intelligent086
12-09-2015, 01:11 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14322_49354055.jpg.pagespeed.ic.4RGVssnWqs .jpg
میرا یہ دعویٰ ہے کہ شاعری ایک ایسا جادو ہے، جس کا ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا۔ شاعری آب گینہ ہے اور ترجمہ گھن۔ شاعری شیشہ ہے اور ترجمہ پتھر۔ شاعری حباب ہے اور ترجمہ ہوائے تند کا تھپیڑا۔ جب شاعری کا ترجمہ کیا جاتا ہے، تو اس کا کندن مٹی کا ایک ڈھیر بن جاتا ہے۔ اس کے لالہ و گل پلاسٹک کے پھولوں کا لباس پہن لیتے ہیں اور اس کا شعلۂ جوالہ راکھ میں تبدیل ہو کر رہ جاتا ہے۔ میں یہاں تک مان لینے پر تو اپنے کو آمادہ کر سکتا ہوں کہ فکری اور آفاقی مسائل کی شاعری کا تو کسی حد تک ترجمہ ہو سکتا ہے، لیکن شاعری کے اس کھنکتے طلسمی دائرے میں ترجمہ بار یاب نہیں ہو سکتا؟ جہاں الفاظ کو ان کے لغوی معانی سے جُدا کر کے، استعمال کیا جاتا ہے اور ان کے سروں پر بالکل جدید معنی کے تاج رکھے جاتے ہیں، جہاں لہجوں کی ایک ایک کروٹ اور الفاظ کی ایک ایک پرت کے نیچے سے نئے نئے مطالب کے صدہا چشمے پھوٹا کرتے ہیں، جہاں مختلف النسل لفظوں کے نقطہ ہائے اتصال سے خیالات کی ایک نئی نسل پیدا کی جاتی ہے، جہاں طواف حرم کو رقص اور رقص کو طوافِ حرم کے سانچے میں ڈھالا جاتا ہے، جہاں اکائی کے میدان میں اعداد کے میلے ہوا کرتے ہیں۔ جہاں دو دو مل کر چار نہیں ایک ہو جاتے ہیں، جہاں دوشی نفی پر علم اثبات لہرایا جاتا ہے، جہاں تلوار کی دھار سے مرہم ٹپکتا ہے، جہاں نشتروں کی نوک سے زخموں میں ٹانکے لگائے جاتے ہیں، جہاں سُبو کے دستے سے کعبے کا در کھٹکھٹایا جاتا ہے، جہاں کانٹے گنگناتے اور پھول کراہتے ہیں، جہاں موتیوں سے آنسو اور آنسووں سے موتی بر سائے جاتے ہیں، جہاں بولوں کے کٹائو میں کٹاریاں مچلتی ہیں، جہاں ادلوں کے مسامات سے چنگاریاں برستی ہیں، جہاں ڈوب جانے کے بعد سفینے اُبھرتے ہیں، جہاں تانوں کے تیشوں سے مجسمے تراشے جاتے ہیں، جہاں نوحوں کی گود میں راگنیاں پروان چڑھتی ہیں، جہاں پلکوں کی نوک پر آسمان تو لے جاتے ہیں، جہاں ٹکوروں سے فولاد برمایا جاتا ہے،جہاں بوئے گُل، گیت بن جاتی ہے اور گیت زہرہ جبینوں کے مکھڑے بن جاتے ہیں، جہاں ہوائوں کو دیکھا اور صدائوں کو چکھا جاتا ہے، جہاں تتلیوں کی دھاریوں پر کرہ ٔارض کو نچایا جاتا ہے۔ مترجم جب اس دائرۂ رقصاں کی جانب نگاہ اٹھاتا ہے، تو اس کے الفاظ کی ہڈیاں بولنے لگتی ہیں، اس کی تخیل کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں اور اس کے وجود کا ڈدرا چٹ سے ٹوٹ کر رہ جاتا ہے۔ کاش نوبیل پرائز کے اربابِ حل دعقد سے کوئی یہ جا کر کہہ دے کہ اے سخن ناشناسو اور اے قدامت پرست اندھو، اگر تم ادب کے قدر دان ہو تو شاعر کے کلام کو اس کی زبان میں پڑھو۔ خود نہیں پڑھ سکتے تو اس کے ہم زبان اکابر کی ایک کمیٹی بنا کر اس کے سپرد کر دو کہ وہ اپنی رائے سے تم کو مطلع کرے۔ تمہیں آخر یہ کون سا دماغی مرض لاحق ہو گیا ہے کہ تم شاعری کے جیتے جاگتے جسم کی جانب تو کوئی اعتناء نہیں کرتے اور جب ترجمہ اس گرم جسم کو ٹھنڈی لاش میں تبدیل کر دیتا ہے تو اس لاش کو تم کلیجے سے لگا لیتے ہو۔ اے جسم بیزارو لاش نواز لوگو، ادب کی دیوی تمھاری بے سوادی پر ماتم کر رہی ہے۔ (جوش ملیح آبادی کی کتاب ’’ یادوں کی برأت‘‘ سے مقتبس
میرا یہ دعویٰ ہے کہ شاعری ایک ایسا جادو ہے، جس کا ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا۔ شاعری آب گینہ ہے اور ترجمہ گھن۔ شاعری شیشہ ہے اور ترجمہ پتھر۔ شاعری حباب ہے اور ترجمہ ہوائے تند کا تھپیڑا۔ جب شاعری کا ترجمہ کیا جاتا ہے، تو اس کا کندن مٹی کا ایک ڈھیر بن جاتا ہے۔ اس کے لالہ و گل پلاسٹک کے پھولوں کا لباس پہن لیتے ہیں اور اس کا شعلۂ جوالہ راکھ میں تبدیل ہو کر رہ جاتا ہے۔ میں یہاں تک مان لینے پر تو اپنے کو آمادہ کر سکتا ہوں کہ فکری اور آفاقی مسائل کی شاعری کا تو کسی حد تک ترجمہ ہو سکتا ہے، لیکن شاعری کے اس کھنکتے طلسمی دائرے میں ترجمہ بار یاب نہیں ہو سکتا؟ جہاں الفاظ کو ان کے لغوی معانی سے جُدا کر کے، استعمال کیا جاتا ہے اور ان کے سروں پر بالکل جدید معنی کے تاج رکھے جاتے ہیں، جہاں لہجوں کی ایک ایک کروٹ اور الفاظ کی ایک ایک پرت کے نیچے سے نئے نئے مطالب کے صدہا چشمے پھوٹا کرتے ہیں، جہاں مختلف النسل لفظوں کے نقطہ ہائے اتصال سے خیالات کی ایک نئی نسل پیدا کی جاتی ہے، جہاں طواف حرم کو رقص اور رقص کو طوافِ حرم کے سانچے میں ڈھالا جاتا ہے، جہاں اکائی کے میدان میں اعداد کے میلے ہوا کرتے ہیں۔ جہاں دو دو مل کر چار نہیں ایک ہو جاتے ہیں، جہاں دوشی نفی پر علم اثبات لہرایا جاتا ہے، جہاں تلوار کی دھار سے مرہم ٹپکتا ہے، جہاں نشتروں کی نوک سے زخموں میں ٹانکے لگائے جاتے ہیں، جہاں سُبو کے دستے سے کعبے کا در کھٹکھٹایا جاتا ہے، جہاں کانٹے گنگناتے اور پھول کراہتے ہیں، جہاں موتیوں سے آنسو اور آنسووں سے موتی بر سائے جاتے ہیں، جہاں بولوں کے کٹائو میں کٹاریاں مچلتی ہیں، جہاں ادلوں کے مسامات سے چنگاریاں برستی ہیں، جہاں ڈوب جانے کے بعد سفینے اُبھرتے ہیں، جہاں تانوں کے تیشوں سے مجسمے تراشے جاتے ہیں، جہاں نوحوں کی گود میں راگنیاں پروان چڑھتی ہیں، جہاں پلکوں کی نوک پر آسمان تو لے جاتے ہیں، جہاں ٹکوروں سے فولاد برمایا جاتا ہے،جہاں بوئے گُل، گیت بن جاتی ہے اور گیت زہرہ جبینوں کے مکھڑے بن جاتے ہیں، جہاں ہوائوں کو دیکھا اور صدائوں کو چکھا جاتا ہے، جہاں تتلیوں کی دھاریوں پر کرہ ٔارض کو نچایا جاتا ہے۔ مترجم جب اس دائرۂ رقصاں کی جانب نگاہ اٹھاتا ہے، تو اس کے الفاظ کی ہڈیاں بولنے لگتی ہیں، اس کی تخیل کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں اور اس کے وجود کا ڈدرا چٹ سے ٹوٹ کر رہ جاتا ہے۔ کاش نوبیل پرائز کے اربابِ حل دعقد سے کوئی یہ جا کر کہہ دے کہ اے سخن ناشناسو اور اے قدامت پرست اندھو، اگر تم ادب کے قدر دان ہو تو شاعر کے کلام کو اس کی زبان میں پڑھو۔ خود نہیں پڑھ سکتے تو اس کے ہم زبان اکابر کی ایک کمیٹی بنا کر اس کے سپرد کر دو کہ وہ اپنی رائے سے تم کو مطلع کرے۔ تمہیں آخر یہ کون سا دماغی مرض لاحق ہو گیا ہے کہ تم شاعری کے جیتے جاگتے جسم کی جانب تو کوئی اعتناء نہیں کرتے اور جب ترجمہ اس گرم جسم کو ٹھنڈی لاش میں تبدیل کر دیتا ہے تو اس لاش کو تم کلیجے سے لگا لیتے ہو۔ اے جسم بیزارو لاش نواز لوگو، ادب کی دیوی تمھاری بے سوادی پر ماتم کر رہی ہے۔ (جوش ملیح آبادی کی کتاب ’’ یادوں کی برأت‘‘ سے مقتبس