PDA

View Full Version : ممتا کی چھاؤں(آخری حصہ)



intelligent086
09-17-2015, 02:05 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13774_34245060.jpg.pagespeed.ic.qLiUHVqnD5 .jpg

عزخ
گزشتہ سے پیوستہ ڈیڈی کی یہ صحبت صرف بازار پر ہی موقوف نہیں بلکہ اکثر شام کو گھر پر بھی ہلکی پھلکی تربیتی نشستیں جمتی رہتیں۔ دھیمی پھوار کے انداز میں ڈیڈی اپنے تدریسی حربے استعمال کر کے غیر محسوس انداز سے ہمیں زندگی کے نشیب و فراز اور نرمی گرمی سے آگاہ کرتے رہتے۔ تربیتی کورس کبھی اپنے ذاتی تجربات یا مشاہدوں کے بیان کی شکل میں ہوتا یا دوسروں کی آپ بیتی کی صورت میں۔ کبھی کبھی بچوں کو ساتھ بیٹھ کر ڈیڈی کسوٹی کھیلتے تھے جس میں کوئی شخصیت ، کردار یا جانور سوچا جاتا اور دوسرا فریق اسے بوجھتا تھا۔ بوجھنے کی یہ کوشش 20سوالوں کے اندر اندر محیط ہوتی یہ نشست اس وقت بہت مزا دیتی تھی جب لائٹ چلی جاتی تھی ۔ ہمارے بہت بچپن میں ڈیڈی اقبال الیکٹرونکس فوجداری روڈ سے ساڑھے تین سو روپے میں ایک عدد سکینڈ ہینڈMonoٹائٹ ٹیپ ریکارڈ بمع رسید خرید لائے تھے۔(بقول امی ٹھگے گئے تھے) جس پر کبھی کبھار سورن لتا اور لتا منگیشکر اور رفیع کے پرانے گانے بھی چل جاتے تھے مگر اس کا زیادہ استعمال بحیثیت ریکارڈ ہوتا چنانچہ ہم اپنی وہ تقاریر جو اسکول کے تقریری مقابلوں کے لیے تیار کی گئی ہوتی تھیں بلند آواز میں ریکارڈ کرتے اور اسے بجا کر سنتے تو بہت مزہ آتا تھا ۔ اسی ریکارڈ کو آن کر کے ڈیڈی طرح طرح کے معلوماتی سوالات پوچھتے جو بچوں کی کلاس اور عمر کے مطابق ہوتے اور اپنی آوازوں کو سوالاً جواباً سنا جاتا تھا ۔ کچھ عرصہ بعد اس مونو ٹیپ ریکارڈر کی سکینڈ جنریشن فاضل جی کے بیٹے شوکت/شریف سے خریدے گئے ایک عدد پینا سونک میں تبدیل ہو گئی۔ سودا مبلغ5سو روپے کی ادائیگی اور رسید کی وصولی کے ساتھ انجام پایا۔ کلاس اور عمروں کے بڑھنے کے ساتھ ڈیڈی سوالات کے درجے بھی بڑھا دیتے تھے ان کے فیورٹ سوالات ملکوں کے دارالحکومت ، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرلز، وزراء، گورنرروں کے نام اور تحریک پاکستان سے متعلق ہوتے تھے۔ بعد میں ان ہی سوالات نے مجھے مقابلے کے امتحان کامیاب کرنے میں بھر پور مدد دی۔ ایک بات جس سے احتراز کرتے تھے وہ شوبز سے متعلق سوالات تھے بلکہ مجھے یاد ہے کہ ’’نام چیز ‘‘ نامی ایک کھیل کبھی کبھار ہم کھیلتے تھے جس میں کاغذ پر پنسل سے 5خانوں کو کسی بھی چنے گئے حرف تہجی سے شروع ہونے والے لفظ بطور جوابات لکھ کر کھیلا جاتا ہے اس میں ایک خانہ ’’فلم‘‘ کا ہوتا ہے ڈیڈی نے بہت پیار بھرے انداز میں اس خانے کی موجودگی پر اعتراض کیا اور اس کو ’’پل‘‘ سے بدل دیا۔ تاہم ایک ایسا ہی کھیل جو اپنی تمام تر علمی فوائد کے باوجود متروک ہو چکا ہے اس کی افادیت میں آج تک نہیں بھول سکا وہ ’’تعلیمی تاش‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جو کچھ کچھ انگریزی Scramleسے ملتا جلتا ہوتا ہے۔ اس کھیل میں عام کھیلے جانے والے تاش کے پتوں کے برابر سائز کے کارڈ استعمال کئے جاتے ہیں۔ جن پر ابجد ، ہوز،تختی کے لحاظ سے لکھے گئے حروف کے اپنے اپنے نمبر لکھے ہوتے ہیں الف کا نمبر1،ب کا 2جبکہ غ کے سب سے زیادہ یعنی1000نمبر ہوتے ہیں۔ آج کل کچھ شعبدہ باز جعلی مزاج افراد ٹی وی چینلز پر ان نمبروں کی مدد سے انسٹنٹ استخارے کا کاروبار سجائے ہوئے ہیں۔ مختلف حروف استعمال کر کے الفاظ بنائے جاتے ہیں کھیلنے والے کے ہاتھ میں 5کارڈز اور نیچے درمیان میں بھی 5کارڈز ہوتے ہیں جو اپنے کارڈز کا بہترین استعمال کر کے ایسے الفاظ بنائے جن کا میزان زیادہ ہو وہی جیت جاتا ہے کہ آخر میں سب کے بنائے گئے الفاظ کے ٹوٹل نمبر کئے جاتے ہیں۔ نامعلوم یہ کھیل ابتدائی کلاسوں کے نصاب کا حصہ کیوں نہیں۔ شاید ہمارے ماہرین نصاب ڈرتے ہیں کہ کھیل ہی کھیل میں بچوں کا ذخیرہ الفاظ نہ بڑھ جائے۔ کچھ گیم ایسے بھی ہیں جن کو ڈیڈی سخت یا کم ناپسند کرتے تھے۔ ان میں شطرنج سے ڈیڈی کو نفرت تھی کہ یہ کھیل انسان کو سست کر دیتا ہے۔ ’’کروڑ پتی بیوپار‘‘ کو بھی ڈیڈی سے زیادہ تر چھپ کر ہی کھیلنا پڑتا تھا کہ یہ وقت کا ضیاع اور روپے پیسے سے غیر ضروری محبت اور چائو پیدا کرتا ہے۔ البتہ مجھے یاد ہے کہ کبھی کبھار ڈیڈی نے ہم بچوں کے ساتھ لوڈو اور تاش بھی کھیلے ہیں اور کیرم بھی، یہ تمام کھیل اس خوبی سے کھیلے جاتے کہ بچوں کو ڈیڈی کی بحیثیت باپ موجودگی کا احساس نہ ہوتا بلکہ وہ انہیں اپنے درمیان اپنا ہم جولی محسوس کرتے۔ تاش کے ذکر سے مجھے یاد آیا کہ ایک مرتبہ تاش کی بازی خوب جمی تھی جب کراچی سے ہمارے رشتہ دار ولین آنٹی اور ان کی والدہ جو کہ اکرم بھائی کی دلہن کہلائی جاتی تھیں آب و ہوا کی تبدیلی کے لیے آئی ہوئی تھیں۔ کراچی سے حیدر آباد کا فاصلہ گو کہ 90میل یا 140کلو میٹر ہے۔ مگر کراچی کے شہری حیدر آباد کو آب و ہوا کی تبدیلی اور صحت کی بہتری کا بہترین مصرف گردانا کرتے تھے۔ ویسے بھی کراچی کے بیشتر باشندوں نے سہراب گوٹھ سے مزید شمال کی جانب کا علاقہ کبھی نہیں دیکھا یوں بقیہ پاکستان کے بارے میں اس طرح کے لوگوں کی معلومات بہت محدود ہیں اور انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کچھ حضرات ماسوائے کراچی طول و عرض کو کوئی جنگل، ویرانہ یا گائوں نما علاقہ گردانتے ہیں۔ بالکل اسی طرح بہت سارے افراد کے لیے رحیم یار خان سے لے کر اٹک تک پورا علاقہ اپنے اپنے شہری یا ضلعی حوالوں کے بجائے پنجاب ہی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ مثلاً’’ بٹ صاحب پنجاب گئے ہیں‘‘،’’ہم گرمیوں کی چھٹیوں میں پنجاب گھومنے جائیں گے‘‘ وغیرہ وغیرہ اس فارمولے کے مطابق حیدر آباد تا سکھر ہر شہر کو سندھ کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور کراچی کو اس سے مستثنیٰ۔ آب و ہوا کی اس تبدیلی کے لیے کبھی کبھار ہماری مختلف تائی امائیں وغیرہ بھی حیدر آباد کا چکر لگایا کرتی تھیں۔ گو کہ ڈیڈی اور بچوں کی عمروں میں بہت واضح فرق اس وجہ سے تھا کہ ہم لوگ ڈیڈی کی دوسری شادی سے اولاد تھے۔(ڈیڈی کی مرحومہ زوجہ اول ہماری امی کی ہی بڑی بہن تھیں جو 59ء میں انتقال کر گئیں تھیں۔ سنا ہے ڈیڈی نے امی مرحومہ کی طویل بیماری کے دوران ان کی انتھک خدمت اور دیکھ بھال کی تھی) اس صورت حال کے سبب تو یہ متوقع تھا کہ ڈیڈی ہم سے بہت جلد فاصلہ بڑھا لیتے کہ اپنے آپ کو محدود کر لیتے نتیجے کے طور پر چڑچڑے ہو جاتے کہ یہی طریقہ زیادہ تر ان باپوں کے ہاں مستعمل ہے جن کا اپنی اولاد سے فرق30/35سال سے زیادہ ہے اور وہ زندگی بھر اولاد سے کلک نہیں کر پاتے ہیں مگر حیرت انگیز طور پر ڈیڈی نے یہ فرق درمیان آنے نہ دیا بلکہ بچوں میں اس طرح گھل مل کر رہے کہ گھر کے ماحول کو چڑ چڑے پن سے کوسوں دورلے لگے یوں اقتصادی طور پر روپے کی ریل پیل نہ ہونے کے باوجود اپنے گھرانے کو احساس محرومی اور فرسٹریشن سے کوسوں دور رکھنے میں کامیاب رہے۔ ڈیڈی کی اس طرز نے آنے والی زندگی میں سب ہی کو بہت فائدہ پہنچایا اور ان کے بچے غیرمحسوس انداز میں زندگی کی جنگ لڑنے کی اہلیت حاصل کرتے گئے آج ان کے ساتھ بچوں میں سے کسی ایک کو بھی ناکام نہیں کہا جا سکتا یہ اللہ کا انعام ہے جو ڈیڈی کو ان کی بے پایاں محبت، استقلال، جہد مسلسل اور رزق حلال کو عین عبادت جاننے کا صلہ ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ،بوجوہ باپ گھر میں اپنی مرکزی بلکہ یوں کہیے کمائو، حیثیت کے باعث غیر ضروری طور پر ڈکٹیٹر نما حیثیت حاصل کرلیتے ہیں جو بہرحال ان کی بیرونی سماجی حیثیت سے اکثر متصادم ہوتی ہے مثال کے طور پر ایک شخص جو معاشرے میں نسبتاً کم اہم جگہ یا پیشہ ورانہ طور پر کم مجاز یا بے اختیار ہے وہ گھر میں آ کر ان تمام محرومیوںکا ازالہ چاہتا ہے اور شاید اس کا یہ رویہ ردعمل کے طور پر ہوتا ہے ۔ چنانچہ ہمارے معاشرے میں باپ عموماً گھر میں حاکمانہ حیثیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان کی شعوری خواہش ہوتی ہے یا ان کو خواہش دلوا دی جاتی ہے بلکہ حیثیت عطا کی جاتی ہے کہ ا ن کی اجازت کے بغیر پتہ بھی نہ ہلے تاہم نتیجہ کبھی کبھی دھماکے کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ دھماکے عموماً نو خیز اور جوان ہوتے بچوں کی چھوٹی یا بڑی بغاوت کی صورت میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔یوں وہ شخص جو بظاہر عفریت کی شکل اختیار کر چکا ہوتا ہے درحقیقت ریت کا قلعہ ثابت ہوتا ہے اور بھیگی بلی بن کر رہ جاتا ہے ۔ ایسے تمام مرد حضرات عمر کے اگلے حصے میں بے جا تنہائی ، محرومی اور غیر توجہی کا نتیجہ بھگتتے ہیں۔ اس کے برعکس عام مشاہدے کے طور دیکھا گیا ہے کہ سماجی طور پر مضبوط، فیصلہ کن اور مجاز شخصیات اپنی شیر والی کھال گھر پہنچتے ہی بھیگی بلی سے بدل لیتے ہیں۔ ڈیڈی کی شخصیت گھر میں انتہائی روادار مزاج کی مثال تھی گھر کے ہر چھوٹے بڑے فرد کو اظہار رائے کی پوری آزادی تھی۔ یہ ان کا حسن سلوک تو تھا ہی لیکن ساتھ ہی ان کے سلوک کے حسن کے باوجود یہ آزادی کبھی بھی مادر پدر آزادی کی شکل اختیار نہیں کر سکی۔ آج تک ڈیڈی کے کسی بھی فیصلے سے کسی نے بغاوت کی جرائت تو کیا ضرورت بھی محسوس نہیں کی شاید ڈیڈی کی کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ ہر مشکل فیصلہ باہمی رضا مندی اور ٹیبل ٹاک کے نتیجے کے طور پر کرتے چنانچہ آخری فیصلہ گو کہ ڈیڈی کا ہی ہوتا مگر یہ Win Winکی صورت میں ہوتا تھا اس طرح باپ کے فیصلوں میں اولاد کو ماں کی ممتاز جیسی چھائوں محسوس ہوتی ہے عام طور پر مضبوط نظر آنے والے مردوں سے مختلف یہ پہلو ڈیڈی کی شخصیت کا سب سے مضبوط ستون تھا۔ چونکہ خود ڈیڈی نے اپنی ذات کبھی نوک جھونک یا فقرہ چست کرنے سے مبرا نہیں رکھی چنانچہ عمر میں چھوٹے بڑے کے فرق کے باوجود گھر میں کوئی بھی دوسرے کو مزاحاً اور چٹکلہ بازی کے طور پر تفریحی جملے کا نشانہ بنا سکتا تھا۔ آج بھی ہم سب لوگ اکٹھے ہوتے ہیں تو ڈیڈی امی کے کمرے میں بیٹھ کر اسی طرح کی فقرے بازی کرتے ہیں اور تو اور خود ان کے پوتے پوتیوں نے بھی اس جمہوری مزاج کو جانچ لیا اور بہت جلد ڈیڈی کی ذات کے اندر پنہاں دوست شناخت کر لیا تھا۔ یہاں میں ایک فقرے کا ذکر کروں گا جو بیک وقت تشبیہ کے طور پر علیزہ نے نامدار کے لیے استعمال کیا۔ ہوا یوں کہ گرمیوں کے دن تھے۔ ایک روز دفتر میں مجھے علیزہ کا فون آیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ڈیڈی اپنے بڑھاپے میں مکمل طور پر قدم رکھ چکے تھے اور گھٹنوں کے درد کا شکار ہونے کی وجہ سے چال میں کسی قدر لڑکھڑاہٹ اور عدم توازن کا شکار تھے۔ علیزہ نے فون سے مجھے ان الفاظ میں اپنے بھائی نامدار کی رپورٹ دی’’آوا !! نامدار نے پیٹی میں سے بہت سارے آم نکال کر کھا لیے ہیں اور نتیجتاً اب وہ دادا کی طرح چل رہے ہیں۔ میں نے فوری طور پر یہ تبصرہ ڈیڈی کو سنایا جس کو انہوں نے مثبت طور سے لیا اور اس سے خوب محظوظ ہوئے۔ کوئی اور باپ یادادا ہوتا تو شاید بیٹے کو لحاظ‘ مروت اور خوف کے باعث پوتی کا یہ تبصرہ بتانے کی ہمت ہی نہ پڑتی۔ (کتاب ’’ ڈیڈی‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭

CaLmInG MeLoDy
09-17-2015, 02:55 PM
:P

UmerAmer
09-17-2015, 03:50 PM
Nice Sharing
Thanks For Sharing

KhUsHi
09-17-2015, 10:44 PM
Thanks for sharing

intelligent086
09-18-2015, 10:25 AM
http://www.mobopk.com/images/hanks4commentsvev.gif