PDA

View Full Version : نماز تراویح کی فضیلت



Anmol
06-02-2014, 12:29 AM
نماز تراویح کی فضیلت


سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اور اس کی راتوں میں قیام کیا(تراویح ادا کی) اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے گئے.
رمضان المبارک میں عشاء کی نماز کے بعد وتر سے پہلے جو بیس رکعت نماز ادا کرتے ہیں، اسے ہم تراویح کے نام سے اس لئے پکارتے ہیں کہ اس میں ہر چار رکعات کے بعد تھوڑی دیر بیٹھتے ہیں، اس بیٹھنے کو ترویحہ کہتے ہیں. تراویح ترویح کی جمع ہے. ترویحہ کے معنی استراحت کے ہیں جو راحت جیسے مشتق ہے. چونکہ بیس رکعت تراویح میں پانچ ترویحے ہوتے ہیں، اس لئے اسے نماز تراویح کہتے ہیں. نماز پڑھنا شریعت کی نظر میں راحت ہے، جیسا کہ ہادیِ برحق سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلّم نے اسشاد فرمایا: “نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے” ایک اور حدیث میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں، ایک افطار کے وقت اور دوسری خوشی اس وقت، جب اپنے رب سے ملاقات کرتا ہے” بظاہر ملاقات سے مراد تراویح ہے.
نماز تراویح کا طریقہ وہی ہے جو دیگر نمازوں کا ہے اور اس کی نیت اس طریقے سے ہے” میں دو رکعت نماز تراویح پڑھنے کی نیت کرتا ہوں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی سنت ہے” کہہ کر اللہ اکبر کی نیت باندھ لے، تراویح کے لئے شروع میں بیس رکعت کی نیت کافی ہے. ہر دو رکعت پر نیت شرط نہیں مگر ہر دو رکعت پر نیت کر لینا بہتر ہے. دل کی نیت بھی کافی ہے.
پورے رمضان المبارک میں دوران تراویح ایک مرتبہ قرآن مجید کا پڑھنا سنّت مؤکدہ ہے.
جب رمضان المبارک کا چاند دیکھا جائے، اس رات سے تراویح شروع کی جائے اور جب عید کا چاند نظر آئے تو چھوڑ دی جائے. پورے ماہ تراویح پڑھنا سنّت مؤکدہ ہے. اگرچہ تراویح میں قرآن مہینے سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے مثلاً تین دن، دس، پندرہ، اکیس، ستائیس وغیرہ میں، باقی دنوں میں تراویح پڑھنا سنّت مؤکدہ ہے.
تراویح سنّت مؤکدہ ہے. بلا عذر ان کو چھوڑنے والا گنہگار ہے. خلفائے راشدین، صحابہ کرام اور سلف صالحین سے اس کی پابندی ثابت ہے. سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا، مجھے خیال ہوا کہ کہیں تراویح فرض نہ ہو جائیں، اس وجہ سے آپ نے مواظبت نہیں فرمائی. حقیقت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلّم کا یہ فرمانا خود ہی اس کے اہتمام کی کھلی دلیل ہے کہ کسی شخص کا یہ کہنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے تراویح ترک کیں، میں بھی چھوڑتا ہوں، قطعاً نا قابلِ قبول اور نا واقفیت پر مبنی ہے.
اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتاتو وہ نماز تراویح ضرور ادا کرے، اس کا اجروثواب ضرور ملے گا. لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ جو روزہ نہ رکھے، وہ تراویح بھی نہ پڑھے یا تراویح کے بغیر روزہ ادا نہ ہو گا. یہ دونوں ایک دوسرے کے تابع نہیں، دونوں کا الگ الگ ثواب ہے. یہ الگ بات ہے کہ بغیر عذرِ شرعی کے روزہ چھوڑنا سخت عزاب، وبال کا باعث ہے.
رمضان المبارک کا مہینہ بڑا سعادتوں والا ہے. اس ماہِ مبارک میں ہر نفل عمل کا اجروثواب فرض کے برابر ملتا ہے. اور ہر فرض کا ستّر فرائض کے برابر، مساجد نمازیوں سے بھر جاتی ہیں، دل خودبخود اللہ کی طرف مائل ہو جاتا ہے. ایسی صورت میں ہم ہمہ تن اللہ کی طرف فجوع کریں. پوری امّت مسلمہ، اپنے ملک کے لئے اللہ کے حضور گڑگڑا کر کر دعا کرے اور پورے مہینے فرائض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ عبادت کے لئے وقف کر دے.
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلّم کا فرمان ہے: جو لوگ ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام (تراویح پڑھیں گے) کریں گے، ان کے سب پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے. قرآن کریم کی ایک حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور رمضان میں ہر نیکی کا ثواب ستّر گنا زیادہ ہوتا ہے. یعنی صرف “الم” کی تلاوت پر ہمیں دو سو نیکیاں مل گئیں، یہ کم از کم ہیں، تو حقیقت میں اس سے بہت زیادہ ہیں، اور جو فضیلت پڑھنے والے کے لئے ہے وہی سننے والے کے لئے بھی ہے. (سبحٰن اللہ)ہ

Mamin Mirza
06-02-2014, 11:23 AM
Jazak Allah....................!!!

patriot19472001
06-02-2014, 12:01 PM
jazak allah khair.....!!!

Ria
06-02-2014, 04:06 PM
Jazak illah ho khair

UmerAmer
06-02-2014, 08:42 PM
JazakAllah