intelligent086
09-16-2015, 02:20 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/13764_38352681.jpg
عزخ
ڈیڈی کی ایک بہت بڑی مادرانہ خوبی جوکہ اُن کو جملہ دیگر معاصر باپوں سے ممیز کرتی تھی، وہ یہ تھی کہ کوئی بھی محفل جو ڈیڈی اٹینڈ کرتے ہوں اور ان کے دوستوں کے ساتھ ملنا جلنا ایسا ہرگز نہ تھا، جہاں وہ ہمیں نہ لے جاسکتے ہوں یا نہ لے کر جاتے ہوں۔ شام کے اوقات ڈیڈی اکثر ڈاکٹر عقیل (آنکھوں کے مشہور ڈاکٹر) کے گھر تفریح طبع کی خاطر جمع ہونے والے اصحاب سے ملاقات کرتے تھے چنانچہ ہم اکثر ہی ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ خود ڈاکٹر صاحب اس وقت پورے محلے میں معتوب تھے کہ مذہبی طور پر ان کا عقیدہ حال ہی میں غیر مسلم ٹھہرا تھا۔ ڈیڈی اپنے ایمان راسخ، عقیدے کی پختگی اور سلامتی کے باوجود حقوق العباد کی ادائیگی پر آنچ نہ آنے دیتے اور نہ صرف ڈاکٹر صاحب کی تبلیغ کا دلیرانہ مقابلہ کرتے بلکہ ڈھال یا یوں کہیے جوابی حملے کے طور پر اپنے گھر پر پکنے والے پائے، حلیم ان کو بھجواتے تھے اور کبھی کبھی زیادہ احترام کے طور پر ان کی طرف فرمائشاً ’’بٹ‘‘ پکوا کر بھجوا دیتے تھے تاہم بقر عید کے موقع پر ان کے گھر سے آنے والا گوشت بہرحال خاموشی سے غیر مسلم بھنگن کو دے دیتے تھے۔ سعید صاحب کا رفیق میڈیکل اسٹور ہماری گلی کے اوپر والے نکڑ کے پاس تھاوہاں محلے کے مختلف اشخاص جمع ہوکر روزمرہ کے حالات بالخصوص ملکی سیاست پر گفتگو کرتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب کیبل ایجاد نہیں ہوئی تھی نہ ہی پرائیویٹ چینلز کی بہتات تھی چنانچہ ایک طرف جمع ہوکر بی بی سی کی چٹ پٹی خبریں سنی جاتیں ۔ دوسری طرف کچھ لوگ شطرنج کی بازی جما لیتے۔ روس اور امریکہ کو برملا کوسا جاتا۔ PNAاور PPPکی 1977ء کی چپقلش پر گفتگو بعض اوقات تیز طراز جملوں میں بدل جاتی تاہم گفتگو ابھی اخلاق کے دائرے کے کافی اندر ہی ہوتی کہ ڈیڈی ہمارا ہاتھ پکڑتے اور آہستہ سے وہاں سے کھسک لیتے۔ زیرِلب ان کے خدشاتی غیر مہذبانہ اندازِ گفتگو کو مہذبانہ انداز میں تنقید کا نشانہ بھی بناتے تاہم یہ تنقید یقینی طو رپر گھر پہنچنے سے پہلے ختم ہوجاتی۔ یہ وہ پہلا مقام ہے جہاں سے میں نے دو سبق سیکھے۔ ایک تو یہ کہ ’’ٹینشن لینے کا نہیں‘‘، دوسرا سیاست کے پارے کو زیادہ بخار کی شکل اختیار کرنے اور تیر کا نشان کراس کرنے دینا مناسب بر صحت نہیں۔ سعید صاحب کا میڈیکل اسٹور کچھ عرصے کے لئے اس لئے ویران رہا کہ 30ستمبر 1988ء کو ہونے والے سانحہ حیدرآباد میں جب ایک شقی القلب گروہ نے حیدرآباد کو خون سے نہلا دیا تھا۔ کاردار صاحب اور ہمارے زیرِدیوار پڑوسی اشرف جی گولی لگنے سے شہید ہوئے اور کافی لوگ بمعہ سلیم چاند جی زخمی ہوئے۔ اس دن کے بعد شطرنج کی بازی پھر اس طرح نہ جم سکی کہ دونوں مرحومین سرفراز کالونی کی شطرنج ٹیم کے سکہ بند کھلاڑی تھے۔ اور نہ ہی پھر سیاسی مبصرین اس خُشوع وخُضوع سے کبھی جمع ہوئے۔ کچھ عرصے بعد سعید صاحب اپنا رفیق میڈیکل اسٹور بیچ کر کراچی منتقل ہوگئے۔ ساتھ ہی پیراڈائز میڈیکل اسٹور تھا۔ اس کے زندہ دل طبیعت کے مالک مسٹر شوکت نے نک ٹائی لگا کر کچھ روز حالات کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی مگر پھر وہ بھی میڈیکل اسٹور بند کرگئے کیونکہ سول اسپتال کا سرفراز کالونی کی طرف کھلنے والا گیٹ اینٹوں کی چنائی کے بعد پلستر کرکے بند کر دیا گیا تھا۔(تقریباً ایک دہائی کے بعد قیوم نامی محلہ دار کی فرمائش پر اور میری حقیر کوشش سے یہ گیٹ 2000ء میں دوبارہ کھلوایا گیا۔) قیوم کا گھر ہمارے قریب ہی واقع تھااور عمر کے فرق کے باوجود وہ ڈیڈی کے ساتھ سیاسی حالات و واقعات پر آزادانہ تبصرہ کرلیتا تھا۔ ڈیڈی نے اس کے اندر چھپا ہوا جوالامکھی بہت جلد بھانپ لیا تھا اور نسبتاً ڈیڈی قیوم کو کسی حد تک آزادانہ دائرہ برائے گپ شپ فراہم کر دیا کرتے تھے۔ قیوم کے پاس شہر بھر کی تازہ خبریں ہوا کرتی تھیں جو اس کے مزاج اور پیشے دونوں سے مطابقت رکھتی تھیں۔ خود قیوم بھی ڈیڈی کی علمیت اور مرتبے کا قائل رہا ہے۔ اب جبکہ پیراڈائز میڈیکل اسٹور بند لیکن اسپتال کا چھوٹا گیٹ کھل چکا ہے۔ یہ نیم سماجی و سیاسی قسم کی محافل شفیق اللہ یا چشمے والوں کے چبوتروں پر روزانہ کی بنیاد پر رات گئے تک سجتی ہیں جن میں چھیپہ برادری کے وہ افراد شامل ہوتے ہیں جن کو ہم نے ان کے لڑکپن سے جوانی میں داخل ہوتے دیکھا‘ اب وہ ادھیڑ عمر کے پیٹے کو پہنچ چکے ہیں، لیکن سماجی امور میں انتہائی سرگرمی سے حصہ لیتے ہیں۔ ان میں ایوب (شریف چاتی) اور عبدالرحمن لالچی (عرفیت) برادران نمایاں نظر آتے ہیں۔ ڈیڈی کے ساتھ بازار کا سفر بھی ایک سبق ہوتا تھا۔ عمر کے حساب سے ڈیڈی کی گفتگو اور موضوعات میں تبدیلی آتی رہتی جس کی ابتدا سائن بورڈ پڑھنے، مختلف پھلوںا ور سبزیوں کی شناخت سے ہوتے ہوئے قیمتوں اور اشیاء کے تعین، طرح طرح کے سوالات اور اردگرد کی تبدیلیوں سے متعلق گفتگو میں تبدیلی ہوتی رہی۔ مجھے یاد ہے کہ میری کراچی پوسٹنگ کے دوران (1998ء میں)ڈیڈی کے ساتھ سبزی منڈی کراچی سے شاپنگ کو میں نے بحیثیت فیلڈ افسر بہت انجوائے کیا۔ میں ان کا لاڈلہ بیٹا خود کو لاکھ افسر سمجھے مگر وہ خوبی اور کمال ہنرمندی سے مجھ سے ایک سامان ڈھونے والے مزدور کاکام لے لیتے۔ میں ان کی اس تفریح کا اتنا عادی ہوچکا تھا، حالانکہ میں چاہتا تو اپنے اردلی اعجاز کو ان کے ساتھ بھیج دیتا، مگر نہ جانے کیوں ایک عجیب سا مزہ ان کے ساتھ شاپنگ کرنے میں آتا تھا اور میں خالی بوری اپنی ہنڈائی کی ڈگی میں ڈال کران کے ساتھ چلا آتا۔ آگے کی داستان کچھ دلچسپ ہے۔ ہوتا یوں کہ ڈیڈی پہلے سبزی منڈی جو کہ مناسب طو رپر وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی تھی‘ اس کا ایک پورا چکر لگاتے اور بلا تخصیص و تمیز ہر دوکاندار سے سبزیوں کا بھائو معلوم کرتے۔ یہ پہلا رائونڈ دراصل فوجی ریکی قسم کی چیز ہوتا جو کہ چیزوں کے بھائو معلوم کرنے تک محدود رہتا۔ میرا خیال ہے کہ اس دوران ڈیڈی منڈی کی گرمی سردی کو اپنی جیب کے مطابق بھانپ لیتے اور یہی میرٹ موسم اور معیار کی آڑمیں حتمی انتخاب کا باعث بنتا، یعنیAppreciation of the Situationکے نتیجے کے طور پر زمینی حقائق کے ادراک کے بعد Course-A۔ سب سے اہم بات یہ ہوتی کہ ڈیڈی ہر بار میرے احتجاج کے باوجود سب سے پہلے پیاز اور آلو کی دھڑیاں تلواتے۔ چونکہ روایتاً آلو اور پیاز کے ٹھیلے مارکیٹ میں قریب قریب یا ایک ہی جگہ ہوتے ہیں، اس لیے اچانک خالی بوری میں دس یا پندہ کلو وزن آجاتا ۔ اس کے بعد لہسن، گوبھی، لوکی، پھر ٹماٹر، ادرک کی باری آتی۔ اس دوران منڈی کاایک چکر اور لگ جاتا اور بعض اوقات اشیاء کے چنائو میں ایک ایک گھنٹہ بھی گزرجاتا۔ سب سے آخر میں ہری مرچ، پالک او رپتوں والے شلجم ٹائپ سبزیوں کی باری آتی۔ ڈیڈی کے سبزی منڈی کے دورے تیسری دنیا کے حکمرانوں کے بیرونی دوروں کی شرح سے ہوتے یعنی 10یا 15دن میں ایک مرتبہ اور ہر مرتبہ خریداری سے پہلے شروع ہونے والے احتجاج کو ڈیڈی بخوبی ان سنی کردیتے کہ پہلے وزن میں ہلکی چیز خریدا کریں۔ مجھے یہ جان لینے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ ایسا کبھی ممکن نہ ہوگا کیوں کہ ڈیڈی اپنے قیمتی زرِمبادلہ کو پتوں والی نازک سبزیوں کی شکل میں پیاز اور بھونڈی شکل والے آلوئوں تلے پستے برداشت نہیں کریں گے مبادا ٹماٹر اور پالک کا آلو کی دھڑی تلے دھڑن تختہ نہ ہوجائے۔ (کتاب ’’ڈیڈی‘‘ سے انتخاب
عزخ
ڈیڈی کی ایک بہت بڑی مادرانہ خوبی جوکہ اُن کو جملہ دیگر معاصر باپوں سے ممیز کرتی تھی، وہ یہ تھی کہ کوئی بھی محفل جو ڈیڈی اٹینڈ کرتے ہوں اور ان کے دوستوں کے ساتھ ملنا جلنا ایسا ہرگز نہ تھا، جہاں وہ ہمیں نہ لے جاسکتے ہوں یا نہ لے کر جاتے ہوں۔ شام کے اوقات ڈیڈی اکثر ڈاکٹر عقیل (آنکھوں کے مشہور ڈاکٹر) کے گھر تفریح طبع کی خاطر جمع ہونے والے اصحاب سے ملاقات کرتے تھے چنانچہ ہم اکثر ہی ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ خود ڈاکٹر صاحب اس وقت پورے محلے میں معتوب تھے کہ مذہبی طور پر ان کا عقیدہ حال ہی میں غیر مسلم ٹھہرا تھا۔ ڈیڈی اپنے ایمان راسخ، عقیدے کی پختگی اور سلامتی کے باوجود حقوق العباد کی ادائیگی پر آنچ نہ آنے دیتے اور نہ صرف ڈاکٹر صاحب کی تبلیغ کا دلیرانہ مقابلہ کرتے بلکہ ڈھال یا یوں کہیے جوابی حملے کے طور پر اپنے گھر پر پکنے والے پائے، حلیم ان کو بھجواتے تھے اور کبھی کبھی زیادہ احترام کے طور پر ان کی طرف فرمائشاً ’’بٹ‘‘ پکوا کر بھجوا دیتے تھے تاہم بقر عید کے موقع پر ان کے گھر سے آنے والا گوشت بہرحال خاموشی سے غیر مسلم بھنگن کو دے دیتے تھے۔ سعید صاحب کا رفیق میڈیکل اسٹور ہماری گلی کے اوپر والے نکڑ کے پاس تھاوہاں محلے کے مختلف اشخاص جمع ہوکر روزمرہ کے حالات بالخصوص ملکی سیاست پر گفتگو کرتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب کیبل ایجاد نہیں ہوئی تھی نہ ہی پرائیویٹ چینلز کی بہتات تھی چنانچہ ایک طرف جمع ہوکر بی بی سی کی چٹ پٹی خبریں سنی جاتیں ۔ دوسری طرف کچھ لوگ شطرنج کی بازی جما لیتے۔ روس اور امریکہ کو برملا کوسا جاتا۔ PNAاور PPPکی 1977ء کی چپقلش پر گفتگو بعض اوقات تیز طراز جملوں میں بدل جاتی تاہم گفتگو ابھی اخلاق کے دائرے کے کافی اندر ہی ہوتی کہ ڈیڈی ہمارا ہاتھ پکڑتے اور آہستہ سے وہاں سے کھسک لیتے۔ زیرِلب ان کے خدشاتی غیر مہذبانہ اندازِ گفتگو کو مہذبانہ انداز میں تنقید کا نشانہ بھی بناتے تاہم یہ تنقید یقینی طو رپر گھر پہنچنے سے پہلے ختم ہوجاتی۔ یہ وہ پہلا مقام ہے جہاں سے میں نے دو سبق سیکھے۔ ایک تو یہ کہ ’’ٹینشن لینے کا نہیں‘‘، دوسرا سیاست کے پارے کو زیادہ بخار کی شکل اختیار کرنے اور تیر کا نشان کراس کرنے دینا مناسب بر صحت نہیں۔ سعید صاحب کا میڈیکل اسٹور کچھ عرصے کے لئے اس لئے ویران رہا کہ 30ستمبر 1988ء کو ہونے والے سانحہ حیدرآباد میں جب ایک شقی القلب گروہ نے حیدرآباد کو خون سے نہلا دیا تھا۔ کاردار صاحب اور ہمارے زیرِدیوار پڑوسی اشرف جی گولی لگنے سے شہید ہوئے اور کافی لوگ بمعہ سلیم چاند جی زخمی ہوئے۔ اس دن کے بعد شطرنج کی بازی پھر اس طرح نہ جم سکی کہ دونوں مرحومین سرفراز کالونی کی شطرنج ٹیم کے سکہ بند کھلاڑی تھے۔ اور نہ ہی پھر سیاسی مبصرین اس خُشوع وخُضوع سے کبھی جمع ہوئے۔ کچھ عرصے بعد سعید صاحب اپنا رفیق میڈیکل اسٹور بیچ کر کراچی منتقل ہوگئے۔ ساتھ ہی پیراڈائز میڈیکل اسٹور تھا۔ اس کے زندہ دل طبیعت کے مالک مسٹر شوکت نے نک ٹائی لگا کر کچھ روز حالات کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی مگر پھر وہ بھی میڈیکل اسٹور بند کرگئے کیونکہ سول اسپتال کا سرفراز کالونی کی طرف کھلنے والا گیٹ اینٹوں کی چنائی کے بعد پلستر کرکے بند کر دیا گیا تھا۔(تقریباً ایک دہائی کے بعد قیوم نامی محلہ دار کی فرمائش پر اور میری حقیر کوشش سے یہ گیٹ 2000ء میں دوبارہ کھلوایا گیا۔) قیوم کا گھر ہمارے قریب ہی واقع تھااور عمر کے فرق کے باوجود وہ ڈیڈی کے ساتھ سیاسی حالات و واقعات پر آزادانہ تبصرہ کرلیتا تھا۔ ڈیڈی نے اس کے اندر چھپا ہوا جوالامکھی بہت جلد بھانپ لیا تھا اور نسبتاً ڈیڈی قیوم کو کسی حد تک آزادانہ دائرہ برائے گپ شپ فراہم کر دیا کرتے تھے۔ قیوم کے پاس شہر بھر کی تازہ خبریں ہوا کرتی تھیں جو اس کے مزاج اور پیشے دونوں سے مطابقت رکھتی تھیں۔ خود قیوم بھی ڈیڈی کی علمیت اور مرتبے کا قائل رہا ہے۔ اب جبکہ پیراڈائز میڈیکل اسٹور بند لیکن اسپتال کا چھوٹا گیٹ کھل چکا ہے۔ یہ نیم سماجی و سیاسی قسم کی محافل شفیق اللہ یا چشمے والوں کے چبوتروں پر روزانہ کی بنیاد پر رات گئے تک سجتی ہیں جن میں چھیپہ برادری کے وہ افراد شامل ہوتے ہیں جن کو ہم نے ان کے لڑکپن سے جوانی میں داخل ہوتے دیکھا‘ اب وہ ادھیڑ عمر کے پیٹے کو پہنچ چکے ہیں، لیکن سماجی امور میں انتہائی سرگرمی سے حصہ لیتے ہیں۔ ان میں ایوب (شریف چاتی) اور عبدالرحمن لالچی (عرفیت) برادران نمایاں نظر آتے ہیں۔ ڈیڈی کے ساتھ بازار کا سفر بھی ایک سبق ہوتا تھا۔ عمر کے حساب سے ڈیڈی کی گفتگو اور موضوعات میں تبدیلی آتی رہتی جس کی ابتدا سائن بورڈ پڑھنے، مختلف پھلوںا ور سبزیوں کی شناخت سے ہوتے ہوئے قیمتوں اور اشیاء کے تعین، طرح طرح کے سوالات اور اردگرد کی تبدیلیوں سے متعلق گفتگو میں تبدیلی ہوتی رہی۔ مجھے یاد ہے کہ میری کراچی پوسٹنگ کے دوران (1998ء میں)ڈیڈی کے ساتھ سبزی منڈی کراچی سے شاپنگ کو میں نے بحیثیت فیلڈ افسر بہت انجوائے کیا۔ میں ان کا لاڈلہ بیٹا خود کو لاکھ افسر سمجھے مگر وہ خوبی اور کمال ہنرمندی سے مجھ سے ایک سامان ڈھونے والے مزدور کاکام لے لیتے۔ میں ان کی اس تفریح کا اتنا عادی ہوچکا تھا، حالانکہ میں چاہتا تو اپنے اردلی اعجاز کو ان کے ساتھ بھیج دیتا، مگر نہ جانے کیوں ایک عجیب سا مزہ ان کے ساتھ شاپنگ کرنے میں آتا تھا اور میں خالی بوری اپنی ہنڈائی کی ڈگی میں ڈال کران کے ساتھ چلا آتا۔ آگے کی داستان کچھ دلچسپ ہے۔ ہوتا یوں کہ ڈیڈی پہلے سبزی منڈی جو کہ مناسب طو رپر وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی تھی‘ اس کا ایک پورا چکر لگاتے اور بلا تخصیص و تمیز ہر دوکاندار سے سبزیوں کا بھائو معلوم کرتے۔ یہ پہلا رائونڈ دراصل فوجی ریکی قسم کی چیز ہوتا جو کہ چیزوں کے بھائو معلوم کرنے تک محدود رہتا۔ میرا خیال ہے کہ اس دوران ڈیڈی منڈی کی گرمی سردی کو اپنی جیب کے مطابق بھانپ لیتے اور یہی میرٹ موسم اور معیار کی آڑمیں حتمی انتخاب کا باعث بنتا، یعنیAppreciation of the Situationکے نتیجے کے طور پر زمینی حقائق کے ادراک کے بعد Course-A۔ سب سے اہم بات یہ ہوتی کہ ڈیڈی ہر بار میرے احتجاج کے باوجود سب سے پہلے پیاز اور آلو کی دھڑیاں تلواتے۔ چونکہ روایتاً آلو اور پیاز کے ٹھیلے مارکیٹ میں قریب قریب یا ایک ہی جگہ ہوتے ہیں، اس لیے اچانک خالی بوری میں دس یا پندہ کلو وزن آجاتا ۔ اس کے بعد لہسن، گوبھی، لوکی، پھر ٹماٹر، ادرک کی باری آتی۔ اس دوران منڈی کاایک چکر اور لگ جاتا اور بعض اوقات اشیاء کے چنائو میں ایک ایک گھنٹہ بھی گزرجاتا۔ سب سے آخر میں ہری مرچ، پالک او رپتوں والے شلجم ٹائپ سبزیوں کی باری آتی۔ ڈیڈی کے سبزی منڈی کے دورے تیسری دنیا کے حکمرانوں کے بیرونی دوروں کی شرح سے ہوتے یعنی 10یا 15دن میں ایک مرتبہ اور ہر مرتبہ خریداری سے پہلے شروع ہونے والے احتجاج کو ڈیڈی بخوبی ان سنی کردیتے کہ پہلے وزن میں ہلکی چیز خریدا کریں۔ مجھے یہ جان لینے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ ایسا کبھی ممکن نہ ہوگا کیوں کہ ڈیڈی اپنے قیمتی زرِمبادلہ کو پتوں والی نازک سبزیوں کی شکل میں پیاز اور بھونڈی شکل والے آلوئوں تلے پستے برداشت نہیں کریں گے مبادا ٹماٹر اور پالک کا آلو کی دھڑی تلے دھڑن تختہ نہ ہوجائے۔ (کتاب ’’ڈیڈی‘‘ سے انتخاب