مونٹ ویل اکیڈمی کی ایک دیوار پر تحریر تھا ’’ محنت شاقہ کے بغیر عروج حاصل نہیں ہوتا‘‘ اس جملے نے کورڈ کوروزانہ 12-14گھنٹے کام کرنے کا عادی بنا دیا تھا۔ کورڈنوعمری میں ہی عالمی و ملکی معاملات میں توجہ لینے لگ گیا تھا ۔ وہ نیش ویل کے ہفتہ وار اخبار’’ ہفت روزہ امریکن‘‘ کا قاری تھا۔ علاقے کے لوگ عالمی خبروں کی معلومات لینے کورڈ کے گرد موجود رہتے تھے وہ بلند آواز میںہجوم کو عالمی خبریں پڑھ کر سناتا تھا۔ کورڈ نے قانون کی ڈگری کمبرلینڈ یونیورسٹی لاء کالج سے حاصل کی ۔ کورڈ امریکی الیکشن میں ووٹ توکاسٹ نہیں کرسکتا تھا کیونکہ ابھی وہ نوجوان تھا۔1892ء میں کورڈ نے ٹینیسی بار کی ممبرشپ حاصل کی تھی ۔ وکالت کے شعبہ میں کورڈ ایک ناکام وکیل تھا، وہ عدالت میں زیادہ تر وقت ساتھی وکیلوں کے ساتھ تاش کھیلنے، تجرباتی کہانیاں سننے اور کتابوں کے مطالعہ میں صرف کرتا تھا۔ 1903ء میں 32کی عمر میں کورڈ کو موبائل کورٹ کا جج بنا دیا گیا تھا۔ دوران ملازمت وہ مکمل طور پر غیر جانبدار اور ایماندار جج رہا،دوران ملازمت اس نے قانون کی خلاف ورزی پراپنے والد کو بھی سزا سنا دی تھی۔ انہوں نے کورٹ روم میں سر پر ہیٹ پہنا ہوا تھا، جس پر کورڈ نے اپنے حقیقی باپ کو بھی ایک پونڈ جرمانہ کردیا تھا۔ کورڈ زمانہ طالب علمی میں ہی ایک کامیاب سیاستدان بننا چاہتا تھا۔ سیاستدان بننے کیلئے تقریر پر عبور ہونا ضروری تھا، وہ ہر وقت فن تقریر میں مطالعہ کرتا، وہ ہر جمعہ بوقت دوپہرکالج کے بچوں کے سامنے نظمیں پڑھا کرتا تھا۔ وہ وقت حاضرکا مشہور سیاستدان بنٹن میکملن کا فین تھا۔ وہ کوشش کرتا کہ بنٹن میکملن کی ہرتقریر کو لائیو سنے اور تقریر پر عبور حاصل کرئے، کورڈ نے اس مقصد کیلئے ایک گھوڑا گاڑی کرایے پر حاصل کی،جس پر سوار ہوکروہ بنٹن میکملن کے جلسوں ، میٹنگ،بیٹھک میں چلا جاتا جہاں پر بنٹن میکملن نے لب کشائی کرنا ہوتی تھی،کورڈ اپنی زندگی کی کامیابی کا سہرا بنٹن میکملن کے سرسجاتا ہے۔ 1906ء میں وہ امریکی کانگرس کے ایوان زیریں ’’ایوان نمائندگان‘‘ کا ممبر منتخب ہوا۔ وہ گیارہ دفعہ ایوان نمائندگا ن کا رکن بنا تھا۔ کامیاب سیاستدان بننے کیلئے 25 سال کورڈ نے ٹیکسوں اور محصولات کاماہر بننے میں صرف کیے۔ اس نے امریکا کا پہلاٹیکس لاء لکھا تھا۔ اسے محصولات کے متعلق علم حاصل کرنے کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ وہ لکھتا ہے ’’ اگر آپ مجھے سات صفحات پر مشتمل محصولات کے بارے میں کوئی کتابچہ دے دیں تو میں اسے سات کھانوں پرمشتمل ڈنر پر ترجیح دوں گا‘‘ کورڈ دعوتوں وغیرہ سے اجتناب کرتا تھا۔وہ صرف سرکاری ڈنر میں شمولیت اختیار کرتا تھا، وہاں بھی وہ بہت کم کھانا کھاتا اور دودھ کا ایک گلاس پی کرچلا آتا۔ کورڈ11 سال ) 04 مارچ1933ء سے 30نومبر1944 ء) یعنی 4289دن امریکا کا سیکرٹری آف سٹیٹ کے عہدہ میں فائز رہا ، اسے Franklin D. Roosevelt نے نامزد کیا تھا۔ وہ سب سے زیادہ عرصے تک وزارت خارجہ کے عہدے پر فائز رہنے کی وجہ سے مشہور ہیں جسکا زیادہ دورانیہ جنگ عظیم دوم میں رہا۔ وہ امریکا کے47 ویں سیکرٹری آف سٹیٹ تھے۔ ہل نے 1945ء میں نوبیل امن انعام حاصل کیا، جسکا سبب اقوام متحدہ بنانے میں ان کی کوششیں تھیں ،اسی وجہ سے انھیں امریکی صدر روزولٹ ’’بابائے اقوام متحدہ‘‘کہتے تھے۔کورڈ نے 46 برس کی عمر میں ورجینیا کی ایک بیوہ عورت سے شادی کی،ان کی کوئی اولاد نہیں تھی، وہ واشنگٹن میں چندکمروں پرمشتمل ایک فلیٹ میں رہتا تھااور دروازے پر آنے والے مہمانوں کا خود استقبال کرتا تھا۔ 23 جولائی 1955ء کو دل کے دورے کی وجہ سے وہ دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔ ٭…٭…٭