intelligent086
11-07-2015, 09:44 AM
باب:وحی کی ابتداء اور کیفیت۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ، بَاب : كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الْوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَوْلُ اللہِ جَلَّ ذِكْرُهُ{ إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِنْ بَعْدِهِ }
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے،بہت مہربان ہے۔
رسول اللہﷺ پر نزول وحی کس طرح شروع ہوئی، اور اللہ تعالی کا قول کہ( ہم نے تم پر وحی بھیجی جس طرح حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے بعد پیغمبروں پر وحی بھیجی)۔
جلد نمبر ۱ / پہلا پارہ / حدیث نمبر ۱ / حدیث مرفوع
۱۔حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ عَبْدُ اللہِ بْنُ الزُّبَيْرِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ،قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِءٍ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ۔
۱۔حمیدی، سفیان، یحیی بن سعید انصاری، محمد بن ابراہیم تیمی، علقمہ بن وقاص لیثی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں میں نے حضرت عمر بن خطاب کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: اعمال کے نتائج نیتوں پر موقوف ہیں اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی، چنانچہ جس کی ہجرت دنیا کے لئے ہو کہ وہ اسے پائے گا، یا کسی عورت کے لئے ہو، کہ اس سے نکاح کرے تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف شمار ہوگی جس کے لئے ہجرت کی ہو۔
جلد نمبر ۱ / پہلا پارہ / حدیث نمبر ۲ / حدیث مرفوع
۲۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللہُ عَنْهَاأَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ سَأَلَ رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ كَيْفَ يَأْتِيكَ الْوَحْيُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ فَيُفْصَمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِي الْمَلَكُ رَجُلًا فَيُكَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فِي الْيَوْمِ الشَّدِيدِ الْبَرْدِ فَيَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا-
۲۔عبداللہ بن یوسف، مالک، ہشام بن عروہ، عروہ، ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ: حارث بن ہشام نے رسول اللہ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے؟ تو رسول اللہ نے فرمایا کہ کبھی میرے پاس گھنٹے کی آواز کی طرح آتی ہے اور وہ مجھ پر بہت سخت ہوتی ہے اور جب میں اسے یاد کرلیتا ہوں جو اس نے کہا تو وہ حالت مجھ سے دور ہو جاتی ہے اور کبھی فرشتہ آدمی کی صورت میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور جو وہ کہتا ہے اسے میں یاد کرلیتا ہوں۔ حضرت عائشہ نے بیان کیا کہ میں نے سخت سردی کے دنوں میں آپ پر وحی نازل ہوتے ہوئے دیکھا پھر جب وحی موقوف ہوجاتی تو آپ کی پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا۔
جلد نمبر ۱ / پہلا پارہ / حدیث نمبر ۳ / حدیث مرفوع
۳۔حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ بُکَيْرٍ قَالَ أَخْبَرَ نَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِءَ بِهِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ فَکَانَ لَا يَرَی رُؤْيَا إِلَّا جَائَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ وَکَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَی أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِکَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَی خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّی جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَکُ فَقَالَ اقْرَأْ فَقَالَ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِءٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّی بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّی بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ فَدَخَلَ عَلَی خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا فَقَالَ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَزَمَّلُوهُ حَتَّی ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ فَقَالَ لِخَدِيجَةَ وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَی نَفْسِي فَقَالَتْ خَدِيجَةُ کَلَّا وَاللہِ مَا يُخْزِيکَ اللہُ أَبَدًا إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقِّ فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّی أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّی ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ وَکَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَکَانَ يَکْتُبُ الْکِتَابَ الْعِبْرَانِيَّ فَيَکْتُبُ مِنْ الْإِنْجِيلِ بِالْعِبْرَانِيَّةِ مَا شَاءَ اللہُ أَنْ يَکْتُبَ وَکَانَ شَيْخًا کَبِيرًا قَدْ عَمِيَ فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ يَا ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنْ ابْنِ أَخِيکَ فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَی فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَأَی فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللہُ عَلَی مُوسَی يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا يَا لَيْتَنِي أَکُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُکَ قَوْمُکَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ قَالَ نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ وَإِنْ يُدْرِکْنِي يَوْمُکَ أَنْصُرْکَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْيُ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ الْأَنْصَارِيَّ قَالَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ بَيْنَا أَنَا أَمْشِي إِذْ سَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ السَّمَاءِ فَرَفَعْتُ بَصَرِي فَإِذَا الْمَلَکُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ جَالِسٌ عَلَی کُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَرُعِبْتُ مِنْهُ فَرَجَعْتُ فَقُلْتُ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّر وَثِيَا بَکَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ فَحَمِيَ الْوَحْيُ وَتَتَابَعَ تَابَعَهُ عَبْدُ اللہِ بْنُ يُوسُفَ وَأَبُو صَالِحٍ وَتَابَعَهُ هِلَالُ بْنُ رَدَّادٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ وَقَالَ يُونُسُ وَمَعْمَرٌ بَوَادِرُهُ۔
۳۔یحیی بن بکیر، لیث، عقیل، ابن شہاب، عروہ بن زبیر ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلی وحی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اترنی شروع ہوئی وہ اچھے خواب تھے، جو بحالت نیند آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھتے تھے، چناچہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب دیکھتے تو وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہوجاتا، پھر تنہائی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبت ہونے لگی اور غار حرا میں تنہا رہنے لگے اور قبل اس کے کہ گھر والوں کے پاس آنے کا شوق ہو وہاں تحنث کیا کرتے، تحنث سے مراد کئی راتیں عبادت کرنا ہے اور اس کے لئے توشہ ساتھ لے جاتے پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس واپس آتے اور اسی طرح توشہ لے جاتے، یہاں تک کہ جب وہ غار حرا میں تھے، حق آیا، چناچہ ان کے پاس فرشتہ آیا اور کہا پڑھ، آپ نے فرمایا کہ میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتے ہیں کہ مجھے فرشتے نے پکڑ کر زور سے دبایا، یہاں تک کہ مجھے تکلیف محسوس ہوئی، پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، پھر دوسری بار مجھے پکڑا اور زور سے دبایا، یہاں تک کہ میری طاقت جواب دینے لگی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ تیسری بار پکڑ کر مجھے زور سے دبایا پھر چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! اپنے رب کے نام سے جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھ اور تیرا رب سب سے بزرگ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دہرایا اس حال کہ آپ کا دل کانپ رہا تھا چناچہ آپ حضرت خدیجہ بنت خویلد کے پاس آئے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو، تو لوگوں نے کمبل اڑھا دیا، یہاں تک کہ آپ کا ڈر جاتا رہا، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سارا واقعہ بیان کر کے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے، حضرت خدیجہ نے کہا ہرگز نہیں، خدا کی قسم، اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو صلہ رحمی کرتے ہیں، ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، محتاجوں کے لئے کماتے ہیں، مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں، پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لیکر ورقہ بن نوفل بن اسید بن عبدالعزی کے پاس گئیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچا زاد بھائی تھے، زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہوگئے تھے اور عبرانی کتاب لکھا کرتے تھے۔ چناچہ انجیل کو عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے، جس قدر اللہ چاہتا، نابینا اور بوڑھے ہوگئے تھے، ان سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اے میرے چچا زاد بھائی اپنے بھتیجے کی بات سنو آپ سے ورقہ نے کہا اے میرے بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟ تو جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا تھا، بیان کردیا، ورقہ نے آپ سے کہا کہ یہی وہ ناموس ہے، جو اللہ تعالی نے حضرت موسٰی پر نازل فرمایا تھا، کاش میں نوجوان ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا، جب تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا، ہاں! جو چیز تو لے کر آیا ہے اس طرح کی چیز جو بھی لے کر آیا اس سے دشمنی کی گئی، اگر میں تیرا زمانہ پاؤں تو میں تیری پوری مدد کروں گا، پھر زیادہ زمانہ نہیں گذرا کہ ورقہ کا انتقال ہوگیا، اور وحی کا آنا کچھ دنوں کے لئے بند ہوگیا، ابن شہاب نے کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا کہ جابر بن عبد اللہ انصاری وحی کے رکنے کی حدیث بیان کر رہے تھے، تو اس حدیث میں بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان فرما رہے تھے کہ ایک بار میں جا رہا تھا تو آسمان سے ایک آواز سنی، نظر اٹھا کردیکھا تو وہی فرشتہ تھا، جو میرے پاس غارِحرا میں آیا تھا ، آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا تھا، مجھ پر رعب طاری ہوگیا اور واپس لوٹ کر میں نے کہا مجھے کمبل اڑھا دو مجھے کمبل اڑھا دو، تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی، (اے کمبل اوڑھنے والے اٹھ اور لوگوں کو ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑے کو پاک رکھ اور ناپاکی کو چھوڑ دے)، پھر وحی کا سلسلہ گرم ہوگیا اور لگاتار آنے لگی، عبد اللہ بن یوسف اور ابوصالح نے اس کے متابع حدیث بیان کی ہے اور ہلال بن رواد نے زہری سے متابعت کی ہے، یونس اور معمر نے فوادہ کی جگہ بوادرہ بیان کیا۔
جلد نمبر ۱ / پہلا پارہ / حدیث نمبر ۴ / حدیث مرفوع
۴۔حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ أَخْبَرَنِا أَبُو عَوَانَةَ قَالَ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ أَبِي عَائِشَةَ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِهِ تَعَالَی لَا تُحَرِّکْ بِهِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِهِ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَالِجُ مِنْ التَّنْزِيلِ شِدَّةً وَکَانَ مِمَّا يُحَرِّکُ شَفَتَيْهِ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْهُمَا فَأَنَا أُحَرِّکُهُمَا لَکَ کَمَا کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَرِّکُهُمَا وَقَالَ سَعِيدٌ أَنَا أُحَرِّکُهُمَا کَمَا رَأَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْهُما يُحَرِّکُهُمَا فَحَرَّکَ شَفَتَيْهِ فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی لَا تُحَرِّکْ بِهِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ قَالَ جَمْعُهُ لَکَ صَدْرَکَ وَتَقْرَأَهُ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ قَالَ فَاسْتَمِعْ لَهُ وَأَنْصِتْ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا أَنْ تَقْرَأَهُ فَکَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِکَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ اسْتَمَعَ فَإِذَا انْطَلَقَ جِبْرِيلُ قَرَأَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَمَا قَرَأَهُ۔
۴۔موسی بن اسمعیل، ابوعوانہ، موسی بن ابی عائشہ، سعید بن جبیر اللہ تعالی کے قول ’’لا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ‘‘ (جلد یاد کر لینے کے لئے اپنی زبان کو نہ ہلائیے) کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ قرآن اترتے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت محنت اٹھاتے تھے، منجملہ ان کے ایک یہ تھا کہ آپ اپنے دونوں ہونٹ ہلاتے تھے، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ میں ان دونوں کو ہلاتا ہوں، جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہلاتے تھے اور سعید نے بیان کیا کہ میں (دونوں ہونٹ) ہلاتا ہوں جس طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جنبش دیتے ہوئے دیکھا، چناچہ اپنے دونوں ہونٹ ہلا کر دکھائے، چناچہ اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کو جلد (یاد) کرنے کیلئے اپنی زبان کو نہ ہلاؤ، اس کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ قرآن کا تمہارے سینہ میں جمع کردینا اور اس کو تمہارا پڑھنا، پھر جب ہم اس کو پڑھ لیں تو اس کے پڑھنے کی پیروی کرو، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یعنی اس کو سنو اور چپ رہو، پھر یقینا اسکا مطلب سمجھا دینا ہمارے ذمہ ہے، پھر بلاشبہ میرے ذمہ ہے کہ تم اس کو پڑھو، اس کے بعد جب جبرئیل آپ کے پاس آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غور سے سنتے، پھر جب جبرئیل علیہ السلام چلے جاتے، تو اس کو رسول اللہ پڑھتے تھے جس طرح جبرئیل نے پڑھا تھا۔
جلد نمبر ۱ / پہلا پارہ / حدیث نمبر ۵ / حدیث مرفوع
۵۔حَدَّثَنَا عَبْدَانُ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ قَالَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ ح و حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ قَالَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ وَمَعْمَرٌ نَحْوَهُ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ اللہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْهُمَا قَالَ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ وَکَانَ أَجْوَدُ مَا يَکُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ وَکَانَ يَلْقَاهُ فِي کُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ فَلَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنْ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ۔
۵۔عبدان، عبد اللہ ، یونس، زہری، بشربن محمد، عبد اللہ یونس ومعمر، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ, حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں، فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے اور خاص طور پر رمضان میں جب جبرئیل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی ہوتے تھے اور جبرئیل آپ سے رمضان کی ہر رات میں ملتے اور قرآن کا دور کرتے، نبی علیہ السلام بھلائی پہنچانے میں ٹھنڈی ہوا سے بھی زیادہ سخی تھے۔
جلد نمبر ۱ / پہلا پارہ / حدیث نمبر ۶ / حدیث مرفوع
۶۔حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَکَمُ بْنُ نَافِعٍ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي رَکْبٍ مِنْ قُرَيْشٍ وَکَانُوا تِجَارًا بِالشَّأْمِ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَادَّ فِيهَا أَبَا سُفْيَانَ وَکُفَّارَ قُرَيْشٍ فَأَتَوْهُ وَهُمْ بِإِيلِيَاءَ فَدَعَاهُمْ فِي مَجْلِسِهِ وَحَوْلَهُ عُظَمَاءُ الرُّومِ ثُمَّ دَعَاهُمْ وَدَعَاتَرْجُمَانَهِ فَقَالَ أَيُّکُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا بِهَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَقُلْتُ أَنَا أَقْرَبُهُمْ نَسَبًا فَقَالَ أَدْنُوهُ مِنِّي وَقَرِّبُوا أَصْحَابَهُ فَاجْعَلُوهُمْ عِنْدَ ظَهْرِهِ ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنْ هَذَا الرَّجُلِ فَإِنْ کَذَبَنِي فَکَذِّبُوهُ فَوَاللہِ لَوْلَا الْحَيَاءُ مِنْ أَنْ يَأْثِرُوا عَلَيَّ کَذِبًا لَکَذَبْتُ عَنْهُ ثُمَّ کَانَ أَوَّلَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَنْ قَالَ کَيْفَ نَسَبُهُ فِيکُمْ قُلْتُ هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ قَالَ فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ مِنْکُمْ أَحَدٌ قَطُّ قَبْلَهُ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ کَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِکٍ قُلْتُ لَا قَالَ فَأَشْرَافُ النَّاسِ اتَّبِعُوَهُ أَمْ ضُعَفَاءهُمْ قُلْتُ بَلْ ضُعَفَاءهُمْ قَالَ أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ قُلْتُ بَلْ يَزِيدُونَ قَالَ فَهَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ کُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْکَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ يَغْدِرُ قُلْتُ لَا وَنَحْنُ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ لَا نَدْرِي مَا هُوَ فَاعِلٌ فِيهَا قَالَ وَلَمْ تُمْکِنِّي کَلِمَةٌ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرُ هَذِهِ الْکَلِمَةِ قَالَ فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَکَيْفَ کَانَ قِتَالُکُمْ إِيَّاهُ قُلْتُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالٌ يَنَالُ مِنَّا وَنَنَالُ مِنْهُ قَالَ مَاذَا يَأْمُرُکُمْ قُلْتُ يَقُولُ اعْبُدُوا اللہَ وَحْدَهُ وَلَا تُشْرِکُوا بِهِ شَيْئًا وَاتْرُکُوا مَا يَقُولُ آبَاءکُمْ وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ وَالصِّلَةِ فَقَالَ لِلتَّرْجُمَانِ قُلْ لَهُ سَأَلْتُکَ عَنْ نَسَبِهِ فَذَکَرْتَ أَنَّهُ فِيکُمْ ذُو نَسَبٍ وَکَذَلِکَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا وَسَأَلْتُکَ هَلْ قَالَ أَحَدٌ مِنْکُمْ هَذَا الْقَوْلَ فَذَکَرْتَ أَنْ لَا قُلْتُ لَوْ کَانَ أَحَدٌ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ لَقُلْتُ رَجُلٌ يَأْتَسِي بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ وَسَأَلْتُکَ هَلْ کَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِکٍ فَذَکَرْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ فَلَوْ کَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِکٍ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْکَ أَبِيهِ وَسَأَلْتُکَ هَلْ کُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْکَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ فَذَکَرْتَ أَنْ لَا فَقَدْ أَعْرِفُ أَنَّهُ لَمْ يَکُنْ لِيَذَرَ الْکَذِبَ عَلَی النَّاسِ وَيَکْذِبَ عَلَی اللہِ وَسَأَلْتُکَ أَشْرَافُ النَّاسِ اتَّبَعُوهُ أَمْ ضُعَفَاءهُمْ فَذَکَرْتَ أَنَّ ضُعَفَاءَهُمْ اتَّبَعُوهُ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ وَسَأَلْتُکَ أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ فَذَکَرْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ وَکَذَلِکَ أَمْرُ الْإِيمَانِ حَتَّی يَتِمَّ وَسَأَلْتُکَ أَيَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ فَذَکَرْتَ أَنْ لَا وَکَذَلِکَ الْإِيمَانُ حِينَ تُخَالِطُ بَشَاشَتُهُ الْقُلُوبَ وَسَأَلْتُکَ هَلْ يَغْدِرُ فَذَکَرْتَ أَنْ لَا وَکَذَلِکَ الرُّسُلُ لَا تَغْدِرُ وَسَأَلْتُکَ بِمَا يَأْمُرُکُمْ فَذَکَرْتَ أَنَّهُ يَأْمُرُکُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِکُوا بِهِ شَيْئًا وَيَنْهَاکُمْ عَنْ عِبَادَةِ الْأَوْثَانِ وَيَأْمُرُکُمْ بِالصَّلَاةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ فَإِنْ کَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَسَيَمْلِکُ مَوْضِعَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ وَقَدْ کُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ وَلَمْ أَکُنْ أَظُنُّ أَنَّهُ مِنْکُمْ فَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَتَجَشَّمْتُ لِقَائَهُ وَلَوْ کُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ ثُمَّ دَعَا بِکِتَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي بَعَثَ بِهِ مَعَ دِحْيَةِ الکَلبْيِّ إِلَی عَظِيمِ بُصْرَی فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَی إِلَی هِرَقْلَ فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللہِ وَرَسُولِهِ إِلَی هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلَامٌ عَلَی مَنْ اتَّبَعَ الْهُدَی أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوکَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ يُؤْتِکَ اللہُ أَجْرَکَ مَرَّتَيْنِ فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْکَ إِثْمَ الْيَرِيسِيِّينَ وَ يَا أَهْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا إِلَی کَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ أَنْ لَا نَعْبُدَ إِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِکَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللہِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَلَمَّا قَالَ مَا قَالَ وَفَرَغَ مِنْ قِرَائَةِ الْکِتَابِ کَثُرَ عِنْدَهُ الصَّخَبُ فَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَأُخْرِجْنَا فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ أُخْرِجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي کَبْشَةَ إِنَّهُ يَخَافُهُ مَلِکُ بَنِي الْأَصْفَرِ فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّی أَدْخَلَ اللہُ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ وَکَانَ ابْنُ النَّاطُورِ صَاحِبُ إِيلِيَاءَ وَهِرَقْلَ سُقُفَّ عَلَی نَصَارَی الشَّأْمِ يُحَدِّثُ أَنَّ هِرَقْلَ حِينَ قَدِمَ إِيلِيَاءَ أَصْبَحَ يَوْمًا خَبِيثَ النَّفْسِ فَقَالَ بَعْضُ بَطَارِقَتِهِ قَدْ اسْتَنْکَرْنَا هَيَأْتَکَ قَالَ ابْنُ النَّاطُورِ وَکَانَ هِرَقْلُ حَزَّاءً يَنْظُرُ فِي النُّجُومِ فَقَالَ لَهُمْ حِينَ سَأَلُوهُ إِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ حِينَ نَظَرْتُ فِي النُّجُومِ مَلِکَ الْخِتَانِ قَدْ ظَهَرَ فَمَنْ يَخْتَتِنُ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَالُوا لَيْسَ يَخْتَتِنُ إِلَّا الْيَهُودُ فَلَا يُهِمَّنَّکَ شَأْنُهُمْ وَاکْتُبْ إِلَی مَدَايِنِ مُلْکِکَ فَيَقْتُلُوا مَنْ فِيهِمْ مِنْ الْيَهُودِ فَبَيْنَا هُمْ عَلَی أَمْرِهِمْ أُتِيَ هِرَقْلُ بِرَجُلٍ أَرْسَلَ بِهِ مَلِکُ غَسَّانَ يُخْبِرُ عَنْ خَبَرِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا اسْتَخْبَرَهُ هِرَقْلُ قَالَ اذْهَبُوا فَانْظُرُوا أَمُخْتَتِنٌ هُوَ أَمْ لَا فَنَظَرُوا إِلَيْهِ فَحَدَّثُوهُ أَنَّهُ مُخْتَتِنٌ وَسَأَلَهُ عَنْ الْعَرَبِ فَقَالَ هُمْ يَخْتَتِنُونَ فَقَالَ هِرَقْلُ هَذَا مُلْکُ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَدْ ظَهَرَ ثُمَّ کَتَبَ هِرَقْلُ إِلَی صَاحِبٍ لَهُ بِرُومِيَةَ وَکَانَ نَظِيرَهُ فِي الْعِلْمِ وَسَارَ هِرَقْلُ إِلَی حِمْصَ فَلَمْ يَرِمْ حِمْصَ حَتَّی أَتَاهُ کِتَابٌ مِنْ صَاحِبِهِ يُوَافِقُ رَأْيَ هِرَقْلَ عَلَی خُرُوجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَّهُ نَبِيٌّ فَأَذِنَ هِرَقْلُ لِعُظَمَاءِ الرُّومِ فِي دَسْکَرَةٍ لَهُ بِحِمْصَ ثُمَّ أَمَرَ بِأَبْوَابِهَا فَغُلِّقَتْ ثُمَّ اطَّلَعَ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الرُّومِ هَلْ لَکُمْ فِي الْفَلَاحِ وَالرُّشْدِ وَأَنْ يَثْبُتَ مُلْکُکُمْ فَتُبَايِعُوا هَذَا النَّبِيَّ فَحَاصُوا حَيْصَةَ حُمُرِ الْوَحْشِ إِلَی الْأَبْوَابِ فَوَجَدُوهَا قَدْ غُلِّقَتْ فَلَمَّا رَأَی هِرَقْلُ نَفْرَتَهُمْ وَأَيِسَ مِنْ الْإِيمَانِ قَالَ رُدُّوهُمْ عَلَيَّ وَقَالَ إِنِّي قُلْتُ مَقَالَتِي آنِفًا أَخْتَبِرُ بِهَا شِدَّتَکُمْ عَلَی دِينِکُمْ فَقَدْ رَأَيْتُ فَسَجَدُوا لَهُ وَرَضُوا عَنْهُ فَکَانَ ذَلِکَ آخِرَ شَأْنِ هِرَقْلَ قَالَ أبُوعَبْدِ اللهِ رَوَاهُ صَالِحُ بْنُ کَيْسَانَ وَيُونُسُ وَمَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ۔
۶۔ابوالیمان ، حکم بن نافع، شعیب، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ابن عباس سے سفیان بن حرب نے بیان کیا کہ ہرقل نے ان کے پاس ایک شخص کو بھیجا (اور وہ اس وقت قریش کے چند سرداروں میں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ لوگ شام میں تاجر کی حیثیت سے گئے تھے (یہ واقعہ اس زمانے میں ہوا) جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوسفیان اور دیگر کفار قریش سے ایک محدود عہد کیا تھا، غرض! سب قریش ہرقل کے پاس آئے، یہ لوگ اس وقت ایلیا میں تھے، تو ہرقل نے ان کو اپنے پاس دربار میں طلب کیا، اور اس کے گرد سرداران روم (بیٹھے ہوئے) تھے، پھر ان (سب قریشیوں) کو اس نے (اپنے قریب بلایا) اپنے ترجمان کو طلب کیا قریشیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم میں سب سے زیادہ اس شخص کا قریب النسب کون ہے، جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں، میں نے کہا میں ان سب سے زیادہ ان کا قریبی رشتہ دار ہوں، یہ سن کر ہرقل نے کہا کہ ابوسفیان کو میرے قریب کردو اور اس کے ساتھیوں کو بھی اس کے قریب رکھو، اور ان کو ابوسفیان کی پس پشت کھڑا کردو، پھر ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص کا حال پوچھتا ہوں (جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے اگر مجھ سے جھوٹ بیان کرے، تو تم فورا اس کی تکذیب کردینا (ابوسفیان کہتے ہیں کہ) اللہ کی قسم اگر مجھے اس بات کی غیرت نہ ہوتی کہ لوگ میرے اوپر جھوٹ بولنے کا الزام لگائیں گے تو یقینا میں آپ کی نسبت غلط باتیں بیان کردیتا، غرض سب سے پہلے جو ہرقل نے مجھ سے پوچھا، وہ یہ تھا کہ اس نے کہا کہ اس کا نسب تم لوگوں میں کیسا ہے؟ میں نے کہا وہ ہم میں بڑے نسب والے ہیں، پھر ہرقل نے کہا کہ کیا تم میں سے کسی نے اس سے پہلے بھی اس بات (نبوت) کا دعوی کیا ہے؟ میں نے کہا نہیں (پھر ہرقل نے) کہا، کہ کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گذرا ہے؟ میں نے کہا نہیں (پھر ہرقل نے) کہا کہ امیر لوگ ان کی پیروی کر رہے ہیں یا کمزور؟ میں نے کہا نہیں، بلکہ کمزور (پھر) ہرقل نے پوچھا آیا ان کے پیروکار (یوم فیوما) بڑھتے جاتے ہیں یا گھٹتے جاتے ہیں، میں نے کہا (کم نہیں ہوتے بلکہ) زیادہ ہوتے جاتے ہیں، ہرقل نے پوچھا، آیا ان میں سے کوئی شخص ان کے دین میں داخل ہو نے کے بعد دین کی شدت کے باعث اس دین سے خارج بھی ہوجاتا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں (پھر ہرقل نے) کہا کہ کیا وہ کبھی وعدہ خلافی کرتے ہیں؟ میں نے کہا نہیں اور اب ہم ان کی مہلت میں ہیں ہم نہیں جانتے کہ وہ اس (مہلت کے زمانہ) میں کیا کریں گے (وعدہ خلافی یا ایفائے عہد) ، ابوسفیان کہتے ہیں کہ سوائے اس کلمہ کے مجھے اور کوئی موقع نہ ملا کہ میں کوئی بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات میں داخل کر دیتا، ہرقل نے کہا آیا تم نے (کبھی) اس سے جنگ کی ہے؟ میں نے کہا ہاں، تو بولا تمہاری جنگ ان سے کیسی رہتی ہے، میں نے کہا کہ لڑائی ہمارے اور ان کے درمیان ڈول (کے مثل) رہتی ہے، کہ کبھی وہ ہم سے لے لیتے ہیں اور کبھی ہم ان سے لے لیتے ہیں (کبھی ہم فتح پاتے ہیں اور کبھی وہ) ہرقل نے پوچھا کہ وہ تم کو کیا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور شرک کی باتیں جو تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے چھوڑ دو، اور ہمیں نماز پڑھنے اور سچ بولنے اور پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اس کے بعد ہرقل نے ترجمان سے کہا کہ ابوسفیان سے کہہ دے کہ میں نے تم سے ان کا نسب پوچھا تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہارے درمیان میں اعلی نسب والے ہیں اور تمام پیغمبر اپنی قوم کے نسب میں اسی طرح (عالی نسب) مبعوث ہوا کرتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا یہ بات (اپنی نبوت کا دعوی) تم میں سے کسی اور نے بھی کیا تھا، تو تم نے بیان کیا کہ نہیں میں نے (اپنے دل میں) سمجھ لیا کہ اگر یہ بات ان سے پہلے کوئی کہہ چکا ہو تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک شخص ہے جو اس قول کی تقلید کرتے ہیں جو ان سے پہلے کہا جا چکا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ تھا، تو تم نے بیان کیا کہ نہیں، پس میں نے (اپنے دل میں) سمجھ لیا کہ ان کے باپ دادا میں سے کوئی بادشاہ ہوا ہوگا، تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک شخص ہیں جو اپنے باپ دادا کا ملک حاصل کرنا چاہتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا اس سے پہلے کہ انہوں نے یہ بات کہی ہے ان پر کبھی جھوٹ کی تہمت لگائی گئی ہے، تو تم نے کہا کہ نہیں، پس (اب) میں یقینا جانتا ہوں کہ (کوئی شخص) ایسا نہیں ہو سکتا کہ لوگوں پر جھوٹ نہ بولے اور اللہ پر جھوٹ بولے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا بڑے لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے، تو تم نے کہا کہ کمزور لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے، (دراصل) تمام پیغمبروں کے پیر ویہی لوگ (ہوتے رہے) ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے پیرو زیادہ ہوتے جاتے ہیں یا کم ہوتے جاتے ہیں، تو تم نے بیان کیا کہ وہ زیادہ ہوتے جاتے ہیں (درحقیقت) ایمان کا کمال کو پہنچنے تک یہی حال ہوتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص اس کے بعد ان کے دین میں داخل ہوجائے ان کے دین سے ناخوش ہو کر (دین سے) پھر بھی جاتا ہے؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں اور ایمان کی یہی صورت ہے، جب کہ اس کی بشاشت دلوں میں بیٹھ جائے، اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا وہ وعدہ خلافی کرتے ہیں تو تم نے بیان کیا کہ نہیں (بات یہ ہے کہ) اسی طرح تمام پیغمبر وعدہ خلافی نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا کہ وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہیں یہ حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور تمہیں بتوں کی پرستش سے منع کرتے ہیں اور تمہیں نماز پڑھنے اور سچ بولنے اور پرہیزگاری کا حکم دیتے ہیں، پس اگر تمہاری کہی ہوئی بات سچ ہے تو عنقریب وہ میرے ان قدموں کی جگہ کے مالک ہو جائیں گے اور بے شک میں (کتب سابقہ سے) جانتا تھا کہ وہ ظاہر ہونے والے ہیں، مگر میں یہ نہ جانتا تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے، پس اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکوں گا، تو یقینا میں ان سے ملنے کا بڑا اہتمام کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو یقینا میں ان کے پیروں کو دھوتا، پھر ہرقل نے رسول اللہ کا (مقدس) خط جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دحیہ کلبی کے ہمراہ امیر بصریٰ کے پاس بھیجا تھا اور امیر بصریٰ نے اس کو ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا، منگوایا، اور اس کو پڑھوایا، تو اس میں یہ مضمون تھا اللہ نہایت مہربان رحم کرنے والے کے نام سے (یہ خط ہے) اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبرمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے بادشاہ روم کی طرف، اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے، اس کے بعد واضح ہو کہ میں تم کو اسلام کی طرف بلاتا ہوں، اسلام لاؤ گے تو (قہرالہی) سے بچ جاؤ گے اور اللہ تمہیں تمہارا دو گنا ثواب دے گا اگر تم (میری دعوت سے) منہ پھیرو گے تو بلاشبہ تم پر (تمہاری) تمام رعیت (کے ایمان نہ لانے) کا گناہ ہوگا اور اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان میں مشترک ہے یعنی یہ کہ ہم اور تم خدا کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا پروردگار بنائے، خدا فرماتا ہے کہ پھر اگر اہل کتاب اس سے اعراض کریں تو تم کہہ دنیا کہ اس بات کے گواہ رہو کہ ہم خدا کی اطاعت کرنے والے ہیں، ابوسفیان کہتے ہیں کہ جب ہرقل نے جو کچھ کہا کہہ چکا اور (آپکا) خط پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے ہاں شور زیادہ ہوا، آوازیں بلند ہوئیں اور ہم لوگ (وہاں سے) نکال دیئے گئے، تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ (دیکھو تو) ابوکبشہ کے بیٹے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام ایسا بڑھ گیا کہ اس سے بنی اصفر (روم) کا بادشاہ خوف رکھتا ہے، پس اس وقت سے مجھے ہمیشہ کے لئے اس کا یقین ہوگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ضرور غالب ہوجائیں گے، یہاں تک کہ اللہ نے مجھے اسلام میں داخل فرمایا اور ابن ناطور ایلیا کا حاکم تھا اور ہرقل شام کے نصرانیوں کا سردار تھا، بیان کیا جاتا ہے کہ ہرقل جب ایلیا میں آیا تو ایک دن صبح کو بہت پریشان خاطرا اٹھا، تو اس کے بعض خواص نے کہا کہ ہم (اس وقت) آپ کی حالت خراب پاتے ہیں؟ ابن ناطور کہتا ہے کہ ہرقل کاہن تھا، نجوم میں مہارت رکھتا تھا اس نے اپنے خواص سے جب کہ انہوں نے پوچھا، یہ کہا کہ میں نے رات کو جب نجوم میں نظر کی، تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والا بادشاہ غالب ہوگیا تو (دیکھو کہ) اس زمانہ کے لوگوں میں ختنہ کون کرتا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ سوائے یہود کے کوئی ختنہ نہیں کرتا، سو یہود کی طرف سے آپ اندیشہ نہ کریں اور اپنے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں لکھ بھیجئے کہ جتنے یہود وہاں ہیں سب قتل کردیئے جائیں، پس وہ لوگ اپنی اس تدبیر میں تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی لایا گیا، جسے غسان کے بادشاہ نے بھیجا تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر بیان کی، جب ہرقل نے اس سے یہ خبر معلوم کی، تو کہا کہ جاؤ اور دیکھو کہ وہ ختنہ کئے ہوئے ہے کہ نہیں، لوگوں نے اس کو دیکھا تو بیان کیا کہ وہ ختنے کئے ہوئے ہیں، اور ہرقل نے اس سے عرب کا حال پوچھا، تو اس نے کہا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں، تب ہرقل نے کہا کہ یہی (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس زمانہ کے لوگوں کا بادشاہ ہے، جو روم پر غالب آئے گا، پھر ہرقل نے اپنے دوست کو رومیہ (یہ حال) لکھ کر بھیجا اور وہ علم (نجوم) میں اسی کا ہم پایہ تھا اور (یہ لکھ کر) ہرقل حمص کی طرف چلا گیا، پھر حمص سے باہر نہیں جانے پایا کہ اس کے دوست کا خط (اسکے جواب میں) آگیا وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کے بارے میں ہرقل کی رائے کی موافقت کرتا تھا اور یہ (اس نے لکھا تھا) کہ وہ نبی ہیں اس کے بعد ہرقل نے سرداران روم کو اپنے محل میں جو حمص میں تھا، طلب کیا اور حکم دیا کہ محل کے دروازے بند کر لئے جائیں تو وہ بند کر دئیے گئے اور ہرقل (اپنے گھر سے) باہر آیا تو کہا کہ اے روم والو کیا ہدایت اور کامیابی میں (کچھ حصہ) تمہارا بھی ہے اور (تمہیں) یہ منظور ہے کہ تمہاری سلطنت قائم رہے (اگر ایسا چاہتے ہو) تو اس نبی کی بیعت کر لو، تو (اسکے سنتے ہی) وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف بھا گے، تو کواڑوں کو بند پایا بالآخر جب ہرقل نے اس درجے ان کی نفرت دیکھی اور (ان کے) ایمان لانے سے مایوس ہوگیا، تو بولا کہ ان لوگوں کو میرے پاس واپس لاؤ (جب وہ آئے تو ان سے) کہا میں نے یہ بات ابھی جو کہی تو اس سے تمہارے دین کی مضبوطی کا امتحان لینا تھا وہ مجھے معلوم ہوگئی تب لوگوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہو گئے، ہرقل کی آخری حالت یہی رہی ابوعبد اللہ کہتا ہے کہ اس حدیث کو (شعیب کے علاوہ) صالح بن کیسان اور یونس اور معمر نے (بھی) زہری سے روایت کیا ہے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ، بَاب : كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الْوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَوْلُ اللہِ جَلَّ ذِكْرُهُ{ إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِنْ بَعْدِهِ }
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے،بہت مہربان ہے۔
رسول اللہﷺ پر نزول وحی کس طرح شروع ہوئی، اور اللہ تعالی کا قول کہ( ہم نے تم پر وحی بھیجی جس طرح حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے بعد پیغمبروں پر وحی بھیجی)۔
جلد نمبر ۱ / پہلا پارہ / حدیث نمبر ۱ / حدیث مرفوع
۱۔حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ عَبْدُ اللہِ بْنُ الزُّبَيْرِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ،قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِءٍ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ۔
۱۔حمیدی، سفیان، یحیی بن سعید انصاری، محمد بن ابراہیم تیمی، علقمہ بن وقاص لیثی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں میں نے حضرت عمر بن خطاب کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: اعمال کے نتائج نیتوں پر موقوف ہیں اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی، چنانچہ جس کی ہجرت دنیا کے لئے ہو کہ وہ اسے پائے گا، یا کسی عورت کے لئے ہو، کہ اس سے نکاح کرے تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف شمار ہوگی جس کے لئے ہجرت کی ہو۔
جلد نمبر ۱ / پہلا پارہ / حدیث نمبر ۲ / حدیث مرفوع
۲۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللہُ عَنْهَاأَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ سَأَلَ رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ كَيْفَ يَأْتِيكَ الْوَحْيُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ فَيُفْصَمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِي الْمَلَكُ رَجُلًا فَيُكَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فِي الْيَوْمِ الشَّدِيدِ الْبَرْدِ فَيَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا-
۲۔عبداللہ بن یوسف، مالک، ہشام بن عروہ، عروہ، ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ: حارث بن ہشام نے رسول اللہ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے؟ تو رسول اللہ نے فرمایا کہ کبھی میرے پاس گھنٹے کی آواز کی طرح آتی ہے اور وہ مجھ پر بہت سخت ہوتی ہے اور جب میں اسے یاد کرلیتا ہوں جو اس نے کہا تو وہ حالت مجھ سے دور ہو جاتی ہے اور کبھی فرشتہ آدمی کی صورت میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور جو وہ کہتا ہے اسے میں یاد کرلیتا ہوں۔ حضرت عائشہ نے بیان کیا کہ میں نے سخت سردی کے دنوں میں آپ پر وحی نازل ہوتے ہوئے دیکھا پھر جب وحی موقوف ہوجاتی تو آپ کی پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا۔
جلد نمبر ۱ / پہلا پارہ / حدیث نمبر ۳ / حدیث مرفوع
۳۔حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ بُکَيْرٍ قَالَ أَخْبَرَ نَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِءَ بِهِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ فَکَانَ لَا يَرَی رُؤْيَا إِلَّا جَائَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ وَکَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَی أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِکَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَی خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّی جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَکُ فَقَالَ اقْرَأْ فَقَالَ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِءٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّی بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّی بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ فَدَخَلَ عَلَی خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا فَقَالَ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَزَمَّلُوهُ حَتَّی ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ فَقَالَ لِخَدِيجَةَ وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَی نَفْسِي فَقَالَتْ خَدِيجَةُ کَلَّا وَاللہِ مَا يُخْزِيکَ اللہُ أَبَدًا إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقِّ فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّی أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّی ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ وَکَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَکَانَ يَکْتُبُ الْکِتَابَ الْعِبْرَانِيَّ فَيَکْتُبُ مِنْ الْإِنْجِيلِ بِالْعِبْرَانِيَّةِ مَا شَاءَ اللہُ أَنْ يَکْتُبَ وَکَانَ شَيْخًا کَبِيرًا قَدْ عَمِيَ فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ يَا ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنْ ابْنِ أَخِيکَ فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَی فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَأَی فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللہُ عَلَی مُوسَی يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا يَا لَيْتَنِي أَکُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُکَ قَوْمُکَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ قَالَ نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ وَإِنْ يُدْرِکْنِي يَوْمُکَ أَنْصُرْکَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْيُ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ الْأَنْصَارِيَّ قَالَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ بَيْنَا أَنَا أَمْشِي إِذْ سَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ السَّمَاءِ فَرَفَعْتُ بَصَرِي فَإِذَا الْمَلَکُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ جَالِسٌ عَلَی کُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَرُعِبْتُ مِنْهُ فَرَجَعْتُ فَقُلْتُ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّر وَثِيَا بَکَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ فَحَمِيَ الْوَحْيُ وَتَتَابَعَ تَابَعَهُ عَبْدُ اللہِ بْنُ يُوسُفَ وَأَبُو صَالِحٍ وَتَابَعَهُ هِلَالُ بْنُ رَدَّادٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ وَقَالَ يُونُسُ وَمَعْمَرٌ بَوَادِرُهُ۔
۳۔یحیی بن بکیر، لیث، عقیل، ابن شہاب، عروہ بن زبیر ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلی وحی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اترنی شروع ہوئی وہ اچھے خواب تھے، جو بحالت نیند آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھتے تھے، چناچہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب دیکھتے تو وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہوجاتا، پھر تنہائی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبت ہونے لگی اور غار حرا میں تنہا رہنے لگے اور قبل اس کے کہ گھر والوں کے پاس آنے کا شوق ہو وہاں تحنث کیا کرتے، تحنث سے مراد کئی راتیں عبادت کرنا ہے اور اس کے لئے توشہ ساتھ لے جاتے پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس واپس آتے اور اسی طرح توشہ لے جاتے، یہاں تک کہ جب وہ غار حرا میں تھے، حق آیا، چناچہ ان کے پاس فرشتہ آیا اور کہا پڑھ، آپ نے فرمایا کہ میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتے ہیں کہ مجھے فرشتے نے پکڑ کر زور سے دبایا، یہاں تک کہ مجھے تکلیف محسوس ہوئی، پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، پھر دوسری بار مجھے پکڑا اور زور سے دبایا، یہاں تک کہ میری طاقت جواب دینے لگی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ تیسری بار پکڑ کر مجھے زور سے دبایا پھر چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! اپنے رب کے نام سے جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھ اور تیرا رب سب سے بزرگ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دہرایا اس حال کہ آپ کا دل کانپ رہا تھا چناچہ آپ حضرت خدیجہ بنت خویلد کے پاس آئے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو، تو لوگوں نے کمبل اڑھا دیا، یہاں تک کہ آپ کا ڈر جاتا رہا، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سارا واقعہ بیان کر کے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے، حضرت خدیجہ نے کہا ہرگز نہیں، خدا کی قسم، اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو صلہ رحمی کرتے ہیں، ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، محتاجوں کے لئے کماتے ہیں، مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں، پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لیکر ورقہ بن نوفل بن اسید بن عبدالعزی کے پاس گئیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچا زاد بھائی تھے، زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہوگئے تھے اور عبرانی کتاب لکھا کرتے تھے۔ چناچہ انجیل کو عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے، جس قدر اللہ چاہتا، نابینا اور بوڑھے ہوگئے تھے، ان سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اے میرے چچا زاد بھائی اپنے بھتیجے کی بات سنو آپ سے ورقہ نے کہا اے میرے بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟ تو جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا تھا، بیان کردیا، ورقہ نے آپ سے کہا کہ یہی وہ ناموس ہے، جو اللہ تعالی نے حضرت موسٰی پر نازل فرمایا تھا، کاش میں نوجوان ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا، جب تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا، ہاں! جو چیز تو لے کر آیا ہے اس طرح کی چیز جو بھی لے کر آیا اس سے دشمنی کی گئی، اگر میں تیرا زمانہ پاؤں تو میں تیری پوری مدد کروں گا، پھر زیادہ زمانہ نہیں گذرا کہ ورقہ کا انتقال ہوگیا، اور وحی کا آنا کچھ دنوں کے لئے بند ہوگیا، ابن شہاب نے کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا کہ جابر بن عبد اللہ انصاری وحی کے رکنے کی حدیث بیان کر رہے تھے، تو اس حدیث میں بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان فرما رہے تھے کہ ایک بار میں جا رہا تھا تو آسمان سے ایک آواز سنی، نظر اٹھا کردیکھا تو وہی فرشتہ تھا، جو میرے پاس غارِحرا میں آیا تھا ، آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا تھا، مجھ پر رعب طاری ہوگیا اور واپس لوٹ کر میں نے کہا مجھے کمبل اڑھا دو مجھے کمبل اڑھا دو، تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی، (اے کمبل اوڑھنے والے اٹھ اور لوگوں کو ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑے کو پاک رکھ اور ناپاکی کو چھوڑ دے)، پھر وحی کا سلسلہ گرم ہوگیا اور لگاتار آنے لگی، عبد اللہ بن یوسف اور ابوصالح نے اس کے متابع حدیث بیان کی ہے اور ہلال بن رواد نے زہری سے متابعت کی ہے، یونس اور معمر نے فوادہ کی جگہ بوادرہ بیان کیا۔
جلد نمبر ۱ / پہلا پارہ / حدیث نمبر ۴ / حدیث مرفوع
۴۔حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ أَخْبَرَنِا أَبُو عَوَانَةَ قَالَ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ أَبِي عَائِشَةَ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِهِ تَعَالَی لَا تُحَرِّکْ بِهِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِهِ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَالِجُ مِنْ التَّنْزِيلِ شِدَّةً وَکَانَ مِمَّا يُحَرِّکُ شَفَتَيْهِ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْهُمَا فَأَنَا أُحَرِّکُهُمَا لَکَ کَمَا کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَرِّکُهُمَا وَقَالَ سَعِيدٌ أَنَا أُحَرِّکُهُمَا کَمَا رَأَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْهُما يُحَرِّکُهُمَا فَحَرَّکَ شَفَتَيْهِ فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی لَا تُحَرِّکْ بِهِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ قَالَ جَمْعُهُ لَکَ صَدْرَکَ وَتَقْرَأَهُ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ قَالَ فَاسْتَمِعْ لَهُ وَأَنْصِتْ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا أَنْ تَقْرَأَهُ فَکَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِکَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ اسْتَمَعَ فَإِذَا انْطَلَقَ جِبْرِيلُ قَرَأَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَمَا قَرَأَهُ۔
۴۔موسی بن اسمعیل، ابوعوانہ، موسی بن ابی عائشہ، سعید بن جبیر اللہ تعالی کے قول ’’لا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ‘‘ (جلد یاد کر لینے کے لئے اپنی زبان کو نہ ہلائیے) کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ قرآن اترتے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت محنت اٹھاتے تھے، منجملہ ان کے ایک یہ تھا کہ آپ اپنے دونوں ہونٹ ہلاتے تھے، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ میں ان دونوں کو ہلاتا ہوں، جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہلاتے تھے اور سعید نے بیان کیا کہ میں (دونوں ہونٹ) ہلاتا ہوں جس طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جنبش دیتے ہوئے دیکھا، چناچہ اپنے دونوں ہونٹ ہلا کر دکھائے، چناچہ اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کو جلد (یاد) کرنے کیلئے اپنی زبان کو نہ ہلاؤ، اس کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ قرآن کا تمہارے سینہ میں جمع کردینا اور اس کو تمہارا پڑھنا، پھر جب ہم اس کو پڑھ لیں تو اس کے پڑھنے کی پیروی کرو، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یعنی اس کو سنو اور چپ رہو، پھر یقینا اسکا مطلب سمجھا دینا ہمارے ذمہ ہے، پھر بلاشبہ میرے ذمہ ہے کہ تم اس کو پڑھو، اس کے بعد جب جبرئیل آپ کے پاس آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غور سے سنتے، پھر جب جبرئیل علیہ السلام چلے جاتے، تو اس کو رسول اللہ پڑھتے تھے جس طرح جبرئیل نے پڑھا تھا۔
جلد نمبر ۱ / پہلا پارہ / حدیث نمبر ۵ / حدیث مرفوع
۵۔حَدَّثَنَا عَبْدَانُ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ قَالَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ ح و حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ قَالَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ وَمَعْمَرٌ نَحْوَهُ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ اللہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْهُمَا قَالَ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ وَکَانَ أَجْوَدُ مَا يَکُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ وَکَانَ يَلْقَاهُ فِي کُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ فَلَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنْ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ۔
۵۔عبدان، عبد اللہ ، یونس، زہری، بشربن محمد، عبد اللہ یونس ومعمر، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ, حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں، فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے اور خاص طور پر رمضان میں جب جبرئیل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی ہوتے تھے اور جبرئیل آپ سے رمضان کی ہر رات میں ملتے اور قرآن کا دور کرتے، نبی علیہ السلام بھلائی پہنچانے میں ٹھنڈی ہوا سے بھی زیادہ سخی تھے۔
جلد نمبر ۱ / پہلا پارہ / حدیث نمبر ۶ / حدیث مرفوع
۶۔حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَکَمُ بْنُ نَافِعٍ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي رَکْبٍ مِنْ قُرَيْشٍ وَکَانُوا تِجَارًا بِالشَّأْمِ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَادَّ فِيهَا أَبَا سُفْيَانَ وَکُفَّارَ قُرَيْشٍ فَأَتَوْهُ وَهُمْ بِإِيلِيَاءَ فَدَعَاهُمْ فِي مَجْلِسِهِ وَحَوْلَهُ عُظَمَاءُ الرُّومِ ثُمَّ دَعَاهُمْ وَدَعَاتَرْجُمَانَهِ فَقَالَ أَيُّکُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا بِهَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَقُلْتُ أَنَا أَقْرَبُهُمْ نَسَبًا فَقَالَ أَدْنُوهُ مِنِّي وَقَرِّبُوا أَصْحَابَهُ فَاجْعَلُوهُمْ عِنْدَ ظَهْرِهِ ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنْ هَذَا الرَّجُلِ فَإِنْ کَذَبَنِي فَکَذِّبُوهُ فَوَاللہِ لَوْلَا الْحَيَاءُ مِنْ أَنْ يَأْثِرُوا عَلَيَّ کَذِبًا لَکَذَبْتُ عَنْهُ ثُمَّ کَانَ أَوَّلَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَنْ قَالَ کَيْفَ نَسَبُهُ فِيکُمْ قُلْتُ هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ قَالَ فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ مِنْکُمْ أَحَدٌ قَطُّ قَبْلَهُ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ کَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِکٍ قُلْتُ لَا قَالَ فَأَشْرَافُ النَّاسِ اتَّبِعُوَهُ أَمْ ضُعَفَاءهُمْ قُلْتُ بَلْ ضُعَفَاءهُمْ قَالَ أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ قُلْتُ بَلْ يَزِيدُونَ قَالَ فَهَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ کُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْکَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ يَغْدِرُ قُلْتُ لَا وَنَحْنُ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ لَا نَدْرِي مَا هُوَ فَاعِلٌ فِيهَا قَالَ وَلَمْ تُمْکِنِّي کَلِمَةٌ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرُ هَذِهِ الْکَلِمَةِ قَالَ فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَکَيْفَ کَانَ قِتَالُکُمْ إِيَّاهُ قُلْتُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالٌ يَنَالُ مِنَّا وَنَنَالُ مِنْهُ قَالَ مَاذَا يَأْمُرُکُمْ قُلْتُ يَقُولُ اعْبُدُوا اللہَ وَحْدَهُ وَلَا تُشْرِکُوا بِهِ شَيْئًا وَاتْرُکُوا مَا يَقُولُ آبَاءکُمْ وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ وَالصِّلَةِ فَقَالَ لِلتَّرْجُمَانِ قُلْ لَهُ سَأَلْتُکَ عَنْ نَسَبِهِ فَذَکَرْتَ أَنَّهُ فِيکُمْ ذُو نَسَبٍ وَکَذَلِکَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا وَسَأَلْتُکَ هَلْ قَالَ أَحَدٌ مِنْکُمْ هَذَا الْقَوْلَ فَذَکَرْتَ أَنْ لَا قُلْتُ لَوْ کَانَ أَحَدٌ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ لَقُلْتُ رَجُلٌ يَأْتَسِي بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ وَسَأَلْتُکَ هَلْ کَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِکٍ فَذَکَرْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ فَلَوْ کَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِکٍ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْکَ أَبِيهِ وَسَأَلْتُکَ هَلْ کُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْکَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ فَذَکَرْتَ أَنْ لَا فَقَدْ أَعْرِفُ أَنَّهُ لَمْ يَکُنْ لِيَذَرَ الْکَذِبَ عَلَی النَّاسِ وَيَکْذِبَ عَلَی اللہِ وَسَأَلْتُکَ أَشْرَافُ النَّاسِ اتَّبَعُوهُ أَمْ ضُعَفَاءهُمْ فَذَکَرْتَ أَنَّ ضُعَفَاءَهُمْ اتَّبَعُوهُ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ وَسَأَلْتُکَ أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ فَذَکَرْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ وَکَذَلِکَ أَمْرُ الْإِيمَانِ حَتَّی يَتِمَّ وَسَأَلْتُکَ أَيَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ فَذَکَرْتَ أَنْ لَا وَکَذَلِکَ الْإِيمَانُ حِينَ تُخَالِطُ بَشَاشَتُهُ الْقُلُوبَ وَسَأَلْتُکَ هَلْ يَغْدِرُ فَذَکَرْتَ أَنْ لَا وَکَذَلِکَ الرُّسُلُ لَا تَغْدِرُ وَسَأَلْتُکَ بِمَا يَأْمُرُکُمْ فَذَکَرْتَ أَنَّهُ يَأْمُرُکُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِکُوا بِهِ شَيْئًا وَيَنْهَاکُمْ عَنْ عِبَادَةِ الْأَوْثَانِ وَيَأْمُرُکُمْ بِالصَّلَاةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ فَإِنْ کَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَسَيَمْلِکُ مَوْضِعَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ وَقَدْ کُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ وَلَمْ أَکُنْ أَظُنُّ أَنَّهُ مِنْکُمْ فَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَتَجَشَّمْتُ لِقَائَهُ وَلَوْ کُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ ثُمَّ دَعَا بِکِتَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي بَعَثَ بِهِ مَعَ دِحْيَةِ الکَلبْيِّ إِلَی عَظِيمِ بُصْرَی فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَی إِلَی هِرَقْلَ فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللہِ وَرَسُولِهِ إِلَی هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلَامٌ عَلَی مَنْ اتَّبَعَ الْهُدَی أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوکَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ يُؤْتِکَ اللہُ أَجْرَکَ مَرَّتَيْنِ فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْکَ إِثْمَ الْيَرِيسِيِّينَ وَ يَا أَهْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا إِلَی کَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ أَنْ لَا نَعْبُدَ إِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِکَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللہِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَلَمَّا قَالَ مَا قَالَ وَفَرَغَ مِنْ قِرَائَةِ الْکِتَابِ کَثُرَ عِنْدَهُ الصَّخَبُ فَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَأُخْرِجْنَا فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ أُخْرِجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي کَبْشَةَ إِنَّهُ يَخَافُهُ مَلِکُ بَنِي الْأَصْفَرِ فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّی أَدْخَلَ اللہُ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ وَکَانَ ابْنُ النَّاطُورِ صَاحِبُ إِيلِيَاءَ وَهِرَقْلَ سُقُفَّ عَلَی نَصَارَی الشَّأْمِ يُحَدِّثُ أَنَّ هِرَقْلَ حِينَ قَدِمَ إِيلِيَاءَ أَصْبَحَ يَوْمًا خَبِيثَ النَّفْسِ فَقَالَ بَعْضُ بَطَارِقَتِهِ قَدْ اسْتَنْکَرْنَا هَيَأْتَکَ قَالَ ابْنُ النَّاطُورِ وَکَانَ هِرَقْلُ حَزَّاءً يَنْظُرُ فِي النُّجُومِ فَقَالَ لَهُمْ حِينَ سَأَلُوهُ إِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ حِينَ نَظَرْتُ فِي النُّجُومِ مَلِکَ الْخِتَانِ قَدْ ظَهَرَ فَمَنْ يَخْتَتِنُ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَالُوا لَيْسَ يَخْتَتِنُ إِلَّا الْيَهُودُ فَلَا يُهِمَّنَّکَ شَأْنُهُمْ وَاکْتُبْ إِلَی مَدَايِنِ مُلْکِکَ فَيَقْتُلُوا مَنْ فِيهِمْ مِنْ الْيَهُودِ فَبَيْنَا هُمْ عَلَی أَمْرِهِمْ أُتِيَ هِرَقْلُ بِرَجُلٍ أَرْسَلَ بِهِ مَلِکُ غَسَّانَ يُخْبِرُ عَنْ خَبَرِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا اسْتَخْبَرَهُ هِرَقْلُ قَالَ اذْهَبُوا فَانْظُرُوا أَمُخْتَتِنٌ هُوَ أَمْ لَا فَنَظَرُوا إِلَيْهِ فَحَدَّثُوهُ أَنَّهُ مُخْتَتِنٌ وَسَأَلَهُ عَنْ الْعَرَبِ فَقَالَ هُمْ يَخْتَتِنُونَ فَقَالَ هِرَقْلُ هَذَا مُلْکُ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَدْ ظَهَرَ ثُمَّ کَتَبَ هِرَقْلُ إِلَی صَاحِبٍ لَهُ بِرُومِيَةَ وَکَانَ نَظِيرَهُ فِي الْعِلْمِ وَسَارَ هِرَقْلُ إِلَی حِمْصَ فَلَمْ يَرِمْ حِمْصَ حَتَّی أَتَاهُ کِتَابٌ مِنْ صَاحِبِهِ يُوَافِقُ رَأْيَ هِرَقْلَ عَلَی خُرُوجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَّهُ نَبِيٌّ فَأَذِنَ هِرَقْلُ لِعُظَمَاءِ الرُّومِ فِي دَسْکَرَةٍ لَهُ بِحِمْصَ ثُمَّ أَمَرَ بِأَبْوَابِهَا فَغُلِّقَتْ ثُمَّ اطَّلَعَ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الرُّومِ هَلْ لَکُمْ فِي الْفَلَاحِ وَالرُّشْدِ وَأَنْ يَثْبُتَ مُلْکُکُمْ فَتُبَايِعُوا هَذَا النَّبِيَّ فَحَاصُوا حَيْصَةَ حُمُرِ الْوَحْشِ إِلَی الْأَبْوَابِ فَوَجَدُوهَا قَدْ غُلِّقَتْ فَلَمَّا رَأَی هِرَقْلُ نَفْرَتَهُمْ وَأَيِسَ مِنْ الْإِيمَانِ قَالَ رُدُّوهُمْ عَلَيَّ وَقَالَ إِنِّي قُلْتُ مَقَالَتِي آنِفًا أَخْتَبِرُ بِهَا شِدَّتَکُمْ عَلَی دِينِکُمْ فَقَدْ رَأَيْتُ فَسَجَدُوا لَهُ وَرَضُوا عَنْهُ فَکَانَ ذَلِکَ آخِرَ شَأْنِ هِرَقْلَ قَالَ أبُوعَبْدِ اللهِ رَوَاهُ صَالِحُ بْنُ کَيْسَانَ وَيُونُسُ وَمَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ۔
۶۔ابوالیمان ، حکم بن نافع، شعیب، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ابن عباس سے سفیان بن حرب نے بیان کیا کہ ہرقل نے ان کے پاس ایک شخص کو بھیجا (اور وہ اس وقت قریش کے چند سرداروں میں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ لوگ شام میں تاجر کی حیثیت سے گئے تھے (یہ واقعہ اس زمانے میں ہوا) جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوسفیان اور دیگر کفار قریش سے ایک محدود عہد کیا تھا، غرض! سب قریش ہرقل کے پاس آئے، یہ لوگ اس وقت ایلیا میں تھے، تو ہرقل نے ان کو اپنے پاس دربار میں طلب کیا، اور اس کے گرد سرداران روم (بیٹھے ہوئے) تھے، پھر ان (سب قریشیوں) کو اس نے (اپنے قریب بلایا) اپنے ترجمان کو طلب کیا قریشیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم میں سب سے زیادہ اس شخص کا قریب النسب کون ہے، جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں، میں نے کہا میں ان سب سے زیادہ ان کا قریبی رشتہ دار ہوں، یہ سن کر ہرقل نے کہا کہ ابوسفیان کو میرے قریب کردو اور اس کے ساتھیوں کو بھی اس کے قریب رکھو، اور ان کو ابوسفیان کی پس پشت کھڑا کردو، پھر ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص کا حال پوچھتا ہوں (جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے اگر مجھ سے جھوٹ بیان کرے، تو تم فورا اس کی تکذیب کردینا (ابوسفیان کہتے ہیں کہ) اللہ کی قسم اگر مجھے اس بات کی غیرت نہ ہوتی کہ لوگ میرے اوپر جھوٹ بولنے کا الزام لگائیں گے تو یقینا میں آپ کی نسبت غلط باتیں بیان کردیتا، غرض سب سے پہلے جو ہرقل نے مجھ سے پوچھا، وہ یہ تھا کہ اس نے کہا کہ اس کا نسب تم لوگوں میں کیسا ہے؟ میں نے کہا وہ ہم میں بڑے نسب والے ہیں، پھر ہرقل نے کہا کہ کیا تم میں سے کسی نے اس سے پہلے بھی اس بات (نبوت) کا دعوی کیا ہے؟ میں نے کہا نہیں (پھر ہرقل نے) کہا، کہ کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گذرا ہے؟ میں نے کہا نہیں (پھر ہرقل نے) کہا کہ امیر لوگ ان کی پیروی کر رہے ہیں یا کمزور؟ میں نے کہا نہیں، بلکہ کمزور (پھر) ہرقل نے پوچھا آیا ان کے پیروکار (یوم فیوما) بڑھتے جاتے ہیں یا گھٹتے جاتے ہیں، میں نے کہا (کم نہیں ہوتے بلکہ) زیادہ ہوتے جاتے ہیں، ہرقل نے پوچھا، آیا ان میں سے کوئی شخص ان کے دین میں داخل ہو نے کے بعد دین کی شدت کے باعث اس دین سے خارج بھی ہوجاتا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں (پھر ہرقل نے) کہا کہ کیا وہ کبھی وعدہ خلافی کرتے ہیں؟ میں نے کہا نہیں اور اب ہم ان کی مہلت میں ہیں ہم نہیں جانتے کہ وہ اس (مہلت کے زمانہ) میں کیا کریں گے (وعدہ خلافی یا ایفائے عہد) ، ابوسفیان کہتے ہیں کہ سوائے اس کلمہ کے مجھے اور کوئی موقع نہ ملا کہ میں کوئی بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات میں داخل کر دیتا، ہرقل نے کہا آیا تم نے (کبھی) اس سے جنگ کی ہے؟ میں نے کہا ہاں، تو بولا تمہاری جنگ ان سے کیسی رہتی ہے، میں نے کہا کہ لڑائی ہمارے اور ان کے درمیان ڈول (کے مثل) رہتی ہے، کہ کبھی وہ ہم سے لے لیتے ہیں اور کبھی ہم ان سے لے لیتے ہیں (کبھی ہم فتح پاتے ہیں اور کبھی وہ) ہرقل نے پوچھا کہ وہ تم کو کیا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور شرک کی باتیں جو تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے چھوڑ دو، اور ہمیں نماز پڑھنے اور سچ بولنے اور پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اس کے بعد ہرقل نے ترجمان سے کہا کہ ابوسفیان سے کہہ دے کہ میں نے تم سے ان کا نسب پوچھا تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہارے درمیان میں اعلی نسب والے ہیں اور تمام پیغمبر اپنی قوم کے نسب میں اسی طرح (عالی نسب) مبعوث ہوا کرتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا یہ بات (اپنی نبوت کا دعوی) تم میں سے کسی اور نے بھی کیا تھا، تو تم نے بیان کیا کہ نہیں میں نے (اپنے دل میں) سمجھ لیا کہ اگر یہ بات ان سے پہلے کوئی کہہ چکا ہو تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک شخص ہے جو اس قول کی تقلید کرتے ہیں جو ان سے پہلے کہا جا چکا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ تھا، تو تم نے بیان کیا کہ نہیں، پس میں نے (اپنے دل میں) سمجھ لیا کہ ان کے باپ دادا میں سے کوئی بادشاہ ہوا ہوگا، تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک شخص ہیں جو اپنے باپ دادا کا ملک حاصل کرنا چاہتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا اس سے پہلے کہ انہوں نے یہ بات کہی ہے ان پر کبھی جھوٹ کی تہمت لگائی گئی ہے، تو تم نے کہا کہ نہیں، پس (اب) میں یقینا جانتا ہوں کہ (کوئی شخص) ایسا نہیں ہو سکتا کہ لوگوں پر جھوٹ نہ بولے اور اللہ پر جھوٹ بولے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا بڑے لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے، تو تم نے کہا کہ کمزور لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے، (دراصل) تمام پیغمبروں کے پیر ویہی لوگ (ہوتے رہے) ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے پیرو زیادہ ہوتے جاتے ہیں یا کم ہوتے جاتے ہیں، تو تم نے بیان کیا کہ وہ زیادہ ہوتے جاتے ہیں (درحقیقت) ایمان کا کمال کو پہنچنے تک یہی حال ہوتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص اس کے بعد ان کے دین میں داخل ہوجائے ان کے دین سے ناخوش ہو کر (دین سے) پھر بھی جاتا ہے؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں اور ایمان کی یہی صورت ہے، جب کہ اس کی بشاشت دلوں میں بیٹھ جائے، اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا وہ وعدہ خلافی کرتے ہیں تو تم نے بیان کیا کہ نہیں (بات یہ ہے کہ) اسی طرح تمام پیغمبر وعدہ خلافی نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا کہ وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہیں یہ حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور تمہیں بتوں کی پرستش سے منع کرتے ہیں اور تمہیں نماز پڑھنے اور سچ بولنے اور پرہیزگاری کا حکم دیتے ہیں، پس اگر تمہاری کہی ہوئی بات سچ ہے تو عنقریب وہ میرے ان قدموں کی جگہ کے مالک ہو جائیں گے اور بے شک میں (کتب سابقہ سے) جانتا تھا کہ وہ ظاہر ہونے والے ہیں، مگر میں یہ نہ جانتا تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے، پس اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکوں گا، تو یقینا میں ان سے ملنے کا بڑا اہتمام کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو یقینا میں ان کے پیروں کو دھوتا، پھر ہرقل نے رسول اللہ کا (مقدس) خط جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دحیہ کلبی کے ہمراہ امیر بصریٰ کے پاس بھیجا تھا اور امیر بصریٰ نے اس کو ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا، منگوایا، اور اس کو پڑھوایا، تو اس میں یہ مضمون تھا اللہ نہایت مہربان رحم کرنے والے کے نام سے (یہ خط ہے) اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبرمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے بادشاہ روم کی طرف، اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے، اس کے بعد واضح ہو کہ میں تم کو اسلام کی طرف بلاتا ہوں، اسلام لاؤ گے تو (قہرالہی) سے بچ جاؤ گے اور اللہ تمہیں تمہارا دو گنا ثواب دے گا اگر تم (میری دعوت سے) منہ پھیرو گے تو بلاشبہ تم پر (تمہاری) تمام رعیت (کے ایمان نہ لانے) کا گناہ ہوگا اور اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان میں مشترک ہے یعنی یہ کہ ہم اور تم خدا کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا پروردگار بنائے، خدا فرماتا ہے کہ پھر اگر اہل کتاب اس سے اعراض کریں تو تم کہہ دنیا کہ اس بات کے گواہ رہو کہ ہم خدا کی اطاعت کرنے والے ہیں، ابوسفیان کہتے ہیں کہ جب ہرقل نے جو کچھ کہا کہہ چکا اور (آپکا) خط پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے ہاں شور زیادہ ہوا، آوازیں بلند ہوئیں اور ہم لوگ (وہاں سے) نکال دیئے گئے، تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ (دیکھو تو) ابوکبشہ کے بیٹے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام ایسا بڑھ گیا کہ اس سے بنی اصفر (روم) کا بادشاہ خوف رکھتا ہے، پس اس وقت سے مجھے ہمیشہ کے لئے اس کا یقین ہوگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ضرور غالب ہوجائیں گے، یہاں تک کہ اللہ نے مجھے اسلام میں داخل فرمایا اور ابن ناطور ایلیا کا حاکم تھا اور ہرقل شام کے نصرانیوں کا سردار تھا، بیان کیا جاتا ہے کہ ہرقل جب ایلیا میں آیا تو ایک دن صبح کو بہت پریشان خاطرا اٹھا، تو اس کے بعض خواص نے کہا کہ ہم (اس وقت) آپ کی حالت خراب پاتے ہیں؟ ابن ناطور کہتا ہے کہ ہرقل کاہن تھا، نجوم میں مہارت رکھتا تھا اس نے اپنے خواص سے جب کہ انہوں نے پوچھا، یہ کہا کہ میں نے رات کو جب نجوم میں نظر کی، تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والا بادشاہ غالب ہوگیا تو (دیکھو کہ) اس زمانہ کے لوگوں میں ختنہ کون کرتا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ سوائے یہود کے کوئی ختنہ نہیں کرتا، سو یہود کی طرف سے آپ اندیشہ نہ کریں اور اپنے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں لکھ بھیجئے کہ جتنے یہود وہاں ہیں سب قتل کردیئے جائیں، پس وہ لوگ اپنی اس تدبیر میں تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی لایا گیا، جسے غسان کے بادشاہ نے بھیجا تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر بیان کی، جب ہرقل نے اس سے یہ خبر معلوم کی، تو کہا کہ جاؤ اور دیکھو کہ وہ ختنہ کئے ہوئے ہے کہ نہیں، لوگوں نے اس کو دیکھا تو بیان کیا کہ وہ ختنے کئے ہوئے ہیں، اور ہرقل نے اس سے عرب کا حال پوچھا، تو اس نے کہا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں، تب ہرقل نے کہا کہ یہی (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس زمانہ کے لوگوں کا بادشاہ ہے، جو روم پر غالب آئے گا، پھر ہرقل نے اپنے دوست کو رومیہ (یہ حال) لکھ کر بھیجا اور وہ علم (نجوم) میں اسی کا ہم پایہ تھا اور (یہ لکھ کر) ہرقل حمص کی طرف چلا گیا، پھر حمص سے باہر نہیں جانے پایا کہ اس کے دوست کا خط (اسکے جواب میں) آگیا وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کے بارے میں ہرقل کی رائے کی موافقت کرتا تھا اور یہ (اس نے لکھا تھا) کہ وہ نبی ہیں اس کے بعد ہرقل نے سرداران روم کو اپنے محل میں جو حمص میں تھا، طلب کیا اور حکم دیا کہ محل کے دروازے بند کر لئے جائیں تو وہ بند کر دئیے گئے اور ہرقل (اپنے گھر سے) باہر آیا تو کہا کہ اے روم والو کیا ہدایت اور کامیابی میں (کچھ حصہ) تمہارا بھی ہے اور (تمہیں) یہ منظور ہے کہ تمہاری سلطنت قائم رہے (اگر ایسا چاہتے ہو) تو اس نبی کی بیعت کر لو، تو (اسکے سنتے ہی) وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف بھا گے، تو کواڑوں کو بند پایا بالآخر جب ہرقل نے اس درجے ان کی نفرت دیکھی اور (ان کے) ایمان لانے سے مایوس ہوگیا، تو بولا کہ ان لوگوں کو میرے پاس واپس لاؤ (جب وہ آئے تو ان سے) کہا میں نے یہ بات ابھی جو کہی تو اس سے تمہارے دین کی مضبوطی کا امتحان لینا تھا وہ مجھے معلوم ہوگئی تب لوگوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہو گئے، ہرقل کی آخری حالت یہی رہی ابوعبد اللہ کہتا ہے کہ اس حدیث کو (شعیب کے علاوہ) صالح بن کیسان اور یونس اور معمر نے (بھی) زہری سے روایت کیا ہے۔