Log in

View Full Version : pakhana'khoor makhlooq



Dr Maqsood Hasni
06-01-2014, 09:37 PM
 

پاخانہ خور مخلوق
 


جواب بڑا حیران کن تھا۔ میرے سمیت‘ چار سو سے زائد لوگوں میں سے‘ ایک بھی‘ جواب دیانت دار کے دروازے سے‘ گزرتا ہوا نہ ملا۔ کچھ لوگ‘ ایسے بھی تھے‘ جو دن میں‘ ایک آدھ بار سے زیادہ مسجد گیے ہوں گے۔ ایک صاصب‘ پیشاب کرنے کی غرض سے‘ مسجد تشریف لے جاتے تھے۔ دیکھنے والا‘ یہ ہی سمجھتا‘ مسجد سے نماز پڑھ کر‘ نکلے ہیں۔ یہ بھی‘ ان کی سماجی مجبوری تھی۔ ان کی دکان‘ مسجد کے سامنے تھی۔ ایک صاحب‘ صبح سویرے‘ غسل شب فرمانے کے لیے‘ تشریف لے جاتے تھے۔ سب‘ خود کو پانچ وقتا بتا رہے تھے۔

میاں طارق صاحب کو‘ میں ذاتی طور پر‘ جانتا تھا۔ زکوت دینا‘ تو بڑی دور کی بات‘ فقیر کو دو ٹیڈی پیسے دیتے‘ موت پڑتی تھی۔ میاں طارق صاحب بڑے مال دار تھے۔ ان کے والد‘ خیر خیریت سے گزر گیے‘ ہاں البتہ‘ ماں بیمار بڑی‘ تو خیراتی ہسپتال کے‘ برآمدے میں پانچ دن‘ سسکتی بلکتی رہی۔ اس کے نصیب میں‘ ان پر‘ دو دمڑی خرچ کرنا نصیب نہ ہوئی۔ ہم سائے تو دور کی بات‘ اپنے سگے بہن بھائیوں کے ساتھ‘ میٹھا بولنے پر ان کا خرچا اٹھتا تھا۔
جہاں یہ اچھی تبدیلیاں آئی ہیں‘ وہاں دو تین پرانی عادتوں کو‘ تقویت ملی ہے۔ پہلے رو دھو کر سہی‘ معاوضہ ادا تو کر دیتا تھا‘ لیکن اب‘ معاوضہ اگلے کام پر اٹھا رکھتا ہے۔ مجال اے‘ جو مزدور اگلے کام پر آنے سے‘ چوں چرا کرے۔ ہاں زبان میں‘ سرزنش آمیز میٹھاس سی آ گئی ہے۔ کام ختم کرنے کے وقت‘ اسے کوئی ایمرجنسی یاد آ جاتی ہے۔ اس طرح‘ مزدور سے‘ ڈیڑھ دو گھنٹے‘ زیادہ کام لے لیتا ہے۔ مال دو نمبر سہی‘ استعمال پورا کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے‘ پتا نہیں کب جان نکل جائے‘ اس لیے حرام کمائی کو حرام ہی سمجھتا ہوں۔

الحاج صلاح الدین‘ علاقے کا بڑا معزز اور معتبر شخص ہے۔ اسی لیے‘ بھاری اکثریت کے ساتھ‘ علاقے کا ممبر چنا گیا ۔ کبھی کسی کو‘ مایوس نہیں کرتا۔ جو بھی اس کے ڈیرے پر آتا ہے‘ آس امید کی پنڈ باندھ کر‘ لے جاتا ہے۔ یہ بات‘ بالکل الگ سے ہے‘ کہ کام صرف اپنوں کے کرواتا ہے۔ ان کو مایوس کیوں کرئے‘ وہ ہی تو‘ اس کا ڈیرہ‘ رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔ پہلے ڈھائی مرلہ کے خستہ حال مکان میں‘ اقامت رکھتے تھے‘ اب خیر سے‘ ڈیڑھ کنال کی کوٹھی میں‘ گزرا کرتے ہیں۔
آج کل‘ دلال کو دلال نہیں‘ ایجنٹ کہتے ہیں۔ ملک اورنگ زیب المعروف جانگو‘ آج کل‘ دلال نہیں‘ خود کو‘ پراپرٹی ایجنٹ کہتے ہیں۔ جھوٹ سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ ہر بات پر‘ بلاکہے‘ قسم کھانا‘ نہیں بھولتے۔ علاقے کے کھاتے پیتے اور خوش حال لوگوں میں‘ شمار ہوتے ہیں۔ ان کے جھوٹ کو‘ جھوٹ کہا نہیں جا سکتا۔ یہ بات اپنی جگہ سچ ہے‘ سچ سے پرہیز میں رہتے ہیں۔ جو بھی سہی‘ پانچ وقت کے نمازی ہیں۔ مزے کی بات یہ‘ کہ ہر نماز باجماعت پڑھتے ہیں۔ ان کی اس خوبی کا‘ پورا علاقہ معترف ہے۔
خان قاسم خان‘ کچہری میں کام کرتے ہیں۔ علاقے کے لوگ‘ خصوصا جرائم پیشہ کے تو گرو ہیں۔ مجرم کو بھی‘ ان پوشیدہ امور کا‘ پتا نہیں ہوتا‘ جن کا وہ نالج رکھتے ہیں۔ گواہی‘ حلف اٹھا کر دیتے ہیں۔ وہ وہ بیان کرتے ہیں‘ کہ مخالف وکیل کی بھی‘ بس بس کرا دیتے ہیں۔ مجرم کو بھی‘ اپنی بےگناہی کا‘ یقین آ جاتا ہے۔ ان کے کسی کہے کو‘ جھٹلانے سے‘ سرکاری پاپ لگتا ہے۔
ایک بات ہے‘ کہ وہ ہیں پانچ وقتے نمازی‘ اور حق سچ کی تلقین کرنے‘ اور اچھا اور پکا مسلمان بننے
کی ہدایت‘ کرتے رہتے ہیں۔ اس ذیل میں‘ تساہل اور کوتاہ کوسی‘ گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ اگرچہ ان کی باتوں پر ‘عمل ایک آدھ بھی‘ نہیں کرتا۔ اس پر وہ مایوس نہیں ہوئے۔ ان کا قول ہے:
نماز میرا فرض گواہی میرا پیشہ۔

محترمہ ڈاکٹر نور جہاں صاحبہ‘ علاقہ کی‘ بےبدل سیانی ہیں۔ پچھلے سال‘ حج کرکے آئی ہیں۔ ساتھ میں‘ بوڑھی ماں کو بھی‘ حج کرا کر‘ ثواب دورین حاصل کر چکی ہیں۔ ان کی موت کے بعد‘ ان کی قبر کو‘ پکا ہی نہیں ‘ سنگ مرمر سے‘ آراستہ بھی کروایا ہے۔ تھوڑی دور‘ باپ کی قبر‘ اپنی لاوارثی کا‘ شکوہ کرتی نظر آتی ہے۔ مادری سوسائٹی کی پیدائشی و رہائشی ہیں۔

پہلے ایل ایچ وی تھیں۔ ڈاکٹر کے سابقے کے لیے‘ ہومیو پیتھک کورس کیا۔ ویسے علاج‘ ایلوپیتھک طریقہ سے ہی‘ کرتی ہیں۔ ڈیلوری اور ابارشن کیسز میں ماہر ہیں۔ زیادہ تر‘ ثانی الذکر کیسز کرتی ہیں‘ تاہم منکوعہ ابارشن‘ مال معقول نہ ملنے کے سبب‘ انسانی قتل سمجھتی ہیں۔ اس طرح انہیں‘ کنبوں کی عزت کی محافظ‘ قرار دیا ج سکتا ہے۔ غیر منکوحہ ابارشن میں‘ منہ مانگی رقم مل جاتی ہے۔ نماز اور زکوت میں‘ کوتاہی نہیں کرتیں۔ زکوت کی رقم‘ غیریب بہنوں کو‘ ہم دری کیسز قرار دے کر‘ عطا کرتی ہیں۔

رزق حرام کو‘ میں نے ساری عمر‘ پاخانہ کھانے کے مترادف سمجھا‘ مانا اور کہا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے‘ کہ میں نے بھی‘ بارہا یہ پاخانہ کبھی کھایا‘ اور کبھی محض ٹیسٹ کیا ہے۔ اپنی جیب اور غیر کی جیب سے‘ کھانے میں‘ بڑا فرق ہے۔ اس علاقہ میں بسے‘ مجھے ایک عرصہ بیت گیا ہے۔ سب سے‘ میری اچھی سلام دعا ہے۔ ان معززین میں سے‘ کوئی میرے ہاں آ جاتا ہے‘ چائے پانی پلانا پڑتا ہے۔ ان لوگوں کی غمی خوشی میں‘ جانا اور کھانا پڑتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے‘ کہ وہ کس قسم کی کمائی سے بنا ہے‘ مروتا کھانا ہوں‘ اور پھر کیا کروں۔ یہ سماجی معذوری ہے‘ کیا کریں۔

سروے کے مطابق‘ یہاں کے شرفا بڑے نیک اور حاجی ثناءالله ہیں لیکن عملی اعتبار سے‘ حرام خور ہیں۔ مانیں نہ مانیں‘ آپ کی مرضی۔ حقیقت یہ ہی ہے‘ کہ ہم کسی ناکسی سطح پر‘ حرام خور ہیں۔۔۔۔۔ حرام خور۔۔۔۔۔۔۔اسی وجہ سے ہم پوری دنیا میں ذلیل وخوار ہیں۔
سروے کے بعد‘ مجھے بڑا دکھ ہوا‘ کہ انسانوں کی اس بستی میں‘ مجھ سمیت‘ جھوٹی‘ انسان سی‘ پاخانہ خور مخلوق‘ بھی آباد ہے‘ جس کے سبب‘ خرابیوں نے‘ جنم لے کر‘ اس چاند سی بستی کی‘ خوب صورتی کو‘ گہنا دیا ہے۔

KhUsHi
08-28-2015, 05:39 PM
Thanks for sharing

Dr Maqsood Hasni
08-29-2015, 08:50 AM
shukarriya janab