Anmol
06-01-2014, 09:15 PM
http://pakistaniadab.files.wordpress.com/2010/08/ramzan_mubarak.jpg?w=455&h=351
حضرت سلیمان رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی آخری تاریخ میں ہم لوگوں کو وعظ فرمایا کہ تمہارے اوپر ایک مہینہ آرہا ہے جو بہت بڑا مہینہ ہے. اس میں ایک رات ہے، (شب قدر) جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے اللہ تعالٰی نے اس کے روزہ کو فرض فرمایا اور اس کے رات کے قیام (یعنی تراویح) کو ثواب کی چیز بنایا ہے. جو شخص اس مہینہ میں نیکی کے ساتھ اللہ کا قرب حاصل کرے، ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں فرض کو ادا کیا اور جو شخص اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا کرے وہ ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں ستر فرض ادا کئے. یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے. اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے.
جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے، اس کے لئے گناہوں کے معاف ہونے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہو گا، اور روزہ دار کے ثواب کی مانند اس کو ثواب ہو گا مگر اس روزہ دار کے ثواب میں سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا. صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے ہر شخص تو اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ روزہ دار لو افطار کرائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (پیٹ بھر کھلانے پر موقوف نہیں) یہ ثواب تو اللہ جل شانہ، ایک کھجور سے کوئی افطار کرا دے یا ایک گھونٹ پانی پلا دے یا ایک گھونٹ لسی پلا دے اس پر بھی مرحمت فرما دیتے ہیں. یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اوٓل حصٓہ اللہ کی رحمت ہے اور درمیانی حصٓہ مغفرت ہے اور آخری حصٓہ آگ سے آزادی پے جو شخص اس مہینہ میں ہلکا کردے اپنے غلام (خادم) کے بوجھ کو حق تعالٰی اس کی مغفرت فرماتے ہیں اور آگ سے آزادی فرماتے ہیں.
چار چیزوں کی اس میں کثرت رکھا کرو جن میں سے دو چیزیں اللہ کی رضا کے واسطے اور دو چیزیں ایسی ہیں کہ جن سے تمہیں چارہ کار نہیں. پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور آگ سے پناہ ماگو. جو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلائے حق تعالٰی (قیامت کے دن) میرے حوض سے اس کو ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
“جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنات قید کر دئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے سارے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، پھر اس کا کوئی دروازہ کھلا نہیں رہتا اور جنت کے تمام دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، پھر اس کا کوئی دروازہ بند نہیں رہتا اور اعلان کرنے والا (فرشتہ) یہ اعلان کرتا ہےکہ ، اے بھلائی یعنی (نیکی و ثواب) کے طلب گار! (اللہ تعا لٰی کی طرف) متوجہ ہو جا اور اے برائی کا ارادہ رکھنے والے! برائی سے باز آجا کیونکہ اللہ تعالٰی لوگوں کو آگ سے آزاد کرتا ہے (یعنی اللہ تعالٰی اس ماہ مبارک کے وسیلے میں بہت لوگوں کو آگ سے آزاد کرتا ہے، اس لئے ہو سکتا ہے کہ تو بھی ان لوگوں میں شامل ہو جائے) اور یہ اعلان رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے.”
(ترمذی و ابن ماجہ)
سونے کے دروازے والا محل
َسیدنا ابو سعید خُدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، مکی مدنی سلطان، رحمت عالمیان صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ رحمتِ نشان ہے: “جب ماہِ رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو آسمانوں اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور آخر رات تک بند نہیں ہوتے جو کوئی بندہ اس ماہِ مبارک کی کسی بھی رات میں نماز پڑھتا ہے تو اللہ عزوجل اس کے ہر سجدہ کے عوض (یعنی بدلہ میں) اس کے لئے پندرہ سو نیکیاں لکھتا ہے اور اس کے لئے جنت میں سرخ یاقوت کا گھر بناتا ہے. جس میں ساٹھ ہزار دروازے ہوں گے. اور ہر دروازے کے پٹ سونے کے بنے ہوں گے جن میں یاقوتِ سرخ جڑے ہوں گے. پس جو کوئی ماہِ رمضان کا پہلا روزہ رکھتا ہے تو اللہ عزوجل مہینے کے آخر دن تک اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے، اور اس کے لئے صبح سے شام تک ستر ہزار فرشتے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں. رات اور دن میں جب بھی وہ سجدہ کرتا ہے اس کے ہر سجدہ کے عوض (یعنی بدلے) اُسے (جنت میں) ایک ایسا درخت عطا کیا جاتا ہے کہ اس کے سائے میں گھوڑے پر سوار پانچ سو برس تک چلتا رہے.”
(شُعَبُ الایمان، ج3، ص314، حدیث 3635)
بڑی بڑی آنکھ والی حوریں
حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رحمتِ عالم، نُورِ مُجسم، حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان معظم ہے: “جنت کو رمضان المبارک کے لئے خوشبوؤں کی دھونی دی جاتی ہے اور شروع سال سے آخر تک اسے آراستہ کیا جاتا ہے. جب رمضان شریف کی پہلی تاریخ آتی ہے تو عرشِ عظیم کے نیچے سے مَثِیرہ (مَ . ثِی . رَہ) نامی ہوا چلتی ہے جو جنت کے درختوں کے پتوں کو ہلاتی ہے. اس ہوا کے چلنے سے ایسی دلکش آواز بلند ہوتی ہے کہ اس سے بہتر آواز آج تک کسی نے نہیں سنی. اس آواز کو سن کر بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ظاہر ہوتی ہیں یہاں تک کہ جنت کے بلند محلوں پر کھڑی ہو جاتی ہیں اور کہتی ہیں: “ہے کوئی جو ہم کو اللہ تعالٰی سے مانگ لے کہ ہمارا نکاح اس سے ہو؟” پھر وہ حوریں داروغہء جنت (حضرت) رضوان (علیہ االصلٰوۃ والسلام) سے پوچھتی ہیں: “آج یہ کیسی رات ہے؟” (حضرت) رضوان (علیہ االصلٰوۃ والسلام) جواباً تَلبِیہ (یعنی لبیک) کہتے ہیں ، پھر کہتے ہیں: “یہ ماہ رمضان کی پہلی رات ہے، جنت کے دروازے اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزےداروں کے لئے کھول دیئے گئے ہیں.”
(الترغیب و الترہیب، ج2، ص60، حدیث 23)
روزے کا اجر بے حساب ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا : “اللہ عزوجل فرماتے ہیں کہ ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزے کے، روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا، اور روزہ (آگ سے) ڈھال ہے ، لہٰذا جس روز تم میں سے کسی کا روزہ ہو اس روز وہ فحش گوئی نہ کرے اور بے ہودہ کلامی نہ کرے اور اگر کوئی دوسرااس سے گالی گلوچ کرے یا لڑائی کرے تو روزہ دار کو (صرف اتنا کہنا چاہئے کہ) میں روزہ دار ہوں ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے روزہ دار کے منہ کی خوشبو قیامت کے دن اللہ تعالٰی کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہوگی. روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جن سے وہ فرحت حاصل کرے گا، اولاً جب روزہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے، ثانیاً جب وہ اپنے رب سے ملے گا اور روزے کے بدلے میں اپنے رب سے انعام پائے گا تو خوش ہوگا.” (صحیح مسلم)
رمضان المبارک میں جبرائیل علیہ السلام کو حکم ہوتا ہے کہ سرکش شیاطین کو قید کرکے گلے میں طوق ڈال کر دریا میں پھینک دو تاکہ اُمت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کو خراب نہ کریں. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعاٰلٰی ایک منادی کرنے والے کو حکم دیتے ہیں کہ تین مرتبہ یہ آواز دے.
ہے کوئی مانگنے والا جس کو میں عطا کروں.
ہے کوئی توبہ کرنے والا جس کی میں توبہ قبول کروں.
ہے کوئی مغفرت چاہنے والا کہ میں اس کی مغفرت کروں.
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا ہے تو میری اُمت تمنا کرتی کہ کاش پورا سال رمضان ہی ہو.
حضرت سلیمان رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی آخری تاریخ میں ہم لوگوں کو وعظ فرمایا کہ تمہارے اوپر ایک مہینہ آرہا ہے جو بہت بڑا مہینہ ہے. اس میں ایک رات ہے، (شب قدر) جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے اللہ تعالٰی نے اس کے روزہ کو فرض فرمایا اور اس کے رات کے قیام (یعنی تراویح) کو ثواب کی چیز بنایا ہے. جو شخص اس مہینہ میں نیکی کے ساتھ اللہ کا قرب حاصل کرے، ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں فرض کو ادا کیا اور جو شخص اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا کرے وہ ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں ستر فرض ادا کئے. یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے. اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے.
جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے، اس کے لئے گناہوں کے معاف ہونے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہو گا، اور روزہ دار کے ثواب کی مانند اس کو ثواب ہو گا مگر اس روزہ دار کے ثواب میں سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا. صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے ہر شخص تو اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ روزہ دار لو افطار کرائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (پیٹ بھر کھلانے پر موقوف نہیں) یہ ثواب تو اللہ جل شانہ، ایک کھجور سے کوئی افطار کرا دے یا ایک گھونٹ پانی پلا دے یا ایک گھونٹ لسی پلا دے اس پر بھی مرحمت فرما دیتے ہیں. یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اوٓل حصٓہ اللہ کی رحمت ہے اور درمیانی حصٓہ مغفرت ہے اور آخری حصٓہ آگ سے آزادی پے جو شخص اس مہینہ میں ہلکا کردے اپنے غلام (خادم) کے بوجھ کو حق تعالٰی اس کی مغفرت فرماتے ہیں اور آگ سے آزادی فرماتے ہیں.
چار چیزوں کی اس میں کثرت رکھا کرو جن میں سے دو چیزیں اللہ کی رضا کے واسطے اور دو چیزیں ایسی ہیں کہ جن سے تمہیں چارہ کار نہیں. پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور آگ سے پناہ ماگو. جو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلائے حق تعالٰی (قیامت کے دن) میرے حوض سے اس کو ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
“جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنات قید کر دئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے سارے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، پھر اس کا کوئی دروازہ کھلا نہیں رہتا اور جنت کے تمام دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، پھر اس کا کوئی دروازہ بند نہیں رہتا اور اعلان کرنے والا (فرشتہ) یہ اعلان کرتا ہےکہ ، اے بھلائی یعنی (نیکی و ثواب) کے طلب گار! (اللہ تعا لٰی کی طرف) متوجہ ہو جا اور اے برائی کا ارادہ رکھنے والے! برائی سے باز آجا کیونکہ اللہ تعالٰی لوگوں کو آگ سے آزاد کرتا ہے (یعنی اللہ تعالٰی اس ماہ مبارک کے وسیلے میں بہت لوگوں کو آگ سے آزاد کرتا ہے، اس لئے ہو سکتا ہے کہ تو بھی ان لوگوں میں شامل ہو جائے) اور یہ اعلان رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے.”
(ترمذی و ابن ماجہ)
سونے کے دروازے والا محل
َسیدنا ابو سعید خُدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، مکی مدنی سلطان، رحمت عالمیان صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ رحمتِ نشان ہے: “جب ماہِ رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو آسمانوں اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور آخر رات تک بند نہیں ہوتے جو کوئی بندہ اس ماہِ مبارک کی کسی بھی رات میں نماز پڑھتا ہے تو اللہ عزوجل اس کے ہر سجدہ کے عوض (یعنی بدلہ میں) اس کے لئے پندرہ سو نیکیاں لکھتا ہے اور اس کے لئے جنت میں سرخ یاقوت کا گھر بناتا ہے. جس میں ساٹھ ہزار دروازے ہوں گے. اور ہر دروازے کے پٹ سونے کے بنے ہوں گے جن میں یاقوتِ سرخ جڑے ہوں گے. پس جو کوئی ماہِ رمضان کا پہلا روزہ رکھتا ہے تو اللہ عزوجل مہینے کے آخر دن تک اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے، اور اس کے لئے صبح سے شام تک ستر ہزار فرشتے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں. رات اور دن میں جب بھی وہ سجدہ کرتا ہے اس کے ہر سجدہ کے عوض (یعنی بدلے) اُسے (جنت میں) ایک ایسا درخت عطا کیا جاتا ہے کہ اس کے سائے میں گھوڑے پر سوار پانچ سو برس تک چلتا رہے.”
(شُعَبُ الایمان، ج3، ص314، حدیث 3635)
بڑی بڑی آنکھ والی حوریں
حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رحمتِ عالم، نُورِ مُجسم، حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان معظم ہے: “جنت کو رمضان المبارک کے لئے خوشبوؤں کی دھونی دی جاتی ہے اور شروع سال سے آخر تک اسے آراستہ کیا جاتا ہے. جب رمضان شریف کی پہلی تاریخ آتی ہے تو عرشِ عظیم کے نیچے سے مَثِیرہ (مَ . ثِی . رَہ) نامی ہوا چلتی ہے جو جنت کے درختوں کے پتوں کو ہلاتی ہے. اس ہوا کے چلنے سے ایسی دلکش آواز بلند ہوتی ہے کہ اس سے بہتر آواز آج تک کسی نے نہیں سنی. اس آواز کو سن کر بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ظاہر ہوتی ہیں یہاں تک کہ جنت کے بلند محلوں پر کھڑی ہو جاتی ہیں اور کہتی ہیں: “ہے کوئی جو ہم کو اللہ تعالٰی سے مانگ لے کہ ہمارا نکاح اس سے ہو؟” پھر وہ حوریں داروغہء جنت (حضرت) رضوان (علیہ االصلٰوۃ والسلام) سے پوچھتی ہیں: “آج یہ کیسی رات ہے؟” (حضرت) رضوان (علیہ االصلٰوۃ والسلام) جواباً تَلبِیہ (یعنی لبیک) کہتے ہیں ، پھر کہتے ہیں: “یہ ماہ رمضان کی پہلی رات ہے، جنت کے دروازے اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزےداروں کے لئے کھول دیئے گئے ہیں.”
(الترغیب و الترہیب، ج2، ص60، حدیث 23)
روزے کا اجر بے حساب ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا : “اللہ عزوجل فرماتے ہیں کہ ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزے کے، روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا، اور روزہ (آگ سے) ڈھال ہے ، لہٰذا جس روز تم میں سے کسی کا روزہ ہو اس روز وہ فحش گوئی نہ کرے اور بے ہودہ کلامی نہ کرے اور اگر کوئی دوسرااس سے گالی گلوچ کرے یا لڑائی کرے تو روزہ دار کو (صرف اتنا کہنا چاہئے کہ) میں روزہ دار ہوں ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے روزہ دار کے منہ کی خوشبو قیامت کے دن اللہ تعالٰی کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہوگی. روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جن سے وہ فرحت حاصل کرے گا، اولاً جب روزہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے، ثانیاً جب وہ اپنے رب سے ملے گا اور روزے کے بدلے میں اپنے رب سے انعام پائے گا تو خوش ہوگا.” (صحیح مسلم)
رمضان المبارک میں جبرائیل علیہ السلام کو حکم ہوتا ہے کہ سرکش شیاطین کو قید کرکے گلے میں طوق ڈال کر دریا میں پھینک دو تاکہ اُمت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کو خراب نہ کریں. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعاٰلٰی ایک منادی کرنے والے کو حکم دیتے ہیں کہ تین مرتبہ یہ آواز دے.
ہے کوئی مانگنے والا جس کو میں عطا کروں.
ہے کوئی توبہ کرنے والا جس کی میں توبہ قبول کروں.
ہے کوئی مغفرت چاہنے والا کہ میں اس کی مغفرت کروں.
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا ہے تو میری اُمت تمنا کرتی کہ کاش پورا سال رمضان ہی ہو.