Log in

View Full Version : نیکی



intelligent086
11-14-2015, 02:41 AM
ککڑیاں تو آپ نے کھائی ہوں گی؟ آپ کہیں گے‘ جی ہاں کئی مرتبہ تو بھئی ککڑیاں آج ہی نہیں آج سے تیرہ سو سال پہلے بھی بڑے شوق سے کھائی جاتی تھیں اور بچے تو انہیں بہت پسند کرتے تھے ایسے ہی بچوں میں ایک چھوٹی سی بچی تھی جو عراق کے شہر کوذ میں رہا کرتی تھی۔ ایک دن بچی نے گھر کے باہر تازہ تارہ ککڑیاں بکتی دیکھیں، بچی کا بڑا جی چاہا کہ ککڑیاں کھائے لیکن پیسوں کے بغیر تو ککڑی والا اسے ککڑی نہ دیتا، خود اس کے پاس پیسے نہ تھے۔ وہ روتی ہوئی گھر آگئی اور امی سے ضد کرنے لگے کہ ککڑیاں کھاﺅں گی، بچی کے ابو ان دنوں خاصی پریشانیوں سے دوچار تھے۔ امی تو بڑی مشکل میں پڑگئیں، پیسے کہاں سے لائیں ؟ ادھر بچی تھی کہ ضد کیے جارہی تھی، امی نے منع کیا تو چیخ چیخ کر رونے لگی۔ بچی کے ابو بیٹھے دیکھ رہے تھے ان سے معصوم بچی کا رونا دیکھا نہ گیا، انہوں نے سوچا کہ کہیں سے مدد مانگ لی جائے، کوئی تھوڑی سی رقم دے دے تو گھر میں کھانے پینے کا کچھ سامان آجائے گا اور بچی کو ککڑیاں بھی مل جائیں گی۔ وہ اٹھے اور ایک بہت بڑے بزرگ کی مجلس کی طرف چل دیے، یہ مجلس البرکة کہلاتی تھی، آنے کو تو بچے کے ابو مجلس میں آگئے لیکن بزرگ کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے انہیں بہت شرم آئی، انہوں نے کبھی کسی سے مانگا نہ تھا، وہ مانگنا پسند بھی نہیں کرتے تھے اور ہے بھی صحیح بات کسی سے مانگنا، ہاتھ پھیلانا کوئی اچھی بات تو نہیں ہے،اللہ کے نیک بندے ضرورت پڑنے پر بھی کسی سے مانگتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے تھے، تو بھئی بچی کے ابو کا بھی یہی حال تھا وہ بار بار کچھ کہنے کا ارادہ کرتے لیکن پھر رک جاتے، آخر وہ مجلس سے اٹھ کر چلے گئے۔ بزرگ انہیں بہت غور سے دیکھ رہے تھے، وہ سمجھ گئے کہ شخص سخت ضرورت مند ہے لیکن غیرت والا آدمی ہے اس لیے کچھ کہتے ہوئے اسے شرمندگی محسوس ہورہی ہے، بزرگ اپنی جگہ سے اٹھے اور بچی کے ابو کے پیچھے پیچھے چل دیے، بچی کے ابو اپنے مکان میں چلے گئے تو بزرگ ان کا مکان دیکھ کر واپس آگئے۔ رات ہوئی تو بزرگ اس بچی کے مکان پر پہنچے، خاصی دیر ہوچکی تھی اور اندھیرا چھایا ہوا تھا، بزرگ نے مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا، بچی کے ابو باہر نکلے، اندھیرے میں پہچان نہ سکے کہ کون آیا ہے، اتنی دیر میں بزرگ نے مکان کے دروازے پر ایک تھیلی رکھی اور یہ کہتے ہوئے فوراً واپس چلے گئے۔ دیکھو تمہارے دروازے پر تھیلی پڑی ہوئی ہے، یہ تمہارے لیے ہے۔ بچی کے ابو نے تھیلی اٹھالی لیکن سمجھ میں نہیں آیا کہ کون صاحب تھے جو یہ تھیلی دے کر چلے گئے، اندر جا کر تھیلی کھولی تو اندر پانچ سو درہم اور ایک پرچہ رکھا ہوا تھا، پرچہ پر لکھا تھا۔ ابو حنیفہ اس رقم کو لے کر آپ کے پاس آیا تھا یہ رقم حلال ذریعہ سے حاصل کی گئی ہے۔ کچھ سمجھے آپ، ابو حنیفہ کون تھے۔ یہ مسلمانوں کے فقہ کے مشہور امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ تھے جن کو امام اعظم بھی کہا جاتا ہے، آپ نے دیکھا کہ امام صاحب نے کتنے چپکے سے بچی کے ابو کی مدد فرمائی، ایسا آپ نے اس لیے کیا کہ دوسرے اگر آپ کے نیک عمل کو دیکھتے تو واہ وارہ کرنے لگتے، اس طرح آپ کی نیکی کا ثواب ضائع ہوجانے کا خطرہ تھا۔ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ کوئی شخص اگر نیک کام دوسروں کو دکھانے کے لیے کرتا ہے تو اس کا ثواب ضائع ہوجاتا ہے بلکہ اس شخص کو ریا کاری کا گناہ الگ ملتا ہے۔

UmerAmer
11-15-2015, 03:23 PM
Bohat Khoob
Zabardast

intelligent086
11-18-2015, 11:36 PM
http://i58.tinypic.com/21jt4lu.jpg
http://www.mobopk.com/images/pasandkarnekabohatbo.png