intelligent086
09-16-2015, 02:13 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13767_24124464.jpg.pagespeed.ic.9ZPLXYdxaF .jpg
اجمل جامی
آپ نے کبھی بیڈ فورڈ بس پر سفر کیا ہے؟ بیڈ فورڈ کے انجن پر بس کی باڈی رکھ دی جائے تو یہ پرانے زمانے کی دیہاتی بس کہلاتی ہے جو اندرون شہر نہیں بلکہ دیہات سے شہروں تک آمدورفت کے کام آتی تھی۔ یہ بس اب معدوم ہوتی جا رہی ہے، اسی بس کا سیاسی کزن بیڈ فورڈ ٹرک ہے جو اب بھی جی ٹی روڈ پر بکثرت دیکھا جا سکتا ہے۔ بیڈ فورڈ کے انجن پر ٹرک کی باڈی رکھ دی جائے تو یہ ایک عوامی ٹرک کہلاتا ہے، ہاں البتہ ہماراموضوع فی الحال بیڈفورڈ بس ہے۔سیالکوٹ کے مختلف کارخانوں میں کام کرنے والے دیہاتی مزدور انہی بسوں کے ذریعے سفر کیا کرتے تھے۔ اب ان بسوں کی جگہ کوسٹر اور ویگن نے لے لی ہے۔ بیڈ فورڈ اب بھی کبھی کبھار کسی روٹ پر نظر آجاتی ہے۔ پوٹھوہار، پہاڑی علاقوں اور پختونخوا کے کچھ اضلاع میں تو بیڈ فورڈ بس سواری کاواحد ذریعہ ہے۔ بیڈ فورڈ بس کے ڈرائیور کی سیٹ بقیہ تمام سیٹوں سے کشادہ ہوتی ہے۔ اس کے پائلٹ گیٹ کی کھڑکی شاید ہی کبھی کسی نے بند دیکھی ہو۔ بارش ، طوفان یا کوئی بھی موسمی سختی ہو‘ پائلٹ گیٹ کی کھڑکی ہمیشہ کھلی رہتی ہے۔ ہر پائلٹ گیٹ ایک پائیدان سے بھی آراستہ ہوتا ہے اور اسی زینے پر قدم رکھ کر استاد ڈرائیونگ سیٹ تک پہنچتا ہے۔ قدرے سلجھے ہوئے یا بابو طبیعت کے مسافر عموماً ڈرائیور کے بائیں جانب کی دو نشستی سیٹ یا اس کی عقبی دائیں بائیںکی نشستوں پر سفر کرنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ یہ نشستیں’’کلینڈر‘‘ یا ڈرائیور کی ذاتی خواہش کے مطابق عزیز و اقارب یا دلنشیں چہروں کے لیے مخصوص ہوا کرتی ہیں۔ لیکن ایک ایسی نشست بھی ہے جس پر سفر کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، یہاں بیٹھنے والے کی ایک ٹانگ پائلٹ گیٹ کے زینے پر اور دوسری بس کے اندر استاد کے ایکسی لیٹر کے بالکل ساتھ، نشست کا ایک حصہ استاد کی سیٹ کے ساتھ اور دوسرا گیٹ کے دہانے پر، ایک کان کھیتوں کھلیانوں سے گزرتی ہوا کا سْر سنتا ہے اور دوسرا استاد کی کہانیاں یا مسافروں اور کلینڈرکی تو تو میں میں… اس جگہ بیٹھا شخص پوری بس کے نزدیک استاد کے جگری دوست کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا۔ بیڈ فورڈ کے سفر کے دوران استاد سے راز و نیاز صرف اسی جگہ بیٹھا شخص ہی کر سکتا ہے لہٰذا اس نشستِ خاص کی سواری باقیوں کے لیے رشک کا باعث ٹھہرتی ہے۔استاد باوا سیالکوٹ شہر آنے والے ایک روٹ کا پرانا ڈرائیور ہے، خاکسار استاد کو بچپن سے جانتا ہے۔دور طالب علمی کا ایک بڑا حصہ کنٹونمنٹ میں گزرا اور اس دوران تعطیلات گرما و سرما کے دو ماہ ہر سال سیالکوٹ میں ننھیال اور ددھیال میں گزارنے کا اتفاق ہوا۔ سیالکوٹ شہر پہنچتے ہی پہلی خواہش یہ ہوتی تھی کہ کاش استاد باوا کی بس میں سفرکا موقع ملے۔ اور حسنِ اتفاق یہ کہ اس سفر میں اکثر استاد باوا ہی ہمارا ناخداٹھہرا۔ اب بھلے ہمیں پچھلی سیٹ ملے، درمیانی یا اگلی، ہم عموماً دونوں جانب کی سیٹوں کے بیچ واقع ’’گلی‘‘میں کھڑے ہونا پسند کرتے۔ اس کا مقصد استاد باوا کی ڈرائیونگ براہ راست دیکھنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ایڑی کے بل کھڑے ہو کر استاد باوا کے سر پر لپٹے رنگین مفلر اور کان کے درمیان اٹکے سگریٹ اور اس سگریٹ کے ٹِکے رہنے کی وجہ جاننا ہمارا اولین مقصد رہا۔ لیکن ہیچ آرزو مندی ہم اس راز کو تادم تحریر نہیں جان پائے۔ استاد باوا روٹ کی کسی لاری کو چھپنجا ترونجا (چھپن تریپن بس نمبر) کے لاگے پھڑکنے نہ دیتا۔ دیگر بس ڈرائیور ہمیشہ یہی آرزو کرتے کہ کاش ہم باوے کو کراس کر سکیں لیکن وہ باوا ہی کیا جس کی لاری پیچھے رہ جائے۔قصہ مختصر یہ کہ چند روز پہلے پائیدان پر پائوں لٹکائے اسی نشست پر سفرکرنے کا اتفاق ہوا۔ حالیہ بھارتی جارحیت کے کارن گاوں کندن پور (سچیت گڑھ سیکٹرسیالکوٹ) میں آٹھ افراد شہید اور 40 زخمی ہوئے۔ ایک ہی گاوں سے آٹھ جنازے اٹھے تو نودیہاتوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ کندن پور کا تقریباً ہر تیسرا گھر اس جارحیت کا نشانہ بنا۔ اس بربریت اور شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کی رپورٹنگ کے لیے راقم مختصرنوٹس پر چند روز قبل اس علاقے میں جا پہنچا۔ دن بھر رپورٹنگ کے بعد سر شام جب واپسی کی راہ لی تو ڈرائیور سے درخواست کی کہ وہ ہمیں مقامی روٹ پر اتار دے اور خود لاہورلوٹ جائے۔ ایک نسبتاً سنسان بس سٹا پ پر بس کا انتظار کرتے کرتے اندازہ ہوا کہ بیڈ فورڈبس شاید اب ناپید ہو چکی ہے۔ بیڈ فورڈ کے انتظار میں کئی لاریاں گزار دیں، دو چار سگریٹ پھونک دیئے، ڈبیا میں بچا آخری سگریٹ سلگایا ہی تھا کہ اچانک ایک بیڈ فورڈ نمودار ہوئی، جس کا ہارن سنتے ہی رونگٹے کھڑے ہوگئے، بدن میں سنسنی سی دوڑ گئی…یہ استاد باوا ہی تھا لیکن لاری ‘چھپنجا ترونجا ‘نہیں تھی…بہرحال استاد باوا کی ہم سفری ہی کافی تھی۔ لاری کون سی تھی یہ تو ایک ثانوی معاملہ تھا، اندازہ ہوا کہ شام کا وقت ہے لہٰذا لاری میں تل دھرنے کی جگہ نہیں۔فوراً ڈرائیونگ سیٹ کی جانب رجوع کیا۔ استاد باوا کو سلام پیش کرنے کے بعد ان سے گزارش کی کہ اگر وہ ساتھ بٹھا لیں تو خادم شکرگزار ہو گا۔ استاد سْر میں تھے لہٰذا انہوں نے فوری کہا کہ بیٹھ جائیں۔ چند لمحے بعد میرے ٹی وی چینل کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے خاکسار کا پورا شجرہ نصب بیان کر دیا اور پھر اصل سفر شروع ہو ا۔ حال احوال کے بعد استاد سے گلے شکوے سنے، اور انہیں یہ باور کرایا کہ آپ میٹرو بس ہرگز نہیں چلا پائیں گے کیونکہ اس کا راستہ بالکل سیدھا ہے۔ یہ سن کر استاد چونک گئے ، پوچھا ایسا کونسا روٹ ہے جہاں کوئی موڑ ، جمپ ، کھڈا ، جانور ، گاوں یا نالہ نہیں آتا؟ گزارش کی کہ اسی کارن آپ میٹرو بس کے ڈرائیور نہیں ہو سکتے اور تو اور اس کے لیے آپ کو وردی (پتلون والی) بھی پہننی پڑے گی۔یہ سنتے ہی استاد باوا نے فوراً کہا، ’’اسی ایتھے ای چنگے آں۔‘‘ (نوٹ اس جملے کو سیالکوٹی اندا ز میں سننے کے لیے ہر لفظ قدرے طویل اور لہلہاتے انداز میں پڑھئیے)۔ اس مکالمے کے بعد استاد نے مفلر اور کان کے بیچ اٹکا گولڈ فلیک کا سگریٹ اتارا اور پائلٹ گیٹ سے اندر آتی تیز ہوا کے باوجود دونوں ہاتھوں سے ماچس کی تیلی سلگائی اورایک طویل کش لگایا، اور پوچھا:’’تْسی پیو گے؟‘‘ (آپ پیئں گے؟) جواب دیا ،’’ہاں جی ضرور‘‘ استاد نے اپنا سگریٹ ہمیں تھما دیا اوراپنے لیے ایک دوسرا سگریٹ سلگا لیا۔کچھ دیر خامشی چھائی رہی۔ شہر قریب تھا، سوسرحدپر پیش آنے والے اندوہناک واقعات بارے چند سوالات داغ دئیے۔ پہلے تو استاد خاموش رہے، جب سوالات بڑھتے گئے تو استاد نے دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت لبوں پر رکھ کر ہمیں خامو ش ہونے کی تاکید کی اور فقط اتنا کہا،‘‘لوفیر ایہہ ایٹم سنو!‘‘(لیجئے پھر یہ آئٹم گوش گزار کیجئے) کیسٹ پر استاد نصرت تھے۔ پوچھا، یہ کیا ہے؟ ہم آس پاس کے دیہات میں پیش آنے والے واقعات پر آپ کی ماہرانہ رائے سننے کو بے تاب ہیں اور آپ ہیں کہ سر شام استاد نصرت سنوا رہے ہیں؟ احساس ہوا کہ استاد نصرت ان مصرعوں کی ادائیگی کے بعد خاموش ہو چکے ہیں،’’پریتم کا کچھ دوش نہیں ہے ، یہ تو ہے نردوش، اپنے آپ سے باتیں کرکے میں تو ہوگئی بدنام، سانسوں کی مالا پے…‘‘ پوچھا’’ ایہدا کیہہ مطلب اے پئی؟‘‘(اس کا کیا مطلب ہے؟) جواب ملا،’’مطبل ایہو اے،’’پریتم کا کچھ دوش نہیں ہے۔‘‘ (مطلب یہی ہے کہ پریتم کا کچھ دوش نہیں) اتنے میں استاد نے پائلٹ گیٹ سے چھلانگ لگا دی، معلوم ہوا کہ ہم شہر اقبال کے لاری اڈے پرپہنچ گئے ہیں جہاں سے ایک روٹ جموں بھی جاتا ہے اور یہ روٹ ڈالووالی سے ہوتا ہوا کندن پور جا کر کسی جمپ، کھڈے یا نالے کی وجہ سے ادھورا رہ گیا ہے۔ ٭…٭…٭
اجمل جامی
آپ نے کبھی بیڈ فورڈ بس پر سفر کیا ہے؟ بیڈ فورڈ کے انجن پر بس کی باڈی رکھ دی جائے تو یہ پرانے زمانے کی دیہاتی بس کہلاتی ہے جو اندرون شہر نہیں بلکہ دیہات سے شہروں تک آمدورفت کے کام آتی تھی۔ یہ بس اب معدوم ہوتی جا رہی ہے، اسی بس کا سیاسی کزن بیڈ فورڈ ٹرک ہے جو اب بھی جی ٹی روڈ پر بکثرت دیکھا جا سکتا ہے۔ بیڈ فورڈ کے انجن پر ٹرک کی باڈی رکھ دی جائے تو یہ ایک عوامی ٹرک کہلاتا ہے، ہاں البتہ ہماراموضوع فی الحال بیڈفورڈ بس ہے۔سیالکوٹ کے مختلف کارخانوں میں کام کرنے والے دیہاتی مزدور انہی بسوں کے ذریعے سفر کیا کرتے تھے۔ اب ان بسوں کی جگہ کوسٹر اور ویگن نے لے لی ہے۔ بیڈ فورڈ اب بھی کبھی کبھار کسی روٹ پر نظر آجاتی ہے۔ پوٹھوہار، پہاڑی علاقوں اور پختونخوا کے کچھ اضلاع میں تو بیڈ فورڈ بس سواری کاواحد ذریعہ ہے۔ بیڈ فورڈ بس کے ڈرائیور کی سیٹ بقیہ تمام سیٹوں سے کشادہ ہوتی ہے۔ اس کے پائلٹ گیٹ کی کھڑکی شاید ہی کبھی کسی نے بند دیکھی ہو۔ بارش ، طوفان یا کوئی بھی موسمی سختی ہو‘ پائلٹ گیٹ کی کھڑکی ہمیشہ کھلی رہتی ہے۔ ہر پائلٹ گیٹ ایک پائیدان سے بھی آراستہ ہوتا ہے اور اسی زینے پر قدم رکھ کر استاد ڈرائیونگ سیٹ تک پہنچتا ہے۔ قدرے سلجھے ہوئے یا بابو طبیعت کے مسافر عموماً ڈرائیور کے بائیں جانب کی دو نشستی سیٹ یا اس کی عقبی دائیں بائیںکی نشستوں پر سفر کرنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ یہ نشستیں’’کلینڈر‘‘ یا ڈرائیور کی ذاتی خواہش کے مطابق عزیز و اقارب یا دلنشیں چہروں کے لیے مخصوص ہوا کرتی ہیں۔ لیکن ایک ایسی نشست بھی ہے جس پر سفر کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، یہاں بیٹھنے والے کی ایک ٹانگ پائلٹ گیٹ کے زینے پر اور دوسری بس کے اندر استاد کے ایکسی لیٹر کے بالکل ساتھ، نشست کا ایک حصہ استاد کی سیٹ کے ساتھ اور دوسرا گیٹ کے دہانے پر، ایک کان کھیتوں کھلیانوں سے گزرتی ہوا کا سْر سنتا ہے اور دوسرا استاد کی کہانیاں یا مسافروں اور کلینڈرکی تو تو میں میں… اس جگہ بیٹھا شخص پوری بس کے نزدیک استاد کے جگری دوست کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا۔ بیڈ فورڈ کے سفر کے دوران استاد سے راز و نیاز صرف اسی جگہ بیٹھا شخص ہی کر سکتا ہے لہٰذا اس نشستِ خاص کی سواری باقیوں کے لیے رشک کا باعث ٹھہرتی ہے۔استاد باوا سیالکوٹ شہر آنے والے ایک روٹ کا پرانا ڈرائیور ہے، خاکسار استاد کو بچپن سے جانتا ہے۔دور طالب علمی کا ایک بڑا حصہ کنٹونمنٹ میں گزرا اور اس دوران تعطیلات گرما و سرما کے دو ماہ ہر سال سیالکوٹ میں ننھیال اور ددھیال میں گزارنے کا اتفاق ہوا۔ سیالکوٹ شہر پہنچتے ہی پہلی خواہش یہ ہوتی تھی کہ کاش استاد باوا کی بس میں سفرکا موقع ملے۔ اور حسنِ اتفاق یہ کہ اس سفر میں اکثر استاد باوا ہی ہمارا ناخداٹھہرا۔ اب بھلے ہمیں پچھلی سیٹ ملے، درمیانی یا اگلی، ہم عموماً دونوں جانب کی سیٹوں کے بیچ واقع ’’گلی‘‘میں کھڑے ہونا پسند کرتے۔ اس کا مقصد استاد باوا کی ڈرائیونگ براہ راست دیکھنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ایڑی کے بل کھڑے ہو کر استاد باوا کے سر پر لپٹے رنگین مفلر اور کان کے درمیان اٹکے سگریٹ اور اس سگریٹ کے ٹِکے رہنے کی وجہ جاننا ہمارا اولین مقصد رہا۔ لیکن ہیچ آرزو مندی ہم اس راز کو تادم تحریر نہیں جان پائے۔ استاد باوا روٹ کی کسی لاری کو چھپنجا ترونجا (چھپن تریپن بس نمبر) کے لاگے پھڑکنے نہ دیتا۔ دیگر بس ڈرائیور ہمیشہ یہی آرزو کرتے کہ کاش ہم باوے کو کراس کر سکیں لیکن وہ باوا ہی کیا جس کی لاری پیچھے رہ جائے۔قصہ مختصر یہ کہ چند روز پہلے پائیدان پر پائوں لٹکائے اسی نشست پر سفرکرنے کا اتفاق ہوا۔ حالیہ بھارتی جارحیت کے کارن گاوں کندن پور (سچیت گڑھ سیکٹرسیالکوٹ) میں آٹھ افراد شہید اور 40 زخمی ہوئے۔ ایک ہی گاوں سے آٹھ جنازے اٹھے تو نودیہاتوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ کندن پور کا تقریباً ہر تیسرا گھر اس جارحیت کا نشانہ بنا۔ اس بربریت اور شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کی رپورٹنگ کے لیے راقم مختصرنوٹس پر چند روز قبل اس علاقے میں جا پہنچا۔ دن بھر رپورٹنگ کے بعد سر شام جب واپسی کی راہ لی تو ڈرائیور سے درخواست کی کہ وہ ہمیں مقامی روٹ پر اتار دے اور خود لاہورلوٹ جائے۔ ایک نسبتاً سنسان بس سٹا پ پر بس کا انتظار کرتے کرتے اندازہ ہوا کہ بیڈ فورڈبس شاید اب ناپید ہو چکی ہے۔ بیڈ فورڈ کے انتظار میں کئی لاریاں گزار دیں، دو چار سگریٹ پھونک دیئے، ڈبیا میں بچا آخری سگریٹ سلگایا ہی تھا کہ اچانک ایک بیڈ فورڈ نمودار ہوئی، جس کا ہارن سنتے ہی رونگٹے کھڑے ہوگئے، بدن میں سنسنی سی دوڑ گئی…یہ استاد باوا ہی تھا لیکن لاری ‘چھپنجا ترونجا ‘نہیں تھی…بہرحال استاد باوا کی ہم سفری ہی کافی تھی۔ لاری کون سی تھی یہ تو ایک ثانوی معاملہ تھا، اندازہ ہوا کہ شام کا وقت ہے لہٰذا لاری میں تل دھرنے کی جگہ نہیں۔فوراً ڈرائیونگ سیٹ کی جانب رجوع کیا۔ استاد باوا کو سلام پیش کرنے کے بعد ان سے گزارش کی کہ اگر وہ ساتھ بٹھا لیں تو خادم شکرگزار ہو گا۔ استاد سْر میں تھے لہٰذا انہوں نے فوری کہا کہ بیٹھ جائیں۔ چند لمحے بعد میرے ٹی وی چینل کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے خاکسار کا پورا شجرہ نصب بیان کر دیا اور پھر اصل سفر شروع ہو ا۔ حال احوال کے بعد استاد سے گلے شکوے سنے، اور انہیں یہ باور کرایا کہ آپ میٹرو بس ہرگز نہیں چلا پائیں گے کیونکہ اس کا راستہ بالکل سیدھا ہے۔ یہ سن کر استاد چونک گئے ، پوچھا ایسا کونسا روٹ ہے جہاں کوئی موڑ ، جمپ ، کھڈا ، جانور ، گاوں یا نالہ نہیں آتا؟ گزارش کی کہ اسی کارن آپ میٹرو بس کے ڈرائیور نہیں ہو سکتے اور تو اور اس کے لیے آپ کو وردی (پتلون والی) بھی پہننی پڑے گی۔یہ سنتے ہی استاد باوا نے فوراً کہا، ’’اسی ایتھے ای چنگے آں۔‘‘ (نوٹ اس جملے کو سیالکوٹی اندا ز میں سننے کے لیے ہر لفظ قدرے طویل اور لہلہاتے انداز میں پڑھئیے)۔ اس مکالمے کے بعد استاد نے مفلر اور کان کے بیچ اٹکا گولڈ فلیک کا سگریٹ اتارا اور پائلٹ گیٹ سے اندر آتی تیز ہوا کے باوجود دونوں ہاتھوں سے ماچس کی تیلی سلگائی اورایک طویل کش لگایا، اور پوچھا:’’تْسی پیو گے؟‘‘ (آپ پیئں گے؟) جواب دیا ،’’ہاں جی ضرور‘‘ استاد نے اپنا سگریٹ ہمیں تھما دیا اوراپنے لیے ایک دوسرا سگریٹ سلگا لیا۔کچھ دیر خامشی چھائی رہی۔ شہر قریب تھا، سوسرحدپر پیش آنے والے اندوہناک واقعات بارے چند سوالات داغ دئیے۔ پہلے تو استاد خاموش رہے، جب سوالات بڑھتے گئے تو استاد نے دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت لبوں پر رکھ کر ہمیں خامو ش ہونے کی تاکید کی اور فقط اتنا کہا،‘‘لوفیر ایہہ ایٹم سنو!‘‘(لیجئے پھر یہ آئٹم گوش گزار کیجئے) کیسٹ پر استاد نصرت تھے۔ پوچھا، یہ کیا ہے؟ ہم آس پاس کے دیہات میں پیش آنے والے واقعات پر آپ کی ماہرانہ رائے سننے کو بے تاب ہیں اور آپ ہیں کہ سر شام استاد نصرت سنوا رہے ہیں؟ احساس ہوا کہ استاد نصرت ان مصرعوں کی ادائیگی کے بعد خاموش ہو چکے ہیں،’’پریتم کا کچھ دوش نہیں ہے ، یہ تو ہے نردوش، اپنے آپ سے باتیں کرکے میں تو ہوگئی بدنام، سانسوں کی مالا پے…‘‘ پوچھا’’ ایہدا کیہہ مطلب اے پئی؟‘‘(اس کا کیا مطلب ہے؟) جواب ملا،’’مطبل ایہو اے،’’پریتم کا کچھ دوش نہیں ہے۔‘‘ (مطلب یہی ہے کہ پریتم کا کچھ دوش نہیں) اتنے میں استاد نے پائلٹ گیٹ سے چھلانگ لگا دی، معلوم ہوا کہ ہم شہر اقبال کے لاری اڈے پرپہنچ گئے ہیں جہاں سے ایک روٹ جموں بھی جاتا ہے اور یہ روٹ ڈالووالی سے ہوتا ہوا کندن پور جا کر کسی جمپ، کھڈے یا نالے کی وجہ سے ادھورا رہ گیا ہے۔ ٭…٭…٭