intelligent086
11-14-2015, 02:34 AM
فوجوں کی روانگی کا وقت ہوچلا تھا اسلام کے جاں نثاروں پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نظر ڈالی آپ کی نظر ایک ضعیفہ پر پڑی جو اپنے دو کمسن بچوں کو لے کر آرہی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو کیسے آنا ہوا، ضعیفہ کہنے لگی یا رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرمیرے ماں باپ قربان میرے ان دونوں بچوں کو جنگ میں شرکت کی اجازت فرمائیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک محبت بھری نظر ان بچوں پر ڈالی جو کہ ابھی بہت چھوٹے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ بچے جنگ میں شامل نہیں ہوسکتے کیوں کہ یہ ابھی چھوٹے ہیں، یہ سنتے ہی وہ دونوں بچے پنجوں کے بل کھڑے ہو کر اپنا قد بڑھاتے ہوئے بولے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھئے اب تو ہم کافی بڑے لگتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ضد اور جذبے کو دیکھتے ہوئے انہیں جنگ میں شرکت کی اجازت دے دی۔ یہ جنگ تاریخ اسلام کی عظیم جنگ تھی تاریخ میں اسی جنگ کو جنگ بدر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جو کم عمر بچے اس جنگ میں شریک ہوئے تھے عضرعہ نامی خاتون کے بچے معوذ رضی اللہ عنہ اور معاذ رضی اللہ عنہ تھے، جنگ شروع ہوئی تو سرداران کفار کے علاوہ بڑے بڑے ماہر جنگجو سپہ سالار بہ یک وقت اسلامی لشکر کے خلاف برسر پیکار تھے یہی وہ جنگ تھی جس میں اسلام کا مشہور دشمن ابو جہل بھی شامل تھا اور اپنے لشکر کی نمائندگی کررہا تھا۔ جنگ شروع ہوئی اور رفتہ رفتہ زور پکڑتی گئی تلواروں کی آوازیں زخمیوں کی چیخیں عجیب خوفناک سماں تھا حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی اسی جنگ میں شریک تھے ان کے دائیں بائیں معوذ رضی اللہ عنہ اور معاذ رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھوں میں تلواریں لیے دشمن کا صفایا کررہے تھے۔ عالم کمسنی میں نوجوانوں جیسے کام کرنے والے ان بچوں نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ ابو جہل کہا ہے، ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم ابو جہل کو کیوں پوچھ رہے ہو، معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا ہم نے سنا ہے کہ وہ بدبخت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرتا ہے ہم اسے جہنم رسید کرنا چاہتے ہیں۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ابو جہل کفار مکہ کا بڑا جنگجو سپہ سالار ہے وہ بڑا ہی چالاک اور مکار ہے تم اسے تک کیسے پہنچو گے، معوذ رضی اللہ عنہ اور معاذ رضی اللہ عنہ نے زیادہ ضد کی تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہیں ابو جہل کے آنے پر اطلاع دوں گا۔
لڑائی کے دوران اچانک ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی نظر ابو جہل پر پڑی تو انہوں نے معوذ رضی اللہ عنہ اور معاذ رضی اللہ عنہ کو خبردار کیا کہ وہ سامنے ابو جہل آرہا ہے۔ ابو جہل کو دیکھتے ہی کم عمر معوذ رضی اللہ عنہ اور معاذ رضی اللہ عنہ تلواریں ہاتھ میں لیے عقاب کی مانند ابو جہل پر جھپٹے، اتنا بڑا جنگجو سردار اچانک اس حملے سے گھبرا گیا وہ ابھی سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ دونوں بچوں نے اپنی تلواریں ابوجہل کے پیٹ میں گھونپ دیں ابو جہل شدید زخمی حالت میں نیچے گرا اور زخموں کی شدت سے تڑپنے لگا، اسی عالم میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے اور ابو جہل کا سر تن سے جدا کردیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو جہل میری امت کا سب سے بڑا فرعون تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو کیسے آنا ہوا، ضعیفہ کہنے لگی یا رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرمیرے ماں باپ قربان میرے ان دونوں بچوں کو جنگ میں شرکت کی اجازت فرمائیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک محبت بھری نظر ان بچوں پر ڈالی جو کہ ابھی بہت چھوٹے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ بچے جنگ میں شامل نہیں ہوسکتے کیوں کہ یہ ابھی چھوٹے ہیں، یہ سنتے ہی وہ دونوں بچے پنجوں کے بل کھڑے ہو کر اپنا قد بڑھاتے ہوئے بولے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھئے اب تو ہم کافی بڑے لگتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ضد اور جذبے کو دیکھتے ہوئے انہیں جنگ میں شرکت کی اجازت دے دی۔ یہ جنگ تاریخ اسلام کی عظیم جنگ تھی تاریخ میں اسی جنگ کو جنگ بدر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جو کم عمر بچے اس جنگ میں شریک ہوئے تھے عضرعہ نامی خاتون کے بچے معوذ رضی اللہ عنہ اور معاذ رضی اللہ عنہ تھے، جنگ شروع ہوئی تو سرداران کفار کے علاوہ بڑے بڑے ماہر جنگجو سپہ سالار بہ یک وقت اسلامی لشکر کے خلاف برسر پیکار تھے یہی وہ جنگ تھی جس میں اسلام کا مشہور دشمن ابو جہل بھی شامل تھا اور اپنے لشکر کی نمائندگی کررہا تھا۔ جنگ شروع ہوئی اور رفتہ رفتہ زور پکڑتی گئی تلواروں کی آوازیں زخمیوں کی چیخیں عجیب خوفناک سماں تھا حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی اسی جنگ میں شریک تھے ان کے دائیں بائیں معوذ رضی اللہ عنہ اور معاذ رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھوں میں تلواریں لیے دشمن کا صفایا کررہے تھے۔ عالم کمسنی میں نوجوانوں جیسے کام کرنے والے ان بچوں نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ ابو جہل کہا ہے، ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم ابو جہل کو کیوں پوچھ رہے ہو، معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا ہم نے سنا ہے کہ وہ بدبخت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرتا ہے ہم اسے جہنم رسید کرنا چاہتے ہیں۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ابو جہل کفار مکہ کا بڑا جنگجو سپہ سالار ہے وہ بڑا ہی چالاک اور مکار ہے تم اسے تک کیسے پہنچو گے، معوذ رضی اللہ عنہ اور معاذ رضی اللہ عنہ نے زیادہ ضد کی تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہیں ابو جہل کے آنے پر اطلاع دوں گا۔
لڑائی کے دوران اچانک ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی نظر ابو جہل پر پڑی تو انہوں نے معوذ رضی اللہ عنہ اور معاذ رضی اللہ عنہ کو خبردار کیا کہ وہ سامنے ابو جہل آرہا ہے۔ ابو جہل کو دیکھتے ہی کم عمر معوذ رضی اللہ عنہ اور معاذ رضی اللہ عنہ تلواریں ہاتھ میں لیے عقاب کی مانند ابو جہل پر جھپٹے، اتنا بڑا جنگجو سردار اچانک اس حملے سے گھبرا گیا وہ ابھی سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ دونوں بچوں نے اپنی تلواریں ابوجہل کے پیٹ میں گھونپ دیں ابو جہل شدید زخمی حالت میں نیچے گرا اور زخموں کی شدت سے تڑپنے لگا، اسی عالم میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے اور ابو جہل کا سر تن سے جدا کردیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو جہل میری امت کا سب سے بڑا فرعون تھا۔